قرآن کاچیلنج ! عیسائیو! یہودیو! کیمونسٹو! ہند ؤو! سکھوں! بدھو! اورجو کہتے ہیں کہ قرآن پیغمبرِاسلام ﷺ نے خود لکھا،اس کی ترتیب انسانی یا قرآن نامکمل ہے۔
قرآن تمہیں چیلنج کرتا ہے اگر تم ا پنے دعوے میں سچے ہو!توقرآن کا چیلنج قبول کرو:

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا

اے نبیﷺ ان کو چیلنج کر دیںکہ تمام دنیا کے جن اور انسان مل کرآپس کی مدد سے بھی اس قرآن کی مثل تیار نہیں کرسکتے ۔(الاسراء:88)
قرآنکی باقی تمام خوبیوںچھوڑ دو :اس کی ہیئت ترکیبی کی طرز پر حسابی ترتیب جیسی کسی بھی زبان میں چند صفحات کی کہانی لکھ کر دکھا د و!
پیغمبرِاسلام ﷺ مکمل طور پرناخواندہ تھے: تم پڑھے لکھے ہو۔
پیغمبرِاسلام ﷺ ریاضی نہیں جانتے تھے: تم میں ریاضی کے ماہر بھی ہیں۔
پیغمبرِاسلام ﷺکے پاس فالتو وقت نہ تھا ،تمہارے پاس لا محدود وقت ہے:
پیغمبرِاسلام ﷺ کے پاس کمپیوٹر اور کیلکولیٹر نہ تھے تمہارے پاس یہ سہولتیںموجود ہیں۔
پیغمبرِاسلام ﷺ اکیلے تھے تم ساری دنیا ادیب ، سائنسدان اور ریاضی دان سب اکھٹے ہو جاؤ:
پیغمبرِاسلام ﷺ  نے ایک مرتبہ لکھوانے کے بعد کبھی ترمیم نہیں کروائی تم ہزار بارترمیم کا بھی اختیارہے:
یاد رکھو!تم ایساہرگز نہ کر سکوگے کیونکہ قرآن کاحقیقی مصنّف تمہارا خالق ہے وہ تمہاری کمزریوں سے بیخبر نہیں تھا اسلئے امتحان سے پہلے ہی رزلت آؤٹ کر دیا گیا :جسے تم محمد الرسو ل اللہ ﷺ کی تصنیف قرار دیتے ہواسی قرآن کی زبانی اپنی ناکامی کا اعلان سنو :ہوش کے ناخن لوکیا کوئی انسان ایسا اعلان کرسکتاہے؟

فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (القرآن2/24)

 اگر تم نے ایسا نہ کیا(یعنی قرآن کی مثل نہ لاسکو) اور ایسا ہر گز نہ کر سکو گے:تو(قرآن پر ایمان لاکر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہیں۔
(اس سے انکار کرنیوالے) اور پتھر(بت جن کی پوجا ہوتی ہے) ہونگے۔
قرآن عالمگیر ہدایت اور قیامت تک کیلئے زند وجاوید معجزہ ہے
ابتدائے آفرینش سے ہی بنی نوع انسان کی یہ عام عادت رہی ہے کہ جب بھی انسانوں کو دوبارہ اُس راہ پر ڈالنے کیلئے جو اس کے خالق کی رضا اور منصوبے سے مُنطبق ہے، اللہ کی طرف سے کوئی ہادی بھیجا گیا تو اُس کے پیغام کو اُسکی اپنی خوبیوں کی بنا پر ماننے کی بجائے انہوں نے اللہ کے ان بندوں سے مافوق الفطرت شہادتوں کا مطالبہ کیا:
علیم وخبیر خالق انسانیتِ اپنے بندوں کی فطرت سے بے خبر نہیں تھا: لہٰذا اُسنے موجودہ لوگوں کے ماحول اوروقتی ضرورت کے مطابق اپنے ہر پیغمبر کو معجزات دیکر بھیجا : موسیٰ علیہ السلام صرف بنی اسرائیل کیلئے نبی بنکر آئے چونکہ آپ کے زمانے میں جادو عروج کی انتہاپر تھا: لہٰذا آپ کو جادو سے متعلقہ ( ہاتھ کا چمکنا اور اعصاء کا سانپ بننا)معجزات عطاہوئے :انکے اثرات وقتی تھے :اسلئے آپ  کے بعد ختم ہوگئے:اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کے دور نبوت میں حکمت نقطئہ عروج کو چھو رہی تھی اسلئے آپ  کو بیماروں کو شفایاب کرنے اور مردوں کو زندہ کرنے جیسے حکمت سے متعلقہ معجزات عطاہوئے:یہ بھی اپنے زمانے تک محدودتھے جو عیسیٰ علیہ السلام کے عروج آسمانی کے ساتھ ہی ختم ہوگئے:
بعینہ پیغمبر اسلام ﷺ کے زمانے میں فصاحت و بلاغت کا عروج تھاعرب شعراء غیر عرب کو عجمی (گونگے) کہاکرتے تھے: لہٰذا آپ ﷺ کو فصاحت وبلاغت سے متعلقہ معجزہ(قرآن)عطا ہوا:چونکہ آپ ﷺ کی نبوت اقوام عالم کیلئے قیامت تک باقی رہنے والی تھی:اسلئے آپ ﷺ کوعالم گیر ہدائت نامہ اور قیامت تک باقی رہنے والا معجزہ (القرآن) عطا ہوا:
انسانی فطرت کے مطابق کفار مکہّ نے بھی معجزات دکھانے کا مطالبہ کیا جسے قرآن نے یوںبیان فرمایا ہے:

وَقَالُوْا لَوْلَا اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیَاتٌ مِّنْ رِّبِّہِ (القرآن29/50)

 اور کہا انہوں نے کہ ان کے رب کی طرف سے ان (محمد ﷺ) پر کوئی نشانیاں(معجزات) کیوں نہیں اتریں؟
کفار کے اس مطالبہ پر پیغمبر اسلام ﷺ کوکوئی اورمعجزہ دکھانے کی بجائے قرآن کو بطور معجزہ پیش کرنے کا حکم دیا گیا:

اَوَلَمْ یَکْفِہِم اَنَّا اَنْزَلْنَاعَلَیْکَ الْکِتٰبَ یُتْلٰی عَلَیْہِم(القرآن29/51)

کیا ان کیلئے کافی نہیں کہ ہم نے تم (محمدﷺ) پریہ کتاب (قرآن)اُتاری جو ان پر پڑھی جاتی ہے؟
خالق وحی نے قرآن کے منجانب اللہ ہونے کی دلیل پیش کرکے کفار مکہ کو یاد دلایا کہ

وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہِ مِنْ کِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہُ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّارْتَابَ الْمُبطِلُوْنَ (القرآن29/48)

اورتم (اے محمدﷺ) اس سے پہلے کوئی کتاب نہیں پڑھتے تھے (یعنی آپ بالکل ناخواندہ ہیں)اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے کچھ لکھتے تھے : اگر ایسا ہوتا (یعنی اگر آپ  ﷺ خواندہ ہوتے ) تو باطل والے ضرور شک کرتے:
یہ یادہانی کروائی گئی کہ نبی کریمﷺ تو ناخواندہ ہیں: ایسا کلام کیسے لکھ سکتے ہیں ؟ کفار کو قرآن پرغور کرنے کی دعوت دی گئی۔

اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْکَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْراً (القرآن29/48)

کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے کہ اگر یہ غیر اللہ کی طرف سے (محمد ﷺ کا لکھا ہوا) ہوتا تو اس میںبہت سا اختلاف پاتے ۔
فصاحت و بلاغت کے امامو ں کودعوت فکر دینے کے بعدچیلنج کیا گیا کہ اگر ان حقائق کے بعد بھی تم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہو اور ابھی تک تمہارے دل میں یہ شک ہے کہ اسے محمد ﷺ نے اپنی طرف سے بنا کر پیش کیا ہے تو سنو!

وَإِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ وَادْعُوا شُهَدَاءَكُمْ مِنْ دُونِ اللهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (القرآن2/23)

  جو کچھ ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ) پر اتاراہے (قرآن)اگر تمہیں اس میںشک ہے ( کہ یہ محمدﷺ نے خود گھڑلیا ہے) تو تم بھی اس جیسی ایک ہی سورت بنا کر دکھادو : اور اس کام میں تمہیں اجازت ہے(ہمارے نبیﷺ تواکیلے اور ناخواندہ ہیں) کہ تم جس جس کو چاہو( دنیا کے مفکرین کو) اپنی مدد کیلئے بھی بلالو۔
کفار کو احساس دلانے کیلئے کہ اس کلام کے سامنے تم کوتاہ قدبونے ہو، چیلنج کے ساتھ ہی نتیجہ آؤٹ کردیاگیا اور فرمایاگیا:

فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا وَلَنْ تَفْعَلُوا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ (القرآن2/24)

اگر تم نے ایسا نہ کیا(یعنی قرآن جیسی سورۃنہ بنا سکے) اور ایسا ہر گز نہ کر سکو گے:تو(قرآن پر ایمان لاکر) اس آگ سے بچو جس کا ایندھن(اس سے انکار کرنیوالے) اور پتھر(بت جن کی پوجا ہوتی ہے) ہونگے:
ایسا کیوں نہ ہوتا ؟ خالق انسانیت اپنے بندوں کی کمزوریوں اور استعدادسے واقف تھا:لہٰذا فصاحت و بلاغت کے امام بھی چیلنج کا جواب نہ دے سکے تو اُن پر واضح ہوگیا کہ قرآن محمد ﷺ کا نہیںبلکہ اللہ کا کلام ہے تو پورا عرب بت پرستی سے تائب ہوکر پیغمبر السلامﷺ کواللہ کاسچا نبی اور قرآن کو اللہ کاکلام تسلیم کر لیا : قرآن نے اونٹوں کے سابانوںکو مہذب دنیا کا استاد بنادیا۔
آج کا منکر کہے گا کہ یہ چیلنج تو عربوں کیلئے تھا:جب قرآن کو عالمگیر ہدایت اور قیامت تک کے لوگوں کیلئے معجزہ کہا جاتا ہے تو آج ہمارے کیلئے کیاہے؟ ہم تو عربی نہیں جانتے :کس دلیل پر قرآن کو معجزہ ثابت کیا جاسکتا ہے ؟
اسی سوال کے جواب کیلئے گذشتہ تمہید کی ضرورت پڑی کہ کس طرح قرآن کو عربوں پر معجزہ ثابت کیا گیا اور انہوں نے قرآن اور صاحب قرآن ﷺکی صداقت پر سرتسلیم خم کردیا اورکسطرح قرآن عجمیوں کیلئے بھی معجزہ ہے،خالق انسانی فطرت سے بے خبر نہ تھا: اُس نے پوری دنیا میںموجود قیامت تک کیلئے ہرسیاہ و سفید کو بھی ایک چیلنج کیا ہے:

قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا(القرآن17/88)

آپﷺ چیلنج کر دیجئے کہ گر تمام جن وانس متفق ہوکر بھی قرآن کی مثل لانا چاہیں تو نہ لا سکیں گے، خواہ سب ایک دوسے کے مدد گار بھی بن جائیں:
قرآن غیر عربوں اور قیامت تک کے لوگوں کیلئے کس طرح معجزہ ہے؟ زیر نظر کتابچے کا مطالعہ شروع کریں آپکو اس کا جواب مل جائیگا:اگر آپ صاحب شعور اور غیر جانبدارہیں توقرآن کے متعلق آپکا کوئی شک باقی نہیں رہیگا۔ان شاء اللّٰہ
قرآن قیامت تک کیلئے ایک زندہ و جاوید معجزہ ہے

الحمد للّہ وحدہ والصلٰوۃ والسلام علٰی من لا نبیّ بعدہ اما بعد فاعوذ  باللہ من الشیطٰن الرجیم۔ بسم اللہ الرحمٰن  الرحیم
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا(النساء:82)

کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے کہ اگر یہ اللہ کے سوا کسی غیر کا لکھا ہوا ہوتا تو اس میں بہت اختلاف پاتے۔
صاحبِ قرآن سید الاولین والآخرین محمدمصطفیٰ ﷺ نے فرمایا:

لَاتَنْقَضِیْ عَجَائبَہِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃ

یعنی اہل علم قرآن میں غور و تدبّر کر کے نئے نئے انکشافات کرتے رہیںگے مگر اسکے عجائبات قیامت تک ختم نہیں ہونگے : خالقِ وحی جس زمانے میں جو عجو بہ جب چاہے گاانسانوں پرظاہر فرماتا رہیگا : انہی عجائبات میں سے قرآن کی ’’ہیئت ِ ترکیبی‘‘ ایک چونکادینے والا عجوبہ ہے :جواسکو عملی طور پر عصر حاضر کا زندہ و جاوید معجزہ ثابت کرتا ہے:معنی و مطالب اور فصاحت و بلاغت سے ہٹ کر قرآن مجید کی ہیئت ترکیبی یعنی اسکی سورتوںکی تعداد ، ان میں آیات ، آیات میںالفاظ اور الفاظ میںاستعمال ہونیوالے حروف کی مخصوص تعداد اور ان کی ترتیب ایک عظیم ترین معجزہ ہے: جسے دیکھنے اور جانچنے کیلئے قرآن کی زبان عربی کا جاننابھی ضروری نہیں : عربی ہویا عجمی ،عالم ہو یا جاہل قرآن کے اس عجیب وغریب معجزے کو دیکھ اور جانچ سکتا ہے: بنیا دی ضرورت صرف یہ ہے کہ آنکھیں دیکھنے کے قابل ہو ں اور انسان کے پا س 19 گننے کی صلاحیت ہو۔ یہ معجزہ قرآن کے عالمگیری ہدائیت ہونے کی دلیل ہے: قرآن کے اس عجیب و غریب معجزہ کو پو رے طور پر سمجھنے کیلئے ہمیں قرآنی نزول کے آغاز سے ابتداء کر نی پڑے گی :
ہم جا نتے ہیں کہ قرآن جس شکل میں آج ہمارے پا س موجو د ہے اس میں سورتوں اور آیا ت میں و ہ روایتی ترتیب کا ر فرما ہے جس کا انتظام محمد ﷺ کی بلا وا سطہ ہدایت کے تحت آپﷺ کے انتقال سے قبل کیا گیا تھا:حالانکہ قرآن اس تر تیب سے نا زل نہیں ہوا : اسکے نزول کی تر تیب مختلف ہے : آپ ﷺ پر پو را قرآن وقتی ضرور ت کے تحت تھوڑا تھوڑا کر کے مختلف اوقات میں نا زل ہوتارہا :آپ مسلمان ہیں یاعیسائی ، یہودی ہیں یا پارسی ، ہندو ہیں یا سکھ، بدھ مت ہیں یا کیمونسٹ غرض جو بھی ہیں دوران مطالعہ چند منٹ کیلئے ہر طرح ہٹ دھرمی اور تعصب کو دل سے نکال کر کسی محفوظ جگہ پر رکھ دیجئے اوردل کو تھام لیجئے اور حیرت کے سمندر میں غوطے کھانے کیلئے تیار ہو جایئے:
نزول روح القدّس، وحی کا آغاز  ا ور بائبل  کی تین پیشگوئیوں کی تکمیل:
ہمیں آپ ﷺ پر پہلی وحی کانزول یاد ہے آپ ﷺ مکہ سے تین میل شمال میں بائبل کی کتاب استثناہ 33/2
وہ کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا”کے مطابق فاران کی چوٹی پر(حرا) نامی غار میں موجو د تھے :آپ ﷺ کی عمر مبارک چالیس سال اور یہ رمضان کی ستائس تاریخ تھی آپ ﷺنے ایک شبیہ دیکھی جس میں بائبل کی کتاب یسعیاہ 20/12 میںدی گئی بشارت ’’وہ کتاب کسی ناخواندہ کو دیں اور کہیں اسکو پڑھ اور وہ کہے میں تو پڑھنا نہیں جانتا‘‘کے مطابق رئیس الملائکہ حضرت جبرائیل  نے آپ ﷺ کی مادر ی زبان میں کہا اِقْرَأ (پڑھئے)آپ ﷺنے فرمایامَااَنَا بَقَارِئ(میں تو پڑھنا نہیں جانتا ) اس مکالمے کی تین بار تکرار کے بعد جبرائیلؑ نے ہما رے پیا رے نبی کریمﷺ کو(سورہ علق)کی پہلی پا نچ آیا ت سکھائیں:اسطرح خالق وحی نے ہزاروں برس قبل اپنے عظیم پیغمبر سیّدنا موسیٰ علیہ السلام کی وساطت سے بائبل کی کتاب استثناہ 18/18 میںدی گئی بشارت۔
’’میں اپنا کلام اسکے منہ میں ڈالونگا‘‘کے عین مطابق خالق وحی نے اپنا کلام اپنے نبی ﷺ کے منہ میں ڈالا۔

کفار کی الزام تراشیاں:

جب آپﷺنے اﷲ کی توحید اور ایک اَرفع واشرف زندگی کے متعلق انکشافات شروع کئے تو زبانو ںنے بھونڈی مخالفت شروع کردی : بد خو اوربدگو لوگوں نے الزام تراشی کا آغاز کیا کہ آپ ﷺ نعوذ باﷲ پاگل یا جن بھو ت کے زیر اثر ہیں:
دوسری وحی ا ور الزام تراشیوں کا جواب:
اس الزام کا جواب دینے کیلئے آپ ﷺ کوسورۃ قلم کی پہلی نو آیات عطا کی گئی :اس وحی کی آیت نمبر ..2۔

مَااَنْتَ بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ بِمَجْنُوْنِ

’’ آپ ﷺاپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہیں۔‘‘
کے تحت اﷲ رب العزت مشرکوں کے اس الزام کو سختی سے ردّفرماتے ہیںکہ محمد ﷺ انتہائی صحیح الدماغ اور دانا ترین انسان ہیں:
تیسری وحی ا ور تیّار رہنے کی تاکید:

جبرائیل علیہ السلام تیسری مربتہ تشریف لاتے ہیں اور ہمارے نبی محمد مصطفیٰﷺ کوسورۃ مزمل کی پہلی دس آیات سکھاتے ہیں : اس تیسری وحی کی آیت نمبر 5 ملاحظہ فرمائیںـ:

اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیْلاً

’’بے شک ہم آپ پر عنقریب ایک بھاری کلا م ڈالنے کو ہیں۔‘‘
محمد ﷺ اپنے رب کے عاجز بندے جو کچھ موصول کر رہے تھے بہت اچھا، خوبصورت، اہم اور وزن دار تھا لیکن خالق ِوحی کے پا س اپنے پیغمبر ﷺ کو دینے کیلئے حقیقتاً کوئی غیر معمولی چیز تھی :

چوتھی وحی ا ور ا نیس کی د ھمکی:

اپنی چو تھی ملا قات میں جبرائیل ِامین نے رسول ِعالم ﷺ کو نصف سے زیا دہ سورۂ مد ثرکی تعلیم دی : وحی کا اختتام آیت نمبر 30 عَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشَرَپرہوتا ہے: اگر یہ نزول اس سورۃ کی بقیہ26 آیا ت تک جا ری رہتا تو یہ سورۃ مکمل ہو جا تی: لیکن جبرائیل آیت نمبر30پررک جاتے ہیں ۔اس آیت کے متن پر ایک سرسری نظر ہی یہ ظاہر کر دیگی کہ یہ آیت بھی ایک الزام کا جواب ہے : پہلے کافروں نے پاگل پن کا الزام لگایا اور اب یہ دیکھتے ہوئے کہ لو گ گوآہستہ لیکن یقینا آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہہ رہے ہیں تو انہو ں نے پاگل پن کی بجائے (ساحری )کا الزام لگادیا :

فَقَالَ اِ نْ ہٰذَا اِلاَّسِحْرُیُّوثَرُ

’’پھر کہا اس نے!یہ تو نرا منقول جادو ہے۔‘‘
عیسائی مصنّف تھا مس کا رلائل بت پر ستو ں کے اس الزام کو بڑی خوبصورتی سے رد ّکر تاہے: لکھتا ہے :
’’جعلساز اور شعبدہ باز ۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔یہ عظیم آتشیں دل ۔۔۔کھولتا ہوا خیالا ت کی عظیم بھٹی کی طرح۔۔۔ شعبدہ باز نہیں تھا ۔‘‘
لیکن چوتھی وحی کی تیس آیات میں سے آیت نمبر 25 میں الزام بہت سنگین ہے: منکر رسالت قرآن پر الزام لگاتا ہے:

اِ نْ ہٰذَا اِلاَّ قَوْلُ الْبَشَرِ

’’ یہ تو محض انسان کا کلام ہے۔‘‘
اس بے بنیاد الزام اور جھوٹے مفروضے کے جواب میں قرآن کا حقیقی مصنّف ایک سخت تنبیہ کر تا ہے ۔

 اِنْ ہٰذَا اِلاَّ قَوْلُ الْبَشرِ o

’’یہ تو مخص انسان کا کلا م ہے۔‘‘

 سَاُصْلِیْہِ سَقَر

’’ میں اسے جلد ہی دوزخ میں ڈالو ں گا۔‘‘

 وَمَا اَدْرٰکَ مَاسَقَرo

’’اور آپ کو معلوم ہے دوزخ کیا ہے؟۔‘‘

 لاَ تُبْقِیْ وَلاَ تَذَرُo

’’جو نہ توباقی رہنے دے گی اور نہ ہی چھو ڑے گی۔‘‘

 لَوَّا حَۃٌلِّلْبَشَر

’’ جو جلد کی حیثیت کو بگاڑ کر رکھ دے گی۔‘‘

 عَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشَر

’’اس پر انیس ہو نگے۔‘‘
محمد ﷺ دعویٰ کر تے ہیں کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے: لیکن منکرکہتا ہے یہ ا نسان کا کلا م ہے : دوسرے لفظوں میں اگر کو ئی شخص محمدالرسول اللہ ﷺ پر جھو ٹا الزام تراشے کہ وہ اﷲ کی کتا ب کے مصنّف ہیںتووہ یعنی الزام لگانے والا سقر (دوزخ ) میں آگ کے عذاب کے علاوہ اپنے پر(انیس) پائیگا:یہ انیس کیا ہے؟
’’انیس‘‘ (19)کیا ہے؟  :
ہما رے ماضی کے مفسّرین نے اس انیس کی حقیقت کے مطلق بڑے خوبصورت انداز ے لگائے ہیں :کچھ نے کہا ۔
یہ ان فرشتو ں کا حوالہ ہے جو اہل دوزخ پر نگران ہو نگےکچھ نے کہا کہ یہ انسانی ذ ہنی صلاحتیو ں کے انیس درجا ت ہیں اور بعض نے انہیں ۔
اسلا م کے احکا م وقوانین گردانا ہےچونکہ یہ عددایک الزام کہ محمد ﷺ نے یہ کتاب خو د تحریر کی ہے، کے جواب میںد یا گیا ہے : اسلئے اس کا مصنف جانتا ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے:
نبی کریمﷺ کا دعویٰ ، قرآن کی توثیق اور بائبل کی تائید و تصدیق:
مسلمانو ں کو اس حقیقت کا یقین ہے کہ قرآن ہی وہ کلا م ہے جو اللہ نے اپنے پیغمبر محمد ﷺ کے منہ میں ڈالا: یہ بائبل کی اس پیشگوئی کا مصداق ہے جو عہد عتیق کی کتا ب استثناء18/18میں صدیوں قبل دید گئی تھی:خالق کائنات نے مانند موسیٰ نبی کی بشارت دیکرفرمایا:
’’اور اپناکلا م اسکے منہ میں ڈالو نگا: جو کچھ میں اسے حکم دونگا وہی وہ ان سے کہے گا۔‘‘
اسی حقیقت کی عیسٰی علیہ السلام نے انجیل یوحنّا 16/13 میں پیشگوئی فرما دی ۔
لیکن جب وہ روح ِ حق آئیگا تو تم کو تمام سچائی کی خبر دے کا اسلئے کہ وہ اپنی طرف سے کچھ نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا۔
اسی با ت کا محمد ﷺ نے دعویٰ کیا کہ قرآن اﷲ کا کلا م ہے اور اسی بات کی قرآن توثیق کر تا ہے۔

وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰ ی اِنْ ھُوَ اِلاَّوَحْیٌ یُّوْ حٰی

’’اور وہ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتے: یہ تو محض وحی ہے جو انکی طر ف کی جا تی ہے۔‘‘
اس کے علا وہ آپﷺ کی زبان مبا ر ک سے با ر بار کہلوایا گیا :

قُل ا ِنَّمَا اَ نَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰی اِلَیَّ

 ’’آپﷺ فرما دیجئے کہ میں تو تم جیسا بشرہی ہو ں مگر میری طر ف وحی کی جا تی ہے۔‘‘
ہم مسلمانو ں کا ایمان ہے کہ قرآن کا ایک بھی لفظ نہ تو محمد ﷺ نے خو د لکھا اور نہ ہی اختراع کیا : میں اﷲ کی مدد اور توفیق سے عملی طورپریہ ثابت کرونگا کہ قرآن خالق انسانیت کا حتمی معجزہ ہے جو انسانی ذہن کی رسائی سے یکسربالاہے:
پہلی وحی ا ور19:
قرآنی آیا ت کے نزول کا تاریخ وار مطالعہ کر تے ہو ئے ہمیںپتہ چلتا ہے کہ چوتھی وحی میں سورۃ مدثرکی آیت 30   عَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشَر’’ اس پر انیس ہونگے‘‘آخری آیت تھی جو رئیس الملائکہ نے ہما رے نبی ﷺ کو سکھائی: اگر یہ نزول اسکی بقیہ 26آیات تک جاری رہتا تو یہ صورۃ مکمل ہوجاتی :مگریہا ں وقفہ دیتے ہو ئے اس سورۃ کی بقیہ آیا ت بتا نے کی بجائے جبریل امین  نے آپ ﷺ کو پہلی وحی سورۃ علق کی بقیہ آیا ت پڑھا نا شروع کر دیں: آپ ﷺ کو اس سورۃ کی مزید چودہ آیا ت عطا کی گئیں : پہلی وحی کے موقعہ پر آپ ﷺ کواس سورہ کی صرف پہلی پانچ آیا ت سکھائی گئی تھیں: ا ن میں مزید چودہ آیا ت کا اضا فہ کر دیا گیا ، اسطرح کل کتنی آیات ہو گئیں ؟ جواب19ہے :
قارئین محترم!یہ کیسے ہو گیا کہ مذکو رہ بالا وحیعَلَیْھَا تِسْعَۃَ عَشَر  ’’اس پر انیس ہیں‘‘ یہ کیسے ہوگیا کہ’’ا نیس‘‘ کا لفظ منہ سے نکلتے ہی “انیس آیا ت”کی سورۃ مکمل کردی گئی؟
غالب ہے متشکک کہے گا کہ یہ اتفا ق تھا : اتفاقات ضرور ظہو ر پذیر ہوتے ہیں:ہم بھی اس سے اتفاق کر تے ہیں: مگر
{1}اس وحی میں نا ز ل ہو نیوالی [14] آیا ت[209] حروف پر مشتمل ہیں جو پھر سے19 پر قابل تقسیم عدد ہے
اپنے متشکک دوست کے اتفاق قرار دینےسے قبل اتفاق پر اتفاق ہونے پر ہم بھی اتفاق کرتے ہیں: مگرمزید سنیے:
{2} کیا یہ بھی اتفاق ہے کہ اس 19 آیا ت کی سورۃ کے کل285 حروف ہیں جو[19] پر پو را پورا تقسیم ہو نیوالا عدد ہے ؟چلئے اسے بھی اتفاق مان لیا :کیونکہ یک بعد دیگر تین مرتبہ اتفاق کو عرف عام میں ہیٹرک کہا جاتا ہے:جو کبھی کھبار ہو جاتی ہے :مان لیا ہیٹرک ہوگئی: اب سوچئے اسے کیا نام دیں گے ؟کیونکہ اتفاق کا چانس تو ختم ہوچکا:اب کے بعد بھی ایسا ہوا تو ماننا پڑیگاکہ یہ اتفاق نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک غیر معمولی اور مافوا لفظرت دماغ کا فرما ہے :تو سنئے
{3}یادرہے پہلی وحی کے موقعہ پر نا زل ہونیوالی اس سورۃ کی پہلی پانچ آیا ت کے19 الفاظ تھے ؟آگے چلیں۔
{4}یہ انیس الفاظ فی الحقیقت76 حروف پرمشتمل ہیں جو انیس پر قابل تقسیم عدد ہے: ایک قدم مزیدآگے۔
{5}قرآنی ترتیب میں اس سورۃ کا 96 واںنمبر ہے :  اگر آپ معکو س گنتی گنیں یعنی 114 (ایک)، 113 (دو)، 112(تین)اسی طرح گنتے ہوئے جب آپ اس سورۃ کے نمبر [96] پر پہنچیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ 19آیا ت کی۔ [19]پرقابل تقسیم285 حروف پر مشتمل یہ سورۃ اختتام سے انیسویں نمبر پر ہے : ایک قدم مزیدآگے بڑھئے ۔
{6}ان انیس سورتوں96تا114  کے نمبروں کا مجموعہ 1995 ہے جوپھر سے [19]پر قابل تقسیم ہے : اسکے بعد
{7} ان 19 سورتوں96تا114سے پہلے قرآن مجید کی95 سورتوں کی تعداد بھی انیس پر قابل تقسیم ہے ۔
محترم قارئین !اب ذرا اپنے ضمیر کا فیصلہ دریافت کریں: جو وہ کہے وہی سچ ہے :لیکن اگرکسی کا ضمیر مردہ یاگہری نیند سویاہواہو اور اس کا جواب ابھی تک اتفا ق ہی ہے تو پھر میں یہ کہنے میں حق بجانب ہو ں کہ یہ انسانی مرض ہے:جب وہ کسی چیز کا ادراک نہیں کر سکتا تو وہ کو ئی ایسالفظ ایجا د کر کے اس کی اوٹ میںپناہ لے لیتا ہے جس سے وہ خود کو اس خوش فہمی میں مبتلارکھ سکے کہ میں نے اس مسئلہ کا حل تلاش کر لیاہے :لیکن چشم پوشی سے حقائق کو بدلاجا سکتا ہے نہ کبورتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے نہ بلی ٹل جاتی ہے اور نہ سبز چشمہ لگانے سے سورج کی تمازت ختم یا کم ہوتی ہے: حقائق اپنی جگہ اٹل اورناکام نہیںہوا کرتے ہمیشہ ان سے چشم پوشی کرنیوالے ہی ناکام ہوا کرتے ہیں۔ یہ توقرآنی حقائق کی شروعات ہے :آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
قرآن کے ابواب’’سورتیں‘‘ا ور19 :
اگر کسی نے کوئی کتاب لکھنی ہو تو اس کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ پہلے اسے اپنے ذہن میں ترتیب دے: کوئی شخص محض تُک بندی سے اسے کتاب کی صورت میں تر تیب نہیںدیتااگرمحمدﷺنے بھی قرآن لکھنا ہو تا تو آپ ﷺ کو بھی دوسرے لوگوں کی طرح کوئی منصوبہ تیار کرنا پڑتا:پس آپ ﷺسوچتے اوراعلان فرماتے کہ میںایک ضخیم کتاب لکھنے والاہوں:اسکی تکمیل میں میری زندگی کے تئیس برس صرف ہونگے:مجھے اپنے ماننے والوں کے مطالعہ اور آسان حوالہ جات کیلئے اپنی یہ کتاب مختلف ابوا ب میں تقسیم کر نا ہو گی:آئیے،فرض کریں!کہ محمدﷺنے اپنی کتا ب کو [114] ابواب سورتوںمیں تقسیم کر نے کا فیصلہ کر لیا۔114ہی کیوں ؟ 113یا115کیوںنہیں؟کیونکہ [114]بھی انیس پر قابل تقسیم عدد ہے ۔
میرے متشکک دوست کے پاس ان حقائق کو اتفاق قراردینے کا کوئی جواز نہیں بچا:مگراس کے ضمیر سے ایک نحیف سی آواز کو اب بھی سُن رہا ہوں: جو کہہ رہی ہے کہ اﷲ کی طر ف نا زل ہو نیوالی کتا ب کی صداقت کا کوئی ثبوت ہونا چاہئے جیسے ہر مصدقہ دستاویزات پر اسے جاری کر نے والی اتھا رٹی کی مہر ہو تی ہے: قرآن کو بھی اسی طر ح کی کسی مہر کا حامل ہو نا چاہیے،اپنے متشکک دوست سے متفق ہوںکہ وہ کتا ب اﷲ کی طر ف سے نہیں ہو سکتی جو انسانوںکے ہر مسئلے کا بہتر ین حل ،انکے ذہن میںاٹھنے والے ہر سوال کا جواب اور شیطان کی طر ف سے پیدا کئے گئے شکوک و شبہات کو دور کر کے دلی تسکین نہ پہنچا سکے:اگرمحمدﷺ نے ہی قرآن لکھا ہوا ہوتا تو یقیناا اس سوال کا جواب نہ مل سکتا:مگر اس کامصنف علیم وخبیر قادر مطلق رب تعالیٰہےجو اسطرح کی شقی ذہنیت سے واقف تھا: اسلئے اس نے اپنی کتاب قرآن کی سورۃکہف کی پہلی آیت میں فرمادیا:

الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَابَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَهُ عِوَجًا

’’تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا ور اس میں کوئی کمی باقی نہ چھوڑی۔‘‘
جب اس قرآن میں کوئی کمی نہیں تو پھر اس میں میرے متشکک دوست کے ہر سوال کاجواب کیونکر نہ ملے گا۔؟
’’ انیس‘‘ بطور پر نٹڈ مہر:
بیشک قرآن کا بھی اﷲ کی طر ف سے نا زل ہو نے کے دعویٰ کی صداقت کا ثبو ت ہونا چاہئے : اور یہ ثبو ت موجود ہے جو اس کے اصل مصنّف قادر مطلقاللہ تعالیٰ کی واحدانیت کی و ہ مہرہے جسے قرآن کی ہر سورۃ کے آغاز میں ایک بچہ بھی پہچان سکتا ہے اوروہ مہرہے بِسْمِ ﷲِ الرّٰحْمٰنِ الرَّحِیْممیرے متشکک دوست کی نحیف ترین آواز آتی ہے کہ تمہارے پاس اسے اﷲ کی واحدانیت کی مہر قرار دینے کی کیا دلیل ہے ؟
دلیل حاضرہے کہ اس مہر کے حروف بھی19 ہیں اگر آپ خود گن لیں تویقینا آپ کو روحانی خو شی ہو گی :اسکے بعد میری طرف سے اجازت ہے کہ جتنے چاہے سوال کریں مگر حیرانی کے سمندر میں غوطہ زن ہوئے کیلئے بھی خود کو تیار رکھیں: اب دیکھیں اس مہر کے انیس حروف پر مشتمل ہونے میں میرے مصنّف نے کیا حکمت پوشیدہ کر رکھی ہے؟میرا مصنّف بھولتا ہے نہ چوکتا ہے:نہ کسی کام میں غلطی کرتا ہے۔ اس کی قادر مطلق ذات ہر طرح کی کمزروری سے پاک ہے۔
19حروف کی مہر کے 4الفاظ ا ور19کے پہاڑے کا استعمال :
میرے مصنف نے اپنی اس انیس حروف کی مہر کے الفاظ کی تعداد کو بھی اپنی کتا ب (قرآن)میں19کے نظام کے تحت استعمال کیا ہے : اﷲ کی اس مہر کے چا ر الفاظ ہیں :اسم-اﷲ- رحمن اوررحیم:
اللہ کی واحدانیّت کی مہر(تسمیہ)کے ان چار الفاط کی تعداد قرآن مجید میں اتنی بار آئی ہے کہ ہر لفظ (تسمیہ) کے حروف کی تعداد 19  پر پور ی پوری تقسیم ہو سکے:
اسم کا لفظ تسمیہ کے حروف کی تعداد کے برابر19با رآیا ہے۔ 19/19  = 1
]اﷲ[   مصنّف کا ذاتی نام] [2699  با روارد ہوا ہے۔   2699/19  142 -1 =
]رحمٰن [ صفاتی نام  ] [57مر تبہ اور۔ 57/19  =  3
]رحیم[ قرآن میں] [114  مر تبہ وارد ہوا ہے۔ 114/19    =      6
اس کے بعد ان تمام الفاظ کا حاصل تقسیم کا مجموعہ 152/19 = 8بھی انیس پر قابل تقسیم ہے:
لیکن خالق کائنات کا ذاتی نام(اﷲ)کی تعداد 2699/19=142-1
19 پر تقسیم کرنے سے ایک با قی بچ گیامصنّف بھول گیا یااس انتہائی مشکل اور پیچیدہ نظام میںاپنے ذاتی نام کی تعدا د کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گیا؟ نہیں ہر گز نہیں۔ میرا مصنّف کوئی عام ہستی نہیں:وہ دانا وبینا ہی نہیں عقل کا منبہ اور علیم و خبیر قادر مطلق ذات ہے: میرا مصنّف بھولتا ہے نہ چوکتا ہے اپنے کسی منصوبے میں ناکام ہوتا ہے یہاں وہ انسانیت کو درس دینا چاہتا ہے۔درس کیا ہے۔؟
{1}تقسیم ہونے کامطلب تھا کہ اسکی ذات قابل تقسیم ہے اور اللہ تین میں کاایک ہو سکتا ہے:یعنی تثلیث کا پہلا اقنوم:
{2}دوسرادرس یہ ہے یہ کہ اللہ کی ذات کسی حساب کی تابع نہیں :حساب کتاب سے اس کی ذات وصفات کو ناپا جا سکتا ہے نہ ضبط تحریر میں لا کر اسکا احاطہ ممکن ہے:  اسکی ذات ہر چیز سے بالا اورہر طرح کی کمی کمزوری سے پاک ہے:
{3}پورا پورا تقسیم ہونے کا مطلب تھا کہ آخر حساب برابر اوراسکی ذات سمیت سب کچھ ختم :لیکن وہ حَیُّ الْقَیُّوْمہے:
{4} ایک باقی بچنے میں درس ہے کہ اللہ اَحَدُ الصَّمَد ہے۔سب کچھ فناہ مگربقا صرف اسکی واحد ذات کوہے۔
ھُوَ الآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَ کَ شَيئٌ
’’وہ سب سے آخر ہے اس کے بعد کچھ نہیں‘‘
{5}اگر ایک سے زیادہ بچتے تو کثرت کا احتمال تھا جس میں توحید کی نفی ہے : وہ چاہتا ہے اسے ایک مانا جائے:
{6}اگرایک کم ہو تا تو اسکی ذات کی نفی کا احتمال تھااور اللہ چاہتا ہے کہ اسکی ذات وصفات کی نفی نہ کی جائے :
یہ محض توضیح نہیں بلکہ دعویٰ ہے: ایک ٹھوس دعویٰ :جس کی بنیادچٹان جیسی مضبوط دلیل پر ہےاس دلیل کی صداقت کا ثبو ت یہ ہے کہ قرآن کی جن جن آیا ت میںمصنف کا ذاتی نام(اﷲ)آیا ہے ان آیا ت کے نمبرو ں کو جمع کریں تو مجمو عہ118124آتا ہے اگر اس مجمو عہ کو19 پر تقسیم کریں تومصنّف کے ذاتی نام (اﷲ)کی طرح ایک ہی باقی بچتا ہے:اس سے مصنف انسان کو یہ باورکر وا رہاہے کہ لفظ(اﷲ)کی تعدا دمیں سے ایک با قی بچ جا نا محض اتفا ق نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک مافوق الفطرت ذہن کار فرما ہے اور یہ مصنّف کے منصوبے کا حصہ ہے ۔
نوٹ! قرآن پاک میں ان الفاظ کی گنتی کرنے کے سلسلہ میں صرف دو تسمیہ کو شامل کیا گیا جن کو آیات کا نمبر دیا گیا ہے: پہلی سورۃ فاتحہ والی بسم اللہ اور دوسری سورۃ توبہ کی آئت نمبر 30والی تسمیہ : جس تسمیہ کو آیت کا نمبر نہیں دیا گیا ان کو گنتی میں شامل نہیں کیا گیا:
[114] سورتوں کیلئے [114] مہریں:
میرا متشکک دوست پھر سوال کریگا کہ اگر بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اللہ کی واحدانیّت مہر ہے توپھریہ مہر ہر سورۃ پر ہو نی چاہیے تھی: سورۃ نمبر 9 پر سے یہ مہر کیو ں غائب ہے ؟ کیا یہ سورۃ اﷲ کی طر ف سے نا زل کر دہ نہیں؟
معقول سوال ہے: مگر یہ مسئلہ کیسے پیدا ہو ا ؟ آپ جانتے ہیں کہ اس سورۃ کا نام(سورۃ توبہ)ہے اور یہ سورۃ مشرکوں کوالٹی میٹم ہے: جنہو ں نے مسلمانو ں سے حلفاً کیا ہوا معاہد ہ ابھی ابھی توڑا ہےاس سورۃ کی پہلی آیت پر غور کریں ۔
بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (التوبۃ:1)
’’ بیزاری کا حکم سناتا ہے اﷲاوراسکے رسول کی طر ف سے مشرکوں میں سے جن سے تمہارا معایدہ تھا۔‘‘
آیت نمبر3 کے آخر میں اﷲتعالیٰ فرما تے ہیں۔

وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ (التوبۃ:3)

 ’’اور کافروں کو درد ناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجئے۔‘‘
جب پرورگار اتنی سخت تنبیہ کر تا ہے تو پھر مناسب معلوم نہیں ہو تا کہ اس سورۃ کا آغاز اﷲ کی مہر بانی اور اسکے رحم کے حصول کی خوبصورت اور نیک حال دعا سے ہو:انسانی تعلقات میں بھی یہ عام طریقہ ہے کہ جب کوئی فریق یکطرفہ طور پر کوئی عہد یا معاہدہ توڑتا ہے تو دوسرا فریق جس کو نقصان پہنچا ہو الٹی مٹیم دیتے ہوئے اتنی نفاستوں کا خیال نہیں رکھےگا کوئی اسطر ح ابتداء نہیں کر تا کہ  ’’میں بہت رحمدل۔عالی ظرف اورخدا ترس انسان ہوں۔ اگر تم نے میرابٹوہ واپس نہ کیا۔۔ تو میںتمہاری گردن توڑ دونگا ‘‘ یہ ایک معقول اور منطقی توضیح ہے: رہا مسئلہ ایک مہر کم ہونے کاتو قرآ ن کا مصنف اس حقیقت سے بے بہرہ نہیں تھا: دیکھیں وہ اپنا پیدا کیا ہوا مسئلہ کیسے حل کرتا ہے(سورۃ نمل)کی آیت نمبر29  , 30 دیکھیں۔

قَالَتْ يَا أَيُّهَا الْمَلَأُ إِنِّي أُلْقِيَ إِلَيَّ كِتَابٌ كَرِيمٌ

’’ اس (بلقیس)نے کہا اے میرے وزیر و! میرے پاس ایک مقدس خط بھیجا گیا ہے۔‘‘

إِنَّهُ مِنْ سُلَيْمَانَ وَإِنَّهُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

’’ وہ سلیمان  کی طر ف سے ہے :اور وہ ہے بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔‘‘
آگے خط کا مضمون بیان ہوا ہے:یہاں صرف تسمیہ کی تعداد پوری کرنا مقصود تھا جو پورا ہوچکا۔
مہروں کی تعداد اور (انیس )
اسطر ح ایک انتہائی دانشمند انہ جنش قلم کے سا تھ قرآن کامصنف اس سورۃ کے درمیان میں پو ری بسم اﷲ سمو کراپنا [114] مہرو ں کو پورا کر نے کاکام پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہوئے اپنی 114 ویںمہر بھی لگا دیتا ہے : تا کہ قرآن کی ہر سورۃ کیلئے ایک ایک مہر برابر تقسیم ہو جانے کے سا تھ ساتھ مہرو ں کی تعداد بھی 19  پر قابل تقسیم ہو جائے: قرآن کی سورتوںکی تعدادکے برابرمہروں کو پو را کر نے کے سلسلے میں بھی علیم و بصیرمصنف نے19کے نظام کوکیسے قائم کیا : ملاحظہ کریں۔
{1}بغیر بسم اﷲ کےسورۃ تو بہ نمبر 9کو شما ر کر کے دوبا رہ بسم اﷲ والی سورۃ نمل کے نمبر27تک گنیں تو آپکو معلوم ہو گا کہ یہـ 19 ویںسورۃ ہے: جس میں دوبا رہ بسم اﷲ آئی ہے۔
{2}ان انیس سورتو ں کے نمبر وں کو جمع کر یں تو مجموعہ 342  آتا ہے جو 19 پر قابل تقسیم عدد ہے۔
{3}دو بار بسم اﷲ والی سورہ نمل کا نمبر 27 اور بسم اﷲ والی آیت کا نمبر 30 کا مجمو عہ 57 ( 19) پر قابل تقسیم ہے:
{4}پہلی(بسم اﷲ) اور دوسری(بسم اﷲ)  کے درمیان 342 الفاظ پھر سے 19پرپورا تقسیم ہوجاتے ہیں ۔
اے باشعور انسانوں تم کلی عجزو حیرت کے سا تھ اپنے مصنف کے سامنے اپنا سر کیسے نہیں جھکاؤ گے ؟جو قادر مطلق ، علیم و بصیر، کائنا ت کا واحد رب ہے :جو اپنی پہچان کروانے کیلئے ہمیں اپنی بے شما ر نشانیو ں سے نو از رہا ہے: جہاد کے تذکرہ کرنیوالی صورتوں کو قرآن میںسے نکال دینے کا مطالبہ کرنیوالے لوگ کتنے لاعلم ہیں:یہاں تو ایک لفط کی کمی بیشی کی گنجائش نہیں:اگرایک لفظ کی کمی بیشی کر کر دی جائے تو یہ سارا نطام درہم برہم ہو جائیگا :یقینا اللہ نے اپنا وعدہ پو را کر دیا ۔

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّ لَہٗ لَحٰفِظُوْنَo

’’ بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں ۔‘‘

لَایَأَتِیْہِ الْبَاطِلُ مِن بَیْنِ یَدَیْہِ وَلَا مِنْ خَلْفِہَ

’’ یعنی (قرآن )میں باطل نہ آگے سے داخل ہو سکتا ہے نہ پیچھے سے۔‘‘
غیر مسلم بہن بھائیو ں سے سوال ؟
معزز قارئین کرام! کیا ہزارو ں عالم و ادیب اور ریا ضی دان مل کر کمپیو ٹر اور کیلکو لیٹر جیسی جدید ترین سہولیا ت کے با وجو دکسی بھی زبان میں قرآن کی ہیئت ترکیبی کی طرز پرچند صفحات کی کہانی یا افسانہ لکھ کر دکھا سکتے ہیں؟جس کی کوئی آیت حتی کہ ایک لفظ بھی اتنے عظیم اور انتہائی دقیق ریا ضیا تی نظام کو قائم کر نے کی وجہ سے بے مقصد یا بے ربط نظر نہیں آتا :کیا ساڑھے چو دہ سو سال قبل صحرا کا ایک ناخواندہ شخص یہ حقائق اپنے ذہن میں محفوظ رکھ سکتا تھا ؟ کیا ایک اُمّی شخص کیلئے ایسے بے لکھے الفاظ زبانی یا د رکھنا ممکن تھے جو اس نے کبھی دیکھے یا سنے بھی نہ ہو ں ؟ کیا پوری انسانیت لامحدود وقت کے ہوتے ہوئے بھی ایسا معجزہ سرانجام دے سکتی ہے؟چہ جائیکہ ایک امّی نبی پر اس کے مصنّف ہونے کا الزام دھرا جائے جس کی نبوت والی زندگی زبردست ہنگامی تھی :آپ ﷺ تاریخ کی مصروف ترین شخصیت تھے: آپ ﷺ کے مختلف النو ع کے کر داروں کی بابت عیسائی مصنف “لامارٹائن” کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’آپ ﷺ کے تاریک خیا ل ہم قوم آپ ﷺ کی اصلا حا ت کی شدت سے مخالفت کر رہے تھے : مدینہ کے منافق ، یہو دی اور عیسائی آپ کو اور آپ ﷺ  کے دین کو ختم کر نے پر کمر بستہ تھے آپﷺ  کا کوئی ہا تھ بھی زرا سا خالی نہ تھا ۔‘‘
کیا محمد ﷺ کے پا س اب بھی ان اعداد و شما ر کی فرصت تھی ؟ یا یہ سب اتفا ق تھا ؟ یہ با ت بطو ر خا ص یا د رہے کہ آپ ﷺ اپنے کاتب وحی کو لکھواتے وقت وحی کے ذریعے اﷲ کے حکم کے تحت فرما تے کہ فلاں آیا ت کو فلا ں سورۃ میں فلاں آیات کے بعد یا پہلے رکھ دو : پورے 23 سالہ دور نبوت میں ایک مرتبہ لکھوا نے کے بعد آپ ﷺ نے کبھی اپنے پہلے حکم کے برعکس ردّوبدل یا ترمیم نہیں کروائی تھی اگر ان تمام حقائق کے با وجو د بھی ابھی تک آپ کے دل و دما غ میں کوئی شک با قی ہے کہ قرآن محمدﷺ کی تصنیف ہے تو سنئے !  اگر آپ صاحب عقل و شعور ہیں تو انشاء اﷲ آپ کایہ شک بھی دور ہو جائیگا ۔
حروف مقطعات یا مصنّف کے مخفّف د ستخط
قرآن مجید فرقان حمید روئے زمین کی واحد کتا ب ہے جو اپنی کچھ سورتوں سے پہلے مخفّف دستخطوں جنہیں عربی میں حروف مقطعات کہتے ہیں کی حامل ہے: ان دستخطوں کا بظاہر کوئی مطلب نظر نہیں آتا : کسی مترجم میں ان حروف کے معانی بیان کر نے کی صلاحیت یا طاقت نہیں: کیونکہ آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  نے انکی وضاحت طلب کی نہ ہی آپ ﷺ نے انکی تشریح بیان فرمائی:گمان ہے کہ شاید اس زمانے میں ایسے الفاظ استعمال کر نے کا عام رواج تھا: اس لئے ترجمہ نہیں! صرف توضیح ،کہ آج ہم اﷲ کی مہر بانی سے ان کا مطلب سمجھ سکتے ہیں :  یہ حروف اﷲ کے کلا م کو ہر طرح کی افراط وتفریط سے محفو ظ رکھنے کی ضمانت دیتے ہیں: ایسا نظام جوقائم کرنے میں انتہائی زبردست پیچیدہ مگر تصدیق کیلئے اتناسادہ اور آسان کہ جسے ایک بچہ بھی سمجھ سکتاہے: لیکن یہ کیسے ممکن ہوا کہ ہمارے قدیم اور جدید مفسرین اتنے واضح اور ناقابل تردید حقائق کو نہ جان سکے؟
جواب آسان ہے کہ ابھی وقت نہیں ہوا تھاتب مناسب موقعہ نہ تھا :
حروف مقطعات اور انیس کا نظام :
عربی حروف تہجی کے کل(28) حروف میں سے ٹھیک نصف یعنی[14]حروف[14] عدد مرکبات(الٓم: الٓمّٓص: یٰس) وغیرہ کی صورت میںقرآن کی29 سورتوں سے پہلے استعمال ہو ئے ہیں :
{1} اسطر ح حروف+[14 ]مرکبا ت +[14 ]سورتیں 29  کا مجمو عہ57بھی [19] پر تقسیم ہو تا ہے :
{2} ان14 مرکبا ت میں یہ14  مکرّرحروف38 مر تبہ دہرائے گئے ہیں : یعنی الٓمٓ=تین الٓمّٓص= چار یہ سات ہوئے :اس طرح پو رے چو دہ مرکبا ت کے حروف کا مجموعہ 38بنتاہے :جو [19]پر قابل تقسیم عدد ہے :
{3}ان مرکبا ت سے شروع ہو نے والی29 سورتوں کے نمبرو ں کا مجموعہ 14+[822]مرکبا ت: مجموعہ] 836  بھی انیس پر پورا پورا تقسیم ہو جانے والا عدد ہے :
{4} پہلی مرکبا تی2 -سورۃالبقرہ اور آخری سورۃ 68القلم کے درمیان غیر مرکبا تی سورتوں کی تعداد38 ہے جو پھرسے  [19] پر قابل تقسیم ہیں:
یا د رہے ! ہم یہا ں خالصتاً طبعی حقائق کے سا تھ با ت کر رہے ہیں جنہیں دیکھنے اور گننے کی صلاحیت رکھنے والا ہر شخص پرکھ سکتا ہے : وہ ذاتی طو ر پر اس معجزہ کی تصدیق یاجانچ پڑتال کر سکتا ہے کہ مقدس قرآن کسی انسان کی لکھی ہوئی کتاب نہیں اور آپ کیلئے اس عظیم الشان حقیقت کو دیکھنے کیلئے عربی زبان کا جاننا بھی ضروری نہیں : اور اس کا م کیلئے کسی قسم کے اندا زے، قیا س یا تصریح کی ضرورت بھی نہیں :
مصنّف اپنی انگلیوں کے نشان چھوڑتا ہے:
آگے چلنے سے پہلے آپ کی توجّہ ایک اہم نقطے کی طرف کروانا چاہتا ہو ں : مندرجہ بالا سورتوں میںآل عمران آیت نمبر [96]میں مقّدس شہر مکہ کا نام(میم)کی بجائے(ب)کے(بِبکّۃ)لکھا گیا ہے:جو اس صورت میں(میم )کی تعداد کو موثر طور پر کنٹرول کرتا ہے:یہاں مصنّف قاری کو یہ باور کروا رہا ہے کہ حروف کی یہ تعداد اتفاقی نہیں ہے بلکہ یہ مصفنّف کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے  اگریہاں مکہ(میم )سے لکھا جاتا تو(میم)کی تعداد  19 پر پوری تقسیم نہ ہوتی:ہمارے پاس ایک(میم ) فالتو بچ جاتااور ریاضی کا یہ عجوبہ غلط ہو جاتا: اس کے علاوہ بائبل میںبھی مکہ کی بجائے بکاکا لفظ آیا ہے: اسلئے اہل کتاب اسے کوئی اور شہر نہ سمجھ لیں:
[40]مومن [41] حٰم سجدہ [43] شوری [43] زخرف [44] د خان[45]  جاشیہ  [46] احقاف
ان سا ت سورتوں میں(حٰم ) دونو ں حروف کی تعداد : 2147/19 = 113  بھی انیس پر پورا پورا تقسیم ہو جاتی ہے:
سورہ ( شوریٰ)میں تین حروف عسق[زائد ہیں: اس سورہ میں انکی تعداد 209/19  = 11   بھی [19( پر قابلِ تقسیم ہے:
(سورۃ مریم) کے شروع میں (کھیعص)پانچ حرفی دستخط ہیں : اس سورۃ میں ان پانچ حروف کی تعداد درج ذیل ہے:
(ک137- +) (ھ +)175- (ی+ )343- (ع+ )117- (ص 798/19 =)26- = 42
(سورۃمریم) میں ان پانچوں حروف مقطعات کا مجموعہ بھی 19پر پورا پورا تقسیم ہو جاتا ہے:
(سورۃ الاعراف) کے سر پر (المص) کے دستخط ہیں : اس سورۃ میں ان چاروں حروف کی تعداد 5320/19 = 280 بھی انیس پر تقسیم ہونے والا عدد ہے : اسی طرح (سورۃ الرعد) پر (ا لمر) کے دستخط ہیں اور اس سورت میں ان حروف کی تعداد 1482/10 = 78 بھی) 19(کے ہندسے پر پوری پوری تقسیم ہو جانے والی ہے :
(سورۃ یونس) اور( سورۃ ھود )کے شروع میں (الر) دستخط ہیں: ان سورتوں میں ان کے واقعہ ہونے کی تعداد بھی برابر ہے یعنی ہر حرف 2489/19 = 131 (19)پر پوری پوری تقسیم ہو جانے والی ہے:
(سورۃ یوسف)(سورۃابرھیم )اور(سورۃالحجر)پر بھی (الر) کے دستخط ہیں ان تینوں سورتوں میں ان تیں حرفوں کی تعدادبالترتیب2375/19 = 125، 1197/19 = 63 اور 912/19 = 48ہر حرف کی تعدا د)19(پر قابلِ تقسیم ہے:
(سورۃ مریم) میں(ھـ)اور (سورۃطٰہٰ) کے شروع میں(طٰہ)  (سورۃ الشعراء)  پر(طسم)  (سورۃ نمل) پر(طٰس)
(سورۃ ا لقصص) پر(طسم)کے دستخط ہیں : ان پانچ سورتوں کے اندر ان حروف کا ایک مربوط تعلق ہے: ان سورتوں میں ان حروف کی تعداد1767/19 = 93 بھی)19( پر قابلِ تقسیم ہے :
(سورۃ  ق) میں اور(سورۃ شورٰی) میں(ق) مشترک ہے:ان دونوں سورتوں میں(ق)کی تعداد با لترتیب 57 ،57بار آئی ہے: (سورۃ ق)کی پہلی آیت (ق:وَالْقُرْآن الْمَجِیْد) ہے جس میں(ق)قرآن کیلئے آیا ہے: یعنی(ق)کا قرآن سے وہی رشتہ ہے جو (الف) کا( انار) سے ہے : لہٰذا قرآن کو سورتوں کی تعداد کے مطابق(ق)بھی ( )114مرتبہ آیا ہے: جس کی تعدا دبھی انیس پر قابلِ تقسیم ہے:  مصنّف یہ بتانا چاہتاہے کہ( )114سورتیں سب کی سب قرآن ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں:لہٰذا قرآن کی صورتوںمیں کمی پیشی تو بہت ہی بعیدہے اسکے الفاظ ہی نہیں بلکہ نہ کوئی حرف داخل کی جاسکتا ہے اورنہ نکالاجاسکتا ہے نہ یہ کسی انسان کے اختیار میں ہے : کیونکہ اس کا محافظ کا ذمّہ خود اسکا مصنّف ہے:
قرآن کے حقیقی مصنّف کی انگلیوں کے نشان:
یہاں آپ کی توجہ ایک اور دلچسپ امر کی طرف کروانا چاہتاہو ں : جہاں مصنّف نے اپنی انگلیوں کے نقش نشانی کے طور پر چھوڑے ہیں : (سورۃ ق )کی آیت 13 (وَعَادٌ وَّفِرْعَوْنُ وَإِخْوَانُ لُوْطٍ) میں دیکھیں یہاں( قوم لوط )ہونا چاہئے کیونکہ مصنّف اس مکروہ قوم کو قرآن میں اسی اسم صفت قوم کے ساتھ ایک درجن مرتبہ دہرایا ہے:پھر یہاں قوم کی بجائے (اخوان) (بھائی)کیوں استعمال کیا گیاہے؟ مطلب واضح ہے کہ اگر یہاں بھی قوم کا لفظ ہوتا تو ہمارے پاس ایک(ق)فالتو بچ جاتا اور(ق)کی تعداد بھی انیس پر ِ تقسیم نہیں ہوسکتی تھی:مصنّف نے قاری کو باور کروانے کے لئے اپنی عام روش سے ہٹ گیا تاکہ قاری اس عمیق نظام کو محض اتفاق کا نام نہ دے سکے :
( سورۃ ن و ا لقلم)   میں  133  (ن)ہیںاور یہ تعدادبھی 133/19 =7 (19) پر پورا پورا تقسیم ہونے والی ہے۔
(سورۃ یٰسین) میں (ی) 237  +  (س) 48 کا مجموعہ 286/19 = 15  دونوں حروف کا مجموعہ بھی)19 (پرقابل تقسیم ہے:
(سورۃ ص)(سورۃمریم)(سورۃ الاعراف) میں (ص)  مشترک ہے : ان تینو ںسورتو ں میں(ص) کی تعداد بالترتیب 97،26 اور 29ہے جن کس مجموعہ /19  152 = 8ہے جو 19پر قابل تقسیم ہے :
ایک بار پھر مصنّف کا عملِ احساس:
(سورۃ اعراف) کی آیت69کے آخر میں (وَزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَسْطَةً)ملاحظہ فرمائیں:یہاں (سورۃآل عمران)کی آیت247میں(بَسْطَةً)کو (س)کی بجائے(ص)سے لکھا گیا ہے : جس کے اوپر ایک چھوٹا سا سین بھی لکھا ہوا ہے تاکہ پتہ چلے کہ اگرچہ(ص)سے لکھا گیا ہے لیکن ہمیں اسے (س) سے ہی پڑھنا ہے: لاکھوں عربوں کی زبان اور ان گنت لہجوں میں کہیں بھی لفظ(بَسْطَةً) (ص) سے لکھا ہوا نہیں ملتا: یہ لفظ (ص)سے لکھا جائے یا(س) سے اسکے معنی میں فرق نہیں پڑتا :ایک روایت ہے کہ جب ہمارے پیارے نبی ﷺ مندرجہ بالا آیت لکھوا رہے تھے تو اپنے کاتبِ وحی سے فرمایا !جبریل کہہ رہے ہیں کہ اس لفظ کو(س) کی بجائے(ص)سے لکھیں:
سوال یہ ہے کہ یہاں پر(س)کی بجائے یہ لفظ (ص) سے کیوں لکھا گیاجبکہ اسے ہمیں پڑھنا (س)سے ہی ہے؟
صاف ظاہر ہے کہ اگر اسے (س) سے لکھا جاتا تو ہمارے پاس ایک(ص)کم ہو جاتا اور اس کی تعداد 19ناقابلِ تقسیم ہو جاتی اورانیس کی یہ دقیق نظام درہم برہم ہو جاتا:
آخر(19)ہی کیوں؟ ؟؟ :
ایک سوال ذہن میں آنا فطری بات ہے کہ آخر میرے مصنّف نے 19 ہی کا ہندسہ کیوں چنا؟ 18یا 20 کیوں نہیں؟ میرے دل میں بھی یہ خلش موجود تھی کہ اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے ؟ کیا 19 استعمال میں آسان ہندسہ ہے؟ ٰاس سوال کی تلاش میں طویل عرصہ لگا جیسا کہ

لَیْسَ لِلْاِنْسَانَ اِلّامَاسَعَی

’’یعنی اگر انسان کسی کام کے لائق کوشش کرتا ہے اسے پالیتا ہے ۔‘‘کے مصداق انتہائی مایوسی کی حالت میں کافی دن گزر گئے :کئی دنوں بعداللہ تعالیٰ نے راستہ دکھایااور 19کا ایک دھندلا سا ڈھانچہ ذہن میں آیا : غور کرتا گیا تو رفتہ رفتہ ایک خوبصورت تصویر نظروں کے سامنے واضح ہوتی گئی : تصویر مکمل ہوئی تو19کوایک لاثانی ہندسہ پایا اوراسطرح قلبی اطمنان ملا جیسے ابراہیم کو پرندے زندہ ہوتے دیکھ کر ہواتھا: عدد انیس میں جو خوبیاں اور انفرادیت ہے وہ کسی اور ہندے کے مقدّر میں نہیں پائی جاتیں؛ لیجئے ! آپ بھی وہ تصویر ملاحظہ فرمائیں :
{1} انیس کے قریبی ہندسے18یا20قابل تقسیم ہندسے ہیں ہر ہندسہ بالترتیب چار ، پانچ اعداد پر تقسیم ہوتا ہے : مگر 19ناقابل تقسیم ہندسہ اور استعمال میں بہت مشکل ہے :  اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو یہ پیغام دیا ہے کہ جس طرح مصنّف کا استعمال کردہ ہندسہ ناقابل تقسیم ہے اسی طرح اس کی اپنی ذات بھی ناقابل تقسیم ہے :اللہ تعالیٰ کی ذات تثلیت میں کا ایک نہیں : وہ احدالصمّد ہے:
{2}19کے اعداد1اور9کو جمع کریں 1+9=10 تو مجموعہ 10آتا ہے اور10کے اعداد1+0کامجموعہ
1ہے: یعنی19کے عدد میں اللہ واحدانیت پوشیدہ ہے دوسرے الفاظ میں19خالق کائنات کی واحدانیت کی علامت ہے:
{3}اسی طرح10+9کا مجموعہ19بنتا ہے لیکن اگر10-9کی طاقت 2کردی جائے مثلاً: 100-18=19  توبھی
جواب 19ہی آتا ہے: جس طرف دیکھو ، جہاں جاؤ ہر جگہ اللہ ہی کی ذات موجود ہے:
{4}19 ہمارے ریاضی کے نظام کا اوّل وآخر ہیں : اسی طرح انیس کوقرآن میں بنیادی ہندسے کے طور پر استعمال کرنے والی ذات (ھُو الْاوَّلُ وَآخِرُ)”وہی ذات اوّل و آخر ہے” جسطرح1 سے پہلے کچھ نہیں : اسی طرح (ھُو الْاوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَكَ شَیْء)”وہ سب سے پہلے ہے اس سے پہلے کچھ نہیں”اسی طرح9کے بعد کوئی عدد نہیں:جیسا کہ فرمایا گیا ہے (ھُو الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْء)” وہی سب سے آخر ہے اس کے بعد کچھ نہیں” اگر یہ خصوصیات کسی اور ہندسے میں ہیں تو بتائیے؟

 اعجاز قرآن کا ایک اور پہلو:

قرآن خالق کا حتمی معجز ہ ہے : اس میں ایک توازن اور ایک عدد ی موضوعاتی مماثلت پائی جا تی ہے:
حتیٰ کہ ترتیب تنافس اور مرابط میں بھی ہم آہنگی ہے: قرآن کے اعجا ز کا ایک یہ پہلو بھی ہے: مندرجہ ذیل الفاظ پر غور کریں:
{1}یہ الفاظ اپنے مقابل کے الفاظ کے عین مطابق وارد ہوئے ہیں : اتنی بڑی کتا ب میں الفاظ کے جوڑوں کا یہ اعجا ز قائم رکھنا ایک بہت غیر معمولی ہے : جو کسی انسانی مصنف کے بس کی بات نہیں :
دنیا : 115          آخرت : 115
نفع: 50           فساد : 50
شیاطین: 88        ملائکہ: 88
اجر:108            فصل:108
موت :145      حیات :145
کفر : 25                   ایمان:25
قرآن کے حیران کن اتفاقات :
{1}قرآن کریم (سورۃالکہف )میں ذکر ہے کہ وہ تین سو سال سوئے اس میں نو جمع کر دیں اس لطیف فرق کی تفصیل آپ جانیں گے تو حیران ہو نگے کہ۔
300  شمسی سال:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2422 ء    300×365  66= ء 109572 ۔۔۔۔۔۔۔دن
309 قمری سال:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔550329 ء  309x12x29 66= ء  109572 ۔۔۔۔دن
یعنی خداوند کریم نے صرف ایک آیت کریمہ میں انسان کو شمسی اور قمری سال کی نسبت 1435 سال پہلے بتادی گئی:
{2}(سورۃ انشقاق)کا نمبر( 84 )ہےاور انشقاق کا معنی  (پھٹنا)ہیںآپ حیران ہو نگے کہ پلو نیم (Poloniym)  کا عنصر نمبر بھی ( 84 )ہے اور یہ عنصر پھٹنے پر بے شما ر انر جی پیدا کر تا ہے :
{3}(سورۃ الحد ید)کا قرآنی ترتیب میں نمبر57ہے : (حدید)لو ہے کو کہتے ہیں ; لوہے کا    Isotop (Stable  بھی 57ہے :
{4}اسی طر ح قرآن میں زمین کا ذکر 13مر تبہ اور سمند ر کا ذکر32 مر تبہ ہوا ہے : زمین پر پا نی اور خشکی کا تناسب کسی خوب صورت اندا ز میں ظاہر کیا گیا ہے :
زمین:45 / 100 x 13   888888 ء 28  (خشکی)
پا نی: 45 / 100 x 32 111111 ء  71    (سمندر)
کو ن نہیںجانتا ہے ہے کہ زمین پر خشکی اور سمند ر کا تنا سب  71:29 ہے :
{5}قرآن مجید میں لفظ انسان65  با ر آیا ہے: آئیے دیکھیں!  قرآن مجید میںاس سے متعلقہ اشیا ء کا ذکر کتنی مر تبہ ہوا  :
مٹی:نطفے کا قطرہ،غیر مکمل حالت میں بچہ
گوشت کا لوتھڑا ، ہڈی،گوشت
17 + 12+6  +3+15 +12     65=
یعنی بالکل5 با ر ہی مکمل انسان کا ذکر ہے : کیا یہ سب اتفاقات ہیں یا ان کے پیچھے ایک فوق الفطر ت ہستی کا ر فرما ہے:
قرآن کے منجانب اللہ ہونے کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتاہے کہ کوئی نہ صرف فرد واحد بلکہ پوری دنیا کے مفکّرین ، مصنّفین ، ادیب اور ریاضی دان مل کر بھی دورِحاضر کی کیلکولیٹر اور کمپیوٹر جیسی سہولیات کے باوجود اپنی ہی زبان میں اس جیسی حسابی ترتیب والی چند صفحات کی کہانی نہیں لکھ سکتے : حالانکہ اس کے معنی اور مطالب کے اعتبار سے بھی بے شمار شواہد ہیں جو اس کو اللہ تعالیٰ کی کتاب ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں:  اور جن سے کوئی ذی ہوش انسان انکار کی جرأت نہیں کر سکتا :

قرآن کے برعکس بائبل کی حالت:

قرآن کے برعکس بائبل کا یہ حال ہے کہ نہ صرف سامری ، یونانی اور عبرانی نسخے ایک دوسرے سے مختلف ہیں: ہر سوسائٹی کی بائبل دوسری سے مختلف ہے : ہر سوسائٹی کا دوسرا ایڈیشن پہلے سے مختلف ہے اورہر بائبل اپنے ہی اندر بے شمار تضادات رکھتی ہے:  اس کے علاوہ ہر ایڈیشن میں عہد عتیق کے آپس کے اختلافات کے بعد عہد جدید کے عہد عتیق سے تعداد اختلافات موجود ہیں :  ہر انجیل نہ صرف دوسری انجیل کی مخالفت کرتی نظر آتی ہے بلکہ بعض حالات میں اپنی بھی نفی کرتی پائی جاتی ہے:  جس کے راقم کے پاس سینکڑوں ثبوت موجود ہیں : مگر یہاں صرف اناجیل کی ان آیات کی نشاندہی کی جاتی ہے جو بعض نسخوں میںتوہیں اور بعض میں موجود نہیں :جن کا اعتراف انگریزی ترجمے ’’دی گڈ نیوز ‘‘کے حاشئے پر بھی کیا گیا ہے:
انجیل متّی:
باب12آیت47، باب17آیت20، باب18آیت11، باب21آیت44، باب23آیت14
انجیل مرقس:
باب7آیت 16،باب9کی آیت 44اور آیت 46،باب11آیت 68، باب15آیت نمبر28
مذکورہ بالا آیات بعض تراجم میں تو پائی جاتی ہیں اور بعض میں نہیں: اسی طرح ؛
انجیل لوقا:
باب22آیت20، باب23آیت 17، باب23آیت34، باب24آیت 12،
انجیل یوحنّا:
باب5آیت 4، باب8کی ایک سے لے کر 11 تک پوری گیارہ آیات بعض تراجم میں موجود نہیں:
بائبل کے ہزاروں تضادات ، اغلات روزِ روشن کی طرح بائبل میں کئی گئی تحریف کی نشاندہی کر رہے ہیں:
شیخ احمد دیداتؒنے برطانیہ میں50000 Errors in the Bibleکے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا :عیسائی علماء کی طرف سے جواب کی بجائے مکمل خاموشی چھائی ہوئی ہے : اہل علم و دانش عیسائی بھائیوں سے التماس ہے کہ وہ خود تحقیق کرکے حق کی تلاش کی کوشش کریں :تاکہ آتش ِ جہنّم سے بچ سکیں: یہ خدائی قانون ہے کہ جو شخص خود کوشش نہیں کرتا اسے عطا نہیں کیا جاتا:
عیسائی مصنّفین ، مفکّرین اور سیاستدانوں کا قرآن ا ور صاحب قرآن کی صداقت کا اعتراف
{1}شاہ فرانس نپولین کا خراج عقیدت:
وہ دن دور نہیں جب میں دنیا کے صاحبان ِ علم و دانش کو متحد کر کے ایک ایسا دور قائم کر دونگا جو یک رنگ و ہم آہنگ ہو اور اصول ِقرآن اس کی بنیاد ہو نہ کہ بائبل : کیونکہ وہ آج کے دَور کے تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
{2}مسٹر آر،وی ،سی بوڈلے:ہمارے پاس معاصرانہ کتاب ہے جو کہ اپنی حقیقت اور اپنی حفاظت کی وجہ سے بالکل منفرد ہے :اور جسکی سچائی پر کسی کو بھی سنجیدگی سے شک کرنے کی ہمت نہیں: کتاب جس کا نام قرآن مجید ہے آج بھی اسی صورت میں دستیاب ہے جیسے جب یہ حضرت محمد ﷺ کی نگرانی میں لکھی گئی تھی۔
{3}تاریخ دان ایچ ۔ ڈی جیکسن:کوئی مقدّس کتاب قرآن کا کسی طور پر بھی مقابلہ نہیں کر سکتی :  انقلابی انداز میں لوگوں کی زندگیاں بدلنے کا اعجاز کسی دوسری کتاب کے پاس نہیں۔
{4}ریونڈآر ۔بکسوئل کنگ:
کہا جاتا ہے کہ قرآن محمد ﷺ کی تصنیف ہے اور سب تورات اورانجیل سے لیا گیا ہے : مگر میر ا ایمان ہے کہ اگر الہامی دنیا میں الہام کوئی شئے ہے اور الہام کا وجود مکمل ہے تو قرآن مجید ضرورالہامی کتاب ہے:بلحاظ اصولِ اسلام مسلمانوں کو عیسائیوں پر فوقیت حاصل ہے۔
{5}موسیوں گاسٹن کار:اسلام حقیقت میں ایک طرح کا اجتماعی مذہب ہے اس عاقلانہ مذہب کے قوانین بڑے جدید اور حقیقت پسندانہ ہیں۔
مصنف یہاں خود ہی سوال کرتا ہے کہ روئے زمین پر روئے زمین سے اگر اسلام مٹ گیا ،مسلمان نیست ونابود ہوگئے ، قرآن کی حکومت جاتی رہی تو کیا دنیامیں امن قائم رہ سکے گا ؟پھرخود ہی جواب دیتا ہے کہ ہرگز نہیں۔
{6}جان جان ولیک:تھوڑ ی عربی جاننے والے قرآن کا تمسخر اُڑاتے ہیں؛ اگر وہ خوش نصیبی سے کبھی حضرت محمدﷺ کی معجزہ نما قوّتِ بیان سے تشریح سنتے تو یقینا یہ لوگ بے ساختہ سجدہ میں گر پڑتے اور سب سے پہلی آواز ان کے منہ سے یہ نکلتی کہ پیارے نبی ،پیارے رسول ﷺ خُدارا ہمار ا ہاتھ پکڑلیجئے اور ہمیںاپنے پیرؤوں میں شامل کر کے عزت اور شرف دینے میں دریغ نہ فرمایئے۔
{7}کونٹ ہنری دی کاسٹری:عقل بالکل حیر ت زدہ ہے کہ اس قسم کا کلام اس شخص کی زبان سے کیونکر ادا ہو سکتا ہے جو بالکل کم پڑھالکھا ہے :حضرت محمد ﷺقرآن کو اپنی رسالت  کی دلیل کے طور پر لائے :جو تاحال ایک ایساعظیم راز چلا آتا ہے کہ اس طلسم کو توڑنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔
ٓ{8}ایڈیٹر ’’لائف انٹر نیشنل ‘نیویارک:اسلام کے داعی حضرت محمدﷺ نہ تو مسیحا تھے اورنہ ہی فقط نجات دہندہ بلکہ ایک ایسے انسان تھے جنہیں خُدا نے اپنا پیغام اپنے بندوں تک پہنچانے کیلئے ایک زریعہ کی حیثیت سے منتخب کیاتھا۔
{9}برناڈشا: آنے والے سوسال میں ہماری دنیا کا مذہب اسلام ہوگا :مگر یہ موجودہ زمانے کا اسلام نہ ہوگا بلکہ وہ اسلام ہوگا جو محمد الرسول اللہ ﷺ کے زمانے میںد ل و دماغ  اور روحوں میں جاگزیں تھا۔
{10} باسورتھ اسمتھ: مجھے یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن سچی عیسائیت کو بھی سرجھکا نا پڑیگا اور انہیں (حضرت محمدﷺ)کو سچا پیغمبر تسلیم کرنا پڑے۔
{11}ڈاکٹر ڈاڈسن:پہلے سوالیہ انداز میں لکھا حضرت محمد ﷺ پیغمبر تھے ؟ ۔۔پھر خود ہی جواب دیتا ہے بے شک وہ اللہ کے سچے پیغمبر تھے۔
{12}ریورنڈ آر میکوئیل :اگر حضرت محمدﷺ کی تعلیم پر انصاف و ایمانداری سے تنقیدی نظر ڈالی جائے تو یہ کہنا ہی پڑتا ہے کہ وہ سچے نبی اور اللہ کی طرفسے انسانوں کی بھلائی کیلئے بھیجے گئے تھے۔
{13}ایڈ منڈیرک:حضرت محمد ﷺ کالایا ہوا قانوں(قرآن)صاحب تاج بادشاہوں کیلئے بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا غریب سے غریب بے سہارا انسانوں کیلئے اس کی ضرورت واہمیت ہے۔
{14}جوزف جے نوتن:حضرت محمدﷺ کالایا ہوا مذہب مطلق العناروس کیلئے بھی اتنا ہی موزوں ہے جتنا جمہوریت پسند امریکہ کیلئے وہ مناسب ومفید ہے : اسلام ایک عالمگیر حکومت کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔
{15}کانڈی ہسٹری:حضرت محمد ﷺ اپنی تعلیم کی سچائی سے اپنے مقصد میں ہمیشہ کامیاب رہے۔
{16}جے ڈبلیو لوگراف: اسلام ایک ایسا فطری اور سادہ مذہب ہے جو اوہام وخرافات سے پاک ہے : قرآن نے اس مذہب کی تفصیل پیش کی اور حضرت محمدﷺ نے اس پر عمل کر کے دکھایا ۔ قول وعمل کا یہ حسیں امتزاج کہیںاور نظر نہیں آتا۔
{17}جان ڈیون پورٹ:
میں سوال کرتاہوں کہ کیا یہ خیال کرنا بھی ممکن ہے کہ ایک ایسی ذات جس نے ایسے ملک کو وحدانیت کی تعلیم دیکر اصلاح کی ہو جو صدیوں سے بت پرستی کی ہولناک حماقت میں مبتلا رہاہو: جس نے بچیوں کو قتل کر ڈالنے کی رسم بد کو مٹایا ہو :کیا ایسی ذات جو اِن اصلاحات کیلئے انتہائی کوشاں رہی ہو ؛مکّار اور دھوکہ باز (نعوذباللہ) خیال کی جاسکتی ہے؟نہیں ہر گزنہیں: حضرت محمد ﷺ میں سوائے سچائی اور حقانیت کی تعلیم کے جوش کے اور کچھ نہ تھا(پھرتعجب کرتا ہے کہ)  پھر آخر لوگوں کو یہ یقین کیوں نہیں آتا کہ وہ سچائی اورحقانیت کی تعلیم کیلئے بھیجے گئے تھے۔
عیسائیو!بہن بھائیوں کو دعوت غور:
عیسائی بہن بھائیو! آپ لوگ اہل کتاب اور دنیاکی باقی قوموں کی نسبت اسلام کے سب سے زیادہ قریب ہو:بائبل کے مذکورہ بالا حوالے صرف وہ نقل کئے ہیں جن کا بائبل نے خود اقرار کیاہے: اگربائبل کے تضادات واغلات جاننا ہیں تو ہزاروں کی نشاندہ یہ ناچیز کرواسکتا ہے:یہ نشاندہی محض دعوت فکر کی کی گئی ہے ورنہ آپ جانتے ہیں کہ مسلمان بائبل کے تقدس اور سچائی سے انکار کرکے مسلمان نہیںرہ سکتا:مگر حقائق توحقائق ہوا کرتے ہیںان کی موجودگی میں آپ ان کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں؟ قرآن کے معجزہ ہونے میں کوئی شک و شبہ باقی ہے ؟کیا اس سائنسی اور علمی ترقی نے بھی بائبل کی کمزریوں اور قرآن کی حقانیت کو ثابت نہیں کردیا؟ کیا اس علمی عروج کے دور میں بھی آپ حق سے آنکھیں بند کئے رکھیں گے؟ کیا حق کو جاننے کے اسے قبول کرنے کا وقت نہیں آیا؟خدارا غور کیجئے کہیں بہت دیر نہ ہوجائے:
قرآن نے فرمایا:

لَیْسَ لِلْاِنْسَانَ اِلّامَاسَعَی

’’انسان کیلئے کچھ نہیں مگر جتنی اس نے کوشش کی۔‘‘
یہی تاکید عیسٰی علیہ السلام نے بھی فرمایاگئے ۔
مانگو تو تم کو دیا جائیگا ۔۔ڈھونڈو تو پائو گے۔۔۔دروازہ کھٹکھٹائو تو تمہارے واسطے کھولا جائیگا۔۔کیونکہ جو کوئی مانگتاہے اسے ملتاہے۔
جو ڈھونڈتاہے وہ پاتاہےاور جو کھٹکھٹاتا ہے اسی کے واسطے کھولا جائیگا”  (ا نجیل متّی6/7)
کیمونسٹ برادری کو دعوت فکر؟
کیا اتنا کامل نظام محض اتفاق سے وجود میں آ گیاہے؟  کیاکوئی انسان یہ کارنامہ سرانجام دے سکتا تھا؟کیا قرآن کے حقیقی مصنّف نے پوری انسانیّت کو اس جیسی کتاب لانے کا چیلنج نہیں کیا ہے؟ کیا انسانی تاریخ میں کوئی انسان اسطرح کا چیلنج دے سکایا دے سکتا ہے؟ اگراسی طرز کی چند صفحات کی کہانی ہی لکھ کر دکھاسکتے ہو تو بے شک قرآن کو پیغمبر ِالسلام ﷺکی تصنیف اور خدا کے وجود سے انکار کرتے رہو:اور اگر تم ایسا نہیں کر سکتے جیسا کہ قرآن کے حقیقی مصنّف نے چیلنج کے ساتھ ہی پوری انسانیت کی ناکامی کا اعلان کر دیاہے جس کی صداقت کیلئے کہ کم ہے کہ قرآن کے کروڑوںمخالفین اس کی مثل نہیں لاسکے : تو یاد رکھو ایک قادر مطلق ہستی کاوجود ہے جس نے یہ کارنامہ سرانجام دیکر چیلنج کیا اس کے وجود کو تسلیم کر جہنّم سے بچ جاؤ:سوچو اگر تم سچے ہو کہ سب کچھ اتفاقی ہے:مرنے کے بعد سب کچھ مٹی میںمل جائیگاتو مسلمانوں کا کوئی نقصان نہیں ہوگا : لیکن اگر مسلمان سچے ہوئے جو بیشک سچے ہیں تو سوچو تمہار کیا بنے گاـ؟ یادرکھنا دنیا کی آگ جہنّم کی آگ کو ستّر بار ٹھنڈی کر خالق نے بھیجا:اس کے بغیر تم زند ہ نہیں رہ سکتے:جب یہ برداشت نہیں کر سکتے تو دوزخ کی آگ سے ڈر جاؤ :قادر مطلق ہستی جس نے کروڑوں انسانوں کے انگوٹھے کے نشان کو نہیںملنے دیا اس کے وجود کو تسلیم کر اس کے آخری نبی پر ایمان لے آؤ:ورنہ بہت دیر ہو جائیگی
ہندو،سکھ ،بدھ اور کودعوت غور:
دنیا کے تما م مفکر ، سائنسدان ، ریاضی دان ، ادیب و مصنّف مل کر بھی کمپیوٹر اور کیکولیڑ جیسی سہولیات کے باوجود بھی اپنی زبان میں ہی سہی، چند صفحات ہی سہی ، اپنی آب بیتی ہی سہی لکھ کر نہیں دکھا سکتے :جس کے عنوان کے 19 حروف ہوںاور چار الفاظ :ان کی اپنی تحریر میں ان چار الفاظ کی تعداد قرآن کی طرح19پر پوری پوری تقسیم ہوجائے:ایک باریا دو بار کی بھی کوئی قید نہیں: ایک ایک بار ہو یا زیادہ:اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر قرآن کو نازل کرنے والی ذات کے بھیجے ہوئے اُمّی رسول ﷺ کی صداقت کو تسلیم کر ایما ن لے آؤ : ورنہ یارکھو جو ذات اتنا دقیق نظام قائم کر کے اپنے پیغمبر ﷺ کی صداقت کو ثابت کر سکتی ہے : اسکی دی ہوئی جہنّم کی خبر بھی اس کے قرآن رسول ﷺ کی طرح سچی ہے: ایسانہ ہوکہ بہت دیر ہوجائے۔
جو کہتے ہیں کہ قرآن نامکمل ا ور اسکی ترتیب انسانی ہے! سے سوال؟
قرآن نامکمل ہے یا اس کو ترتیب صحابہ کرام نے خود دیا ہے اس کے رسول اللہ ﷺ اوروحی کا کوئی تعلق نہیں : جیساکہ بعض لوگوں کااعتقاد ہے :اگر یہ سب کچھ جو قرآن کے متعلق آپ جان چکے ہیں اگریہ کارنامہ کسی انسان کے بس کی بات ہے تو آپ سچے ہیں:ورنہ یادرکھیں نامکمل قرآن میں اتنا عمیق نظام مکمل نہیں ہوسکتا: جو چند لوگ تو کیا پوری انسانیت بھی سرانجام نہیں دے سکتی : کیا یہ سب کچھ جان لینے کے بعد بھی کوئی باشعور انسان قرآن کے نامکمل ہونے پر یقین و اعتقاد رکھ سکتا ہے ؟

 تمام طبقۂ فکر کے مسلمانوں سے التاس:

ہم مسلمانوں کا حق و اسحقاق ہے کہ اقوام عالم کے ساتھ توبو ںاورگولہ بارودکی بجائے ذہنی ہتھیا روںکے ساتھ جنگ کر یں ،عقلی طور پر اﷲتعالیٰ نے ہمیں بر تری عطا کی ہے :  اس نے ہمیں ایک ضابطہ حیا ت دیا ہے:ہمیں اسکی کسی شق کیلئے نادم نہیں ہو نا پڑتا : ہما رے پا س قرآن میں بنی نو ع انسان کے ہر مسئلے کا حل موجو د ہے:  اپنے حریف پر ثابت کریں کہ قرآن واقعی اﷲکا کلا م ہے :  اسکی معجزانہ ہیئت ترکیبی کی وضا حت کریں:  جو صرف ایک قادر مطلق علم و بصیر ذات ہی کا کار نامہ ہو سکتی ہے: ہما را فرض ہے کہ ایک ہا تھ میں قرآن اور دوسرے میں دلائل و براہین لے کر غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دیں : آئیے!

اُد عُ اِلیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بالحِکْمَۃِ

’’ اپنے رب کی راہ کی طر ف بلاؤ حکمت کے ساتھ۔‘‘
پالیسی کے تحت بنی نو ع انسان کے اذہان وقلوب کو مسخر کر نے کیلئے پیش قدمی کریں : عقل و دانش کابھی تقاضہ ہے کہ ہم غیر مسلموں سے ان کی ذہنی استعداد اور مشاہدات کے مطابق خطاب کریں : کرہ ارض کی مہذب اقوام سے اس زبان میں بات کریں جو وہ با آسانی سمجھ سکتی ہیں : قطعی سائنس اور زبان کی ریا ضی کی زبان میںانہیں قرآن کا ریا ضیا تی تالہ بندی عجو بہ دکھا ئیں جسکے ذریعے اس کے مصنف ا نے اپنی کتا ب انسانی دستبرد سے محفوظ بنائی ہے :  انہیںقرآن میںغورکرنے کی دعوت دیں:  اوراس طر ح مقابلہ کاچیلنج دیں جس طر ح خودمصنف نے دیا ہے :

 قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنْسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَنْ يَأْتُوا بِمِثْلِ هَذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا

آپﷺ فرمادیجئےتمام آدمی اور جن سب اس با ت پر متفق ہو جائیں کہ لے آئیں اس قرآن کی مانند تو اس مثل نہ لا سکیں گے : اگر ان میں ایک دوسرے کے مدد گا ر بھی بن جائیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے