فتاویٰ

سوال :اگر کوئی شخص روزہ دار سورج غروب ہونے سےایک گھنٹہ قبل یا اس سے پہلے ہوائی جہاز میںسفر کرتا ہے اور وہ شہر سے دور بھی ہوجاتا ہے تو اس صورت میں روزہ کس وقت افطار کیا جائے گا؟
جواب :اگر کوئی روزہ دار جہاز میں سورج غروب ہونے سے قبل سوار ہوا ہے تووہ جہاز میں اس وقت تک افطار نہیں کرے گا جب تک وہ سورج کو غروب ہوتا نہ دیکھ لے یاسورج غروب ہوجائے یا وہ کسی ایسے شہر میں اترے جہاں سورج غروب ہوچکا ہے اس کی دلیل میں سیدناعمربن خطاب رضی اللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےارشاد فرمایا

إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَا هُنَا، وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَا هُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ (بخاری 1954)

جب رات اس سمت میں آئے اوردن اس سمت سے چلا جائے اور سورج غروب ہوجائے تواس وقت روزہ دار روزہ افطار کرے گا  ۔
صحیح بخاری کی ایک اور روایت میں نبی کریمﷺ نے فرمایا :
جب تم رات کو اس سمت سے آتا دیکھو تو اس وقت روزہ دار روزہ افطار کرے (بخاری )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی مشرق کی سمت سے دن آجا تا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ رات کا اندھیرا محسوس ہونے لگے (فتح الباری جلد 4ص250)
حاصل کلام یہ ہے کہ غروب شمس سےر ات کا آنا اور دن کا چلے جانا ثابت ہوجاتا ہے اورا س وقت ہی روزہ دار افطار کرتا ہے اس لیے جب سورج ایسے مقام پر غائب ہو جہاں سے روزہ دار اسے دیکھ سکتا ہو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ بغیرکسی تردد کہ روزہ افطار کرے ۔

سوال :آج کل جدید اور آرام دہ سواریوں (لگژری گاڑیوں اور ہوائی جہاز )کی وجہ سے سفر کرنا انتہائی آسان ہوگیا ہے جس میں روزہ رکھنے کے باوجود بھی کوئی تکلیف اور مشقت نہیں ہوتی توکیا ایسی حالت میں روزہ چھوڑنا درست ہے؟
جواب:جی ہاں ایسے شخص کے لیے روزہ ترک کرنا حالت سفر مین درست و جائز ہے چاہے کتنی ہی جدید اور لگژری گاڑیوں میں سفر ہورہا ہے اور اگر تکلیف ومشقت کااحساس ذرہ برابر بھی ہوتا ہے
قرآن مجیدکی سورۃ البقرۃآیت نمبر 184میں رب تعالی نے مسافروں کو واضح چھٹی دی ہے

وَمَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰي سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ  ۔

پس تم میں جو مریض ہو یا مسافر ہو وہ اگلے ایام میں اپنی گنتی مکمل کرلے۔
اس آیت مبارکہ میں سفر میں روزہ چھوڑنے کا جواز ملتا ہے جس میں تکلیف ومشقت کا کوئی تذکرہ نہیں ہے ۔
اور حدیث مبارکہ میں محمد بن کعب فرماتےہیں کہ

 عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ كَعْبٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَيْتُ أَنَسَ بْنِ مَالِكٍ فِي رَمَضَانَ وَهُوَ يُرِيدُ سَفَرًا، وَقَدْ رُحِلَتْ لَهُ رَاحِلَتُهُ، وَلَبِسَ ثِيَابَ السَّفَرِ، فَدَعَا بِطَعَامٍ فَأَكَلَ، فَقُلْتُ لَهُ: سُنَّةٌ؟ قَالَ: سُنَّةٌ ثُمَّ رَكِبَ.(ترمذی 799)

 میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہ پاس رمضان میں آیا تو وہ سفر کی تیا ری کر رہے تھے اور انکی سواری اور سفر کا سامان تیار ہوچکا تھا اسی دوران انھوں نے کھانا منگوایا اور کھا لیا تو میںنے پوچھا کیا یہ عمل سنت ہے ؟تو انھوں نے کہاجی ہاں سنت ہے پھر انس بن مالک سواری پرسوار ہوگئے۔
سوال:روزے کی نیت کے بارےمیںقرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں؟نیز ہمارے ہاں ایک مخصوص دعاکہلوائی جاتی ہے نیت روزہ کے اعتبار سے اس کے بارے میں آپ کا کیا کہنا ہے ؟
جواب:جی ہاں روزے کے لیے نیت کرناواجب ہے بغیر نیت کے کوئی بھی روزہ قابل قبول نہیں ہوگاجیساکہ
ابو داؤد  کی روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا

من لم يجمع الصيام قبل الفجر فلا صيام له.

جس نے فجر سے پہلے روزہ کی نیت نہیںکی اس کا روزہ نہیں ہے اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ بغیر نیت کہ کوئی روزہ قابل قبول نہیں ہے اگر کوئی شخص بغیر نیت کے روزہ رکھتاہے اور پورے دن میں بھوکاپیاسا رہتاہے تواس کا بھوکا وپیاسارہنا فاقہ کہلائے گا مگر یہ بھی یاد رہے کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے کسی بھی حدیث سے لفظ بہ لفظ نیت کے الفاظ ثابت نہیں ہے  البتہ معاشرے میں جو آجکل ایک مخصوص دعاکہلوائی جاتی ہے

(وبصوم غد نویت من شھر رمضان)

’’میں نے ماہ رمضان کے روزے کی نیت کی ‘‘
یہ الفاظ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے دلچسپ بات یہ کہ اگر مذکورہ دعاکے معانی ہے غور وفکر کیاجائے تو لغت کے لحاظ سے نیت بھی آئندہ آنے والے دن کے بارے میں کی جارہی ہے جیسا کہ
اصل الغد وھو الیوم الذی یا تی بعد یومک
(حوالہ لسان العرب )
لفظ غد ک اصل یہ ہے کہ وہ دن جو تیرے آج کے دن کے بعد ہوگا اور مصباح الغات میں بھی لفظ غد کے معنی آئندہ کل ،اور وہ دن جس کا انتظار کیا جا ئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے