کتبہ:عبد الرحمن شاکربلوچ(متعلم جامعہ ہذا)    صححہ: محمد شریف بن علی (نائب مفتی جامعہ ہٰذا)

سوال : ان لوگوں کے بارہ میں آپ کیا کہتے ہیں جو کہ مناسک حج سے نابلد ہوتے ہیں وہ صرف اس نظریے پر سفر حج اختیار کرتے ہیں کہ ہم وہاں پر اسی طرح اعمال حج بجا لائیں گے جس طرح دیگر حجاج اس فریضہ کو ادا کریں گے؟

جواب : مسافر اور آوارہ گرد میں فرق یہ ہے کہ مسافر کی کوئی منزل ہے اور آوارہ گرد بغیر منزل کے سفر اختیار کرتاہے ، حج اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے، اس مقدس سفر میں آوارہ گرد ہوکر شامل ہونا اس فریضہ کے تقدس کے برخلاف ہے اس لیے مسلمان ہونے کے ناطے جب ہمارے پاس مالی وبدنی استطاعت ہو تو ہمیں اس سفر میںمسافر بن کر اختیار کریںنہ کہ آوارہ گرد ۔ ہر عبادت کی قبولیت کیلئے دوشرائط کا ہونا لازم ہے۔

1 اخلاص نیت         2 متابعت ِ سنت

اخلاص کا مفہوم کسی بھی عبادت کو صرف اور صرف اللہ کی رضا وخوشنودی کے لیے جبکہ ریاکاری ، نمود ونمائش سے دور رہ کر ادا کرنا ہے۔

متابعت کا مطلب یہ ہے کہ وہ عمل نبی کریم کے طریقہ کے عین مطابق ہو۔

اللہ کے رسول کا حج کے بارے میں خاص فرمان ہے

خُذُوا عَنِّي مَنَاسِکَکُمْ (السنن الکبرى للبيهقي :9524)

’’مجھ سے حج کا طریقہ سیکھ لو۔‘‘ اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں ایک باب باندھا جس کا نام ’’باب العلم قبل القول والعمل‘‘ (قول وعمل سے پہلے علم کی تحصیل کا بیان)تو اس لحاظ سے حج قولی اور عملی عبادت کا مجموعہ ہے اس میں علم حاصل کرنا بالاولی لازم ہے کیونکہ نماز دن میں پانچ بار فرض ہے اور اسی طرح کچھ عبادات سال میں ایک مرتبہ فرض ہیں لیکن حج زندگی میں صرف ایک بار فرض ہے اس لیے اس کی ادائیگی سے قبل اس کا علم حاصل کرنا چاہیے تاکہ سنت کے مطابق حج کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔اگر کسی کو پڑھنا نہیں آتا تو اسلام نے اس آیت کے ذریعہ ان لوگوں کی راہنمائی فرمائی کہ

فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (النحل: 43)

’’نہ جاننے کی صورت میں اہل علم سے پوچھو۔‘‘

الغرض اہل علم سے حج کا طریقہ سیکھنے کے بعد اس مقدس فریضہ کو ادا کیا جائے ۔واللہ اعلم بالصواب

سوال : جس کے پاس حرام طریقے سے مال آیا ہو اور استطاعت بھی ہو تو کیا اس پر حج کرنا لازم ہے ؟

جواب : بینک میں ملازمت کرنے والے کیشیئر کو ہم کروڑ پتی نہیں کہتے ہیں اس کے باوجود کہ وہ کروڑوں روپے کی مالیت اور اربوں کھربوں کا حساب کتاب رکھتا ہے اور کروڑوں روپیہ اس کے ہاتھ میں ہے مذکورہ مال اس کی ملکیت نہیں بلکہ وہ بنک کی ملکیت ہے تو اسی طرح حرام مال چاہے وہ کسی بھی طریقے سے آئے وہ اس کا مال شمار نہیں ہوگا ۔ اسلام کی نظر میں کس طرح اس کو استطاعت رکھنے والے کی صف میں شامل کریں؟!!

اسلام کی نظر میں استطاعت یہ ہے کہ آپ کے پاس مال حلال طریقے سے آیا ہو ورنہ آپ اس چور کی طرح ہیں جو کہ ڈاکہ ڈال کر غریبوں میں مال تقسیم کرتا ہے۔اسلام نے جتنا صدقہ اور حج کرنے پر زور دیا ہے اس سے زیادہ اس بات پہ زور دیا ہے کہ آپ کا مال حلال ہو ورنہ حج تو کیا آپ کی دعا بھی قبول نہیں ہوگی۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے

أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّ اللهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا، وَإِنَّ اللهَ أَمَرَ الْمُؤْمِنِينَ بِمَا أَمَرَ بِهِ الْمُرْسَلِينَ، فَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ کُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا، إِنِّي بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ} وَقَالَ: {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ} ثُمَّ ذَکَرَ الرَّجُلَ يُطِيلُ السَّفَرَ أَشْعَثَ أَغْبَرَ، يَمُدُّ يَدَيْهِ إِلَى السَّمَاءِ، يَا رَبِّ، يَا رَبِّ، وَمَطْعَمُهُ حَرَامٌ، وَمَشْرَبُهُ حَرَامٌ، وَمَلْبَسُهُ حَرَامٌ، وَغُذِيَ بِالْحَرَامِ، فَأَنَّى يُسْتَجَابُ لِذَلِکَ؟ (صحيح مسلم:1015)

’’اے لوگو! بیشک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاکیزگی کو ہی قبول کرتا ہے اور اللہ تبارک وتعالی نے مومنوں کو بھی وہی حکم دیا جو کہ پیغمبروں کو دیا ، فرمایا : اے رسل! پاکیزہ چیز کھا کر عمل صالح کرو بیشک جو تم کرتے ہومیں جانتا ہوں۔ اور فرمایا : اے مومنو! جو ہم عطا نے کیا ہے ان میں سے پاکیزہ چیزوں کو استعمال کرو۔پھر ایک آدمی کا ذکر کیا کہ جس نے طویل سفر کیا اس سفر نے اس کے بال پراگندہ کردیئے اور جسم غبار آلود ہے اسی کیفیت میں وہ اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کرتا ہے ، اے میرے رب ، اے میرے رب ! حالانکہ اس کا کھانا، پینا، اوڑھنا اور پرورش حرام مال یا ذرائع سے ہوئی ہے تو کیسے اللہ تعالیٰ اس بندے کی دعا(عبادت) قبول فرمائے۔‘‘

جب اسلام نے اس مال کو قانونی طور پر آپ کا مال مانا ہی نہیں تو آپ کی استطاعت کو کہاں مانے گا۔ اسلام کی نظر میں تو آپ کے اور ایک کنگال کے درمیان کوئی امتیاز نہیں۔ اسلامی قوانین کے مطابق حلال مال کماؤ اور حج کرو تب آپ کا حج قبول ہوگا۔ واللہ اعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے