خرافات میں کھو گئی!

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ضلالت و جہالت سے مبرا اور دلائل و براہین سے آراستہ ہے، اسلام کے تمام احکام پایۂ تکمیل کو پہنچ چکے ہیںاور اس دین مبین میں خرافات وبدعات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اب کوئی نام نہاد عالم دین، مفتی یا محدث ایسا نہیں جو اس دین مبین اور صاف و شفاف چشمے میں بدعات و خرافات کا زہر ملائے لیکن افسوس ہے کہ شیطان اور اس کے پیروکاروں نے اس دین صافی کو ضلالت و جہالت سے خلط ملط کرنے اور خرافات سے داغ دار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
دیگر مہینوں کی طرح ماہِ صفر میں بھی کچھ جاہلانہ رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ صفر کا مہینہ اسلامی مہینوں کی لڑی کا دوسرا موتی ہے۔ اس مہینے کے بارے غلط باتوں کو ختم کرنے کے لیے اسے ‘صفر المظفر کہا جاتا ہے۔
صفر کے متعلق قدیم خیالات
قبل از اسلام اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس خیال کرتے اور اس میں سفر کرنے کو برا سمجھتے تھے، اسی طرح دورِ جاہلیت میں ماہِ محرم میں جنگ و قتال کو حرام خیال کیا جاتا تھا اور یہ حرمت ِ قتال ماہ صفر تک برقرار رہتی لیکن جب صفر کا مہینہ شروع ہو جاتا، جنگ و جدال دوبارہ شروع ہو جاتے لہٰذا یہ مہینہ منحوس سمجھا جاتا تھا۔ عرب کے لوگ ماہ صفر کے بارے عجیب عجیب خیالات رکھتے تھے۔
شیخ علیم الدین سخاوی نے اپنی کتاب المشهور في أسماء الأیام والشهورمیں لکھا ہے:
صفر کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس مہینے میں عموماً اُن کے (اہل عرب) گھر خالی رہتے تھے اور وہ لڑائی اور سفر میں چل دیتے تھے، جب مکان خالی ہوجاتے تو عرب کہتے تھے: صَفَرَ المَکَانُمکان خالی ہوگیا۔
الغرض آج کے اس پڑھے لکھے معاشرے میں بھی عوام الناس ماہِ صفر کے بارے جہالت اور دین سے دوری کے سبب ایسے ایسے توہمات کا شکار ہیں جن کا دین اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہ اسی قدیم جاہلیت وجہالت کا نتیجہ ہے کہ متعدد صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی عوام الناس میں وہی زمانۂ جاہلیت جیسی خرافات موجود ہیں۔

صفر کے متعلق جدید خیالات

برصغیر کے مسلمانوں کا ایک طبقہ صفر کے مہینے کو منحوس سمجھتاہے۔ اس مہینے میں توہم پرست لوگ شادی کرنے کو نحوست کا باعث قرار دیتے ہیں۔ فی زمانہ لوگ اس مہینے سے بدشگونی لیتے ہیں اور اس کو خیر و برکت سے خالی سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کسی کام مثلاً کاروبار وغیرہ کی ابتدا نہیں کرتے، لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے۔ اس قسم کے اور بھی کئی کام ہیں جنہیں کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا اعتقاد ہوتا ہے کہ ہر وہ کام جو اس مہینے میں شروع کیا جاتا ہے وہ منحوس یعنی خیر و برکت سے خالی ہوتا ہے۔
ماہ صفر کو منحوس سمجھنے کی تردید
اس مہینے کی بابت لوگوں میں مذکورہ رسومات و بدعات رواج پاچکی ہیں جن کی تردید نبی اکرمﷺ نے اس حدیث میں فرمائی:

لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَةَ وَلَا هَامَّةَ وَلَا صَفَرَ

” (اللہ کی مشیت کے بغیر) کوئی بیماری متعدی نہیں اور نہ ہی بد شگونی لینا جائز ہے، نہ اُلو کی نحوست (یا روح کی پکار) اور نہ ماہِ صفر کی نحوست۔”(صحیح بخاری:8707)
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس حدیث میں نفی اورنہی دونوں معانی صحیح ہوسکتے ہیں لیکن نفی کے معنی اپنے اندر زیادہ بلاغت رکھتے ہیں کیوں کہ نفی “طیرہ” (نحوست) اور اس کی اثر انگیزی دونوں کا بطلان کرتی ہے، اس کے برعکس نہی صرف ممانعت دلالت کرتی ہے۔ اس حدیث سے ان تمام اُمور کا بطلان مقصود ہے جو اہل جاہلیت قبل از اسلام کیا کرتے تھے۔ (قرۃ عیون الموحدین: 2؍384)
ابن رجب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
اس حدیث میں ماہِ صفر کو منحوس سمجھنے سے منع کیا گیا ہے، ماہ صفر کو منحوس سمجھنا تطیّر(بدشگونی) کی اقسام میں سے ہے۔ اسی طرح مشرکین کا پورے مہینے میں سے بدھ کے دن کو منحوس خیال کرنا سب غلط ہیں۔(قرۃ عیون الموحدین: 2؍384)
امام ابوداؤدرحمہ اللہ محمد بن راشد سے نقل کرتے ہیں:
اہل جاہلیت یعنی مشرکین ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے تھے، لہٰذا اس”لَا صَفَرَ”حدیث میں ان کے اس عقیدہ اور قول کی تردید کی گئی ہے۔ (قرۃ عیون الموحدین: 2؍384)
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
اہل جاہلیت ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے اور کہتے کہ یہ منحوس مہینہ ہے ۔ چنانچہ رسول اکرمﷺ نے اُن کے اس نظریے کو باطل قرار دیا۔(لطائف المعارف: ص147)
ماہ و سال، شب و روز اور وقت کے ایک ایک لمحے کا خالق اللہ ربّ العزت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی دن، مہینے یا گھڑی کو منحوس قرار نہیں دیا۔ در حقیقت ایسے توہمانہ خیالات غیر مسلم اقوام اور قبل از اسلام مشرکین کے ذریعے مسلمانوں میں داخل ہوئے ہیں۔ مثلاً ہندؤوں کے ہاں شادی کرنے سے پہلے دن اور وقت متعین کرنے کے لیے پنڈتوں سے پوچھا جاتا ہے۔ وہ اگر رات ساڑھے بارہ بجے کا وقت مقرر کردے تو اُسی وقت شادی کی جاتی ہے، اس سے آگے پیچھے شادی کرنا بدفالی سمجھا جاتاہے ۔ آج یہی فاسد خیالات مسلم اقوام میں دَر آئے ہیں، اس لیے صفر کی خصوصاً ابتدائی تاریخوں کو جو منحوس سمجھا جاتا ہے تو یہ سب جہالت کی باتیں ہیں، دین اسلام کے روشن صفحات ایسے توہمات سے پاک ہیں۔ کسی وقت کو منحوس سمجھنے کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں بلکہ کسی دن یا کسی مہینہ کو منحوس کہنا درحقیقت اللہ ربّ العزت کے بنائے ہوئے زمانہ میں، جو شب وروز پر مشتمل ہے، نقص اور عیب لگانے کے مترادف ہے اور اس چیز سے نبی نے ان الفاظ میں روک دیا ہے:

قَالَ الله تَعَالىٰ: یُؤْذِیْنِي ابْنُ آدَمَ یَسُبُّ الدَّهر وَأنَا الدَّهْرُ، بَیِدِيَ الْأمْرُ، أُقَلِّبُ اللَّیْلَ وَالنَّهَارَ

’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا:آدم کا بیٹا مجھے تکلیف دیتا ہے۔ وہ وقت (دن، مہینے، سال) کو گالی دینا ہے حالانکہ وقت (زمانہ) میں ہوں، بادشاہت میرے ہاتھ میں ہے، میں ہی دن اور رات کو بدلتا ہوں۔‘‘(سنن ابوداود:5274)
معلوم یہ ہوا کہ دن رات اللہ تعالیٰ کے پیدا کردہ ہیں، کسی کو عیب دار ٹھہرانا خالق و مالک کی کاری گری میں در حقیقت عیب نکالنا ہے۔
نحوست کی نفی کرنے والے، بغیر حساب جنت میں
اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے لوگوں کے بارے میں رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا:
مجھے میری اُمت کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ آپ کی اُمت ہے، ان میں ستر ہزار ایسے ہیں جو پہلے جنت میں جائیں گے، ان پر کوئی حساب اور عذاب نہیں ہوگا۔نبی اکرمﷺ نے فرمایا: میں نے پوچھا کہ یہ کس وجہ سے بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے؟ تو جبریل نے جواب دیا:

کَانُوْا لَا یَکْتَوُوْنَ وَلَا یَسَتَرَقُوْنَ وَلَا یَتَطَیَّرُوْنَ وَعَلىٰ رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (صحیح بخاری:6175)

(ان کی صفت یہ ہے کہ) وہ اپنے جسم کو داغتے نہیں، نہ ہی دم کرواتے ہیں، نہ کسی چیز کو منحوس سمجھتے اور وہ اپنے ربّ پر توکل کرتے تھے۔
مندرجہ بالا حادیث میں بلا حساب جنت میں جانے والے لوگوں کے اوصاف کا ذکر ہے، ان میں ایک خوبی یہ ہے کہ وہ کسی چیز کو منحوس نہیں سمجھتے اور ان میں توکل کا مادہ بدرجہ اتم موجود ہے۔
نبی کریم ﷺ کا فرمانِ اقدس ہے:

الطِّیَرَةُ ِشركٌ، الطِّیَرَةُ شِرْكٌ(مسند احمد: 4؍410)

کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے، کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شرک ہے۔
قرآن میں ہے:
ما أَصابَ مِن مُصيبَةٍ فِى الأَر‌ضِ وَلا فى أَنفُسِكُم إِلّا فى كِتـٰبٍ مِن قَبلِ أَن نَبرَ‌أَها (سورة الحديد22)
’’ کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمہاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔‘‘
اسی طرح ایک حدیث میں رسول اللہﷺ نے توکل کے بارے فرمایا:

وَاعْلَمْ اَنَّ الْأمَّةَ اجْتَمَعَتْ عَلىٰ أَن یَّنْفَعُوْكَ بِشَيْءٍ لَمْ یَنْفَعُوْكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَهُ اللهُ لَكَ وَإنِ اجْتَمَعُوْكَ عَلىٰ أَن یَّضُرُّوكَ بِشَيْءٍ لَمْ یَضُرُّوكَ إِلاَّ بِشَيْءٍ قَدْ کَتَبَهُ اللهُ عَلَیْكَ

’’ جان لو! اگر لوگ اس بات پر جمع ہوجائیں کہ وہ تمھیں کچھ فائدہ پہنچائیں تو وہ کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتے، مگر وہی جو اللہ نے تمہاری تقدیر میں لکھ دیا ہے اور اگر لوگ اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ تمھیں کچھ نقصان پہنچائیں تو وہ تمھیں کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتے مگر وہی جو اللہ نے تم پر لکھ دیا ہے۔‘‘
بدشگونی شرکِ اصغر ہے!
بدشگونی یعنی کسی چیز کو منحوس خیال کرنا شریعت میں سختی سے ممنوع ہے۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا:

اَلطِّیَرَةُ شِرْكٌ ، اَلطِّیَرَةُ شِرْكٌ، اَلطِّیَرَةُ شِرْكٌ

’’ بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے، بدشگونی لینا شرک ہے۔‘‘ (سنن ابوداوٴد:3910)
جامع ترمذی کے شارح مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
آپ کا فرمان’’بدشگونی شرک ہے‘‘ یعنی لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ بدشگونی (کسی چیز کو منحوس سمجھنا) نفع لاتی ہے یا نقصان دور کرتی ہے تو جب اُنھوں نے اسی اعتقاد کے مطابق عمل کیا تو گویا اُنھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرکِ خفی کا ارتکاب کیا اور کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور چیز بھی نفع یا نقصان کی مالک ہے تو اسنے شرکِ اکبر کا ارتکاب کیا۔
نبی کریمﷺ نے دوسری جگہ فرمایا:

مَنْ رَدَّتْهُ الطِّیَرَةُ عَنْ حَاجَتِه فَقَدْ أَشْرَكَ(مسند احمد: 2؍220)

’’ جو شخص بدشگونی کے ڈر کی وجہ سے اپنے کسی کام سے رک گیا یقیناً اس نے شرک (اصغر) کا ارتکاب کیا۔‘‘
لہٰذا ماہِ صفر کو منحوس خیال کرنا، نحوست کی وجہ سے اس مہینے میں شادیاں کرنے سے رکے رہنا، اس میں مٹی کے برتن ضائع کردینا، ماہ صفر کے آخری بدھ یعنی چہار شنبہ کو جلوس نکالنا اور بڑی بڑی محفلیں منعقد کرکے خاص قسم کے کھانے اور حلوے تقسیم کرنا اور چُوری کی رسم ادا کرنا وغیرہ ان احادیث کے مطابق مردود اور شرکیہ عمل ہے جس سے ہر صورت میں اجتناب ضروری ہے۔

آخری بدھ کی خرافات

بعض حضرات و خواتین صفر المظفر کے آخری بدھ کو تعطیل(چھٹی) کرکے کاروبار اور دکانیں بند کردیتے ہیں اور عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں اور سیر سپاٹے کے لیے گھروں سے نکل جاتے ہیں جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جناب نبی اکرمﷺ اس آخری بدھ میں صحت یاب ہوئے تھے اور سیر و تفریح کے لیے باہر تشریف لے گئے تھے حالانکہ اس دعوی کی اصل نہ حدیث میں ہے اور نہ ہی تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ لہٰذا یہ ساری بدعات لغو اور دین حنیف میں اضافہ ہیں، شریعت میں ان کا کوئی جواز نہیں۔ اسی بات کو واضح کرتے ہوئے علامہ رشید احمد گنگوہی حنفی رقم طراز ہیں:
’’آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں بلکہ اس دن جناب رسول اللہﷺ کو شدتِ مرض واقع ہوئی تھی۔ یہودیوں نے خوشی منائی تھی، وہ اب جاہل ہندوٴوں میں رائج ہوگئی ہے۔‘‘(تالیفات رشیدیہ: 154)
فاضل بریلوی احمد رضا خان چہار شنبہ کے بارے لکھتے ہیں:
’’آخری چہار شنبہ کی کوئی اصل نہیں، نہ اس دن صحت یابی حضور کا کوئی ثبوت بلکہ مرضِ اقدس جس میں وفاتِ مبارک ہوئی اسکی ابتدا اسی دن سے بتائی جاتی ہے۔‘‘
(احکام شریعت:2؍189)
صفر المظفر اور تیرہ تیزی
مغربی دنیا تیرہ (۱۳) کے عدد کو منحوس سمجھتی ہے، یہی فاسد خیالات مسلم اقوام میں در آئے ہیں، اس لیے صفر کی خصوصاً ابتدائی تیرہ تاریخوں کو منحوس گمان کیا جاتا ہے۔ ان ابتدائی تیرہ دنوں کو تیرہ تیزہ کا نام دیا جاتا ہے، ان کی نحوست کو زائل کرنے کے لیے مختلف عملیات کیے جاتے ہیں حالانکہ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ دین اسلام کے سنہری اوراق ایسے توہمات سے پاک ہیں اور ان دنوں میں سے کسی دن کو منحوس سمجھ کر شادی سے رک جانے کی بھی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ان تیرہ دنوں میں کثرت سے بلاوٴں، آفتوں اور مصائب کا نزول ہوتا ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی ’’بہشتی زیور‘‘میں لکھتے ہیں:
’’صفر کو تیرہ تیزی کہتے ہیں اور اس مہینے کو نامبارک جانتے ہیں اور بعض جگہ تیرہویں تاریخ کو کچھ گھونگنیاں وغیرہ پکا کر تقسیم کرتے ہیں کہ اس کی نحوست سے حفاظت رہے، یہ سارے اعتقاد شرع کے خلاف اور گناہ ہیں، توبہ کرو۔‘‘(بہشتی زیور، چھٹا حصہ: 59)

علامہ وحید الزمان رقم طراز ہیں:

’’افسوس کہ اب تک ہندوستان کے مسلمان ایسے واہی خیالات میں مبتلا ہیں کسی تاریخ کو منحوس کہتے ہیں، کسی دن کو نامبارک جانتے ہیں، تیرہ تیزی کے صدقے نحوست کو دفع کرنے کے لیے نکالتے ہیں، اسلام میں ان باتوں کی کوئی اصل نہیں، سب دن اللہ کے ہیں اور جو اُس نے تقدیر میں لکھ دیا ہے وہ ضرور ہونے والا ہے، نجومی اور پنڈت سب جھوٹے ہیں۔‘‘(لغات الحدیث: 2؍605)

صفر المظفر کے چند واقعات

واقعات
سن ہجری
سن عیسوی
غزوہ ابواء،ودان
۲ھ
اگست ۶۲۳ء
واقعہ رجیع
۴ھ
جولائی ۶۲۵ء
واقعہ بئر معونہ
۴ھ
جولائی ۶۲۵ء
سیدنا خالد بن ولید، عمرو بن عاص اورعثمان بن طلحہ کا قبولِ اسلام
۸ھ
جون ۶۲۹ء
سریہ سیدنا قطبہ بن عامر
۸ھ
مئی ۶۳۰ء
وفد بنو عزرہ کا قبول اسلام
۹ھ
مئی ۶۳۰ء
لشکرِسیدنا اُسامہ بن زید کی تیاری
۱۱ھ
مئی ۶۳۲ء
فتح مدائن
۱۶ھ
مارچ ۶۳۷ء
ولادتِ امام ابو القاسم سلمان بن احمد طبرانی
۲۶۰ھ
دسمبر ۸۷۳ھ
ولادتِ امام ابو حفص بن شاہین
۲۹۷ھ
اکتوبر ۹۰۹ء
پہلی جنگِ عظیم کا خاتمہ
۱۳۳۷ھ
نومبر ۱۹۱۸ء
قراردادِ پاکستان
۱۳۵۹ھ
مارچ ۱۹۴۰ء
بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کا قتل
۱۴۰۵ھ
اکتوبر ۱۹۸۴ء
یومِ تکبیر، پاکستان کا ایٹمی تجربہ
۱۴۱۹ھ
مئی ۱۹۹۸ء

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے