قارئین کرام! میری مراد میرے محسن ومربی استاذ محترم حافظ اللہ نواز ہرل صاحب حفظہ اللہ (فاضل جامعہ اسلامیہ ، رئیس جامعہ تعلیم القرآن والسنہ نوابشاہ) ہیں ۔ استاد محترم حفظہ اللہ جیسی معزز و مکرم شخصیت پر قلم اٹھانا مجھ جیسے کم علم و عمر کے لیے یقینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔کافی عرصے سے خواہش تھی کہ شیخ محترم کی شخصیت پر کچھ تحریر کروں لیکن قلم اٹھانے کی ہمت نہ ہوسکی ، بالآخر اس بار دل کے ہاتھوں مجبور ہواہی ہوں۔ نہ معلوم اس کے بعد انکے متعلق لکھنے کا موقع ملے نہ ملے ۔سمجھ میں نہیں آ رہا کہ محبت و مودت میں سمندر سی گہرائی رکھنے والے اس شخص پر کیا لکھوں کہاں سے شروع کروں کن باتوں کا تذکرہ کروں!
میرے قلم نے مذاق حیات بدلا ہے
بلندیوں پہ اڑا ہوں سما سے کھیلا ہوں
الغرض ! مختصر طور پر انکی زندگی کے بعض جہات و اوصاف کا ذکر خیر کروں گا اس دعا کے ساتھ کہ اللہ سبحانہ وتعالی اس تحریر کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائےشیخ محترم کی شان شوکت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انکے استاذ (جو بحر العلم سینئر اساتذہ میں شمار کیئے جاتے ہیں )کا کہنا ہے کہ’’ میں حافظ اللہ نواز صاحب کا استاذ ہوں لیکن میں حافظ صاحب کو اپنا استاذ سمجھتا ہوں۔” استاذ ہی کو شاگرد کی ذہانت، فہم وفراست تعلیمی ذوق اور علم کےلیے جھود و مساعی کا علم ہوتا ہے شاگرد کی فطری صلاحیتیں اور مطالعہ کتب کی لگن بھی استاذ کی نظر میں ہوتی ہےجس شخص کا استاذ اسکو اپنا استاذ تسلیم کرے بتائیں ان کی شخصیت کیا ہوگی!! یقینا ہمارے شیخ اس دور کے گل سرسبد اور علمی کہکشاں کے نجم ثاقب ہیںشیخ محترم کی زندگی کے وہ لمحات جو راقم نے انکے تحت اشراف بسر کیے ہیں انتہائی عاجز مندانہ لمحات تھےع
نگہ بلند سخن دلنواز ، جاں پرسوز
یہی ہے رخت سفر میرِ کارواں کےلیے
شیخ محترم اپنے اسلاف کے تمام اوصاف حمیدہ سے متصف ہیںنہایت ہمدرد اور رحم دل، زہد و تقوی کے پیکر ، اسلام کی دعوت و تبلیغ میں بڑےجرأت مند اور قرآن سے انتہائی لگن ۔ شیخ محترم کی خطابات میں بھی اکثر قرآن ہی سننے کو ملتا ہےبلکہ طلباء کو بھی اکثر یہ ہی نصیحت فرمایا کرتے ہیں کہ لمبی لمبی تقریریں لازم نہیں ہیں لوگوں کو فقط سورہ فاتحہ اچھی طرح سمجھا دیں تو کافی ہے -“شیخ محترم اپنے مسلک کے لوگوں سے بھی انس و روابط رکھتے ہیں تو دیگر حضرات سے بھی انکے بے تحاشا مراسم ہیںشیخ محترم کی رقت قلب غیروں کو بھی قریب ہو نے کے لیے مجبور کر دیتی ہے اور وہ بھی کچھ دیر آپ کی خدمت میں بیٹھنے کو اپنے لیے سعادت سمجھتے ہیں
ہر چند ہو مشاہدہ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
شیخ محترم کی عاجزی کے بیسوں مثالیں موجود ہیں حقیقت کی وضاحت کے لیے یہ ایک واقعہ ہی کافی ہے کہ’’ ایک بار یوں ہوا کہ راقم جمعہ کا خطبہ دے رہا تھا کہ شیخ محترم کسی وجہ سے جمعہ پڑھانے نہیں گئے اور دوران خطبہ آکر مسجد کے ستون کے پیچھے بیٹھ گئے راقم کی جیسے نظر پڑی تو وہ تعجب کرنے لگا کہ شیخ صاحب کیسے آگئے ؟ہائے! شیخ صاحب بیٹھے ہوئے ہیں اور میرے ٹوٹے ،بے ربط
الفاظ … خطبہ جمعہ جیسےہی ختم ہوا تو میں فورا پیچھے صف میں
کھڑا ہوگیا کہ شیخ صاحب ہی نماز پڑھائیں گے ۔انکی موجودگی میں میں مصلے پر کھڑا ہونا کیسے گوارہ کر سکتا تھا ؟تھوڑی دیر تک رکے رہے شیخ مصلے پر نہیں آئے میں نے کہا :شیخ! نماز پڑھائیں فرمایا: بیٹا ! آپ ہی پڑھالیں ۔بہت اسرار کے بعد مصلے پر آئے اور نماز پڑھائی مقتدی آپ کی عاجزی و انکساری دیکھ کر آنگشت بدند ره گئے‘‘۔
محترم شیخ طلبہ و علماء کی بہت زیادہ توقیر کرتے ہیں انکی آمد پر خوش بھی ہوتے ہیں جب کبھی انکی خدمت میں طلبہ و علماء کی آمد ہوتی ہے تو وہ خود انکی میزبانی کرنے کی کوشش کرتے ہیںطلبہ کو اپنی اولاد جیسا پیار دیتے ہیں اگر کسی طالب پر وقتی طورغصہ آ بھی گیا تو اسے خوش کرنے کی حتی الممکن کوشش کرتے ہیںطلبہ سے ہر حوالے سے تعاون کرنا گویا اس مرد مجاہد نے اپنے ذمے اٹھایا ہوا ہے،غرباء و فقراء طلبہ پر آپ کی نظر رہتی ہے اور ان سے حتی الاستطاع تعاون کرتے ہیں،بہت مرتبہ یوں بھی ہوا کہ طلبہ نے اپنے گھریلو مجبوریاں پیش کیں تو شیخ نے ان سے بھی ہر ممکن تعاون فرمایاشیخ حفظہ اللہ جمعہ کے لیے گاؤں گوٹھوں میں جانے والے طلبہ و خطیب حضرات کو اپنی جیب سے خرچہ دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ جماعتیوں پر حق بنتا ہے کہ وہ طلبہ سے تعاون کریں طلبہ سے تعاون نہ کرنے پر آپ بہت ناراضگی دکھاتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اگر دین کا کام نہ ہوتا تو انکے پاس جانا بھی مناسب نہیں طلبہ سے کیا تو انکی الفت ہے! (اگرچہ ظاہری طور پر وہ سخت بھی کیوں نہ ہوں) عمرہ پر جا رہے

تھے تو نکلنے سے قبل طلبہ کو مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا کہ “میں آپکو کمی کوتاہیوں پر جو ڈانٹا کرتا تھا اس کی معافی چاہتا ہوں ۔” طلبہ کی پڑھائی کا بے حد زیادہ خیال رکھتے ہیں طلبہ کو دوران سبق ادہر ادہر دیکھتے ہیں تو ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئےفرماتے ہیں کہ یہ آپ کے پڑھائی کے ایام ہیں ان میں اپنی پڑھائی میں خوب محنت کریں یہ وہ ایام ہیں جن میں آپکے والدین نے آپکو تمام تر کاموں سےفارغ کر رکھاہے تاکہ آپ اپنے علم پر توجہ دیں اگر آج آپ محنت نہیں کریں گے تو وہ بھی وقت آئے گا کہ آپ پڑھنا چاہو گے لیکن آپ کو اس کا وقت نہیں ملے گا ۔راقم کو شیخ محترم سے استفادہ کا الحمد اللہ بہت موقع حاصل ہوا ہے شیخ کے ہاں چھ سالہ علوم اسلامیہ حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی ہےہر کسی سے عاجزی سے پیش آنے والے ان عظیم شخص سے اس عربی شعر کے ساتھ مخاطب ہوتا ہوں کہ
المسلمون بخیر ما بقیت لھم
ولیس بعد خیر حین تفتقد
جب تک آپ زندہ و سلامت ہیں، مسلمانوں کو خیر و برکت حاصل رہے گی جب آپ نہ رہیں گے تو ان سے نعمتیں چھن جائیں گی ۔‘‘
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ محترم شیخ کی زندگی میں برکتیں نازل فرمائے کہ انکا سایہ فگن ہمیشہ ہم پر رہےاگرچہ شیخ صاحب کی زندگی پر لکھنا چاہوں تو آپ جن اوصاف حمیدہ کے مالک ہیں اور جن محامد و مکارم سے انکی ذات متصف ہے انکی رو سے انکے متعلق اس مختصر مضمون پر اکتفاء کرنا یقینا نا انصافی ہوگی بالکل اس شعر کی طرح کہ
سوچا تھا کہ تیری سیرت پے لکھوں گا رات کو بیٹھ کر
افسوس کہ تیرے معیار کے الفاظ نہ مل سکے اور رات بیت گئی
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے