سوال:کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان کرام دریں مسئلہ کہ ایک شخص کا انتقال تقریباً 60 سال پہلے ہوا تھا مرحوم (ا ب ج )کا ایک نواسہ جو کہ ضلع عارف والا کے قریب رہائش پذیر ہے۔ وہ اپنے خاندان میں اچھا تعلیم یافتہ نوجوان تھا انہوں نے ناجائز سفارش اور رشوت کے ذریعہ مرحوم کے ایک زندہ بھائی کو غلط طور پر سرکاری محکمہ میں مردہ لکھوادیا تھا۔
مرحوم نے اپنے ایک بھتیجے کے حق میں ایک تہائی کی وصیت تحریراً چھوڑی تھی مرحوم کے اسی نواسے نے یہ کہا کہ یہ وصیت نامہ مرحوم کے مرجانے کے بعد تیار کیاگیا ہے اور بعد ازوفات مرحوم کے انگوٹھے لگائے گئے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ ایک زندہ بھائی کو مرحوم کراکر حصہ سے محروم کرایا گیا اور وصیت نامہ کو بھی جھوٹ کہہ کر بھتیجے کو محروم کرایا گیا۔
واضح رہے کہ مرحوم کے ورثاء میں اولاد نرینہ اور والدین نہیں تھے صرف ایک بیٹی دو بھائی اور ایک بہن تھی۔
سرکاری تقسیم کے بعد تنازعات ہوئے تو مرحوم کے نواسے (ا ب ج )نے یہ فیصلہ کیا کہ مرحوم کے ترکہ کو رسول اللہﷺ کی شریعت طیبہ کے مطابق تقسیم کر دیتے ہیں ،بعد میں سرکاری کاغذات میں ریکارڈ کی تصحیح کرادی جائے گی اور واقعی موقع محل پر از روئے شرع وراثت تقسیم کی گئی اس کے محروم بھائی کو حصہ دیا گیا اور بھتیجے کو وصیت کے مطابق ایک تہائی دی گئی اور جملہ اختلافات ختم ہوگئے ۔لیکن ایک طویل عرصہ کے بعد آج اسی نواسے نے (اب ج )کا پھر اصرا ر ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شریعت کی روشنی میں کیے جانے والے فیصلہ ہمیں قبول نہیں بلکہ اپنے بھائیوں اور بھتیجے کو کھڑا کر دیا ہے جو کہ صاف لفظوں میں زمین کے چند مرلہ کے لیے رسول اللہ ﷺ کی شریعت طیبہ کے فیصلے کا انکار کرتے ہیں اور یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ہماری ماں کی زمین کا حصہ دیا جائے جس پر شدت سے مطالبہ جاری ہے نیز واضح رہے کہ آج وہ تمام گواہان وفات پاچکے ہیں کسی کے پاس کوئی تحریر ی ریکارڈ موجودنہیں ہےالبتہ جیسے زمین تقسیم ہوئی تھی آج تک وہ حصے سب کے پاس اسی حالت میں موجود ہیں ۔
استفسار طلب امر یہ ہے کہ:
1کیا رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے فیصلے کو نظر انداز کر کے جھوٹے ریکارڈ کے مطابق اصرار کرنے اور شرعی فیصلہ ہو جانے کے بعد سرکاری ریکارڈ کو تر جیح دینے والوں کی دینی و معاشرتی حیثیت کیا ہے ؟
2مرحوم کی وصیت کو چھپانے اور مشکوک بنانے والے کا حکم کیا ہے ؟
3رسول اللہ ﷺ کی شریعت طیبہ کے فیصلہ کو چیلنج کرنے والا شخص کا قرآن و سنت اور آئمہ اربعہ کے نزدیک کیا حکم ہے ؟
4فیصلہ کیسے کیا جائے ؟ بیّنوا تؤجروا
الجواب بعون الوھاب
صورت مسئولہ میں شرعی فیصلے کو برقرار رکھا جائے جھوٹے ریکارڈ کی شریعت کے لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں ہے غیر شرعی تقسیم پر مجبور کرنے والے کو پنچائت کے ذریعے سمجھا یا جائے اور سرکردہ لوگوں کے واسطے اس کو انجام بد سے ڈرایا جائے اس کے برے کردار سے لوگوں کو متنبہ کیا جائے شاید اس کو غیرت حاصل ہوجائے جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں موجود ہے ۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَكَا إِلَيْهِ جَارَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ جَارِي يُؤْذِينِي. فَقَالَ: أَخْرِجْ مَتَاعَكَ فَضَعْهُ عَلَى الطَّرِيقِ فَأَخْرَجَ مَتَاعَهُ فَوَضَعَهُ عَلَى الطَّرِيقِ فَجَعَلَ كُلُّ مَنْ مَرَّ عَلَيْهِ قَالَ: مَا شَأْنُكَ؟ قَالَ: إِنِّي شَكَوْتُ جَارِي إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَنِي أَنْ أُخْرِجَ مَتَاعِي فَأَضَعَهُ عَلَى الطَّرِيقِ فَجَعَلُوا يَقُولُونَ: اللَّهُمَّ الْعَنْهُ اللَّهُمَّ اخْزِهِ، قَالَ: فَبَلَغَ ذَلِكَ الرَّجُلَ فَأَتَاهُ فَقَالَ: ارْجِعْ فَوَاللهِ لَا أُؤْذِيكَ أَبَدًا )) (هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ وَلَمْ يُخَرِّجَاه وَلَهُ شَاهِدٌ آخَرُ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ مُسْلِمٍ (ص 231 ، الحدیث : 7382۔ مستدرک حاکم ، والنسائی وغیر ذلک من کتب الحدیث )

’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں آیا اور اپنے پڑوسی کی شکایت کی اور عرض کی اے اللہ کے رسول ﷺ! میرا پڑوسی مجھے بہت ستاتا ہے آپ ﷺ نے فرمایا : تم اپنا سامان نکال کر باہر گلی میں رکھ دو اس نے سارا سامان نکال کر راستے میں رکھ دیا جو شخص بھی وہاں سے گزرتا وہ (اس طرح سامان گلی میں رکھنے کی وجہ) پوچھتا تو وہ کہتا میں نے رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ میں اپنے پڑوسی کی شکایت کی تھی تو آپ نے مجھےحکم دیا کہ میں گھر کا سامان نکال کر باہر رکھ دوں تو میں نے سامان نکال کر باہر رکھ دیا ہے لوگ اس (کے پڑوسی) کے بارے میں کہنے لگ گئے ’’ اے اللہ اس پر لعنت کر اے اللہ اس کو رسوا کر ۔ اس (پڑوسی) تک اس بات کی خبر پہنچ گئی وہ وہاں آیا اور کہنے لگا تم اپنا سامان واپس گھر لے جاؤ اللہ کی قسم! میں آئندہ سے تمہیں کبھی تنگ نہیں کروں گا۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا صحابی کا یہ عمل اپنے پڑوسی کے لیے ندامت کا سبب بنا جس کی وجہ سے اس نے اپنے پڑوسی کے ساتھ بُرا سلوک ترک کر دیا ۔
2۔میت کی وصیت کو چھپانا،بدلنا اور مشکوک بنا نا وصیت کے احکام کو ردّ کرنے کے مترادف ہے اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتے ہیں :

مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ

’’ یہ حصے اس کی وصیت (کی تکمیل) کے بعد ہیں جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد‘‘۔
یعنی ورثہ کی تقسیم وصیت اور قرض ادا کرنے کے بعد ہوگی۔ اگر آپ وصیت پوری نہیں کرتے اور قرض میت کو ادا نہیں کرتے تو یہ ظلم وتعدی ہے مال کو باطل طریقے سے کھانا ہے گویا کہ (يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا) ہے اس مسکین کو جہنم کی وادی کا تعارف کروائیں اور نصیحت کریں چونکہ نصیحت مومن کو فائدہ دیتی ہے ۔

وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ (الذاریات:55)

’’اور نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمانداروں کو نفع دے گی۔ ‘‘
جیسا کہ بخاری شریف کی حدیث ہے کہ آپ ﷺ نے دو صحابہ جو زمین کے بارے میں جھگڑا کررہے تھے ان کو جہنم کی آگ کی یاد دلائی تو وہ دونوں فوراً تائب ہوئے لہٰذا ان کو آخرت کی یاد تازہ کروائی جائے۔
3 ۔ شریعت اسلامیہ کے فیصلے کو چیلنج کرنا یہ ایک مسلمان کو فساق،کفار اور ظالمین کی صف میں لاکھڑا کرتاہے جیسا کہ قرآن میں آتا ہے :

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ

’’ اور جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وہ کافر ہیں ۔ ‘‘

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ

’’ اور جو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے کے مطابق نہ کریں، وہ ہی لوگ ظالم ہیں ۔ ‘‘

وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

’’اور جو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ سے ہی حکم نہ کریں وہ (بدکار) فاسق ہیں ۔‘‘
لہٰذا مسلمان کو اپنے فیصلے پر غور کرنا چاہیے چند روزہ زندگی کو سنوارتے سنوارتے لا متناہی زندگی کو کہیں برباد نہ کرلیں۔
اللہ تعالیٰ سورۃ النساء میں فرماتے ہیں :

وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُهِينٌ ( النساء : 14)

’’اور جو کوئی نافرمانی کرے اللہ کی اور اس کے رسول کی اور نکل جائے اللہ تعالیٰ کی حدوں سے ، ڈالے گا اس کو آگ میں ہمیشہ رہے گا اس میں اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے ۔ ‘‘
یہ آیت اور اس کے علاوہ دوسری آیات جیسے

لَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (النساء : 65)
’’سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں ۔‘‘

وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا

’’جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول اللہ ﷺکے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے، ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔‘‘ (النساء : 115)
ان کو پڑھاؤ اور سمجھاؤ
حافظ عبد الستار حماد حفظہ اللہ نے شمارہ نمبر 16 شعب الایمان للبیہقی جلد 14 صفحہ 115 میں نقل فرمائی ہے کہ جو کسی کی وراثت کو ختم کرتاہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے مقرر کی ہے تو اللہ تعالیٰ جنت میں اس کی وراثت کو ختم کردیں گے ، یہ حدیث صحیح اور ابن ماجہ کی روایت ضعیف ہے ۔(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:فتاوی اصحاب الحدیث 1/281)
ثابت ہوا کہ شریعت اسلامیہ کی نافرمانی دنیا وآخرت کی ذلت ونکبت ہے لہذا نافرمانی سے بچیں اور توبہ کیجیے :

إِنَّ اَلتَّوبَۃَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا

’’بیشک توبہ سابقہ لغزشوں کو ختم کردیتی ہے۔‘‘
4۔ فیصلہ ہمیشہ عدالت کرتی ہے عدالت بھی دلائل وبراہین کی پابند ہوتی ہے اگر شواہد اور گواہان نہیں دلائل بھی مفقود ہیں تو نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے نصیحت کیجیے اور آخرت کا خوف وڈر اللہ رب العالمین کی قہاریت اور جباریت یاد کروائیں شاید کہ اس کے دل میں جنت کے مال ومتاع کی قیمت بڑھ جائے۔
بندئہ مومن کی دعا بھی اس کی رحمت کو نازل فرمادیتی ہے جس سے بندہ کی کایا پلٹ جاتی ہے اور وہ سیدھی راہ پر آجاتاہے ۔ واللہ أعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے