پیارے بچو! اب جہاں پر بیت اللہ بنا ہوا ہے یہاں ایک ٹیلہ تھا اور یہ ایک سنسان بیابان علائقہ تھا یہاں پہنچ کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام ماں بیٹے کو بٹھا کر پاس تھوڑی سی کھجوریں اور مشکیزہ پانی کا رکھ کر آپ چلے گئے جب خلیل اللہ نے پیٹھ موڑ کر جانے لگے توسیدہ  حاجرہ نے آواز دی اے خلیل اللہ ! ہمیں اس دہشت و وحشت والے بیاباں میں اکیلے تنہا چھوڑ کر کہاں تشریف لے جا رہے ہیں؟ لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ اس طرف توجہہی  نہیں کی ، منہ موڑ کر بھی نہ دیکھا سیدہ ہاجرہ کے بار بار کہنے پر بھی آپ نے التفات نہ فرمایا تو آپ فرمانے لگیں : اے اللہ کے خلیل ! آپ ہمیں کسے سونپ کر جا رہے ہیں ؟ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا : اللہ تعالیٰ کو ہی سونپ کر جارہا ہوں ! تو سیدہ ہاجرہ علیہاالسلام نے کہا : اے اللہ کے خلیل ! کیا اللہ تعالیٰ کا آپ کو یہ حکم ہے؟ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا : ہاں ! مجھے اللہ کا ہی حکم ہے یہ سن کر ام اسمٰعیل علیہ السلام کو تسکین ہوئی اور فرمانے لگیں : پھر تشریف لے جائیے وہ اللہ جل شانہ ہمیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا ہمارا اس پر بھروسہ اور ہمیں اسی کا ہی سہارا ہے ۔ حضرت ہاجرہ لوٹ گئیں اور اپنے کلیجہ کی ٹھنڈک اپنی آنکھوں کے نور نبی ابن نبی کو گود میں لے کر اس سنسان و بیابان علاقہ میں  لاچار اور مجبور ہو کر بیٹھ جاتی ہیں ۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام جب ثنیہ(جگہ کا نام ہے) کے پاس پہنچے اور یہ معلوم کر لیا کہ اب سیدہ ہاجرہ پیچھے دیکھ نہیںسکتیں اور وہاں سے یہاں تک ان کی نگاہ کام بھی نہیں کر سکتی تو بیت اللہ شریف کی طرف متوجہ ہو کر ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور کہا :

 رَبَّنَآ اِنِّىْٓ اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِيْ بِوَادٍ غَيْرِ ذِيْ زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ (ابراہیم:37 )

 الہ العالمین میں نے اپنے بال بچوں کو ایک غیر آباد زمین میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس چھوڑا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں تو لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور انہیں پھلوں کی روزیاں دے شاید وہ شکر گزاری کریں آپ اس دعا کے بعد اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہوکر اپنی اہل و عیال کو اللہ کے سپرد کر کے چلے گئے ادھر سیدہ ہاجرہ صبر و شکر کے ساتھ بچے سے دل بہلانے لگیں جب تھوڑی سی کھجوریں اور ذرا سا پانی ختم ہو گیا اب اناج کا ایک دانہ پاس ہے نہ پانی کا کوئی گھونٹ خود بھی بھوکی پیاسی ہیں اور بچہ بھی بھوک پیاس سے بیتاب ہے یہاں تک کہ اس معصوم نبی زادے کا پھول سا چہرہ کمھلانے لگا اور وہ تڑپنے اور بلکنے لگا مامتا بھری ماں کبھی اپنی تنہائی اور بےکسی کا خیال کرتی ہے تو کبھی اپنے ننھے سے اکلوتے بچے کا  یہ حال بغور دیکھتی ہے اور سہم جاتی ہے معلوم ہے کہ اس بھیانک جنگل میں کسی انسان کا گزر نہیں ہونا ، میلوں تک آبادی کا نام و نشان نہیں کھانا تو کیا؟ پانی کا ایک گھونٹ بھی میسر نہیں  آخر اس ننھی سی جان کا یہ ابتر حال نہیں دیکھا جاتا تو اٹھ کر چلی جاتی ہیں اور صفا پہاڑ جو پاس ہی تھا اس پر چڑھ جاتی ہیں اور میدان کی طرف نظر دوڑاتی ہیں کہ کوئی آتا جاتا نظر آ جائے لیکن نگاہیں مایوسی کے ساتھ واپس پلٹتی ہیں اور کسی کو نہ پا کر پھر وہاں سے اتر آتی ہیں اور اسی طرح درمیانی تھوڑا سا حصہ دوڑ کر باقی حصہ جلدی جلدی طے کر کے پھر صفا پر چڑھتی ہیں اسی طرح سات مرتبہ کرتی ہیں ہر بار آ کر بچہ کو دیکھتی ہیں جس کی حالت ساعت بہ ساعت بگڑتی جا رہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : صفا مروہ کی سعی جو حاجی کرتے ہیں اس کی ابتدا یہی سے ساتویں مرتبہ جب سیدہ ہاجرہ مروہ پر آتی ہیں تو کچھ آواز کان میں پڑتی ہے آپ خاموش ہو کر احتیاط کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتی ہیں کہ یہ آواز کیسی ہے ؟ آواز پھر آتی ہے اور اس مرتبہ صاف سنائی دیتی ہے تو آپ آواز کی طرف لپک کر آتی ہیں اور اب جہاں زمزم ہے وہاں حضرت جبرائیل کو پاتی ہیں سیدنا جبرائیل پوچھتے ہیں تم کون ہو؟ آپ جواب دیتی ہیں میں ہاجرہ ہوں  ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے لڑکے اسماعیل کی ماں ! فرشتہ پوچھتا ہے : ابراہیم تمہیں اس سنسان بیابان میں کسے سونپ کر گئے ہیں؟ سیدہ ہاجرہ علیہا السلام فرماتی ہیں : اللہ تعالی کو سونپ کر گئے ! اس پر جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: پھر تو وہ اللہ کافی و شافی ہے سیدہ ہاجرہ نے کہا : اے غیبی شخص آواز تو میں نے سن لی کیا میرا کچھ مسئلہ بھی حل ہو گا ؟ سیدنا جبرائیل علیہ السلام نے اپنی ایڑی زمین رگڑی وہیں زمین سے ایک چشمہ پانی کا ابلنے لگا ۔ سیدہ ہاجرہ علیہما السلام نے ہاتھ سے اس پانی کو مشک میں بھرنا شروع کیا مشک بھر کر پھر اس خیال سے کہ پانی ادھر ادھر بہہ کر نکل نہ جائے آس پاس باڑ باندھنی شروع کر دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اللہ ام اسمٰعیل پر رحم کرے اگر وہ اس طرح پانی کو نہ روکتیں تو زم زم کنویں کی مثل میں نہ ہوتا بلکہ وہ ایک جاری نہر کی صورت میں ہوتا اب سیدہ ہاجرہ نے پانی پیا اور بچہ کو بھی پلایا اور دودھ پلانے لگیں فرشتے نے کہا : تم فکر نہ کرو اللہ تمہیں ضائع نہیں کرے گا جہاں تم بیٹھی ہو یہاں اللہ کا ایک گھر اس بچے اور اس کے باپ کے ہاتھوں بنے گا سیدہ ہاجرہ اب یہیں رہ پڑیں زمزم کا پانی پیتیں اور بچہ سے دل بہلاتیں بارش کے موسم میں پانی کے سیلاب چاروں طرف سے آتے لیکن یہ جگہ ذرا اونچی تھی ادھر ادھر سے پانی گزر جاتاتھا اور یہاں امن رہتا تھا کچھ مدت کے بعد اتفاقاً جرہم قبیلے کا ادھر سے گزر ہوا اور یہ قبیلہ مکہ شریف کے نیچلے حصے میں اترا ان کی نظریں ایک آبی پرند پر پڑیں تو آپس میں کہنے لگے یہ پرندہ تو پانی کا ہے اور یہاں پانی کبھی نہ تھا ہماری آمدو رفت یہاں سے کئی مرتبہ ہوئی یہ تو خشک جنگل اور چٹیل میدان ہے یہاں پانی کہاںسے آیا؟ چنانچہ انہوں نے اپنے آدمی کو حقیقت معلوم کرنے کے لیے بھیجے انہوں نے واپس آ کر خبر دی کہ وہاں تو بہترین اور بہت سا پانی ہے اب وہ سب آئے اور سیدہ ہاجرہ علیھا السلام سے عرض کرنے لگے کہ مائی صاحبہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم بھی یہاں ٹھہر جائیں پانی کی جگہ ہےہم بھی اسکی ہی تلاش میں نکلے ہوئے ہیںسیدہ ہاجرہ علیہ السلام نے فرمایا : ہاں شوق سے رہو لیکن پانی پر قبضہ میرا ہی رہے گا ۔ حضورﷺ فرماتے ہیں : ہاجرہ تو چاہتی تھیں کہ کوئی ہم جنس مل جائے چنانچہ یہ قافلہ یہاں رہ پڑا سیدنا اسمٰعیل بھی بڑے ہوئے تو ان سب کو آپ سے بڑی محبت ہوئی یہاں جب آپ بالغ ہوئے تو انہی میں نکاح کیا اور انہی سے عربی بھی سیکھی سیدہ  ہاجرہ علیہالسلام کا انتقام یہیں ہوا جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے اجازت ملی تو آپ اپنے لخت جگر کی ملاقات کے لیے تشریف لائے بعض روایات میں ہے کہ آپ کا یہ آنا جانا براق پر ہوتا تھا ملک شام سے آتے تھے اور پھر واپس چلے جاتے تھے یہاں آئے تو سیدنا اسمٰعیل گھر پر نہ ملے اپنی بہو سے پوچھا کہ وہ کہاں ہیں؟ تو جواب ملا کہ کھانے پینے کی تلاش میں یعنی شکار کو گئے ہیں آپ نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ کہا : برا حال ہے بڑی تنگی اور سختی ہے فرمایا : اچھا تمہارے خاوند آئیں تو انہیں سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں ۔ سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ جب واپس آئے تو گویا آپ کو کچھ انس سا معلوم ہوا پوچھنے لگے کیا کوئی صاحب تشریف لائے تھے؟ بیوی نے کہا : ہاں ایسی ایسی شکل و شباہت کے ایک عمر رسیدہ بزرگ آئے تھے؟ آپ کی نسبت پوچھا میں نے کہا وہ شکار کی تلاش میں باہر گئے ہیں پھر پوچھا کہ گزارا کیسے ہوتا ہے؟ میں نے کہا بڑی سختی اور تنگی سے گزارا ہوتا ہے پوچھا : کچھ مجھ سے کہنے کو بھی فرما گئے ہیں؟ بیوی نے کہا : ہاں کہہ کر گئے ہیں کہ وہ جب آئیں تو انہیں میرا سلام کہنا اور کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں آپ فرمانے لگے : بیوی سنو! یہ میرے والد صاحب تھے اور جو فرما گئے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ( تم نے ناشکری کی ہے لہذا ) میں تم کو الگ کر دوں جاؤ میں نے تمہیں طلاق دے دی ہے انہیں طلاق دے کر آپ نے اسی قبیلہ میں اپنا دوسرا نکاح کر لیا ایک مدت کے بعد پھر سیدنا ابراہیم باذن الٰہی یہاں آئے اس بار بھی اتفاقاً سیدنا اسماعیل علیہ السلام سے ملاقات نہ ہو سکی بہو سے پوچھا تو جواب ملا کہ ہمارے لئے رزق کی تلاش میں شکار کو گئے ہیں آپ آئیے ، تشریف رکھئے جو کچھ حاضر ہے تناول فرمائیے ۔ آپ نے فرمایا : یہ بتاؤ کہ گزارا کیسے ہوتا ہے ؟ کیا حال ہے؟ جواب ملا الحمد للہ ہم خیریت سے ہیں اور بفضل رب کعبہ کشادگی اور راحت ہے اللہ کا بڑا شکر ہے سیدنا ابراہیم نے کہا تمہاری خوراک کیا ہے؟ کہا گوشت پوچھا تم پیتے کیا ہو؟ جواب ملا پانی آپ نے دعا دی کہ پروردگار انہیں گوشت اور پانی میں برکت دے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : اگر اناج ان کے پاس ہوتا اور یہ کہتیں تو سیدنا خلیل علیہ السلام ان کے لیے اناج کی برکت کی دعا بھی کرتے اب اس دعا کی برکت سے اہل مکہ صرف گوشت اور پانی پر گزر کر سکتے ہیں ۔ آپ نے فرمایا : اچھا میں تو جا رہا ہوں تم اپنے میاں کو میرا سلام کہنا اور کہنا کہ وہ اپنی چوکھٹ کو ثابت اور اباد رکھے بعد ازاں حضرت اسمٰعیل آئے سارا واقعہ معلوم ہوا آپ نے فرمایا یہ میرے والد مکرم تھے مجھے حکم دے کر گئے ہیں کہ میں تمہیں الگ نہ کروں ( تم شکر گزار ہو )

پیارے بچو!  ہمیں سیدنا ذبیح اللہ اسماعیل علیہ السلام کے اس عظیم قصے سے مندرجہ چند نصحتیں حاصل ہوئی ہیں ۔

1: اللہ تعالی کی آزمائش بچپن میں بہی آ سکتی ہے۔

2: اللہ عزوجل اپنے آزمانے والوں کو کبہی بہی تنہا نہیں چھوڑتے اور نہ ہی چھوڑیں گے۔

3:اللہ تعالی پر توکل کرنے والے کبھی بھی بھوکے اور پیاسے نہیں رہتے۔

4:صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔

5:مخلوق میں ماں کی محبت بے مثل ہے۔

6:مومنین و مومنات کی مدد کےلیے اللہ تعالی کی طرف سے فرشتے نازل ہوتے ہیں۔

7:(ہر حال میں بالخصوص) تکالیف مصائب میں اللہ تعالی سے دعا مانگنی چاہیئے۔

8:شکر گذاروں کا بہترین بدلہ ہے۔

9:ناشکری پر خطرناک سزائیں ہیں۔

10:والدین کی پوری طرح اطاعت کرنی چاہیئے، اگرچہ انکے کہنے پر بیوی کو طلاق دینی ہی پڑے۔

11:اللہ تعالی دعائیں ضرور اور جلد ہی قبولتے ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے