نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :

هَلَكَ النَّاسُ فَهُوَ أَهْلَكُهُمْ (صحيح مسلم2623، سنن ابي داود:4983)

’’ جس نے یہ کہا لوگ برباد ہوگئے وہ ان سے زیادہ برباد ہونے والا ہے۔‘‘

حدیث مبارک سے پتہ چلتا ہے کہ ناامیدی کی بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ مؤمن کی یہ شان ہے کہ اس کی زندگی ورجاء(امید) کے درمیان گزرتی ہے ، رب کائنات نے اپنے بندوں کو اپنی رحمت کی امید دلائی ہے ۔ فرمایا

قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (الزمر:53)

’’(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی، بخشش بڑی رحمت والا ہے۔‘‘

جب تک امید کی ڈور انسان کے ہاتھ میں ہوتی ہے وہ فلک روشن ستاروں،زمین بھر کے شراروں،بحر ظلمات کے دھاروں،طوفانوں،اندھیروں سے بھی الجھ جاتاہے اور دنیا کی کوئی بھی رکاوٹ اس کے حوصلہ کو پست نہیں کر سکتی بلکہ وہ سمندر کے سینہ کو چیرتا ہے اس گہرائی میں لعل وگُہر تلاش کرتاہے ، ہواؤں اور فضاؤں میں اڑتا ہے،  پہاڑوں کی چوٹیوں کو سرکرتا ہے جب تک اس کے ہاں امیدوں کے چراغ روشن رہتے ہیںنتائج کو مقدر کے حوالے کرکے جہد مسلسل کرتا رہتاہے اس کے ارادے پختہ رہتے ہیں پاؤں منزل کی طرف گامزن رہتے ہیں اکیلا ہی اپنی دنیا وآپ پیدا کرنے میں لگا رہتاہے۔ آنکھوں کے بغیر زندگی گزاری جاسکتی ہےلیکن امید کے بغیر نہیں ، جب تک انسان کے دل میں امید کا دِیپک جلتا رہتاہے جس کو لوگ ناممکن سمجھتے ہیں اسے اپنے پاؤں تلے روندنے کی جدوجہد کرتا رہتاہے اور تپتے ہوئے صحرا میں کھڑا، فصل ،گل کے انتظار میں تپش کو کسی خاطر میں نہیں لاتا دین اسلام ہمیں امید،جہد مسلسل اور عمل پیہم کا سبق دیتاہے۔

دیکھیے ! جب کفار مکہ کا ظلم حد سے بڑھا تو نبی کریم ﷺ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو لیکر اللہ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت فرماتے ہیں مکہ سے نکل کر غارثور میں پناہ لیتے ہیں دشمنان دین تلاش کرتے ہوئےغار کے منہ پہ آکھڑے ہوئے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ شدت خوف سے روپڑتے ہیں کہتے ہیں اللہ کے رسول ﷺ اگر یہ اپنے پاؤں کی طرف دیکھتے ہیں تو ہم صاف نظر آجائیں گے۔

نبی کریم ﷺ کہتے ہیں کہ ان دو کے بارے میں تمہاراکیا خیال ہے جن کے ساتھ تیسرا اللہ ہے۔

رب کائنات نے اس کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا

اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا (التوبۃ:40)

’’جب آپ ﷺ اپنے ساتھی سے کہتے ہیں غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘

قرآن مجید میں جگہ جگہ ہمیں یہ پیغام ملتا ہے کہ اللہ کی

رحمت سے کبھی بھی ناامید نہیں ہونا چاہیے ۔ آیئے قرآن

مجید میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ پہ مختصرنظر ڈالتے

ہیں جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کی خاطر لیکر نکلتے ہیں اور فرعون اپنی فوج لیکر پیچھے آجاتاہے بنی اسرائیل والے کہتے ہیں (( اِنَّا لَمُدْرَكُوْنَ )) موسی اب تو ہم پکڑے گئے لیکن سیدنا موسیٰ علیہ السلام رب کائنات کی رحمت سے ناامید نہیں ہوتے بلکہ کہتے ہیں

كَلَّا اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ (الشعراء : 62)

’’ ہرگز نہیں ، میرا رب میرے ساتھ ہے۔‘‘

اللہ کے حکم سے آپ علیہ السلام نے بحیرہ قلزم میں ڈنڈا مارا اس میں شاہرائیں بن گئیں ۔ بنواسرائیل نے آسانی سے سمندر کو عبور کر لیا اور فرعون اور اس کی فوج کو غرق کر دیا۔

رب کائنات فرماتے ہیں کہ

وَاَنْجَيْنَا مُوْسٰي وَمَنْ مَّعَهٗٓ اَجْمَعِيْنَ  ثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِيْنَ    (الشعراء : 65۔66)

’’موسی اور اس کے ساتھیوں کو ہم نے بچالیا اور دوسرے گروہ کو وہاں غرق کر دیا۔‘‘

کبھی کبھی تاریکیاں اس قدر بڑھ جاتی ہیں ، ظلمت شب میں کچھ سجھائی نہیں دیتا لیکن اللہ کے بندے رب رحیم کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے ، دامنِ امید کو چاک نہیں ہونے دیتے ۔ بارگائہ الٰہی میں سحر ہونے کی دعائیں کرتے رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ غم رات آخر رات ہی تو ہے اندھیرے کے بعد اُجالا ، رات کے بعد سویرا ، غمی کے بعد خوشی، تنگی کے بعد آسانی، فراق کے بعد وصال اور رب کریم کے اس وعدہ پہ پختہ یقین ہوتاہے کہ

إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا(الانشراح:6)

’’ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ۔‘‘

سیدنا یعقوب علیہ السلام کی اپنے دو بیٹوں سیدنا یوسف علیہ السلام اور بنیامین کے غم فراق میں رو،رو کر آنکھوں کی بینائی چلی جاتی ہے لیکن اللہ کی رحمت سے نااُمید نہیں ہوتے، رب کائنات فرماتے ہیں کہ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے کہا

 اِنَّمَآ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ اِلَى اللّٰهِ (یوسف:86)

’’ میں اپنی پریشانی او رغم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا۔ ‘‘

رب کائنات فرماتے ہیں کہ پھر آپ اپنے بیٹوں کو مخاطب ہوئے

يٰبَنِيَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ يُّوْسُفَ وَاَخِيْهِ وَلَا تَايْـَٔـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ ۭ اِنَّهٗ لَا يَايْـــــَٔـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ   (یوسف:87)

’’میرے پیارے بچو! تم جاؤ اور یوسف (علیہ السلام) کی اور اس کے بھائی کی پوری طرح تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ۔ یقیناً رب کی رحمت سے ناامید وہی ہوتے ہیں جو کافر ہوتے ہیں ۔‘‘

آخر کار رحمت باری تعالیٰ جوش میں آتی ہے ، سیدنا یعقوب علیہ السلام کی رب کائنات بینائی بھی لوٹا دیتے ہیں اور دونوں بیٹے بھی مل جاتے ہیں۔

امید، عزم وہمت اور حوصلہ کا نام ہے ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا ۔

کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا

مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم

امید یہ ہے کہ شکست خوردہ بادشاہ ظہیر الدین بابر پے درپہ شکستوں کے بعد ناامید ہوکر ایک جنگل میں پناہ لیتاہے ، درخت کے سایہ کے نیچے بیٹھا گردش ایام کی تلخیوں کو یاد کر رہا ہوتاہے کیا دیکھتاہے چیونٹی درخت پہ چڑھنے کی بار بار کوشش کرتی ہے اور ہوا کا جھونکا اسے پھر نیچے پٹخ دیتاہےمگر ہمت نہیں ہارتی اور مسلسل کوشش کرتی رہتی ہے آخر کار چیونٹی درخت پر چڑھنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ ظہیر الدین کہتا ہے کہ یہ تو ایک کمزور چیونٹی تھی جو اپنے مشن میں کامیاب ہوکے رہی۔ مجھے دوبارہ ہمت اور کوشش کرنی چاہیے پھر سے اپنی بکھری ہوئی فوج کو جمع کیا اور ہندوستان پہ ایسے تابڑ توڑ حملے کیے کہ ہندوستان کی حکمرانی اس کے قدموں میں آگری اور وہ ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوا، ہمت مرداں مدد خدا۔

شوق برہنہ پہ چلتا تھا اور رستے پتھریلے تھے

گھستے گھستے گھس گئے آخر کنکر جو نوکیلے تھے

طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ جب اسلام قبول کر چکے تو دل میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ میرا قبیلہ دوس اگر اسلام قبول کرلے تو کتنا ہی اچھا ہے واپس قبیلہ میں جاتے ہیں اسلام کی دعوت دیتے ہیں لیکن کوئی بھی اس پہ لبیک کہنے کے لیےتیار نہیں ہوتا مایوس وناامید ہوکر رحمت عالم ﷺ  کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ میں دوس والوں کو اسلام کی دعوت دی لیکن انہوںنے قبول کرنے سے انکار کر دیا آپ ان کے لیے بددعا کریں لیکن آپ ﷺ رحمت خداوندی سے ناامید نہیں ہوئے فوراً ہاتھ اٹھاتے ہیں پاس بیٹھنے والے کہتے ہیں لو اب دوس والے ہلاک وبرباد ہوگئے لیکن آپ کہتے ہیں

اللَّهُمَّ اهْدِ دَوْسًا (صحیح البخاری:2937)

’’یا اللہ! دوس والوں کو ہدایت نصیب فرما۔‘‘

لہٰذا سارے کا سارا قبیلہ مسلمان ہوکر دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہوجاتاہے۔

امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اپنے استاد اسحاق بن راہویہ کے حلقۂ حدیث میں بیٹھا حدیث مبارکہ کا درس لے رہا تھا کہ وہ کہنے لگے کہ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ تم میں سے کوئی ایسا ہو جو صحیح احادیث نبویہ کا مجموعہ تیار کرے امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ

فَوَقَعَ فِي قَلْبِي (فتح الباري)

یہ بات میرے دل کو ایسی لگی کہ میں نے ارادہ کر لیا کہ میں ہی وہ شخص ہوں گا پھر امام بخاری نے    صحیح احادیث کا ایسا مجموعہ تیار کیا جس پر سب علماءِ امت کا اتفاق ہے کہ قرآن پاک کے بعد سب سے صحیح کتاب صحیح البخاری ہے۔

اس سے ہمیں یہ بھی سبق ملتاہے کہ ہمیشہ بچوں کو امید کا درس دینا چاہیے اور نہ ہی اس طرح کہنا چاہیے کہ تم لوگ کچھ نہیں کرسکتے خوامخواہ وقت ضائع کر رہے ہو۔

تربیت کا یہ بھی ایک اہم پہلو ہے کہ امید کی کرن دکھائی جائے حوصلہ افزائی کی جائے اس سے جذبے جوان ہوتے ہیں ۔ ایک دن شمس الدین محمد بن حمزہ عثمانی شہزادے محمد الفاتح کو حدیث کا سبق پڑھا رہے تھے جب اس حدیث پہ پہنچے

لَتُفْتَحَنَّ الْقُسْطَنْطِينِيَّةُ، فَلَنِعْمَ الْأَمِيرُ أَمِيرُهَا، وَلَنِعْمَ الْجَيْشُ ذَلِكَ الْجَيْشُ (مسند أحمد:18957، مستدرك للحاكم : 8300)

’’ تم قسطنطنیہ کو فتح کرکے رہو گے کتنا ہی اچھا اس کا امیر(سپہ سالار) ہوگا اور کتنی ہی اچھی وہ فوج ہوگی۔‘‘

اس حدیث کو پڑھانے کے بعد خلافت عثمانیہ کے اس شہزادے یعنی محمد الفاتح کو کہنے لگے میں اللہ سے امید کرتاہوں کہ تم ہی وہ امیر(سپہ سالار) ہوگے جو قسطنطنیہ کو فتح کرو گے۔ استاذ نے اپنے شاگرد کے دل میں امید کا ایسا چراغ جلایا کہ جس کو گردش ایام گُل نہ کرسکا اور پھر یہ نوجوان محمد الفاتح خلافت عثمانیہ کی مسند پہ بیٹھتا ہے استاذ کی کہی ہوئی بات کو اپنا مقصدِ حیات بنالیتاہے اور قسطنطنیہ موجودہ استنبول کو فتح کرکے نعم الامیر کا مستحق ٹھہرتاہے ۔

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیر ہے ساقی

سب مقصدوں کی سرتاج،آنکھوں کی ٹھنڈک، دلوں کی خویش،آرزوں کی جان، حوصلوں کی رہبر امید ہی تو ہے اگر امید کا لہلہاتا ہوا باغ ہمیشہ سرسبز وشاداب نہ رہے تو لوگوں کی زندگی اجیرن ہوجائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے