بَاب مَا يَقُولُ عِنْدَ الْخَلَاءِ

قضائے حاجت (کے لئے جاتے) وقت کیا پڑھے

19142– حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْخَلَاءَ قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ تَابَعَهُ ابْنُ عَرْعَرَةَ عَنْ شُعْبَةَ وَقَالَ غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ إِذَا أَتَى الْخَلَاءَ وَقَالَ مُوسَى عَنْ حَمَّادٍ إِذَا دَخَلَ وَقَالَ سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ حَدَّثَنَا عَبْدُالْعَزِيزِ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَ

آدم، شعبہ، عبدالعزیزبن صہیب، سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺبیت الخلاء میں داخل ہوتے تو یہ کہتے اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ (اے اللہ میں شریر جنوں اور جنّنیوں سےتیری پناہ مانگتا ہوں) ابن عرعرہ نے شعبہ سے یہی الفاظ روایت کئے ہیں، لیکن غندر سے شعبہ نے یہ الفاظ روایت کئے ہیں کہ جب آپ بیت الخلاء آئے اور موسیٰ نے حماد سے داخل ہونے کا لفظ روایت کیا اور سعید بن زید نے عبدالعزیز سے یہ الفاظ روایت کئے ہیں کہ جب آپ بیت الخلاء جانے کا ارادہ کرتے تو یہ دعا پڑھتے۔

Narrated Anas: Whenever the Prophet went to answer the call of nature, he used to say,اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ  O Allah, I seek Refuge with You from all offensive and wicked things (evil deeds and evil spirits).”

وروى بسند آخر حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَبْدِالْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِي اللَّه عَنْه قَالَ کَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْخَلَاءَ قَالَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِکَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ  ( رقمه :  6322 )

تراجم الرواۃ : 

1آدم بن ابی ایاس

2 شعبہ بن الحجاج

3 عبد العزیز بن صہیب

4 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ

نوٹ : تمام رواۃ کے تراجم حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں۔

معانی الکلمات : 

الْخَلَاءَ

خالی مکان / کنایہ قضائے حاجت کی جگہ

اللَّهُمَّ

اے اللہ

أَعُوذُ بِکَ

میں تیری پناہ چاہتا ہوں

الْخُبُث

سرکش مذکر جن

الْخَبَائِثِ

سرکش مؤنث جن

تشریح : 

نبی کریم ﷺنے اپنی امت کی ہر معاملے میں راہنمائی فرمائی ہے جہاں مسجد میں داخل ہونے اور اس سے نکلنے کے آداب سکھائے ہیںوہاں ہمیں بیت الخلاء میں داخل ہونے اور نکلنے کے بھی آداب سکھائےیہ تاریخی کلمات سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان مشرکین کے جواب میں ارشاد فرمائے تھے جو بطورِ استہزاء اور طنز کہہ رہے تھے کہ

قَدْ عَلَّمَکُمْ نَبِيُّکُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کُلَّ شَيْءٍ حَتَّى الْخِرَاءَةَ قَالَ: فَقَالَ: أَجَلْ لَقَدْ نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ لِغَائِطٍ، أَوْ بَوْلٍ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ

”تمہارے نبی تو تمہیں پیشاب پاخانہ کرنے کے طریقے بھی سکھاتے ہیں!“سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ نے مزید یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ہمیں رسول اللہ نے اس سے منع فرمایا ہے کہ پاخانہ یا پیشاب کے وقت ہم قبلہ کی طرف رُخ کریں یا یہ کہ ہم داہنے ہاتھ سے استنجا کریں، یا یہ کہ ہم استنجے میں تین پتھروں سے کم استعمال کریں، یا یہ کہ ہم کسی چوپائے (اونٹ، گھوڑے یا بیل وغیرہ ) کے فضلے(گوبر اور لید وغیرہ) یا ہڈی سے استنجا کریں۔(صحیح مسلم، کتاب الطھارة، باب الاستطابة، الحدیث:262)

گندی جگہوں میں گندگی سے اُنس رکھنے والے جن بسیراکرتے ہیں، اسی لیے نبی کریم قضائے حاجت کے لیے بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت ناپاک جنوں اور جنّيوں سے پناہ مانگتے تھے، انسان قضاء حاجت کے وقت گندی جگہ اور ناپاکی کی حالت میں ہوتاہےاس لیے ایسے مواقع پر خبیث جن انسان کو اذیت پہنچاسکتے ہیں، اس سے محفوظ رہنے کے لیے یہ دعا پڑھی جاتی ہیں۔اس دعا کی برکت سے انسان شریر جنات کے اثرات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

دخول سے مراد ارادۂ دخول ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں صراحت ہے۔  (صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: ۱۴۲)

لہٰذا یہ دعا بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے پڑھنی چاہیے۔ بیت الخلا تو گندگی والی جگہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے نام کی تقدیس و تنزیہ ضروری ہے، البتہ اگر کوئی بھول جائے اور داخل ہونے کے بعد یا ننگا ہونے کے بعد یاد آئے تو اس میں صحابہ و تابعین کا اختلاف ہے کہ دل میں پڑھ لے یا رہنے دے۔ یا اگر ابھی کپڑے نہیں اتارے تو باہر آکر دعا پڑھ کر داخل ہو جائے۔

[الخبث و الخبائث] خبائث خبیثۃ کی جمع ہے، مراد جننیاں ہیں۔ خبث ’’با‘‘ کے ضمہ کے ساتھ ہو تو خبیث کی جمع ہے، مراد جن ہیں۔ اگر ’’با‘‘ کے سکون کے ساتھ ہو تو اس سے مراد ہر ناپسندیدہ اور مکروہ چیز ہے۔ اس طرح اس کے تحت تمام شریر جن، جننیاں، گندے اخلاق و اعمال اور ہر قسم کے نازیبا کلمات و اقوال داخل ہیں، لہٰذا اگر اس ضبط کے ساتھ دعا پڑھی جائے تو انسان مذکورہ ہر قسم کے شر اور مکروہات سے محفوظ رہتا ہے جبکہ جن اور جننیوں سے بچاؤ کی خاطر اس حالت میں بطور خاص دعا کی تلقین اس لیے ہے کہ انھیں گندگی اور بدبو سے حد درجہ کی  مناسبت ہے اور اس موقع پر وہ نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: شرح الترمذي از أحمد شاکر: ۱۰/۱)

 

——–

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے