شبہ

ریاست کا بادشاہ امور حکومت سرانجام دینے کے لیے اپنے عملہ کو اختیار سونپتا ہے چنانچہ رعایا کا ضرورت کے وقت ان کی طرف رجوع کرنا بغاوت نہیں ؟ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے مقبول بندوں کے سپرد بھی کائنات  کا انتظام کیا ہوا ہے اس لیے ضرورت کے وقت ان سے امداد طلب کرنا جائز عمل ہے ۔

ازالہ :

پہلی بات اللہ تعالیٰ کو مخلوق سے تشبیہ دینا قطعاً درست نہیں دوسری بات یہ ہے کہ مخلوق کی قوت سماعت اور بصارت وبصیرت محدود ہے اسے نظام حکومت چلانے کے لیے عملہ کی ضرورت رہتی ہے جسے وہ اپنی طرف سے اختیار سونپتا ہے پھر وہ ان کی مدد سے رعایا کے مسائل حل کرتاہے۔ اللہ سمیع وبصیر اور قدیر ہے ، مخلوق دل میں یادکرے یا مسجد میں جاکر سجدہ کرے ، پہاڑ کی چوٹی پر یا سمندر کی تہہ  میں مدد طلب کرے اللہ تعالیٰ ان کی حرکات وسکنات کو دیکھ رہا ہے اور ان کی پکار کو سن رہا ہے بلکہ وہ ان کی مشکلات حل کر دیتاہے اسے کسی سہارے کی ضرورت نہیں پڑتی۔

بنی نوع انسان میں بلند مرتبہ وذوی وقار انبیاء کرام علیہم السلام کی جماعت ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی راہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا تاہم انہیں خدائی اختیارات نہیں دیئے بلکہ وہ ہر مشکل وقت میں رب سے ہی مدد طلب کرتے رہے۔ انبیاء کرام علیہم السلام سے معجزات کا ظہور اللہ کے حکم سے ہوتاتھا وہ ہمہ وقت قادر نہ تھے مثلاً سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ ملا اور وہ ہر دفعہ فرماتے ’’قُم بِإذنِ اللہِ ‘‘ نہ کہ یہ  کہتے کہ میرے حکم سے اٹھو، عیسائیوں نے کچھ عرصہ بعد انہی معجزات کی بنا پر ان کو الوہیت کے مقام پر پہنچا دیا نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو قرآن مجید کے ذریعے آپ ﷺ نے اعلان فرمایا

قَالَ اِنِّىْ عَبْدُ اللّٰهِ  اٰتٰىنِيَ الْكِتٰبَ وَجَعَلَنِيْ نَبِيًّا

’’ بچہ(سیدنا عیسیٰ علیہ السلام) بول اٹھا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھےنبو ت کے منصب پر فائز کیا ہے ‘‘ (مریم:30)

فرشتوں میں سے بعض کو فضیلت حاصل ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو اختیارات نہیں دیئے بلکہ ڈیوٹی عائد کی ہے مثلاً جناب میکائیل علیہ السلام کے ذمہ بارش برسانا ہے خشک سالی کے دوران لوگ بارش کے لیے میکائیل کو نہیں پکارتے کیونکہ وہ اللہ کے حکم کے تابع ہے وہ خود بارش برسانے پر قادر نہیں۔

نبی کریم ﷺ کے بعد محدثین کرام، آئمہ کرام اور اولیاء کرام نے دین اسلام کو سینہ بہ سینہ دوسری نسل تک پہنچایا اور ان کا تزکیہ نفس احسن انداز میں کیا وہ سب واجب الاحترام ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو خدائی اختیارات نہیں دیئے یہی وجہ ہے کہ ہمیں تلبیہ میں(لَا شَرِيكَ لَكَ)پڑھنے کا حکم ہے مگر اس کے ساتھ(إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ) ’’ہاں ! شریک ہے اور وہ بھی تو تیرا ہی ہے تو اس کا مالک ہے وہ خود کسی چیز کا مالک نہیں ‘‘ پڑھنا حرام ہے۔

شبہ

غیر اللہ سے مدد مانگنے کے ثبوت میں قرآن فرماتاہے

 اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ (الانفال:62)

’’اے نبی ﷺ ! آپ کو اپنی مدد اور مسلمانوں کے ذریعے قوت بخشی۔‘‘

پھر فرمایا :  يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَسْبُكَ اللَّهُ وَمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ (الانفال:64)

’’ اے نبی ﷺ! آپ کو اللہ اور آپ کے پیروکار مسلمان کافی ہیں۔‘‘

پھر فرمایا:ـ فَإِنَّ اللهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ

’’ رسول کے مددگار اللہ،جبریل اور متقی مسلمان ہیں بعد میں فرشتے ان کے مددگار ہیں۔‘‘(التحریم:4)

ازالہ

اللہ مسبب الاسباب ہے وہ جبریل ودیگر فرشتوں اور اہل ایمان کے ذریعے انبیاء کرام کی مدد کرنے پر قادر ہے آگ کی فطرت جلانا ہے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے شعلوں میں ڈالا گیا تو وہی آگ گلزار بن گئی کیوں؟ پانی کا کام ڈبونا ہے مگر اس نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بچپن میں پنگھوڑے کا کام کیا کیوں؟ دریائے نیل نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے لیے راستے بنادیئے لیکن فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کر دیا کیوں؟ بڑی مچھلی چھوٹے آبی جانوروں کو ہڑپ کرکے خوراک کا حصہ بنالیتی ہے لیکن اس نےسیدنا یونس علیہ السلام کو ذرہ بھر تکلیف نہ دی کیوں ؟ زمین وآسمان پر اللہ کی بادشاہی ہے اس کے حکم کے بغیر درخت کا پتہ بھی حرکت نہیں کر سکتا، اسی ہستی نے آگ کو گلزار بن جانے کا حکم دیا،پانی کو جھولنے کا حکم دیا سیدنا موسیٰ کو بچانے اور فرعونی لشکر کو غرق کرنے کا پانی کو حکم دیا، مچھلی کو حکم دیا کہ میرا یونس تیرا مہمان ہے اسے نقصان نہ پہنچے۔ نبی کریم ﷺ کی سیرت شاہد ہے کہ محبوب کبریاء ﷺ نے اللہ کے علاوہ کسی سے مدد طلب نہیں کی بلکہ اللہ سے مدد طلب کرتے رہے ، اللہ مسبب الاسباب نے جبریل،فرشتوں اور مومنین کے ذریعے ان کی مدد کرتا رہا ۔

شبہ

اولیاء اللہ سے مدد مانگنا جرم نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اور انبیاء کرام علیہم السلام نے مومنین سے مدد طلب کی ہے

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ    (محمد:7)

’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘

سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا

قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ (آل عمران : 52)

’’ مسیح نے کہا کہ کون ہے جو مدد کرے میری طرف اللہ کی، کہا حواریوں نے ہم مدد کریں گے اللہ کے دین کی۔‘‘

ازالہ :

اللہ تعالیٰ اور انبیاء کرام کا مومنین سے مدد طلب کرنے کا نظریہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے دراصل اللہ نے اپنے بندوں کو دار الامتحان میں کامیابی کے نسخے سے آگاہ فرمایا ہے ، اللہ قادر مطلق تو کلمۂ ’’کُن‘‘ کہہ کر ہر کام کرنے پر قادر ہے ، فرشتے اس کی حمد وتسبیح بیان کرتے ہیں اور ہمہ وقت خالق کے حکم کے منتظر رہتے ہیں انہوں نے اپنے رب سے اشارہ ملنے پر کفار کی بستیوں کو اُلٹ پلٹ کرکے تباہ وبرباد کر دیا ، کبھی حکم ملنے پر مومنین سے مل کر مشرکین سے لڑتے رہے وہ اللہ کے حکم کے پابند ہیں، فرشتوں کو بہکانے والا کوئی نہیں جبکہ شیطان انسان کے دل میں وسوسے ڈال کر گمراہ کرتاہے اللہ رحیم وکریم نے بنی نوع انسان کو صراط مستقیم پر گامزن کرنے کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث فرمائے جنہوں نے اللہ کےدین کو غالب کرنے کے لیے بے پناہ  جدوجہد کی،طاغوت اور اس کے چیلوں نے بھرپور مخالفت کی، اللہ سبحانہ وتعالیٰ چاہے تو مچھر کو حکم دے کر نمرود کا غرور خاک میں ملا دے اور دریائے نیل کو حکم دے کر طاغوتی چیلوں کو غرق کر دے ، وہ چاہے تو اپنے بندوں کو امتحان میں ڈال کر طاغوتی لشکر سے ٹکرادے اورامتحان  لے کہ کون ثابت قدم رہ کر اس کے نبی کا ساتھ دیتاہے؟

بلاشبہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا :

قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ (آل عمران : 52)

’’ مسیح نے کہا کہ کون ہے جو مدد کرے میری طرف اللہ کی ، کہا حواریوں نے ہم مدد کریں گے اللہ کے دین کی۔‘‘

اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی مدد کرنے کا مطلب اللہ کے دین کی نصرت ہے۔

اللہ ذوالجلال نے ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ اَقْدَامَكُمْ    (محمد:7)

’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کروگے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘

اس آیت میں بھی اللہ کی مدد کرنے سے مراد اللہ کے دین کی نصرت یعنی غلبۂ اسلام کی جدوجہد ہے، جن مسلمانوں نے انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ مل کر جہاد کیا موجودہ دور میں جدوجہد کررہے ہیں قرآن نے خوشخبری دی ہے کہ اللہ بھی ان کی دنیا وآخرت کی مشکلات کو حل کرنے میں مدد کرے گا۔

شبہ

تم منع کرتے ہو جبکہ اللہ نے مسلمانوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے ۔

عَلَي الْبِرِّ وَالتَّقْوٰى وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَي الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ (المائدۃ:2)

’’نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو گناہ اور ظلم وزیادتی میں امداد نہ کرو۔‘‘

ازالہ

اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے ، وہ ماں باپ کے سہارے کے بغیر بھی بچے کی پرورش کا بندوبست کرنے پر قدرت رکھتا ہے جس طرح اس بچے کو رزق فراہم کیا جو سمندر کی لہروں میں تیرتے ہوئے تختہ پر تنہا عورت کے ہاں پیدا ہوا تو اس کی ماں کی روح قبض ہوگئی تاریخ میں وہی بچہ بڑا ہوکر شداد کہلایا اور خدائی کا دعویٰ کرتارہا۔

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے بنی نوع انسان میں باہمی الفت ومحبت کا جذبہ بیدار کرنے کے لیے ایک دوسرے کا دست نگر بنایا بچپن میں بچہ والدین کی شفقت کا محتاج اور والدین بڑھاپے میں اولاد کے سہارے کے محتاج۔ اس طرح امتحان لینا مقصود ہے کہ آیا وہ دکھ ورنج اور نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ مدد وتعاون کرتے ہیں یا نہیں ؟

ایک شخص رات کے وقت درد کی شدت سے کراہ رہا ہو ، بچہ نہرمیں ڈوب رہا ہو ، دوکان میں اچانک آگ بھڑک اُٹھی، سڑک پر حادثہ رونما ہوا، زلزلہ کی وجہ سے لوگ ملبہ کے نیچے دب گئے ، سیلاب کے ریلے نے بستی کے باشندوں کو گھیر لیا ہو ان ناگہانی مواقع پر اللہ تعالیٰ آزماتاہے اُن لوگوں کو جنہوں نے مفلوک الحال لوگوں کی چیخ وپکار کو سن لیا یا دل خراش منظر کا چشم دید مشاہدہ کر لیا کہ وہ ان مظلوم لوگوں کی حتی المقدور مدد کرتے ہیں یا کنارہ کشی کرتے ہیں ؟

اگر کوئی مدد کرتا ہے معاشرے میں سماجی کارکن بننے کے شوق میں یا الیکشن کے دوران ووٹ کی پرچی کے لیے یا مستقبل میں ذاتی مفاد کے لیے تو یہ ریاکاری ہوگی اگر کوئی انسان مظلوم انسانوں کی مدد کرتاہے اور جانوروں پر رحم کرتاہے صرف اللہ کی رضا وخوشنودی کے لیے تو اللہ تعالیٰ اس پر راضی ہوجاتاہے اور اس کے کاموں میں مدد کرتاہے۔

بنی اسرائیل کی فاحشہ عورت نے گرمی کی شدت میں تڑپتے کتے پر ترس کھاتے ہوئے  پانی پلایا تو اللہ کی مدد سے وہ ہدایت کی نعمت سے سرفراز ہوگئی۔ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اللہ کے حکم کی تعمیل ہے اور برائی کے کاموں میں مدد کرنا طاغوت کو تقویت دینے کے مترادف ہے۔

شبہ

اولیاء کرام اور انبیاء کرام علیہم السلام سے مدد مانگنا جائز ہے قرآن مجید میں ہے

وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ (البقرۃ:23)

’’ اللہ کے سوا اپنے سارے حمایتیوں کو بلالو۔‘‘

ازالہ

یہ قرآن ان تمام لوگوں کے لیے چیلنج ہے جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو الٰہ مانتے ہیں کہ تم سب اپنے حمایتیوں اور دوستوں کو بلا لو کہ اس قرآن کی ایک سورت ہی بنا کر پیش کر دیں یہ تونبی کریم ﷺ پر نازل ہونے والے زندہ وتابندہ معجزے کی حقانیت کی دلیل ہے۔ سلف میں کسی نے اس آیت سے نتیجہ اخذ نہیں کیا کہ مسلمان کسی مشکل میں پھنس جائیں تو وہ غیر اللہ کی حمایت میں غائبانہ پکار سکتے ہیں ، اولیاء اللہ اور انبیاء کرام علیہم السلام سے مدد مانگنا مذکورہ آیت سے ثابت کرنا قطعاً درست نہیں ۔

شبہ

حضرت ذوالقرنین نے آہنی دیوار بناتے وقت لوگوں سے مدد طلب کی  فَاَعِيْنُوْنِيْ بِقُــوَّةٍ (الکہف:95)

’’ مدد کرو میری ساتھ قوت کے ۔‘‘

ازالہ

حضرت ذوالقرنین فتوحات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے مشرق کی آخری آبادی پر پہنچے جہاں دو پہاڑ ایک دوسرے کے مد مقابل تھے ان کے درمیان کھائی تھی جس سے یاجوج ماجوج اِدھر آبادی میں آجاتے اور قتل وغارت کا بازار گرم کرتے ۔مقامی لوگوں نے ان کی دراندازی روکنے کے لیے حضرت ذوالقرنین سے درخواست  کیا تو انہوں نے دو پہاڑوں کے سروں کے درمیانی خلا میں دیوار تعمیر کا منصوبہ بنایا مگر اس شرط کے ساتھ کہ تم لوگ بھی دیوار تعمیر کرنے میں اسباب یعنی تعمیراتی سامان اور رجال کار کے ساتھ میری مدد کرو چنانچہ حضرت ذوالقرنین نے غیر اللہ سے غیبی قوت کی مدد طلب نہیں کی بلکہ ان سے ظاہری تعمیراتی اسباب کی مدد طلب کی ۔

شبہ

اللہ نے قرآن میں مسلمانوں کو حکم دیا

وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ(البقرۃ:45)

’’مدد طلب کرو ساتھ صبر اور نماز کے ‘‘۔ نماز اور صبر بھی تو غیراللہ ہیں۔

ازالہ

نماز اور صبر زندہ یا فوت شدہ کسی جن وانس کانام نہیں بلکہ نماز رب کے دربار میں عجز وانکساری کا عملی اظہار ہے اور صبر کا مفہوم مصیبت کے وقت رب کے فیصلہ پر رضا مندی کا مظہر ہے۔ قرآن کی دعوت کا منشا یہ ہے کہ خوشی میسر ہو تو رب کا شکریہ ادا کرنے کےلیے نفل پڑھو خدانخواستہ رنج پہنچے یا کسی مشکل میں مبتلا ہوجاؤ تو بے صبری کا مظاہرہ کرکے کسی غیر اللہ کے آستانہ پر حاضری یا نذرانہ دینے کی منت نہ مانو بلکہ صبر کا دامن تھام لو اور خشوع وخضوع سے نماز پڑھ کر رب سے مدد طلب کرو کیونکہ نماز اور صبر سے مدد طلب کرنا اللہ کا حکم اور نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔

شبہ

سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو تبلیغ کے لیے فرعون کے پاس جانے کا حکم ہوا تو عرض کیا

وَاجْعَلْ لِّيْ وَزِيْرًا مِّنْ اَهْلِيْ هٰرُوْنَ اَخِي اشْدُدْ بِهٖٓ اَزْرِيْ (طہ:29۔31)

’’ اے میرے رب !میرے بھائی کو نبی بنا کر میرا وزیر کر دے میری پشت کو ان کی مدد سے مضبوط کردے۔‘‘

ازالہ

سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے بھائی سے مدد طلب نہیں کی بلکہ رب کے سامنے دعا کی۔ دراصل سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے بندگی کا اظہار ہے کہ اے اللہ اکیلا ہونا تیری ذات کو سجتا ہے تو میرے بھائی کو نبوت سے سرفراز فرما تاکہ ہم دونوں مل کر فرعون کو حق کی دعوت دیں ۔

اعتراض

قرآن حکیم میں ارشاد ہے

اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰهَ يَنْصُرْكُمْ  (محمد:7)

’’ اگر مدد کروگے تم اللہ کے دین کی مدد کرے گا وہ تمہاری۔‘‘

اس میں خود رب تعالیٰ نے جو غنی ہے اپنے بندوں سے مدد طلب فرمائی ۔ رب تعالیٰ نے میثاق کے دن ارواح انبیاء سے نبی کریم ﷺ کے بارے میں عہد لیا

لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَلَتَنْصُرُنَّهٗ  (آل عمران :81)

’’ تم ضروربہ ضرور ان پر ایمان لانا اور ضروربہ ضرور ان کی مدد کرنا۔‘‘

ازالہ

ظہور قدسی سے قبل وعظ ونصیحت کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام مبعوث ہوتے رہے۔خاتم النبیین ﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہوگیا چنانچہ اللہ نے امت مسلمہ پر ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ دوسروں کو پیغام حق پہنچانے کے لیے وقت جان ومال کی قربانی دے کر مدد کریں جن لوگوں نے دین حق کی تبلیغ میں مدد کی اللہ نے دنیا وآخرت میں ان کی مدد کا وعدہ کیا ۔ یَنصُرکُم

اللہ نے عالم ارواح میں انبیاء کرام علیہم السلام سے وعدہ لیا کہ اگر تمہاری زندگی میں رسول آجائیں تو ان پر ایمان لے آنا اور دین کے غلبہ میں حتی المقدور ان کی مدد کرنا چنانچہ انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف سے کیے وعدہ کی تکمیل کے لیے قیامت کے قریب سیدنا عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے اور شریعت مصطفیٰ ﷺ  کے نفاذ کے لیے تمام ترصلاحیتیں صرف کریں گے۔

اللہ تعالیٰ نے اشاعتِ اسلام کے لیے سرگرم لوگوں کے لیے بے حد اجر وثواب کا اعلان کیا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر مثال پیش کرکے امت محمدیہ ﷺ کو تنبیہ فرمائی ہے

وَاِنْ تَظٰهَرَا عَلَيْهِ فَاِنَّ اللّٰهَ هُوَ مَوْلٰىهُ وَجِبْرِيْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِيْنَ ۚ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ ظَهِيْرٌ

’’اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کار ساز اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک ایماندار اور ان کے علاوہ فرشتے بھی مدد کرنے والے ہیں۔‘‘ (التحریم :4)

اللہ کے دین کے غلبہ کی جدوجہد کرنے والے انبیاء واولیاء کی نصرت کرنا حقوق اللہ کی ادائیگی ہے جبکہ زندہ انسانوں کا زندہ انسانوں کی مشکل ومصیبت کے وقت مدد کرنا حقوق العباد میں شامل ہےچنانچہ زندوں کا زندہ حاضر انسانوں کو مشکل ومصیبت کے وقت بلاناجائز ہے لیکن مافوق الاسباب طریقے سے اللہ کے علاوہ کسی اور کو غائبانہ مدد کے لیے پکارنا حرام ہے کیونکہ دعا اور نذر ونیاز خالص اللہ کے لیے ہے۔

اگر انبیاء کرام علیہم السلام کی روحیں مدد کرنے پر قادر ہوتیں تو بدر،احد اور حنین میں انبیاء کرام کی روحوں نے آکر عالم ارواح میں کیے ہوئے وعدہ کی تکمیل کرنے کے لیے مدد کیوں نہ کی؟

(جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے