فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ اِنَّا كَفَيْنٰكَ الْمُسْتَهْزِءِيْنَ الَّذِيْنَ يَجْعَلُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ فَسَوْفَ يَعْلَمُوْنَ وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَ كُنْ مِّنَ السّٰجِدِيْنَ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتّٰى يَاْتِيَكَ الْيَقِيْنُ (الحجر:94 تا99)

’’پس اس کا واضح اعلان کر دیں جس کا آپ کو حکم دیا جاتا ہے اور مشرکوں کی پروا نہ کریں بیشک ہم آپ کو مذاق کرنے والوں کے مقابلے میں کافی ہیں۔ جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بناتے ہیں عنقریب وہ جان لیں گے۔ بلاشبہ ہم جانتے ہیں یقیناً آپ کا سینہ ان کی باتوں سے تنگ پڑتا ہے۔ پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر یں اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جائیں اور اپنے رب کی عبادت کریں یہاں تک کہ آپ کے پاس یقین آجائے ۔‘‘
کفار کو انتباہ کرنے اور آپ کے دفاع کی ذمہ داری لینے کے بعد آپ کو مزید تسلی دینے کی خاطر ارشاد ہوتا ہے اے رسولe! ہم آپ کے حالات اور کیفیت کو بڑی اچھی طرح جانتے ہیںکہ کفار کے طعن و تشنیع اوراستہزا ء سے آپ کے دل کو غم اور تکلیف پہنچتی ہے۔ جب بھی آپ غم اور تکلیف محسوس کریں تو مشرکین کے طعن و تشنیع اوراستہزا ء کی طرف توجہ کرنے کی بجائے آپ اپنے رب کی حمد بیان کریں اور اس کے حضور سجدہ ریز ہو جائیں اور اپنے رب کی آخری دم تک عبادت کرتے رہیں۔ یہاں عبادت کے لیے’’ الیقین‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس سے اکثر مفسرین نے موت مراد لی ہے۔ انسان کو اپنی موت تک اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کی فرمانبرداری کرتے رہنا چاہیے۔ اس کو دوسرے الفاظ میں یوںفرمایا:

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (آل عمران :102)

’’اے صاحب ِایمان لوگو! ہر حال میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو یہاں تک کہ تمہیں موت بھی مسلمان ہونے کی حیثیت سے آئے۔‘‘
دوسرے مقام پر آپ کو یوں تلقین فرمائی گئی:

فَلِذٰلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا اُمِرْتَ وَ لَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنْ كِتٰبٍ وَ اُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمْ اَللّٰهُ رَبُّنَا وَ رَبُّكُمْ لَنَا اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَللّٰهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ

’’اس لیے اے محمدﷺ! آپ اسی دین کی طرف بلائیں جس کے لیے آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کریں ۔ اعلان کریں کہ اللہ نے جو کتاب نازل کی ہے
میں اس پر ایمان لایا، مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے
درمیان عدل کروں۔ اللہ ہی ہمارا اور تمہارا رب ہے۔ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے۔ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی ذاتی جھگڑا نہیں ’’اللہ‘‘ ایک دن ہم سب کو جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کو لوٹناہے۔‘‘(شورٰی: 15)
یہاں دین پر پکا رہنے اور اس میں شک وشبہ سے بچنے کے لیے چار باتوں کا حکم دیا گیا ہے ۔مسئلہ کی اہمیت کے پیشِ نظر باربار نبی اکرمeکو مخاطب کرتے ہوئے حکم ہوا ہے کہ آپ کو ان باتوں پر ہر حال میں توجہ دینا اوران پر قائم رہنا ہو گا:
1قرآن مجید اورپہلی کتابوں پر ایمان لانا۔
2حالات جیسے بھی ہوں دین پر استقامت اختیار کرنا۔
3لوگوں کی خواہشات کی پیروی سے اجتناب کرنا ۔
4حالات کی پروا کیے بغیر دین حق کی لوگوں کو دعوت دیتے رہنا۔
جس داعی میں یہ چار اوصاف پائے جائیں وہی عدل کی بات کر سکتا اور لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرسکتا ہے۔ نبی کریمeکی زبانِ اطہر سے عدل کا ذکر فرما کر یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جوکچھ میں تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں اس میں کسی کی حمایت اور مخالفت مقصود نہیں میں تو اسی بات کی دعوت دیتاہوں جو عدل پر مبنی ہے اور مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی کی دعوت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ ’’اُمِرْتُ لِاَعْدِ لَ بَیْنَکُمْ‘‘ کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے دین کے ساتھ اس لیے مبعوث فرمایا ہے کہ میں تمہارے درمیان دینی اوردنیاوی اختلافات اور معاملات میں عدل کے ساتھ فیصلہ کروں اگر تم اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہو تو ہمارے ساتھ جھگڑنے کی بجائے تم اپنا کام کرو اور ہمیں اپنا کام کرنے دو۔ کیونکہ ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں۔ نہ ہمارے اعمال کے بارے میں تمہیں پکڑا جائے گا اورنہ تمہارے اعمال کی بابت ہم پر کوئی گرفت ہوگی ۔اس کے باوجود تم جھگڑتے ہوتو یاد رکھو ! اللہ تعالیٰ ہم سب کو قیامت کے دن اکٹھا فرما کرسب کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا ۔ ہمیں تو ہر حال میں دین پر پکے رہنے کا حکم ہے اور لوگوں کی خواہشات کے پیچھے لگنے سے منع کیا گیا ہے۔

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ اَلَّا تَخَافُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّةِ الَّتِيْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(حٰمٓ السجدۃ:30)

’’یقیناًجن لوگوں نے کہا کہ ’’اللہ‘‘ ہمارا رب ہے اور اس پر قائم رہے یقیناً اُن پر ملائکہ نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ نہ ڈرو اور نہ غم کرو،بلکہ اُس جنت کے بارے میں خوش ہو جاؤ جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘
’’رَبُّنَا اللّٰہُ‘‘سے مراد یہ نہیں کہ بس انہوں نے ایک مرتبہ کہہ دیا کہ ہمارا رب ’’اللہ‘‘ ہے اور پھر اپنی مرضی کرتے رہے۔ اس کا معنٰی ہے کہ انہوں نے مرتے دم تک دل کی سچائی اورکردار کی گواہی سے ثابت کردکھایا کہ واقعی ہمارا خالق ،مالک ،رازق اورحقیقی حاکم صرف ایک ’’اللہ‘‘ ہے، وہ ہمارا معبود ہے اور ہم اسی کے بندے اورغلام ہیں ۔ ہمارا مال، جان، عزت و اقبال اسی کا دیا ہوا ہے اور اسی کے نام اورکام پر قربان ہوگا ۔اس بات کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان کیاگیاہے۔

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ لَا شَرِيْكَ لَهٗ وَبِذٰلِكَ اُمِرْتُ وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّ هُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ (الانعام:162تا 164)

’’فرما دیجیے کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اورمیری زندگی اورمیری موت ’’اللہ‘‘ کے لیے ہے جو جہانوں کا رب ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی بات حکم دیا گیا ہے کہ میں سب سے پہلے تابعدار بنوں۔ فرما دیجیے کہ کیا میں ’’اللہ‘‘ کے سواکوئی اوررب تلاش کروں؟حالانکہ وہ ہرچیز کا ’’رب‘‘ ہے۔‘‘

الٓم اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْا اَنْ يَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُوْنَ وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكٰذِبِيْنَ (العنکبوت: 1 تا3)

’’الف۔لام۔میم۔کیا لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دئیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے ہیں اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا حالانکہ ہم ان سے پہلے لوگوں کو آزما چکے ہیں ، ’’اللہ‘‘ ضرور دیکھے گا کہ سچے کون اور جھوٹے کون ہیں۔‘‘

عَنْ سُفْیَانَ بْنِ عَبْدِ اللہِ الثَّقَفِی قَالَ قُلْتُ یَا رَسُولَ اللہِ e قُلْ لِی فِی الإِسْلاَمِ قَوْلاً لاَ أَسْأَلُ عَنْہُ أَحَدًا بَعْدَکَ قَالَ قُلْ آمَنْتُ بِاللہِ فَاسْتَقِمْ)) (رواہ مسلم: باب جَامِعِ أَوْصَافِ الإِسْلاَمِ)

’’سیدناسفیان بن عبداللہ ثقفی فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسولe! مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتائیں جو مجھے آپ کے بعدکسی سے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ آپ نے فرمایا: ’’کہو کہ میں اللہ پر ایمان لایا اور اس پر استقامت اختیار کرو۔‘‘
استقامت کی دعا:

عَنْ أَنَسٍ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہ ِ  یُکْثِرُ أَنْ یَّقُوْلَ(( یَا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ فَقُلْتُ یَارَسُوْلَ اللہِ ! اٰمَنَّا بِکَ وَبِمَا جِئْتَ بِہٖ فَھَلْ تَخَافُ عَلَیْنَا قَالَ نَعَمْ إِنَّ الْقُلُوْبَ بَیْنَ إِصْبَعَیْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللہِ یُقَلِّبُھَا کَیْفَ یَشَآءُ)) (رواہ الترمذی:باب ماجاء أن القلوب )

’’سیدنا انس بیان کرتے ہیںرسولِ کریم  اکثر دعا کرتے ۔ اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر قائم رکھنا، میں نے عرض کی: اللہ کے رسولﷺ! ہم آپ پر اورآپ کی لائی ہوئی شریعت پر ایمان لائے۔ کیا آپ ہمارے بارے میں محسوس کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ہاں! دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جیسے چاہتاہے پھیر دیتا ہے۔‘‘

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ  أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ  کَانَ یَقُوْلُ ﴿یَا وَلِیَ الإِسْلَامِ وَأَہْلِہٖ ثَبِّتْنِیْ حَتّٰی أَلْقَاکَ﴾)) (رواہ الطبرانی)

’’سیدنا انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول  دعا کیاکرتے تھے کہ’’ اے سلامتی کے مالک اور اس کے اہل !مجھے اسلام پر ثابت قدم رکھنا یہاں تک کہ آپ سے آملوں ۔‘‘
جس طرح ظاہری دشمن کے مقابلے استقامت اور ثابت قدمی اختیار کرنے کا حکم ہے اسی طرح چھپے ہوئے ازلی دشمن یعنی شیطان کے ہتھکنڈوں کے مقابلے میں بھی ثابت قدم رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔

وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ اِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ (حٰمٓ السجدۃ:36)

’’اور اگر آپ شیطان کی طرف سے اُکساہٹ محسوس کریں تو اللہ کی پناہ مانگیں، اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘
مبلّغ بھی انسان ہوتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں دفاع کے لیے غیر ت اور غصّہ رکھا ہے۔
اگر انسان میں غیرت اور غصہ نہ ہوتا تو یہ اپنی عزت ،مال و جان کی کبھی حفاظت نہ کرسکتا۔ غیرت اور غصہ کا اظہا ر کرنا بعض مواقع پر لازم ہوجاتا ہے۔
لیکن کچھ مواقع ایسے ہیںجن میں غصہ کا اظہار فائدے کی بجائے نقصان کا باعث ثابت ہوتا ہے بالخصوص اگر داعی جذباتی اور جھگڑالو ہو تو فائدے کی بجائے اپنا اور دینِ حنیف کا نقصان کربیٹھے گا۔ طبیعت میں غصہ اور طیش آئے تو حکم ہے کہ’’اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھے ۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر بات سننے والا اور جاننے والا ہے، توجہ اور بار بار پڑھنے سے غصہ رفوہو جائے گا۔عربی میںعوذ چوپائے کے اس بچے کو کہتے ہیں جو ابتدائی ایّام میں چلنے کے قابل نہیںہوتا جس وجہ سے گِرتے اور لڑکھڑاتے ہوئے چل کر اپنی مامتا کے دودھ تک پہنچتا ہے۔مقصد یہ ہے کہ ’’اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘ پڑھنے والا اپنے آپ کو اس قدر بے بس سمجھ کر پڑھے اور اپنے رب سے پناہ طلب کریں۔

وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ وَاَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ يَّحْضُرُوْنِ (المؤمنون:97۔98)

’’دعاکریں کہ اے رب! میں شیاطین کے وسواسات سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اےمیرے رب !میں اس سے بھی تیری پناہ مانگتاہوں کہ میرے پاس شیطان آئیں ۔‘‘
شیطان داعی کوبرانگیختہ کرتاہے کہ وہ غصہ میں آکر برائی کا جواب برائی سے دے۔ لیکن حکم یہ ہے کہ داعی پوری کوشش کرے کہ وہ برائی کاجواب اچھائی کے ساتھ دے۔جہاں تک ذاتی معاملات کاتعلق ہےتو اس میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ مظلوم ظالم کے جواب میں کوئی بُری بات زبان پر لائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ لیکن تبلیغ کے میدان میں اس بات کی ہرگز اجازت نہیں کہ برائی کا جواب برائی سے دیا جائے بلکہ حکم ہے کہ اگر ایسے موقع پر طیش اور غصہ آئے تو شیطان کی انگیخت سے اپنے رب کی پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ شیطان چاہتا ہے مبلغ اور مصلح برائی کے مقابلے میں بُری زبان استعمال کرے اور اپنے مشن میں ناکام ہو جائے۔ اس نقصان سے بچانے کے لیے سرور دو عالم eکو اس دعا کی تعلیم دی گئی: ’’میرے رب! میں شیاطین کی اُکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
مبلّغ کو اپنی روحانی قوت میں اضافہ کرنا چاہیے۔
روحانی قوت ذکر و فکر اور قرآن مجید کی تلاوت سےپیدا ہوتی ہے۔ خاص کر تہجد میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن پڑھنا مبلّغ کی روحانی قوت اور بصیرت میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے۔

يٰاَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا نِّصْفَهٗ اَوِ انْقُصْ مِنْهُ قَلِيْلًا اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا (المزمل: 1۔4)

’’اے کپڑا اوڑھ کر لیٹنے والے رات کو کم قیام کیا کرو۔ آدھی رات یا اس سے کچھ کم یا اس سے کچھ زیادہ کر دیں، اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کریں۔‘‘
الرّسولe کے منصب کا پہلا تقاضا ہے کہ رسول اس وحی الٰہی کو یاد رکھے اور اسے لوگوں تک پہنچائے۔ یاد رکھنے کے لیے آپ کو تہجد پڑھنے کا حکم ہوا تاکہ ایک طرف قرآن مجید پر غور کرنے کا موقع ملے اور دوسری طرف آپ لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنے آپ پر ضبط کرنے کے عادی ہو جائیں کیونکہ تہجد کو اس کے تقاضوں کے ساتھ ادا کیا جائے تو آدمی کو اپنی طبیعت پر قابو پانا آسان ہو جاتا ہے۔
نبی کریمeچادر اوڑھ کر آرام فرماتھے کہ جبریلِ امین تشریف لائے اورانہوںنے سورۃ المزّمل کے پہلے رکوع پر مشتمل چند آیات تلاوت کیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بڑے ہی پیارے انداز میں نبی کریمeکو مخاطب فرمایا کہ اے کپڑا اوڑھنے والے رسول! پوری رات سونے اورآرام کرنے کی بجائے آدھی رات یا اس سے کم قیام کیا کرو بلکہ اس سے کچھ زیادہ کرو اور قیام میں ٹھہر ٹھہر کر قرآن مجید کی تلاوت کرو۔ یہاں قیام اللّیل کے دورانیہ کے لیے تین الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ آدھی رات یا اس سے کم یا اس سے کچھ زیادہ۔ آدھی رات یا اس سے کم کی اجازت اس لیے دی گئی تاکہ موسم اورطبیعت کا لحاظ رکھتے ہوئے پوری توجہ اوریکسوئی کے ساتھ رات کا قیام ہو سکے۔ تلاوتِ قرآن کابنیادی اصول یہی ہے کہ اسے پوری توجہ کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے۔ تہجد میں یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے کہ یہ وقت بڑا ہی سُہانا اور بابرکت ہوتاہے۔ اس میں قرآن مجید ٹھہر ٹھہر کر پڑھا جائے تو انسان کی طبیعت پر بڑے ہی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اہلِ علم نے ترتیل کا معنٰی یہ لیا ہے کہ جن آیات میں عذاب کا تذکرہ ہو تو ان میں اپنے رب سے ڈرنا چاہیے اوراس سے پناہ مانگنا چاہیے۔ جن آیات میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اوراس کی جنت کا ذکر ہو ان آیات کی تلاوت کرتے وقت اللہ تعالیٰ سے التجا کرنی چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ قرآن مجید کے احکام اور ارشادات پر بھی غور وفکر کرنا فرض ہے۔
مبلغ کا باعمل ہونا
اللہ تعالیٰ نے رسول مکرم e کو صرف مبلّغ اور معلّم ہی نہیں بنایا تھا بلکہ آپ کو لوگوں کے لیے بہترین نمونہ قرار دیا:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًا (الاحزاب:21)

’’حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے اللہ کے رسول کی زندگی بہترین نمونہ ہے،بشرطیکہ جو شخص اللہ اور یومِ آخرت کے بارے میں اُمید رکھتا ہو اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والا ہو۔‘‘
حکم ہوتا ہے کہ اے مسلمانو! اللہ کا رسولeتمہارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ خاص طور پر اس شخص کے لیے نمونہ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کی امید، آخرت کے حساب وکتاب پریقین اورہر حال میں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کویاد کرنے والا ہے ۔اس فرمان میں اُسوہ حسنہ سے مراد رسول اکرمeکی حیات طیبہ کا کوئی خاص پہلو مراد نہیں بلکہ امّت کے لیے آپ e کی پوری حیات مبارکہ عظیم اور حسین نمونہ ہے اس فرمان سے پہلے یہ بات واضح کی گئی ہے کہ:
حالات کتنے پرفتن ہوں مسائل اور مصائب کاطوفان سر سے گزرچکا ہو، مشکلات پہاڑوں کی مانند سامنے کھڑی ہوں ،کلیجہ حلق میں آکے اٹک چکا ہو اور بادِ مخالف طوفان کی شکل اختیار کر جائے، غربت اپنی انتہاء کو پہنچ جائے اور موت آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سامنے کھڑی ہو ان حالات میں بھی مسلمان کے لیے اسوۂ رسولeسے بڑھ کر کسی دوسرے کا اسوہ قابل عمل نہیں۔
اس نمونہ پر وہی شخص ایمان لائے گا اور عمل کرے گا جو اپنے رب کی ملاقات کی امید ،آخرت پر یقین اور اللہ تعالیٰ کو ہر وقت یاد کرتا ہے یعنی اس کی ذات اور احکام کا خیال رکھنے والا ہے۔ اسی اصول کی روشنی میں مسلمانوں کو بے عملی اور بد عملی سے بچانے کے لیے انتباہ فرمایا کہ ایک عالمِ دین اور داعی کے لیے ضروری ہے کہ وہ باعمل بھی ہو۔

يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ

’’اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے ہاں یہ بڑا گناہ ہے کہ وہ بات کہو جو تم خود نہیں کرتے۔ ‘‘(الصف:2۔3)
جس بات پر آدمی کا اپنا عمل نہ ہو اسے اس بات کی دعوت دوسروں کو نہیں دینی چاہیے کیونکہ اس سے ایک طرف دعوت دینے والے کا دوغلا پن ظاہر ہوتاہے اوردوسری طرف اس کے د وغلے پن کی وجہ سے اسلام کی سبکی کا پہلو نکلتا ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بڑا گناہ ہے اور ایسے شخص کی بات تاثیر کھو بیٹھتی ہے۔ اس لیے ایسے لوگوں کی مثال ایک ناپسندیدہ جانور کے ساتھ دی گئی ہے۔
ترجمہ:’’جن لوگوں کو توراۃ کا حامل بنایا گیا انہوں نے اس کو نہ اٹھایا ان کی مثال اس گدھے جیسی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اس سے بھی زیادہ بُری مثال ان لوگوں کی ہے جنہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلادیا اور اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘(الجمعۃ:5)
(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے