شبہ

قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے :

وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ   (البقرۃ:154)

’’جو اللہ کی راہ میں قتل کیے گئے ان کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم احساس نہیں کرتے۔‘‘

مذکورہ آیت کی روشنی میں شہداء زندہ ہیں چونکہ اس آیت میں لوہے کی تلوار کا ذکر نہیں اس لیے جو حضرات عشق کی تلوار سے مقتول ہوئے وہ بھی ان میں داخل ہیں اس لیے شہداء اور فوت شدہ اولیاء سے مدد مانگنا جائز ہے۔

ازالہ :

قابل غور پہلو یہ ہے کہ بلاشبہ شہداء زندہ ہیں تاہم ان کی زندگی کی نوعیت کیا ہے اور شہداء سے مددمانگنا جائز ہے یا نہیں؟ گزارش ہے کہ شہداء کی شہادت کا مرتبہ اس وقت حاصل ہوتاہے جب راہِ حق میں ان پر موت طاری ہوجاتی ہے اور ان کی ارواح کا تعلق دنیا سے منقطع ہوجاتاہے ، مولانا محمد احمد رضا خان مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’موت کے بعد ہی اللہ تعالیٰ شہداء کوحیات عطا فرماتاہے اور ان کی ارواح پر رزق پیش کیے جاتے ہیں۔‘‘

قرآن مجید کے دوسرے مقام پر فرمایا :

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ  (آل عمران:169)

’’ جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ خیال نہ کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور رزق دیئے جاتے ہیں۔‘‘

صاحب کنز الایمان نے شانِ نزول کے تحت لکھا کہ یہ آیت شہدائے اُحد کے حق میں نازل ہوئی ہے ، سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ جب تمہارے بھائی اُحد میں شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ارواح کو سبز پرندوں کے قالب عطا فرمائے وہ جنتی نہروں پر سیر کرتے پھرتے ہیں اور جنتی میوے کھاتے ہیں طلائی قنادیل جو زیر عرش معلق ہیں ان میں رہتے ہیں جب انہوں نے کھانے پینے اور رہنے کے پاکیزہ بالاخانے پائے تو کہا کہ ہمارے بھائیوں کو کون خبر دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں؟ تاکہ وہ جنت سے بے رغبتی نہ کریں اور جنگ سے بیٹھ نہ جائیں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں انہیں تمہاری خبر پہنچاؤں گا۔(ابو داؤد) اس سے ثابت ہوا کہ ارواح باقی ہیں جسم کے فنا کے ساتھ فنا نہیں ہوئیں۔(کنز الایمان) 

روزِ روشن کی طرح حقیقت ہے کہ شہداء کی روحیں جنت میں ہیں زمین میں ہرگز نہیں ، اگر زمین میں ہوتیں تو شہداء دوبارہ زمین میں آنے اور شہادت کا اعزاز حاصل کرنے کی آرزو نہ کرتیں جیسا کہ صحیح البخاری ، کتاب الجہاد میں ہے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’ جو شخص بہشت میں جاتاہے وہ پھر دنیا میں آنا پسند نہیں کرتا چاہے اسے ساری دنیا کی دولت ملے البتہ شہید دنیا میں آنے کی اور دس بار اللہ کی راہ میں قتل ہونے کی آرزو کرتاہے کیونکہ وہ شہادت کی عزت وہاں دیکھتاہے۔‘‘

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں وضاحت ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یہ تو ممکن نہیں ہے اس لیے کہ میرا فیصلہ ہے کہ یہاں آنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس

نہیں جاسکتا جنت میں سیر کرنے والی شہداء کی روحیں اپنا

پیغام اہل دنیا تک خود پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتیں تو وہ اہل دنیا کی پکار کو سننے اور مدد کرنے پر کس طرح قدرت رکھ سکتی ہیں؟ شہداء کی ارواح نے اپنا پیغام پہنچانے کے لیے اللہ سے التجا کی تو اللہ نے ان کی دعا کو قبول کیا چنانچہ ہمیں ہر مشکل وقت میں شہداء کی روحوں کی طرح اللہ سے ہی مدد مانگنی چاہیے اور راہِ حق میں شہید ہونے کی آرزو کرنی چاہیے۔ آپ کے بقول چھری یا عشق کی تلوار سے شہید ہونے والے انبیاء کرام واولیاء عظام کی روحیں مدد کرنے پر قادر ہیں تو جب بد ر کے میدان میں 313 نہتے مجاہدین کی ایک ہزار مسلح لشکر کفار سے مڈبھیڑ ہوئی اس وقت نبی کریم ﷺ نے سجدہ ریز ہوکر اللہ سے مدد طلب کی تو قادر مطلق نے آسمان سے فرشتے بھیجے غور طلب پہلو یہ ہے کہ انبیاء،شہداء اور اولیاء کی روحوں کو مدد کے لیے کیوں نہ بھیجا؟ 

مفسرین نے سورۃ البقرۃ آیت نمبر 154 اور آل عمران آیت نمبر 169 کی جو تفسیر کی ہے اس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔

ہر مرنے والے کو برزخ میں ایک خاص قسم کی حیات ملتی ہے جس سے وہ قبر کے عذاب یا ثواب کو محسوس کرتا ہے، شہید پر بھی موت طاری ہوتی ہے کیونکہ ان کی میراث تقسیم ہوتی ہے ان کی بیویاں دوسروں سے نکاح کر سکتی ہیں لیکن اس کی موت کو دوسرے مردوں جیسی موت سمجھنے سے منع کیاگیاہے کیونکہ شہید فی سبیل اللہ کا جسم باوجود گوشت پوست ہونے کے خاک سے متاثر نہیں ہوتابلکہ مثل زندہ جسم کے صحیح سالم رہتاہے۔

شہداء کو مردہ نہ کہنا ان کے اعزاز وتکریم کے لیے ہے چونکہ مردہ کہنے سے لواحقین اور ساتھیوں کے حوصلے فطری طور پر پست ہوجاتے ہیں اللہ علیم وخبیر نے شہید کو مردہ کہنے سے منع کیا کیونکہ اس سے مجاہدین فی سبیل اللہ کے جہادی جذبہ کےمدھم ہونے کا خطرہ لاحق ہوسکتاہے چنانچہ مسلمانوں کو ہدایت کی گئی کہ اللہ کی راہ میں جان دینے والے حقیقت میں ممتازِ حیات کے ساتھ زندہ ہیں لیکن تم اپنے موجودہ حواس سے اس حیات کا ادراک نہیں کرسکتے۔

کائنات میں ماں سے بڑھ کر کوئی شفیق رشتہ نہیں، ٹھٹھرتی رات میں بچہ اس کے پہلوؤں میں پیشاب کردے تو وہ اس کو سینے سے لگالیتی ہے کہ کہیں میرے بچے کو سردی نہ لگ جائے یہی بچہ لڑکپن میں جیب خرچ کے لیے بار بار ضد کرتاہے تو وہی ماں اُسے ٹوک دیتی ہے کہ ابھی تو میں نے بیس کا نوٹ دیاہے۔

سبحان اللہ! رب ذو الجلال ہی ایک وہ ہستی ہے جس سے نہ مانگو تو وہ ناراض ہوتاہے باربار طلب کرو، ہر چیز مانگو تو وہ دینے سے تھکتا نہیں بلکہ وہ اپنے بندے پر راضی ہوتاہے وہ ہزاروں میل کے فاصلے سے سن لیتاہے وہ دنیا کی ہر زبان سے واقف ہے بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ  کائنات میں بسنے والے اربوں جن وانس کی بیک وقت پکار سننے کی کمال قدرت کا مالک ہے اور اُن کی مشکلات حل کرنے پر بھی قادر ہے اور دست سوال پر سب کو دیتاجائے تو اس کے خزانہ میں کبھی کمی نہیں آتی۔ وہ نیند اور اونگھ کے عیبوں سے پاک ہے خدانخواستہ آپ بولنے سے قاصر ہیں ، دل میں فریاد کریں تو اللہ سن لیتاہے لہٰذا آپ غیر اللہ کے درپرسرجھکانے کی بجائے خالق کائنات سے رشتہ قائم کرکے دعاکریں۔

دعا مانگنا عبادت کا مغز ہے (ترمذی)

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ (المومن:60)

’’اور تمہارے رب کا فرمان ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعاؤں کو قبول کروں گا۔‘‘

چونکہ ’’اللہ غافل قلب والے کی دعا قبول نہیں کرتا‘‘ (ترمذی) چنانچہ دعا عزم اور یقین کے ساتھ خشوع وخضوع سے مانگو۔

 رب کا فرمان ہے : 

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ (البقرۃ:153)

’’ اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد مانگو ۔‘‘

 مزید فرمایا:

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِيْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لِيْ وَلْيُؤْمِنُوْابِيْ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُوْنَ   (البقرۃ:186)

جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب بھی وہ مجھے پکارے قبول کرتا ہوں اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے وہ میری بات مان لیا کریں اور مجھ پر ایمان رکھتیں یہی ان کی بھلائی کا باعث ہے۔‘‘

روزِ محشر شفاعت نبوی کے لیے درود وسیلہ ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے : ’’مجھ پر بکثرت درود پڑھنے والا روزِ قیامت میرے قریب قریب ہوگا۔(ترمذی)

شافعی محشر ﷺ کی شفاعت شرک نہ کرنے والوں کے لیے وسیلہ ہے۔

ہر نبی کو ایک ایک مقبول دعا کا حق ملا ہے، سب نے اپنی اپنی دعا مانگ لی ہے اور میں نے اپنی دعا قیامت کے روز شفاعت کے لیے چھپا رکھی ہے اس کا فائدہ ان شاء اللہ میرے ہر اس امتی کو ملے گا جس کو موت شرک پر نہ آئی ہوگی۔(مسلم)

والدین،اساتذہ کرام اور بزرگانِ دین کا ادب واحترام واجب ہے جبکہ سرورکائنات ﷺ سے محبت مومن کی پہچان ہے ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ’’ تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنے ما ں،باپ ، اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ مجھ سے محبت کرنے والا نہ ہوجائے۔‘‘ (متفق علیہ)

تاہم محبت کا زیادہ حق دار اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے جس نے انسان کو پانی کے قطرے سے تخلیق کیا، ماں کے پیٹ میں خوراک کا انتظام کیا، جب دنیا میں قدم رکھا تو ماں کے خون کو دودھ میں تحلیل کیا،حرکت میں برکت ہے پر عمل کرنے کے لیے آنکھ،ہاتھ اورپاؤں عنایت کیے ، آسمان سے مینہ برسا کر زمین کو سرسبزوشاداب بنایا، سبزیاں،پھل اور اناج اُگاکر توانائی کا ذریعہ بنایا ۔

حاصل کلام یہ کہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتیں ہیں جن کو شمار کرنا بھی مشکل امر ہے اس لیے محبت کا سب سے زیادہ حق دار وہی ہے جس نے محمد عربی ﷺ کو پوری کائنات کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمایا اور پھر اپنی محبت کے حصول کا بہترین ذریعہرسول اللہ ﷺ  کی اتباع کو قرار دیا، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ (آل عمران : 31)

’’آپ ﷺ کہہ دیجیے ! اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری فرمانبرداری کرو۔‘‘

روزِ محشر مرشد کامل ﷺ کی شفاعت کے حصول کے لیے شرک کی نجاست سے پاک ہونا ضروری ہے۔ اللہ ذو الجلال کی طرح کسی سے ضرر کا خوف دل میں رکھنا، طمع کی امید پر خدمت کرنا اور عقیدت کی وجہ سے محبت کا محور مان کر عجز وانکساری اور اطاعت وفرمانبرداری کا اظہا رکرنا عقیدہ توحید کے منافی عمل ہے۔

دکھ، تکلیف اور مشکل وقت ایک دوسرے کی مدد کرنا انسانیت ہے اور زندہ بزرگوں سے دعا کروانا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا طرز عمل ہے لیکن زندہ وفوت شدہ بزرگوں کو غائبانہ پکارنا یا کسی قبر پر کھڑے ہوکر مدد طلب کرنا شرک اکبر ہے۔

شرک ناقابل معافی جرم ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ  ۭوَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا  (النساء : 116)

’’اسے اللہ تعالیٰ قطعاً نہ بخشے گا کہ اس کے ساتھ شریک مقرر کیاجائے ہاں! شرک کے علاوہ گناہ جس کے چاہے معاف فرمادیتاہے اور اللہ کے ساتھ شرک کرنے والا بہت دور کی گمراہی میں جاپڑا۔‘‘

اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کو عقیدۂ توحید پر قائم رکھے شرک کی غلاظت سے محفوظ رکھے اور روزِ محشر ساقیٔ کوثر محمد عربی ﷺ کی شفاعت سرفراز فرمائے۔ آمین

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے