انتیسواں اصول:

وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآئِکُمْ (النساء:45)

’’اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں سے بخوبی واقف ہے۔‘‘
اس قرآنی اصول کا لوگوں کی ز ندگی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے‘ اور اِس زمانے میں جبکہ خبریں نقل کرنے کے وسائل بہت ترقی کر گئے ہیں‘اس اصول کی طرف توجہ دلانے کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے۔ ظاہری اور پوشیدہ ہر دو قسم کے دشمنوں کے آپس میں گٹھ جوڑ بھی گہرے ہو گئے ہیں۔
یہ قاعدہ بنیادی طور پراہل کتاب اور بالخصوص یہودیوں کے حوالے سے بیان ہوا ہے‘ جن کی اللہ تعالیٰ نے مذمت کی ہے اور اپنے بندوں کو ان کے راستے پر چلنے سے خبردار کیا ہے۔ اہلِ کتاب میں سے گمراہ علماء کو ہی دیکھ لیجئے‘ یہ دشمنوں کی ایک قسم ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں خبردار کیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ہی ہمیں یہ سچی خبر اس قرآنی اصول میں دے رہا ہے:

وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآئِکُمْ (النساء:45)’

’اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں سے بخوبی واقف ہے‘‘ تو ہمیں خود سے ان لوگوں کے بارے میں سوچنا چاہیے جن کو اللہ ہمارے دشمن قرار دے رہا ہے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی بات کہنے والا اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی خبر دینے والاکوئی نہیں۔
سب سے بڑے دشمن یہ ہیں:
1اللہ کا دشمن ابلیس۔ کسی دوسرے دشمن  کے بارے میں اِس قدر نہیں ڈرایا گیا جس قدر شیطان سے ڈرایا گیا ہے۔ قرآن میں کتنی ہی بار اس کو کھلا دشمن قرار دیا گیا ہے۔ اس کی حقیقت کو واضح کرنے اور ہمارا اس کے ساتھ کس قسم کا تعلق ہونا چاہیے‘ اس سلسلے میں درجِ ذیل آیت انتہائی واضح ہے‘ فرمایا:

اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَـکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْہُ عَدُوًّا اِنَّمَا یَدْعُوْا حِزْبَہٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِ (فاطر:6)

’’یاد رکھو شیطان تمہارا دشمن ہے‘ پس تم اُسے دشمن جانو۔ وہ تو اپنے گروہ کو صرف اسی لیے  بلاتا ہے کہ وہ سب واصل جہنم ہو جائیں۔‘‘
2ہمارے خلاف جنگ کرنے والے کافر‘ اور انہی کا کردار ادا کرنے والے‘ جن کی ساری محنت یہ ہوتی ہے کہ ہمارے دین کو ہی بدل دیں یا اس کی ساری شکل ہی بگاڑ دیں۔ سورۃ النساء میں خوف کی نماز کے حوالے سے فرمایا:

وَاِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَکُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْ اِنَّ الْکٰفِرِیْنَ کَانُوْا لَــکُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا (النساء:101)

’’جب تم سفر میں جا رہے ہو تو تم پر نمازوں کے قصر کرنے میں کوئی گناہ نہیں‘ اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تمہیں ستائیں گے۔ یقینا ً کافر تمہارے کھلے دشمن ہیں۔‘‘
شریعت کا کمال یہ ہے کہ اس نے دشمنوں کی قسموں میں بھی فرق کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الممتحنہ میںہمیں ان کافروں سے دوستی کرنے سے منع کیا ہے جو ہم سے جنگ کر رہے ہوں۔ فرمایا:

لَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَـبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَیْہِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ اِنَّمَا یَنْہٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ (الممتحنۃ:8۔9)

’’جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں کوئی لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا اُن کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا‘ بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ تو تمہیں صرف ان لوگوں کی محبت سے روکتا ہے جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائیاں لڑیں اور تمہیں دیس نکالے دیے اور دیس نکالا دینے والوں کی مدد کی۔ جو لوگ ایسے کفار سے محبت کریں وہ قطعا ًظالم ہیں۔‘‘
3تیسری قسم کے لوگ جن کی دشمنی کو قرآ ن نے بیان کیا‘ بلکہ ان کی دشمنی کو شدید قرار دیا‘ وہ منافق ہیں جو ایمان کا دکھاوا کرتے ہیں اور دل میں کفر رکھے ہوئے ہیں۔ اُن لوگوں کی دشمنی کی شدت درجِ ذیل باتوں سے واضح ہوتی ہے :

بقیہ: قرآن کریم کی اصولی باتیں
اوّل: سورۃ الفاتحہ سے لے کر آخر قرآن تک منافقوں کے علاوہ کسی دوسرے گروہ کے بارے میں ’’العَدُوّ‘‘ (پکے کافر‘ معرفہ جس پر ال لگا ہو) نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ نے منافقوں کے بارے میں فرمایا :

ہُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْہُمْ قٰــتَلَہُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفَـکُوْنَ

’’یہی دشمن ہیں اِن سے بچو! اللہ انہیں غارت کرے‘ کہاں سے پھرے جاتے ہیں۔‘‘(المنٰفقون :4)
قرآنِ کریم اور سنت ِ نبویﷺ میں کسی بھی گروہ یا مذہب کی صفات کی ایسی تفصیل بیان نہیں ہوئی جیسی کہ منافقوں کے گروہ کی بیان ہوئی ہے۔ اس لیے کہ ان کی کثرت تھی اور اُن سے واسطہ بھی زیادہ رہتا تھا‘ اور ان کا اسلام اور مسلمانوں کے لیے فتنہ بھی زیادہ تھا۔
جب یہ سب حقائق واضح ہو کر سامنے آگئے تو اس قرآنی قاعدے پرغور کرنے کی اہمیت بھی واضح ہو گئی: وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِاَعْدَآئِکُمْ (النساء:45)’’اور اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں سے بخوبی واقف ہے‘‘۔ استثنائی حقائق کی موجودگی یامخصوص حالات ہمیں دشمن کے بارے میں حقائق جاننے سے دھوکے میں نہ ڈال د یں‘کیونکہ جس ذات نے ہمیں ان دشمنوں کے بارے میں خبر دی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے جس نے ہمیں بھی پیدا کیا ہے اور ان دشمنوں کو بھی پیدا کیا ہے۔ اور سارے جہان والوں کے سینوں میں کیا چھپا ہوا ہے‘ وہ اسے بھی جانتا ہے:

اَوَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ

’’کیا دنیا جہان کے سینوں میں جو کچھ ہے اس سے اللہ تعالیٰ خوب واقف نہیں ہے!‘‘(العنکبوت10)
نیز فرمایا:

اَلَا یَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَہُوَ اللَّطِیْفُ الْخَبِیْرُ

’’کیا وہی نہ جانے جس نے پیدا کیا ؟ پھر وہ باریک بیں اور باخبر بھی ہے!‘‘(المُلك:14)
اے اللہ ! حق کو ہمارے سامنے روزِ روشن کی طرح واضح کردے اور ہمیں اس کی پیروی کی توفیق بھی عطا کر دے۔ اور باطل کو بھی ہمارے سامنے پوری طرح واضح کر دے اور اس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔آمین!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے