مدارس اسلامیہ معاشرے کی اصلاح میں مقدور بھر کوششوں کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔ یقیناً ان مدارس کی بدولت ہی اسلامی اقدار تہذیب و ثقافت کے نمایاں خدو خال نظر آرہے ہیں۔ مدارسِ اسلامیہ کے فارغ التحصیل علمائے کرام عامۃ الناس کی رہنمائی کے لئے مسلسل سعی و جدو جہد میں مصروف کار ہیں۔ جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا شمار ملک عزیز پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمِ ارض کی ممتاز ترین اسلامی جامعات میں ہوتا ہے۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ ہر سال فارغ التحصیل علمائے کرام کے اعزاز میں تقریبا34  سال سے پر وقار تقریب کا اہتمام کرتی آرہی ہے۔ اسی سلسلہ ذھبیہ کی ایک کڑی مورخہ22 اپریل 2018بروزاتوار  کو صحنِ جامعہ میں منعقد ہونے والی فقید المثال تقریب تکمیل صحیح البخاری بھی تھی۔ اس تقریب کی صدارت حضرت الامیر ڈاکٹرمحمد راشد رندھاوا حفظہ اللہ کی نیابت کرتے ہوئے سرپرست مولا نا محمد عائش حفظہ اللہ نے فرمائی۔ پروگرام کو دو نشستوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔

پہلی نشست:

اس عظیم الشان تقریب کی پہلی نشست میں اسٹیج سیکریٹری کے فرائض فضیلۃ الشیخ ابو زبیر محمد حسین رشید حفظہ اللہ استاذجامعہ ابی بکر الاسلامیہ نے بخوبی انجام دئیے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز بعد از نمازِ عصر قاری حبیب اللہ عمر  (طالب علم معہدالثانی ) کی تلاوت سے ہوا، تلاوت کے بعد جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے طالب محمد انور سرور نے حمد باری تعالیٰ پیش کی ۔

توحید کے انفرادی و اجتماعی اثرات کے موضوع پرعربی زبان میںمعہد الرابع کے طالب علم مطیع الرحمن نے  اپنے مخصوص انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ توحید سے انسان کے اندر خشیت الٰہی، انابت الی اللہ، ہمدردی، خیرخواہی اور عبادت میں لذت و احسان جیسی صفاتِ حمیدہ پیدا ہوتی ہیں۔ جبکہ اجتماعی طور پر بھی توحید کے گہرے اور مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ توحید کی معرفت سے ہی کسی معاشرے سے ظلم و جور، زیادتی کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اس کے بعد خطاب کے لئے ترجمان اہلحدیث فضیلۃ الشیخ قاری خلیل الرحمن جاوید حفظہ اللہ کو دعوت دی گئی، جن کا موضوع ’’ علم دین کی اہمیت اور دینی مدارس کا کردار‘‘انہوں نے خطبہ مسنونہ کے بعد حاضرین مجلس کو خصوصی پندو نصائح سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ یہ جامعات دراصل مکہ میں رسول کریم ﷺ کی قائم کردہ اسلام کی پہلی درسگاہ دارارقم اور مدینہ میں اصحاب صفہ کا تسلسل ہے ۔ انہوں نے علم سے منسلک لوگوں کو خصوصی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ علم سے منسلک افراد اپنے آپ کو گناہوں سے بچائیں۔

گناہ قوموں کے لئے باعث ہلاکت ہیں، نیکی کے سلسلہ کو روکنے کا ارادہ کرنے سے بھی اللہ تعالیٰ معیشت کو تباہ کردیتا ہے۔

اپنے آپ کو علم کے لئے وقف کردیں حیات مستعار کے  ایک ایک لمحے کو اس علم پر خرچ کریں۔ اور شیخ صاحب کے خطاب کے کے دوران آذان مغرب کا وقت ہوگیا اور اس طرح اس پر وقار تقریب کی پہلی نشست مکمل ہوئی۔

دوسری نشست:

اس فقید المثال پروگرام کی دوسری نشست کا آغاز نمازِ مغرب کے فوراً بعدہوا۔ نقیب محفل فضیلۃ الشیخ ابواسامہ محمد طاہر آصف صاحب استاد جامعہ ابی بکر وچیئر مین مجلس ادارت مجلہ اسوہ حسنہ نے اپنے مخصوص لب و لہجہ کے ساتھ سامعین کی علمی پیاس کو سیراب کیا۔ تلاوت کلام حمید کی سعادت عبد الرحمن بن عبد الرؤف نے حاصل کی اور انکے بعد جامعہ کے امسال فارغ ہونے والے طلباء احساسات و جذبات کے اظہار کے لئے خالد ظہیر کو دعوت سخن دی گئی، انہوں نے اپنے طلباء ساتھیوں کی طرف سے اساتذہ جامعہ، انتظامیہ جامعہ اور محسنین جامعہ کا خصوصی شکریہ ادا کیا ۔

کلمۃ ابناء الجامعہ کےلیے جامعہ کے ہونہار سابق طالب علم محترم جناب امجد سہیل صاحب کو دعوت خطاب دیا گیا، جس میں انہوں نے جامعہ کے بارےمیں اپنے احساسات اور جذبات کا اظہار کیا ،انکے بعدجامعہ کے استادفضیلۃ الشیخ عبد المجید حفظہ اللہ کو دعوت خطاب دیا گیا ان کا موضوع سخن تھا ’’پاکستان کے قیام واستحکام میں علماء اہلحدیث کامثالی و تاریخی کردار‘‘اس موضوع پر انہوںنے سیر حاصل گفتگو کی انکے بعد صحیح البخاری کی  آخری حدیث پر عالمانہ، فاضلانہ درس محدث عصر،فخرسلفیت ، متکلم اسلام فضیلۃ الشیخ حافظ محمد امین یعقوب حفظہ اللہ (دار العلوم تقویۃ الایمان اوڈانوالہ،فیصل آباد ) نے ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ درج ذیل سطور میں ملاحظہ فرمائیں:

بعد حمد و ثناء امام الدنیا فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عظیم الشان کتاب کا نام الجامع الصحیح المسند المختصر من امور رسول اللہ و سننہ و ایامہ رکھا۔ یہ کتاب عظیم جامع ہے ، جامع کا مطلب یہ ہے اس کتاب میں زندگی کے جملہ معاملات کے بارے میں ہدایات دی گئی ہیں۔

 الصحیحکا مطلب ہے کہ اس کے رواۃ ضابط، حافظ ہیں اس کی اسناد متصل ہیں جبکہ کتاب کی کسی بھی حدیث میں شذوذ یا علت خفی یا ظاہری کا وجود نہیں ہے۔

المسند: یعنی یہ کتاب با سند ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے دو راویوں کے درمیان امکان لقاء کا اعتبار نہیں کیا، بلکہ ثبوت لقاء کی شرط عائد کی اور پھر اپنی کتاب میں شروع تا آخر اس شرط کو پورا بھی کیا۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کا آغار کتاب الوحی سے کیا کیونکہ وحی ہی انسان کو جینے کا ڈھنگ سکھاتی ہے اور پھر کتاب التوحید سب سے آخر میں لائے ہیں اس لئے کہ انسان کو اپنی پوری زندگی وحی کی روشنی میں توحید کے تقاضے پورے کرنے میں بسر کرنی چاہئے اور رسول معظم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ ’’جس خوش نصیب نے مرتے وقت تک کلمہ توحید سے اپنا تعلق قائم رکھا وہ جنت میں ضرور جائے گا۔ ‘‘وحی کا اطلاق سنت رسول پر بھی ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اِنَّآ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ كَمَآ اَوْحَیْنَآ اِلٰی نُوْحٍ وَّالنَّـبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ   (النساء163)

سیدنا نوح علیہ السلام کی جانب کی جانے والی وحی سنت تھی، کیونکہ نوح علیہ السلام کو صحیفہ یاکتاب عطا نہیں کی گئی۔

صحیح بخاری میں مولف نے کتاب التوحید کے ذریعے توحید اسماء و صفات کے منکر ین کا رد فرمایا ہے، اہل السنۃ و الجماعۃ صفات و اسماء کے معاملے میں عدل و انصاف کا موقف رکھتے ہیں ہماری توحید

 قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ

اہل السنۃ کی توحید فلاسفہ، جہمیہ، معتزلہ کی طرح الفاظ کا ہیر پھیر نہیں ہے۔

اہل السنۃ والجماعۃ عقیدہ توحید میں تشبیہ نہیںبلکہ تسلیم کے قائل ہیں۔ کیونکہ سلف صالحین نے صراحت کے ساتھ فرمایا: ’’اسلام کے قدم تسلیم و رضا پر ہی ثابت رہتے ہیں۔‘‘ اسی طرح شرح السنۃ میںکہ بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ تصدیق کرنے والا اور سر تسلیم خم کرنے والا نہ ہو۔ توحید اسماء و صفات کے اثبات میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التوحید میں جہمیہ معتزلہ، مشبہ اور اپنے زمانے کے دیگر گمراہ کن فتنوں کا علمی رد کیا ہے۔ یاد رکھئے کہ جہم کا سلسلہ نسب لبید بن عاصم یہودی سے ملتا ہے۔

قیامت کے دن اعمال کا وزن ہوگا، رسول اکرم ﷺ کی احادیث سے ہمیںکچھ ایسے اعمال کا علم ہوتا ہےجو کہ روزِ قیامت ترازو میں وزنی ہونگے۔ جیسا حدیث بطاقہ، جس میں کلمہ توحید کو ایک ترازو کے پلڑے میں جبکہ آسمان و زمین کو دوسرے پلڑے میں رکھ کر وزن کے متعلق ذکر ہے۔ اور ایک فرمان میں آپ ﷺ نے حسن خلق کو میزان کی سب سے وزنی چیز قرار دیا ہے۔ ایک اور فرمان میں آپ ﷺ نے پانچ چیزوں کو میزان میں سب سے زیادہ وزنی قرار دیا ہے1 لا الہ الا اللہ2 اللہ اکبر3سبحان اللہ4 الحمد للہ5نیک اولاد جس کی وفات پر اس کے والدین صبر کریں۔

ایک اور مقام پر سيدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے آپ ﷺ نے فرمایا کہ خاموشی اور حسن اخلاق کو بھی میزان میں وزنی اعمال قرار دیا ہے۔

صحیح بخاری کی آخری حدیث مبارکہ میں سبحان اللہ کا ذکر بھی ہے دیگر احادیث میں بھی تسبیح کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔

آخر میںطلبہ کو نصیحت فرماتے ہوئے گو پا ہوئے کہ آپ لوگ یہ نہ سمجھ بیٹھنا کہ عالم اور مفتی بن گئے ہو اور فتوی بازی شروع کردو بلکہ آپ کو تو علم کی صرف چابی ملی ہے جس سے علم کا دروازہ کھول سکتے ہو اصل علم تو ابھی حاصل کرنا ہے اور اس کے لیے اہل علم کی مجالس اور مطالعہ کتب کو لازم اختیار کیا جائے ۔

درس بخاری شریف کے بعد جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے نائب مدیر محترم الشیخ ضیاء الرحمن المدنی نے کلمہ استقبالیہ میں معزز مہمانان گرامی قدر، قابل قدر علمائے کرام اور حاضرین مجلس کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا انہوں نے جامعہ ابی بکر الاسلامیہ میں جاری دعوتی، علمی اور اصلاحی  سرگرمیوں کا تذکرہ کیا۔ اسی طرح جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کی ذیلی شاخیں مثلا جامعہ عائشہ صدیقہ للبنات ماڈل کالونی، حرمین کمپلیکس سپر ہائی وے، ابوبکر اکیڈمی نیو کراچی، مجلہ اسوئہ حسنہ ، مرکز الترجمۃ والتحقیق للاقتصاد الاسلامی ، الافتاء ،داعی اسلام کورس وغیرہ پروگرامز کا اجمالاًتذکرہ کیا اور جامعہ ابی بکر گلستان جوہر میں ایک پلاٹ خریدنے کا خواہاں ہے جس میں اسلامک اسکول تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہےاس پلاٹ کی لاگت ایک کروڑ تک ہے اس کارخیر میں بعض محسنین نے مالی تعاون بھی کیا ہے مزید اہل خیر وثروت سے اپیل کی کہ نیکی کے ان کاموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اور اس میں تسلسل قائم رکھنا کسی ایک انسان کے بس کی بات نہیں کہ وہ اس علمی امانت کی ترقی و ترویج کے لئے ہمارے شانہ بشانہ چلیں آخر میں انہوں نے ایک بار پھر معززین کی تشریف آوری پر شکریہ ادا کیا۔

آخر وہ گھڑی آن پہنچی جسکا ہر طالب علم کو انتظار تھا اوروہ اعلان نتائج کا مرحلہ تھا ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے تعلیمی سیشن کے خاتمہ پر منعقد ہونے والے امتحانات کا رزلٹ ڈاکٹر فضیلۃ الشیخ افتخار احمد شاہد حفظہ اللہ (مدیر الامتحانات) نے پیش کیا۔

نصابی اور اہم نصابی سرگرمیوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلبائے کرام کو بیش قیمت انعامات سے نوازا گیا، یاد رہےیہ انعامات فضیلۃ الشیخ حافظ محمد امین یعقوب ، فضیلۃ الشیخ افضل سردار ،فضیلۃ الشیخ ابراہیم طارق ،فضیلۃ الشیخ مولانا محمد عائش ، فضیلۃ الشیخ داؤد شاکر اور مدیر مالیات محترم انس محمد اور بعض محسنین حفظہم اللہ کے دست مبارک سے تقسیم کئے گئے تھے ۔ آخر میں صدارتی کلمات کے لئے حضرت الامیر محترم جناب ڈاکٹر محمد راشد رندھاوا صاحب حفظہ اللہ کی نیابت کرتے ہوئے سرپرست جامعہ مولانا محمد عائش صاحب کو دعوت دی گئی انہوں نے اس شاندار پروگرام کی ترتیب پر اساتذہ و طلباء جامعہ کا شکریہ ادا کیا ، انہوں نے حاضرین مجلس کو بالعموم اور طالب علوم نبوت کو بالخصوص قرآن پاک اور احادیث مبارکہ کا معتمدبہ حصہ زبانی حفظ کرنے کی نصیحت کی۔

 مولانا صاحب کے صدارتی کلمات کے ساتھ ہی یہ روح پرور تقریب اختتام پذیر ہوئی، نمازِ عشاء کے بعد حاضرین مجلس کے لئے پر تکلف عشائیے کا اہتمام بھی تھا، یوں حاضرین مجلس لذت کام و دھن سے سرشار ہوکر اس تقریب کی خوش گوار یادیں سمیٹتے ہوئے اپنے اپنے گھروں کوروانہ ہوئے۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے