گزشتہ دنوں قصور میں کم سن بچی زینب کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایاگیا اس سے پہلے بھی قصور میں بہت سے کم عمر بچے اور بچیوں کے ساتھ یہ گھناؤنا کھیل کھیلا جاچکاہے اس کے چند دن بعد مردان میں 4 سالہ بچی کے ساتھ جنسی درندگی کا ایسا ہی ایک واقعہ سامنے آیا جس پر انسان تو کیا خود انسانیت بلکہ حیوانیت بھی شرمسار اور زخم خوردہ ہے ۔مردان میں اس سے قبل بھی دو بچیوں کو زیادتی کے بعد قتل کیاجاچکاہے غور طلب بات یہ ہے کہ ملک بھر میں بے حیائی، بدکاری او ر چھوٹے بچوں اور بچیوں کے ساتھ اس طرح کے حیا سوز واقعات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2017ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتی کے 768 واقعات رجسٹرڈ ہوئے۔ایسے انسانیت سوز واقعات کا کثرت اور تسلسل کے ساتھ وقوع پذیر ہونا ایک اسلامی معاشرہ کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جس پر باریک بینی سے غور کیا جاناچاہیے۔ اس غور کے نتیجے میں یہ بات ہمیں تسلیم کرنی پڑے گی کہ ہمارا معاشرہ شدید تنزلی کا شکار ہے اس انحطاط کا سب سے زیادہ ذمہ دار بلیک میلراوربے لگام میڈیا ہے کیونکہ میڈیا ہی معاشرے میں بیہودہ ڈراموں،فلموں، شہوت انگیز اشتہارات کے ذریعے جنسی ہیجان پیدا کر رہا ہے۔ میڈیا پر براجمان مادہ پرست اینکر پرسن جن کا ہر دوسرے دن چینل تبدیل ہوا ہوتاہے ۔ایسےبے ضمیر لوگ مغرب کا چورن فروخت کررہے ہوتے ہیں۔ جنسی بے راہ روی رجحانات پیدا کرنے میں رہی سہی کسر سوشل میڈیا،انٹرنیٹ اورموبائل نے نکال دی ہے۔20 سال قبل موبائل اور سم پچاس ہزار روپے کی تھی مگر دیگر ضروریات زندگی قدرے سستی تھی انہی میڈیا کے لوگوں کے ذریعے پاکستان قوم کے ساتھ ایک خطر ناک کھیل کھیلا گیا ان کے اخلاق کو بگاڑنے ، اسلامی اقدار اور روایات سے دور کرنے کے لیے ضروریات زندگی کو انتہائی گراںکیاگیا ، عیاشی ،فحاشی،بے حیائی اور بے غیرتی عام کرنے کے ذرائع،سوشل میڈیا،موبائل اور سم وغیرہ انتہائی ارزاں بلکہ تقریباً مفت کردی گئی۔ ذمہ دار اصحاب نے اس پر کبھی سوچنے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔پاکستان میں بھی مادرپدر آزاد معاشرہ قائم کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔قصور اور مردان جیسے واقعات ایسی آزادی کا نتیجہ ہیں۔ہمارے ملک کے بے لگام میڈیا جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔چور مچائے شور کا کردار ادا کررہا ہے۔پہلے حیا سوز مناظر کے ذریعے جنسی جذبات کو ہوا دی گئی، بدکاری کی راہیں آسان بنائی گئیں اور اب منافقت کی انتہاکی جاری ہےکہ فحاشی وعریانیت پھیلانے والا ہمارے ملک کا میڈیا فلم وشوبز انڈسٹری کے افراد کے ذریعہ سانحہ قصور کی آڑ میں اسکولوں میں مغربی طرز پر جنسی تعلیم دینے کی مہم چلا رہا ہے گویا کہ ایک تیر سے دو شکار کیے جارہے ہیں جبکہ ان منافقوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ جنسی تعلیم سب سے پہلے امریکہ میں شروع ہوئی تھی اب وہاں ہر 8 منٹ میں ایک بچہ کا ریپ ہوتاہے۔ فرمان رسول ﷺ ہے

: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَارِيَةً وُجِدَ رَأْسُهَا قَدْ رُضَّ بَيْنَ حَجَرَيْنِ، فَسَأَلُوهَا مَنْ صَنَعَ هَذَا بِكِ؟ فُلَانٌ؟ فُلَانٌ؟ حَتَّى ذَكَرُوا يَهُودِيًّا، فَأَوْمَتْ بِرَأْسِهَا، فَأُخِذَ الْيَهُودِيُّ فَأَقَرَّ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَضَّ رَأْسُهُ بِالْحِجَارَةِ (صحیح البخاری ، کتاب الدیات ، باب إذا قتل بحجر أو عصاوصحیح مسلم ، کتاب القسامۃ ، باب ثبوت القصاص ،الحدیث:1672)

’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لڑکی ایسی حالت میں پائی گئی کہ اس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچلا گیا تھا لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا فلاں نے یا فلاں نے؟ یہاں تک کہ انہوں نے ایک یہودی کا ذکر کیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا اس یہودی کو گرفتار کیا گیا اس نے اقرار کر لیا۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ اس کا سر پتھروں سے کچل دیا جائے۔ ‘‘
ایسے ہی رسول رحمت ﷺ نے حدود اللہ پر عمل کرتے ہوئے بدکاری کا ارتکاب کرنے والے شخص کو سنگسار کی سزا دی۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَى رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، فَنَادَاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَتَنَحَّى تِلْقَاءَ وَجْهِهِ، فَقَالَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي زَنَيْتُ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، حَتَّى ثَنَى ذَلِكَ عَلَيْهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ دَعَاهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَبِكَ جُنُونٌ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَهَلْ أَحْصَنْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اذْهَبُوا بِهِ فَارْجُمُوهُ ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ، يَقُولُ: فَكُنْتُ فِيمَنْ رَجَمَهُ، فَرَجَمْنَاهُ بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ هَرَبَ، فَأَدْرَكْنَاهُ بِالْحَرَّةِ، فَرَجَمْنَاهُ (صحيح البخاري ، كتاب المحاربين من أهل

الكفرة والردة باب لا يرجم المجنون والمجنونة ، صحيح مسلم ، كتاب الحدود باب من اعترف علي نفسه بالزنا )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ مسلمانوں میں سے ایک آدمی رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ مسجد میںتشریف فرما تھے اور اس نے آپ ﷺکو پکار کر کہا اے اللہ کے رسول ﷺ ؟ میں زنا کر بیٹھا ہوں۔ آپ ﷺنے اس سے رو گردانی کی اور اس کی طرف سے چہرہ اقدس پھیرلیا ۔ اس نے پھر آپ ﷺسے کہا اے اللہ کے رسول؟ میں بدکاری کر بیٹھا ہوں۔ آپ ﷺنے اس سے اعراض کیا۔ یہاں تک کہ اس نے اپنی بات کو چار مرتبہ دھرایا۔ جب اس نے اپنے آپ پر چار گواہیاں دے دیں تو رسول اللہﷺ نے اسے بلایا اور فرمایا کیا تجھے جنون (پاکل)ہوگیا ہے؟ اس نے عرض کیا نہیں۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کیا تو شادی شدہ ہے؟ اس نے عرض کیا جی ہاں تو رسول اللہﷺ نے فرمایا اسے لے جاؤ اور سنگسار کردو۔ ابن شہاب نے کہا مجھے اس نے خبر دی جس نے جابر بن عبداللہ سے سنا وہ فرماتے ہیں کہ میں ان میں سے تھا جنہوں نے اسے رجم کیا۔ ہم نے اسے عیدگاہ میں سنگسار کیا۔ پس جب اسے پتھر لگے تو وہ بھاگا تو ہم نے اسے میدان مرہ میں پایا اور اسے سنگسار کردیا۔
ایسے حالات میں معاشرے کی اصلاح اور فلاح کے فکرمند حضرات کو سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور حکومت پر بھی زوردینا ہوگا کہ وہ میڈیا کے بے قابو افریت کو بوتل میں بند کرنے کا انتظام کرے غیر اسلامی تہذیب وثقافت کو ناظرین کی ضرورت قرار دینے والے اینکرز کو موت،آخرت،حساب وکتاب اور عذاب الٰہی سے ڈرانا ہوگا۔چھوٹے بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے والدین کی ذمہ داری کو حکومتی سطح سے اجاگرکرنا ہوگا کیونکہ ماں بچے کی سب سے پہلی اور اہم درسگاہ کی حیثیت رکھتی ہے جیسے مغربی غلاموں خاص طور پر میڈیا نے حقوق نسواں اور برابری کے نام پراپنی حقیقی ذمہ داری نسل نو کی پرورش اور صالح معاشرے کی تشکیل میں کردار ادا کرنے سے دور کر دیاہے۔اور اب بچوں کو آیاؤں،ملازموں،چوکیداروںاور روضۃ الاطفال،ڈے کیئر سینٹرز کے حوالے کرنے کا رواج عام ہوتا جارہاہے کیا کوئی دوسرا بچوں کی دیکھ بھال،پرورش،تعلیم وتربیت میں ماں کا نعم البدل ہوسکتاہے؟ ہمارے ارباب حل وعقد ،علماء کرام ،ماہر تعلیم حضرات کو ملکی نظام تعلیم کا جائزہ لینا ہوگا کہ ہماری درسگاہوں میں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیم وتربیت کا کتنا حصہ نصاب میں شامل ہے، مخلوط نظام کی خرابیوں کے منفی اثرات کا بھی بنظر دقیق جائزہ لینا ہوگا۔ مخلوط نظام تعلیم نے ہمارے خاندانی نظام کو بری طرح متأثر کیا ہے کیونکہ ایسے اداروں میں لڑکے،لڑکیاں تعلیم سے زیادہ کسی اور چیز میں دلچسپی رکھتے ہیں اور تعلیم پر بھر پور طریقےسے توجہ نہیں دے پاتے ایسے میں شرعی پردہ،شرم وحیا جیسی اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس میں رکاوٹ بننے والوں کو اسلامی اصولوں کے مطابق سمجھانے کی ضرورت ہے قرآن وحدیث کی تعلیمات کے مطابق اگر ماحول،معاشر ے اور افراد کی اصلاح کا سب نے ملکر کما حقہ فریضہ انجام نہ دیا تو پھر یادرکھنا اللہ تعالیٰ کی پکڑ بھی بہت شدید ہوا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ خود ارشاد فرماتے ہیں کہ جو ارباب اقتدار اور اللہ تعالیٰ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذ نہیں کرتے تو وہ ظالم ہیں۔

إِنَّ اللهَ لَيُمْلِي لِلظَّالِمِ حَتَّى إِذَا أَخَذَهُ لَمْ يُفْلِتْهُ قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ: وَكَذَلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ القُرَى وَهِيَ ظَالِمَةٌ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ (صحیح البخاری،کتاب تفسیر القرآن حدیث:4686)

رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو ڈھیل دیتاہے لیکن جب پکڑتا ہے تو پھر نہیں چھوڑتا اس کے بعد آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی’’ تیرا رب جب کسی سرکش بستی(والوں) کو(عذاب میں) پکڑتا ہے تو اس وقت اس کی پکڑ ایسی ہواکرتی ہے بیشک اس کی پکڑ بڑی دردناک اور بڑی سخت ہے۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے