کتاب : جوامع الکلم من سید ولد آدم

جمع وترتیب : محمد سلیمان جمالی
صفحات : 112
ناشر |: مکتبہ ابو عبیدۃ بن الجراح ۔ نواب شاہ سندھ
تبصرہ:الشیخ عبدالوکیل ناصر
جوامع الکلم،مفاتح الکلم،فواتح الکلم اور خواتم الکلم ہونا نبی کریم ﷺ کے امتیازات وخصائص میں سے ہے یہی وہ وصف خاص ہے کہ جو نبی کریم ﷺ کے افصح العرب والعجم ہونا ظاہر کرتاہے اور آپ کی عمومی رسالت کا مقتضیٰ یہی تھا کہ آپ کی فصاحت وبلاغت ساری دنیا سے فائق ہو۔ احادیث مبارکہ کے مطابق آپ ﷺ کو کلمہ وکلام کی ابتداء، انتہاء اور جامعیت عطا کی گئی تھی۔
امام ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہ جنہیں جوامع الکلم کی تجمیع میں گونہ گوںسبقت حاصل ہے وہ جوامع الکلم کو دوقسموں میں تقسیم فرماتے ہیں ۔
1 وہ جو قرآنی الفاظ میں ڈھال کر آپ ﷺ کو دی گئی ۔
2 وہ جامعیت آپ ﷺ کی احادیث وسنن میں واقع ہوئی ہے۔
محدثین اور ائمہ کرام نے مختلف عناوین کے تحت تدوین احادیث کاکام کیا ہے اسی کی ایک مختصر شکل جوامع الکلم کو مرتب ومدون کرناہے۔ اللہ ان تمام اہل علم کو جزائے خیر عطافرمائے۔ آمین
دور حاضر میں ان کی مثل راسخ العلم والزہد لوگ تو ہمیں میسر نہیں ولکن اللہ یجمع العالم فی واحد اور بمصداق حدیث رسول ﷺ کے ’’ یہ علم عدول حاصل کریں گے اور باطلہ ومؤلہ کے دانت کھٹے کرتے رہیں گے‘‘۔ آج بھی کچھ ورثۃ الانبیاء کواکب کے مابین مثل القمر ہمیں مل ہی جاتے ہیں جو سابقون اولون محدثین کے طرز ونہج پر کام کررہے ہیں اسی سلسلہ ذھبیہ سے منسلک اور نہج محدثین کے ترجمان ہیں ہمارے ممدوح مولانا محمد سلیمان جمالی حفظہ اللہ تعالیٰ جن کی تحریر اس وقت زیر تبصرہ ہے جس کا عنوان ’’جوامع الکلم من سید ولد آدم‘‘ ہے مولانا یقیناً حد درجہ غیور اور منہجی حمیت وصلابت رکھنے والے انسان ہیں کما لا یخفی علی أھل العلم ۔ اللھم زد فزد وکثر أمثالہ فینا
مولانا موصوف کی تحریر ان کی محنت شاقہ کی عکاس ہے کہ دو حرفی،سہ حرفی اورمختصر الحروف احادیث کو انہوں نے متعدد کتابوں سے ڈھونڈ کر ضبط تحریر کی لڑی میں پرودیا ہے نیز احادیث کا ترجمہ،ضروری شرح وبسط ارقام الحدیث، مرجع وماخذ سب کچھ ہی لکھ کر گویا سمند کو کوزے میں بند کر دیا ہے ۔ میری نظر میں تقریباً تمام روایات مرفوعاً بیان کی گئی ہیں اور یہی اس کے عنوان’’جوامع الکلم من سید ولد آدم‘‘ کا تقاضا بھی تھا۔ البتہ اگر کوئی صاحب علم کسی روایت کو مرفوع نہ دیکھتے ہوں ’’فوق کل ذی علم علیم‘‘ کے تحت ایسا ممکن ہے ۔ ہم دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ صاحب کتاب مولانا محمد سلیمان جمالی حفظہ اللہ کے علم وعمل اور جھود میں برکات فرما کران کے قلم کو مزید سیال بنادے ۔ آمین
کتاب ھذا تقریباً 112 صفحات کے ساتھ 350 احادیث پر مشتمل ہے ابتداء میں مختصر سا مقدمہ بھی جو کہ تحریر کی غرض وغایت اور ترتیب کو اجاگر کر رہا ہے ۔ سرورق(ٹائٹل) جاذبیت کو سمیٹے ہوئے ہے مافی الضمیر کا عکاس بھی ہے مکتبہ ابو عبیدۃ بن الجراح ۔ نواب شاہ سندھ سے شائع شدہ ہے ۔ ہر خاص وعام کیلئے انمول تحفہ ہے چاہیے کہ ہر ایک حاصل کرے،پڑھے ،ہدیہ کرے ، مکتبہ کی زینت بنائے، مؤلف وناشر کے لیے دعا کرے۔

 

نام کتاب : مقالات راشدیہ جلد نمبر 11

مصنف : شیخ العرب والعجم سید بدیع الدین شاہ الراشدی رحمۃ اللہ علیہ
اعداد : الشیخ افتخار احمد تاج الدین الازہری حفظہ اللہ
صفحات : 448
مضبوط پائیدار جلد قیمت : درج نہیں
ناشر : المکتبۃ الراشدیۃ نیو سعید آباد (سندھ)
سرزمین سندھ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ برصغیر میں سب سے پہلے اسلام کی روشنی اسی خطۂ ارضی پہ پڑی۔ اس سرزمین کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم،تابعین عظام اور تبع تابعین رحمہ اللہ اجمعین کی قدم بوسی کا شرف حاصل ہے۔ مجاہد اسلام محمد بن قاسم ثقفی رحمہ اللہ نےدیبل پر93 ہجری میں فیصلہ کن حملہ کیا اور پورے علاقے کو فتح کر لیا اور ان پر اسلامی پرچم لہرادیا۔ ( برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش از محمد بن اسحاق بھٹی ، ص:137)
اس اولیت کی مناسبت سے سندھ کو باب الاسلام کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔
سرزمین سندھ میں اسلام کی نشر واشاعت کے لیے کوشاں شخصیات اور خاندانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اس طویل فہرست میں راشدی خاندان کو جومقام ومرتبہ حاصل ہے وہ ایک انفرادیت اور اہمیت کا حامل ہے۔ جب سرزمین سندھ میں عوام غیر اسلامی افکار ونظریات سے متأثر ہوکر دین اسلام کے صحیح منہج وصراط مستقیم سے روگردانی کرنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے اہل سندھ کی اصلاح وہدایت کے لیے خاندان راشدیہ میں اصحاب علم وفضل کا مبارک سلسلہ شروع فرمایا اسی سلسلہ کے گل سر سبد سید بدیع الدین شاہ صاحب رحمہ اللہ ہیں۔ سید صاحب نے باطل نظریات اور مسلک حقہ اہل حدیث کے دفاع میں جو علمی تصنیفات سپرد قلم کی ہیں وہ عوام وخواص کے لیے منارہ نور اور ہدایت کا مصدر ومنبع ہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے عربی،اردو اور سندھ ہر سہ زبانوں میں تحقیقی واصلاحی تحریریں رقم فرمائیں ہیں۔
حضرت شاہ صاحب کی علمی تراث کو عہد جدید کی طباعتی خوبیوں سے مزین کرکے منصہ شہود پرلانے کا فریضہ سرزمین سندھ کے نوجوان اور کہنہ مشق عالم فضیلۃ الشیخ افتخار احمد ازہری صاحب بخوبی ادا فرمارہے ہیں۔كثّر الله أمثاله وتقبل جهوده
اس سے پہلے وہ حضرت شاہ صاحب کی علمی وتحقیقی معروضات کو 10 جلدوں میں خوانندگان محترم کی خدمت میں پیش کر چکے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب مقالات راشدیہ کی جلد نمبر 11 دراصل حضرت شاہ صاحب کی تصنیف لطیف’’ تنقید سدید بررسالہ اجتہاد وتقلید ‘‘پر مشتمل ہے اس کتاب کی وجہ تالیف اور پس منظر کے بارہ میں فضیلۃ الشیخ افتخار احمد ازہری رقمطراز ہیں :
’’ ایک حنفی عالم نے شاہ صاحب کو تقلید شخصی پر مناظرے کا چیلنج دیا ۔ شاہ صاحب نے نہ صرف اس چیلنج کو قبول کیا بلکہ مناظرے کے لیے رخت سفر بھی باندھ لیا اور اس مقلد کو اطلاع بھیج دی کہ فلاں تاریخ کو ہم مناظرے کے لیے آرہے ہیں تو اس مقلد شخص نے بجائے اس کے کہ وہ اپنے چیلنج پر قائم رہتا اور ٹائم مقرر کرکے مناظرے کے لیے آتا ایک رسالہ ’’ الاجتہاد والتقلید‘‘ مولانا ادریس کاندھلوی کا شاہ صاحب کی طرف ارسال فرما دیا اور ایک رقعہ بھی تحریر کیا کہ فی الحال یہ بھیج رہا ہوں اس کا جواب ہمیں دے دیں پھر ہم مناظرہ کریں گے۔ شاہ صاحب نے اس رسالے کا بغور مطالعہ کیا جس میں دو باتوں پر زور دیاگیا تھا۔
1 تقلید شخصی کا وجوب
2 قیاس شرعی حجت اور ضروری ہے
شاہ صاحب نے سب سے پہلے تو اس رسالہ کی متضاد باتیں الگ کیں اور انہیں بتایا کہ پہلے اپنی باتوں میں مطابقت پیدا کرو پھر کسی کو چیلنج دینااور پھر شاہ صاحب نے اس رسالہ میں ذکرکردہ دلائل جن کی حقیقت ’’تارِ عنکبوت‘‘ سے زیادہ نہیں تھی کا مکمل علمی رد پیش کیا اور چند ایام میں ہی اس رسالے کا جواب تحریر کرکے ان کی طرف ارسال کر دیا۔ جب یہ جوابی رسالہ ان حنفی عالم کو ملا تو وہ کہنے لگے کہ ہم نے آپ کی طرف ایک طبع شدہ کتاب بھیجی تھی اور آپ نے یہ مسودہ ہمیں بھیج دیا یہ ہمیں قبول نہیں تو اس جواب کا کیا مطلب ؟ ’’حیلہ ساز رابہانہ بسیار‘‘۔ شاہ صاحب نے پھر اس کتاب کو ہفت روزہ ’’ الاسلام‘‘ لاہور میں قسط وار شائع کروایا اور پھر بعد میں وزیر آباد کے کسی ساتھی نے اسے ایک کتابی شکل میں شائع کروادیا۔ جزاہ اللہ خیرا
یادرہے کہ شاہ صاحب کی اس تصنیف کو مکتبہ الامام البخاری کراچی نے 2007ء میں شائع کرنے کی سعادت حاصل کی جو کہ اس وقت کے طباعتی تقاضوں سے ہم آہنگ تھی اس رسالہ علمیہ پر عالم ربانی مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ کی مختصر مگر جامع تصدیر نے اس کی علمی وقعت میں اضافہ کیا مذکورہ تصدیر میں انہوں نے مسئلہ تقلید ، اجتہاد وتقلید نامی رسالے میں ذکر کردہ دلائل اور تنقید سدید کے بارے میں خامہ فرسائی فرمائی ہے۔ مسئلہ تقلید کے مالہ وما علیہ کی وضاحت میں رقمطراز ہیں : 
’ ’تقلید اور عمل بالحدیث‘‘ کے مباحث صدیوں پرانے ہیں ۔ تقلید جامد کے رسیا اور امت کا درد رکھنے والے مصلحین اس موضوع پر سیر حاصل بحثیں کرکے خوب خوب داد تحقیق دے چکے ہیں خیر القرون کے سیدھے سادھے دورکے مدتوں بعد ایجاد ہونے والے مذاہب اربعہ کے بعض مقلد فقہاء نے اپنے اپنےمذہب کی ترجیح میں کیا کیا گل نہیں کھلائے حتی کہ اپنے مذہب کے جنون میں اپنے مخالف امام تک کو نیچا دکھانے سے بھی دریغ نہیں کیاگیا جیسا کہ ساتویں آٹھویں صدی کے شافعی اور حنفی فقیہوں کی بعض کتابیں جن لوگوں کی نظر سے گزری ہیں وہ اس سے بہ خوبی واقف ہیں۔ وہ دن جاتاہے اور یہ دن آتا ہے کہ آج تک ان دو طبقوں کی متقابل تالیفات کا ایک انبار لگا ہوا ہے اور یوں دونوں طرف کے دلائل ومتمسکات پورے طور پر سامنے آگئے ہیں۔ مزید کاوش کی بالکل ضرورت نہیں رہی لیکن حنفی بزرگ ابھی تک حدیث پر عمل کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں اور آئے دن کسی نہ کسی بہانے’’غیر مقلدیت‘‘ کے خلاف فرسودہ اور مردودہ بحثیں چھیڑتے رہتےہیں۔ ‘‘
’’اجتہاد وتقلید ‘‘نامی رسالے پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’ تقلید جامد کی حمایت میں لکھی گئی اس کتاب میں کوئی نئی بات نہیں ، وہی عامۃ الورود مغالطات جو علمائے دیوبند کی کتابوں اور رسالوں میں آج تک آتے رہے ہیں یعنی حنفی مذہب کے جذبات پر مبنی فضائل،مذاہب اربعہ پر اس کی ترجیح کا سفسطہ، متبوع ومقلد ہونے کی حیثیت سے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مناقب میں غلو اور مبالغہ آرائی ، اصحاب الحدیث پر اہل الرائے کے تفوق کا طنطنہ، محدثین پر مقلد ہونے کا الزام بے ثبوت،مذاہب اربعہ میں حق کے انحصار کا دعوائے بلا دلیل،ترک تقلید کے مزعومہ مفاسد اور یہ کہ اجتہاد کا دروازہ اب مدتوں سے بند ہے وغیرہ وغیرہ۔ ‘‘
زیر تبصرہ کتاب سے متعلق اپنا نقطۂ نظر پیش فرما کر گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا لکھتے ہیں کہ
’’حضرت مولانا سید بدیع الدین شاہ صاحب نے ’’تنقید سدید‘‘ میں مقلدین احناف کے ان سب متمسکات پر مدلل ومبرہن اور سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے ۔ انداز ایسا متین اور دلنشین ہے کہ اہل ذوق مطالعہ شروع کریں تو چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ طعن وتشنیع سے احتراز کیاگیاہے، بس نفس موضوع کو سامنے رکھا ہے ، غیر ضروری باتوں سے اجتناب ہے اور ہر بات باحوالہ ہے، اہل علم اور عوام دونوں کے لیے یکساں مفید ،یقین افروز اور بصیرت افزا۔‘‘
اس تصنیف لطیف میں حضرت شاہ صاحب نے مقلدین کی طرف سے پیش کئے جانے والے نقلی وعقلی دلائل کی حقیقت طشت ازبام کرتے ہوئے تقلید شخصی کی تعریف ، حکم،آغاز ، علماء کی اتباع تقلید نہیں،وجوب تقلید اہل سنت کا عقیدہ نہیں، کتب طبقات میں اہل علم کے انساب کی حقیقت جیسے موضوعات پر سیر حاصل اور مدلل ومبرہن گفتگو فرمائی ہے۔ جزاہ اللہ خیرا
اہل تقلید کی طرف سے پیش کی جانے والی قرآنی آیات کا صحیح مطلب واضح کیا اور اسی طرح جن احادیث سے تقلید کے جواز کو کشید کرنے کی سعی نامشکور کی جاتی ہے ان احادیث کے درست مدلول کو بھی منہج محدثین کے مطابق واضح فرمایا ہے۔
حضرت شاہ صاحب نے فقہ حنفی کی ترجیح کی وجوہات پہ جو علمی محاکمہ فرمایا ہے اس میں ان کی جلالت علمی پوری شان وشوکت سے دکھائی دیتی ہے الغرض حضرت شاہ صاحب نے اس علمی کتاب کے ذریعے اثبات تقلید پر ’’تارِ عنکبوت‘‘ جیسے دلائل کا مکمل اور جامع محاکمہ فرماتے ہوئے کہیں بھی سنجیدگی اور متانت کا دامن نہیں چھوڑا۔
اس علمی تصنیف کو جدیدطباعت کے مروجہ ضابطوں کے مطابق مزین کرکے اہل تحقیق کی علمی تشنگی کو کافی حد تک سیراب کردیا ہے جو کہ عمدہ کاغذ،کمپوزنگ کی اغلاط سے مبرا،خوبصورت اور جاذب نظر حسین سرورق سے مزین سلیقے سے شائع شدہ عظیم علمی تحفہ ہے۔ امید ہے کہ اہل ذوق مقالات راشدیہ کی سابقه جلدوں کی طرح اس جلد کا بھی بھر پور خیر مقدم کریں گے ۔
باری تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کے مؤلف،پیش کار،ناشر اور دیگر معاونین کو اپنی مرضیات سے نوازے۔
ایں دعا از من وجملہ جہاں آمین باد

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے