ِِ۳ جنوری ۲۰۱۸ء شام کو جیسے کالج کی ڈیوٹی سے فارغ ہوکر واپس گھر پہنچا تو موبائیل پر کالز اور ایس ایم ایس آنا شروع ہوگئے، جن میں یہ روح فرسا اور المناک خبر ملی کہ اسلامی علوم و فنون کے ماہر، تدریس کے شہنشاہ،عالم ربانی، جماعت اہلحدیث سندھ کے روح روان، اور ماہنامہ مؤقر دعوت اہلحدیث حیدرآباد کے مدیر شہیر ، مولانا ذوالفقار علی طاہر کراچی کے ایک جان لیواٹریفک حادثے میں خالق حقیقی سے جا ملے بار بار زبان پرانا للہ وانا الیہ راجعون جاری ہوگیا ۔
شدیم خاک ولیکن ببوئے تربت ما
تواں شناخت کزین خاک مرد مے خیزد
آہ!جس مرد حق نے اسلام کی آفاقیت وحقانیت کے لئے پوری زندگی وقف کردی جس نے باب الاسلام سندھ دورافتادہ،گائوں،میں شرک و بدعت کے بتکدوں میں آذان حق دی و ہ اچانک ہم سے بچھڑ کر پیوند ہ خاک بن گیا،ابوزبیرذوالفقار علی طاھر بن حمزہ علی( متوفی ۲۰۰۵ء) بن مرحوم غلام حیدر خان (متوفی۱۹۸۳ء) بھی اپنے دور کے انتہائی نیک سیرت، پرہیزگار، اور صالحین میں شمار ہوا کرتے تھے، مولانا ذوالفقار علی طاھر تحصیل کھپرو ضلع سانگھڑ کے شہر سامارو موری میں ۴ مارچ ۱۹۷۲ء میں پیدا ہوئے،آپ نے ابتدائی تعلیم پرائمری اور قرآن مجیدناظرہ اپنے گائوں میں حاصل کی ، جس کے بعد آپ نے مڈل اور میٹرک بھی کھپرو سے کیا، جس کے بعد انکے اقرباء کی خواہش پر انہوں نے علوم اسلامیہ اور درس نظامی کے لئے باقاعدہ مدرسہ قاسم العلوم ٹنڈوآدم روڈ میرپورخاص میں داخلہ لیا، جہاں ابتدائی فارسی اور عربی کے قواعد سے تعلیم شروع کی، انکے اساتذہ کرام عمومًا دیوبند مکتب فکر کے حامل تھے،جن میں سے چند کا تذکرہ حسب ذیل ہے۔
۱۔مولانا غلام قادر مرّی پھلڈیوں سانگھڑ والے جن سے مولانا طاھر نے ابتدائی کتب فارسی کے قوائد، پہلی فارسی، کریما،نامہ حق،پندنامہ وغیرہ پڑھیں۔
۲۔مشہور مصنف،اسلامی اسکالر، پروفیسر مولانا حکیم امیرالدین مہر حفظ اللہ تعالی سابق ڈائریکٹر الدعوۃ اکیڈمی اسلام آبادسے بھی باقائدہ ترجمۃ القرآن ،اور عربی گرائمر صرف و نحو اور ادب کی کتب پڑھیں۔
۳۔مولاناعطاء اللہ خاصخیلی ٹنڈو آدم والے سے آپ نے صرف ، نحو،باالحضوص علم الصّیغہ مین مثالی مہارت تامہ حاصل کی۔
۴۔مولانا سعیداحمدخان مکرانی وغیرہ سے بھی عربی اور فارسی کتب پڑھیں جن میں اخلاق محسنی، گلستاں و بوستاںسعدی اور ’مالابدمنہ‘شامل ہیں۔
۵۔مولانا سید احمدسعید وغیرہ سے بھی عربی فارسی کا مروّجہ کورس پڑھا، واضح رہے کہ اس دور میں مدارس اسلامیہ کے کورس میں فارسی بے حد ضروری تھی چونکہ ایک عالم دین کا فارسی سے جھل بھت سارے علوم فنون اور معلومات کے خزینہ سے محروم کر دیتا ہے، اس زمانہ میں تو عربی گرائمر بھی فارسی کتب میں پڑھائی جاتی تھی مثلا مشہور کتاب ارشاد الصرف اور اس کی شرح وغیرہ بے انتہا علمی افادیت کی حامل تھی ، (جیسا کہ خود راقم الحروف نے دو سال تک مدارس اسلامیہ میں فارسی مکمل کی کہ پھر منشی فاضل کا امتحان پاس کیا) بھرحال مروجہ نصاب کو
مکمل کرنے کے بعد مولانا ذوالفقار علی طاہرنے تقریبا
ایک برس تک مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث لیاقت کالونی (گھمن آباد) حیدرآباد میں محنت وعرق ریزی سے عربی کی ابتدائی جماعت پڑھی جہاں انہیں فضیلۃ الشیخ حافظ محمد ایوب صابر ،مولاناعبدالغفور رئوف ،شیخ شبیر احمد ،شیخ محمد ذکریاوغیر ہم جیسے با وقار اساتذہ کرام سے کتب کماحقہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔جس کے بعد ۱۹۸۸ء میں آپ نے عربی کی جماعت دوئم کے لیے کراچی کی قدیم علمی ادبی اور باوقار دینی درسگاہ جامعہ دارالحدیث رحمانیہ سفید مسجد سولجر بازار میں داخلہ لیا جہاں سے بفضل اللہ تعالیٰ بقیہ علوم وفنون کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر ۱۹۹۴ء میں فضیلۃ الشیخ علامہ عبدالخالق رحمانی رحمہ اللہ تعالی جیسے اور فضیلۃ الشیخ علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی جیسے محدث العصر علمی شخصیات سے دستار فضیلت و سند فراغت حاصل کی انکو اپنی پوری جماعت میں اوّل پوزیشن ملی جس کے باعث انعام و اکرام کے مستحق ٹھہرے، جہاں پر آپ نے اپنے وقت کے کئی جلیل القدر عُلمائے عظام سے اکتساب علم کیا تھا، مثلًا استاد العُلماء علامہ عبد اللہ ناصر رحمانی سے الفیہ ابن مالک،شرح نخبۃ الفکر ، جامع ترمذی، سنن نسائی اور صحیح البخاری جلد دوئم وغیرہم جیسی کلیدی کتب پڑھیں، ان کے علاوہ دیوبندی عالم دین مولانا غلام رسول سے دستورالمبتدی،اصول شاشی، قدوری، ھدایہ، شرح جامی کے علاوہ تفسیر جلالین و تفسیر بیضاوی جیسی اہم کتب بھی پڑھیں، اسی ادارے میں میرے دیرینہ دوست، مرحوم مفتی محمد صدیق رحمہ اللہ تعالی جیسی فاضل شخصیت سے آپ نے شرح تہذیب، مولانا امان اللہ ناصر سے حجۃ اللہ البالغہ ، سید محمد شاہ سے سنن ابو دائود، الشیخ عبدالمجید سادھوی سے بلوغ المرام، شیخ افضل سردار سے مشکٰوۃ المصابیح (مکمل) فضیلۃ الشیخ محمد دائود شاکرحفظہ اللہ تعالیٰ سے معلم الانشاء، مقامات حریری، استاد العُلماء مولانا عبدالرحمن چیمہ، جیسی قد آور شخصیت سے کافیہ پڑھی، مزید فضیلۃ الشیخ محمد افضل اثری حفظہ اللہ تعالیٰ سے مرقاۃ، علم الصّیغہ، شرح مئۃ عاملہ، ھدایت النحو، سنن ابن ماجہ، صحیح مسلم جلد اوّل و دوئم، صحیح البخاری جلد اوّل جیسی گرانقدر علمی کتب پڑھنے کی سعادت حاصل کی، اس طرح مولانا ذولفقار علی طاھر نے فراغت کے بعد ایک سال تک مشہور علمی ادارے جامعۃ الاحسان کراچی اور چار سال تک جامعہ دارالحدیث رحمانیہ میں فن تدریس کے فرائض بحسن و خوبی سرانجام دیئے، اسی دوراں آپ نے وفاق المدارس السّلفیہ سے شھادۃ العالمیہ اور کراچی یونیورسٹی سے ’مولوی فاضل عربی‘بھی پاس کر لیا، سچ ہے
کلیوں میں سینے کا لہُو دے کرچلا ہوں
صدیوں مجھے گلشن کی فضا یاد کرے گی
حسن اتّفاق سے مولانا ذوالفقار علی طاھر نے اپنی پیدائش کے پورے بیس ۲۰ سال کے بعد ۴ مارچ ۱۹۹۲ء کو اپنی خالہ کی بیٹی سے شادی کی جس سے اﷲ تعالیٰ نے انکو دو فرزند عطافرمائے ۔
۱۔زبیر ۲۔زھیر جو بھی طالب علمانہ کاوشوں میں مصروف عمل ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنے والد کا جا نشیں بنائے مولانا طاھر اپنے خانداں میں پہلے فرد تھے جس نے مدارس اسلامیہ سے علوم و فنون میں تکمیل کرکے اپنے علاقہ میں کتاب و سنت کی دعوت دی،
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
۱۹۹۹ء میں سندھ کے بطل جلیل فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی کے حسن انتخاب پر الجامعہ المعھد السلفیہ للتعلیم و التربیہ کراچی میں ایک باوقار استاد اور محسن منتظم کے عہدے پر مولانا طاہر فائز ہوئے، پھر یہ اشاعت کتاب وسنت کا سلسلہ پورے انیس سال تک باقاعدہ جاری رہا ، تا آنکہ مولانا طاھرنے جاں جانِ آفریں کے حوالے کی ، آپ ہمیشہ تواضع للّہ کا عکس نظر آیا کرتے تھے،مزید یہ کہ مؤقر ماہنامہ دعوت اہلحدیث کے اردو شمارے کی ادارت بھی یکم ستمبر ۲۰۱۰ء سے تادم واپسی باقاعدہ مولانا طاہر کی زیرنگرانی رہی ،مولانا طاہر کے سانحہ ارتحال سے ویسے تو پوری جماعت تنہاہوگئی لیکن مؤقر دعوت اہلحدیث جامعہ المعھدالسلفیہ اور علامہ عبداللہ ناصر رحمانی اپنے عزیز القدر رفیق سے محروم ہوگئے۔
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسووہ خواب ہیں ہم
(شاد عظیم آبادی)
مولانا ذوالفقار علی طاہر بیک وقت ایک بہترین داعی، مؤثر خطیب، مثالی مدرس و منتظم ،جمعیت اہلحدیث کی مجلس مشاورت کے ممبر ،سندھ کے ناظم امتحانات اور مؤقر دعوت اہلحدیث کے مدیر شہیر تھے، انہوں نے خصوصًا فن تدریس میں گرانقدر خدمات سرانجام دیں، ’دعوت اہلحدیث‘ کے پر مغز اداریے، جاندار محققانہ مضامین، مقالات علمیہ، حالات حاضرہ سے باخبر رہ کر بھرپور بے لاگ تجزیئے، شذّرات علمیہ کے علاوہ جب بھی کسی معاصر نے بلاوجہ طائفہ منصورہ، مسلک اہلحدیث اور کتاب و سنت کے خلاف لکھا تو مولانا طاھر مرحوم نے بروقت بھرپور علمی تعاقب کرتے ہوئے کلمۃ الحق کا فریضہ سرانجام دیا، مختصرًا آپ لایخافون لومۃ لائم کے پیکر تھے۔
کہتا ہوں وہ ہی بات سمجھتا ہوں حق جسے
میں زہر ھلاھل کوکبھی کہہ نہ سکا قند
مولانا طاھر صاحب طلباء کی تعلیم و تربیت پر بھرپور توجہ دیا کرتے تھے، اسباق کی باقائدگی کے متعلق ہمیشہ متفکر رہا کرتے تھے، وہ پہلے خود وقت کی پابندی کرتے پھر اوروں کو کہتے، اس بات کی گواہی آج بھی علماء و طلباء دیتے ہوئے نظر آتے ہیں، مولانا طاھر کا طریقہ تدریس انتہائی جاندار ، پروقار،مدلّل،علمی انداز میں سہل، عام فہم، مختصر مگر سحّرانگیزہوا کرتا تھا، مشکل موضوعات کو بھی احسن انداز سے طلباء کو ذہن نشین کرادیا کرتے تھے،جامعہ کے پورے عملے سے انکا انتہائی مشفقانہ رویہ رہا، آپ طلباء کے سامنے اٹھتے بیٹھتے صورت و سیرت میں اپنے اکابر اسلاف کی جیتی جاگتی تصویر نظر آتے تھے، مولانا ذوالفقار علی ویسے تو معقولات و منقولات میں مہارت تامہ رکھتے تھے، تاہم الجامعہ المعھد السلفیہ للتعلیم و التربیہ میں انکے حوالے جو اسباق ہوا کرتے تھے ان میں تفسیر جلالین، صحیحین، مؤطا امام مالک سنن اربعہ، مشکٰوۃ المصابیح،شرح نخبۃ الفکر، حجۃ اﷲ البالغہ، فصول اکبری، ھدایت العبرات وغیرہ شامل تھیں، جن سے طلباء خوب استفادہ کیا کرتے تھے۔
آہ!آج جامعہ المعھد السلفیہ کے ہونہار تلامذہ اپنی کتابیں کھولے دارالتدریس میں اپنے محسن مرّبی استاد المکرم کے علمی فیوض و برکات سے استفادہ کے لیے نمناک آنکھوں سے چشم براہ ہونگے، لیکن یہاں سے جانے والے بھی کبھی واپس لوٹے ہیں؟ عرصہ تک طلباء ان کو بھول نہ پائیں گے،
دستک ہوئی دوڑ کے دہلیز تک گیا
باہر ہوا کا شور تھا، چہرہ اتر گیا
مولانا طاھر اتباع سنت کا حد سے زیادہ اہتمام کیا کرتے توحید و سنت کو اپنے لیے متاع گرانمایہ سمجھتے تھے، سچائی، سادگی، کفایت شعاری، عاجزی، فروتنی، انکساری اور رواداری انکا شعار تھا، کُن فی دنیا کأنک غریبٌ او عابر سبیلٌ کا آپ مظہر تھے۔
جس سے زینت تھی چمن کی پھول وہ مرجھا گیا
گلشن علم و عمل پر چھا گئی اک دم خزاں
ویسے تو انکے تلامذہ انکے دروس علمیّہ سے استفادہ کرنے والے لاتعداد تھے تاہم چند علماء کرام کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں۔ حافظ عبدالمالک مجاھد، مولانا حزب اﷲ بلوچ، حافظ محمد شعیب سلفی، حافظ عبداﷲ شمیم، حافظ محمد عثمان صفدر، حافظ فاروق کمبوہ ، حافظ اصغر محمدی، حافظ عبدالرحمٰن محمدی،حافظ حبیب احمد ثاقب،شیخ عبدالصمد مدنی حفظہم اللہ جیسے لاتعداد علمائےکرام شامل ہیں ۔
میری ویسے تو مولانا طاہر سے دیرنیہ دوستی تھی لیکن چند سال قبل جامع بدیع العلوم مٹھی کے امتحانات سے فارغ ہوکر انہوں نے ایک دن اور رات ’خاکسار‘ کے غریب خانے کو رونق بخشی پھر پورا وقت کتابوں اور راشدی برادران کے متعلق یادوں کے ساگر موضوع بحث آتے گئے پھر اتنا خوش ہوئے کہ ناچیز اور میری لائبریری پر ایک بھرپور اداریہ لکھ ڈالا، آپ نے دو مرتبہ ۲۰۱۳ء اور ۲۰۱۵ءمیں عمرے کی سعادتیں حاصل فرمائیں، انکی غربت، سادگی، بے سروسامانی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب انکا ایکسیڈنٹ میں اچانک انتقال ہوا تو ایک گاڑی میں ہی اہل خانہ،گھر کا مختصر سامان، چند کھانے کے برتن،ایک دو ٹین کی پیٹیاں اور اوڑھنے بچھانے کے لیے رلیاں تھیں۔
ایک ایک کر کہ ستاروں کی طرح ڈوب گئے
ہائے کیا لوگ میرے حلقہ احباب میں تھے
مولانا طاھر دل آویزاں اور سحّر انگیز شخصیت کے مالک تھے، وہ بیک وقت مخلص دوست، مثالی داعی، ممتاز قلمکار، انشاپرداز، بہترین مترجم، باکردار معلم، نفیس مرّبی تھے، میں نے ہمیشہ انکو نہایت اختصار، جامعیت، پر مغز، معقولیت کے ساتھ حقیقت پسندانہ، جامع، مدلل اور محتاط گفتگو کا عادی پایا۔
کچھ ایسے بھی اٹھ جائیں گے اس بزم سے
جن کو تم ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے
میں نے انکو افکار علوم اسلامیہ کے ساتھ، حالات حاضرہ کی حسّاسیت اور نزاکتوں سے بھی خوب واقف پایا، دینی تڑپ رکھنے والے جماعتی احباب کے وہ نہ صرف قدردان تھے بلکہ دوسروں کے جذبات و نظریات احساسات کی قدر کرنے کے فن سے بھی شناسا تھے، وہ روبرو ہوں، فون پر ہوں، خط و کتابت سے مخاطب ہوں مگر ہمیشہ محبت، مئودت، شفقت، عزت اور اپنائیت کے فن سے متصّف نظر آتے تھے، میں نے مدت مدید سے انکو باہمی اعتماد، بردباری، تحمّل مزاجی، فہم و فراست میں مثالی انسان پایا۔
مٹ چلے میری امیدوں کی طرح حرف مگر
آج تک تیرے خطوط سے تیری خوشبو نہ گئی
(اختر شیرانی)
وہ مادری زبان سندھی ہونے کے باوجود اردو مبیّن کی نزاکتوں سے بھی شناسا تھے وہ پوری حیاتی اپنے اصولوں پر کار آمد رہے لیکن کبھی بشری تقاضا کے تحت اگر کوئی کمی بیشی رہ جاتی تو مطلع ہونے پر ایک لمحہ بھی اعتراف میں تاخیر نہیں کرتے تھے، وہ شدید مخالفت میںبھی مغلوب الغضب ہونے کےمرض سے مبرّا تھے، مولانا طاھر کو نابغہ روزگار علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ اور فضیلۃ الشیخ علامہ عبداﷲ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی خصوصی تربیت، توجہ، محبت واعتماد نے ایک معتدل مزاج بلند پایہ عالم بنا دیا تھا ان مایہ ناز شخصیات کی تربیت و شفقت سے آپ ایک تراشا ہوا ہیرہ محسوس ہوتے تھے، انکے اچانک سانحہ ارتحال سے پوری جماعت کا ناقابل تلافی نقصان ہوا۔
اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہوجائے
مختصرا آپ صالحہ صفت ، راست باز، وضع دار، مہذب، شائستہ اور دھیمہ لہجہ کے مالک تھے، انکے جاننے والے بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ضرورت سے زیادہ عامیانہ گفتگو سے ہمیشہ احتراز کیا کرتے، صاف گو سیدھے سادے متقی پاکیزہ اوصاف ،عبادت گزار انسان تھے، کبھی انکو کسی سے حسّد کرتے نہیں دیکھا، وہ دوسروں میں ہمیشہ حسنِ ظن رکھا کرتے تھے، وہ کسی زندہ یا انتقال شدہ مسلمان بھائی کی غیبت، عیب جوئی، تعصّب اور کردار کشی سے کوسوں دور رہتے، ورنہ موجودہ دور میں ایسی زندگی گذارنا بیحد مشکل ہے، بلکہ یہ اوصاف اب ’عنقا‘ ہوتے نظر آتے ہیں،
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
( ثاقب لکھنوی)
مولانا ذوالفقار علی طاھر خالصتًا علمی ذوق کے حامل بزرگ تھے، ان کا علوم قرآنی و احادیث رسول ﷺ سے بے انتہا شغف تھا بلاشبہ آپ ان عُلمائے عظام میں سے تھے جن کا اوڑھنا بچھونا اتّباع سنت تھا، ایسے اصحابِ علم و فضل اقوام میں مدتوں کے بعد جنم لیتے ہیں، آپ نے پوری حیاتی سوز دل سے فکر و نظر کے چراغ روشن کیئے انکی یادیں اور باتیں زبانوں کو حلاوت اور نگاہوں کو بصیرت عطا کرنے والی تھیں،
سالہا زمزمہ پرواز جہاں خواھد بود
زاین نواھاکہ دراین گنبد گردن زدہ است
مولانا ذوالفقار علی طاھر کو مرحوم لکھتے ہوئے قلم کانپتا ہے دل دکھتا ہے، انکی شیرین یادوں اور باتوں سے دل لبریز ہے، جب بھی ان سے ملاقات ہوتی تو انکی آنکھوں میں تبسّم چہرہ پھول کی طرح کھِل اٹھتا اور پھر ہمیشہ کی طرح رنگ آشنائی سے نوازتے لیکن خالقِ کائنات کے فیصلے کے سامنے کسی کو چوں و چراں کی مجال ہے؟ کلُّ مَن عَلیھا فَانٌ‘ مولانا طاھر اپنے لاکھوں چاہنے والے محبت کرنے والے طلباء، اساتذہ، عُلماء، عامۃ الناس، اعزہ اقرباء اور قریبی رشتہ داروں کو دکھی دل چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے،
اے رونق ہائے محفل ما۔ رفتیدولے نہ ازدل ما
غم فرقت بھی کیا عجیب ہے جس سے جتنا تعلق خاطر ہوتا ہے اُتنا غم بھی زیادہ، ایسے لوگوں کی باتیں اور یادیں مدت تک تڑپاتی رہتی ہیںاور ایسے لوگ اب ملتے بھی کہاں ہیں؟
یا الٰہی! تیرہ عاجز مخلص بندہ تیرے حضور قیام و قُعود رُکوع سُجود سے سر جھکائے حاضر ہوا ہے اپنے جود و کرم سے انکی مغفرت فرما، انکی اگلی منزلوں اور مسافتوں کو آسان فرما، انکی لحد کو باغیچہ فردوس بنا، اور انکے پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرما، ہم سب کو جادہ مستقیم پر چلنے کے ساتھ تو اپنے پسندیدہ بندے بنا

۔ آمین یا ربَّ العالمین
الا یا ساکن القصر المعلٰی
ستُدفن عن قریب فی التراب
لنا ملک ینادی کل یوم
لدوا للموت وابنوا للخراب
۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے