قارئین کرام ! حج کے احکامات یا مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کے حوالے سے ایک حاجی کو کون کونسے کام کرنا منع ہیں ؟

آئیں ملاحظہ فرما کر اثناء ادائیگی حج ان سے اجتناب کریں۔

اللہ ہم سب کے حج و زیارات کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے ۔آمین

1 مکہ مکرمہ کی حرمت پامال کرنا

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فتح مکہ کے دن فرمایا :

إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَا يُعْضَدُ شَوْکُهُ، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ، وَلَا يَلْتَقِطُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا، وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهَا ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ، فَقَالَ : إِلَّا الْإِذْخِرَ .

بلا شبہ یہ شہر ( ایسا ) ہے جسے اللہ نے ( اس وقت سے ) حرمت عطا کی ہے جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ یہ اللہ کی ( عطا کردہ ) حرمت ( کی وجہ ) سے قیامت تک کے لیے محترم ہے اور مجھ سے پہلے کسی ایک کے لیے اس میں لڑائی کو حلال قرار نہیں دیا کیا اور میرے لیے بھی دن میں سے ایک گھڑی کے لیے ہی اسے حلال کیا گیا ہے ( اب ) یہ اللہ کی ( عطا کردہ ) حرمت کی وجہ سے قیامت کے دن تک حرام ہے اس کے کاٹنے نہ کاٹے جائیں ، اس کے شکار کو ڈرا کر نہ بھگایا جائے ، کوئی شخص اس میں گری ہوئی چیز کو نہ اٹھائے سوائے اس کے جو اس کا اعلان کرے ، نیز اس کی گھاس بھی نہ کاٹی جائے ۔ اس پرسیدنا عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی : اے اللہ کے رسول !سوائے اذخر (خوشبو دار گھاس ) کے وہ ان کے لوہاروں اور گھروں کے لیے ( ضروری ) ہے تو آپ نے فر مایا : سوائے اذخر کے۔ (صحیح بخاری : 3302)

وضاحت : البتہ چند موذی جانوروں کو قتل کرنے کی اجازت ہے ۔

2 مکہ مکرمہ میں بلا ضرورت ہتھیار اٹھا کر چلنا

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

لَا يَحِلُّ لِأَحَدِکُمْ أَنْ يَحْمِلَ بِمَکَّةَ السِّلَاحَ (صحیح مسلم :3307)

تم میں سے کسی کے لیے مکہ میں اسلحہ اٹھانا حلال نہیں ۔

3 اپنا فرض حج کیے بغیر حج بدل کرنا

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ

أنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ لَبَّيْکَ عَنْ شُبْرُمَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏   مَنْ شُبْرُمَةُ ؟  قَالَ :‏‏‏‏ أَخٌ لِي، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَرِيبٌ لِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ حَجَجْتَ عَنْ نَفْسِکَ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :حُجَّ عَنْ نَفْسِکَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ حُجَّ عَنْ شُبْرُمَةَ

نبی کریم نے ایک شخص کو کہتے ہوئے سنا : ’’لبيک عن شبرمة‘‘ حاضر ہوں شبرمہ کی طرف سے ۔ آپ ﷺنے دریافت کیا ،شبرمہ کون ہے؟ اس نے کہا : میرا بھائی یا میرا رشتے دار ہے ۔ آپ ﷺنے پوچھا : تم نے اپنا حج کر لیا ہے؟ اس نے جواب دیا : نہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : پہلے اپنا حج کرو پھر ( آئندہ ) شبرمہ کی طرف سے کرنا ۔ (سنن ابی داؤد : 1811)

وضاحت : یعنی جس شخص نے اپنی طرف سے حج ادا نہیں کیا وہ کسی دوسرے کی طرف سے حج بدل نہیں کر سکتا ۔

4 کسی خاتون کا بغیر محرم کے حج کا سفر کرنا

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا وہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺسے سنا آپ خطبہ دیتے ہوئے فرما رہے تھے

لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ، وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ امْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً، وَإِنِّي اکْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ کَذَا وَکَذَا، قَالَ : انْطَلِقْ فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِکَ (صحیح مسلم : 3272)

کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ہرگز تنہا نہ ہو مگر یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو ۔ اور کوئی عورت سفر نہ کرے مگر یہ کہ اس کے ساتھ محرم ہو ۔ ایک آدمی اٹھا اور کہنے لگا : اے اللہ کے رسول ! میری بیوی حج کے لیے نکلی ہے اور میرا نام فلاں فلاں غزوے میں لکھا جا چکا ہے آپ نے فرما یا : جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو ۔

جناب یحییٰ بن عباد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ : رای (ایران کے ایک شہر ) کی ایک خاتون نے امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کو لکھا کہ میں مالدار ہوں ، لیکن محرم نہ ہونے کی وجہ سے میں نے فریضہ حج ادا نہیں کیا ہے ۔ ( لہٰذا میرے لیے کیا حکم ہے ؟ )  امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے انہیں لکھا :

إنک ممن لم يجعل الله له سبيلا (فقه السنة 1/634)

آپ ان لوگوں میں سے ہیں جن پر اللہ نے حج فرض نہیں کیا ۔

اس سے معلوم ہوا کہ کسی خاتون کا بغیر محرم کے سفرِ حج کرنا درست نہیں ۔

5 کسی خاتون کا خاوند کی اجازت کے بغیر نفلی حج کے لیے جانا

عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَةٍ لَهَا زَوْجٌ وَلَهَا مَالٌ وَلَا يَأْذَنُلَهَا فِي الْحَجِّ : لَيْسَ لَهَا أَنْ تَنْطَلِقَ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا (سنن دار القطني : 2431)

سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اللہ سے اس خاتون کے متعلق روایت کیا جس کا خاوند ہے اور خاتون خود مالدار ہے جب کہ وہ اسے حج ادا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ایسی خاتون کے متعلق آپ ﷺنے فرمایا:ایسی جاتون کو خاوند کی اجازت کے بغیر (نفلی ) حج کے لیے نہیں جانا چاہیے ۔

علامہ سید سابق مصری رحمہ اللہ مذکورہ بالا مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ خاوند اگر فرض حج ادا کرنے کی اجازت نہ دے تو بیوی بغیر اجازت کے بھی جا سکتی ہے خاوند کو فرض حج سے اسے منع کرنے کا اختیار نہیں  کیونکہ یہ اس پر واجب عبادت ہے ، کیونکہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت نہیں ۔ البتہ نفلی حج پر خاوند کو حق ہے کہ اگر چاہے تو روک دے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے ۔(ملاحظہ ہو : فقه السنة 1/594)

6 خوشبو لگی ہوئے چادر کو احرام کے لیے استعمال کرنا

سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے

نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَلْبَسَ الْمُحْرِمُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا بِوَرْسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ زَعْفَرَانٍ

رسول اللہ ﷺنے محرم کو ورس ( خوشبودار گھاس ) اور زعفران سے رنگا کپڑا پہننے سے منع فرمایا۔ (سنن ابن ماجہ : 2930)

7 احرام کی حالت میں سلا ہوا کپڑا  ٹوپی جوراب وغیرہ پہننا

سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺسے پوچھا : احرام باندھنے والے کو کیا پہننا چاہیے؟ آپ نے فرمایا :

لَا يَلْبَسُ الْقَمِيصَ وَلَا الْعِمَامَةَ وَلَا السَّرَاوِيلَ وَلَا الْبُرْنُسَ وَلَا ثَوْبًا مَسَّهُ الْوَرْسُ أَوِ الزَّعْفَرَانُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا حَتَّى يَکُونَا تَحْتَ الْکَعْبَيْنِ

 نہ قمیص پہنے نہ پگڑی باندھے اور نہ پاجامہ اور نہ کوئی سرپوش اوڑھے اور نہ کوئی زعفران اور ورس سے رنگا ہوا کپڑا پہنے اور اگر جوتے نہ ملیں تو موزے پہن لے اور انہیں ( اس طرح ) کاٹ دے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔ (صحیح بخاری : 134)

8 احرام کی حالت میں خواتین کا دستانے پہننا

سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْحَرَامُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ .

محرم عورت نہ نقاب لگائے اور نہ دستانے پہنے۔(سنن ترمذی : 833)

وضاحت : البتہ جب کسی غیر محرم مرد کا سامنا ہو تو مکمل طور منہ ڈھانپنا چاہیے۔

9 احرام کی حالت میں ناخن تراشنا

علامہ ابن منذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وَأجْمَعَوا عَلَى أَنَّ الْمُحْرِمَ مَمْنُوعٌ مِنْ أَخْذِ أَظْفَارِهِ

اس پر اجماع ہے کہ محرم کے لیے ناخن تراشنا ممنوع ہے۔ (الاجماع : 148)

0 خواتین کا حلق کرانا

سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

لَيْسَ عَلَى النِّسَاءِ حَلْقٌ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا عَلَى النِّسَاءِ التَّقْصِيرُ

عورتوں پر حلق (سر کے بال منڈوانا)نہیں صرف تقصير (بال کٹانا ) ہے ۔ (سنن ابی داؤد : 1984)

! خواتین کا حالت حیض میں طواف کرنا

سيدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے

قَدِمْتُ مَکَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَلَا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ،‏‏‏‏ قَالَتْ:‏‏‏‏ فَشَکَوْتُ ذَلِکَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ افْعَلِي کَمَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ، ‏‏‏‏‏‏غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي .

میں مکہ آئی تو اس وقت میں حائضہ تھی۔ اس لیے بیت اللہ کا طواف نہ کر سکی اور نہ صفا مروہ کی سعی۔ فرماتی ہیں کہ میں نے اس کی شکایت رسول اللہ ﷺسے کی تو آپ نے فرمایا : جس طرح دوسرے حاجی کرتے ہیں تم بھی اسی طرح ( ارکان حج ) ادا کر لو ہاں بیت اللہ کا طواف پاک ہونے کے بعد کرنا۔(صحیح بخاری : 1650)

@ احرام کی حالت میں نکاح کرنا یا نکاح کا پیغام بھیجنا

سيدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

لَا يَنْکِحُ الْمُحْرِمُ، وَلَا يُنْکَحُ، وَلَا يَخْطُبُ

جو شخص حالت احرام میں ہو ، وہ نہ نکاح کرے نہ نکاح کرائے اور نہ نکاح کا پیغام بھیجے ۔(صحیح مسلم : 3448)

# احرام کی حالت میں شہوانی گفتگو وغیرہ کرنا

سيدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو فرماتے ہوئے سنا :

مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ کَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ (صحیح البخاری : 1521)

جس نے حج کیا نہ کوئی فحش بات کی اور نہ کسی گناہ کا مرتکب ہوا تو وہ اس دن کی طرح واپس لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے جنا ہے۔

$ حالت احرام میں خشکی کا شکار کرنا

اللہ رب العالمین کا فرمان ہے :

يَاأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ

اے ایمان والو ! تم احرام کی حالت میں شکار نہ کرو ۔

(المائدة : 95)

یاد رہے کہ احرام کی حالت میں سمندری شکار جائز ہے ۔

% زیادہ اجر و ثواب حاصل کرنے کی غرض سے خود کو تکلیف میں ڈالنا

مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْخٍ کَبِيرٍ يَتَهَادَى بَيْنَ ابْنَيْهِ،‏‏‏‏ فَقَالَ :‏‏‏‏ مَا بَالُ هَذَا،‏‏‏‏ قَالُوا :‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ،‏‏‏‏ نَذَرَ أَنْ يَمْشِيَ،‏‏‏‏ قَالَ :‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَغَنِيٌّ عَنْ تَعْذِيبِ هَذَا نَفْسَهُ،‏‏‏‏ قَالَ :‏‏‏‏ فَأَمَرَهُ أَنْ يَرْکَبَ .

نبی کریم ایک بوڑھے کے قریب سے گزرے جو اپنے دو بیٹوں کے سہارے ( حج کے لیے ) چل رہا تھا، آپ نے پوچھا : ان کا کیا معاملہ ہے ؟ لوگوں نے کہا : اللہ کے رسول ! انہوں نے ( پیدل ) چلنے کی نذر مانی ہے، آپ نے فرمایا : اللہ عزوجل اس کے اپنی جان کو عذاب دینے سے بے نیاز ہے ، پھر آپ نے اس کو سوار ہونے کا حکم دیا۔(سنن ترمذی : 1537)

^ فوت شدہ خاوند کی بیوی کا ایام عدت میں حج کا سفر کرنا

جناب سعيد بن مسيب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ :

أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ کَانَ يَرُدُّ الْمُتَوَفَّى عَنْهُنَّ أَزْوَاجُهُنَّ مِنَ الْبَيْدَاءِ يَمْنَعُهُنَّ الْحَجَّ.

سيدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان خواتین کو جو خاوند کے فوت ہونے کی وجہ سے عدت میں ہوتیں مقام بیداء سے ہی واپس کر دیتے ، انہیں حج کرنے کی اجازت نہیں دیتے ۔(مؤطا مالک : 1730)

& حالت احرام میں فوت ہونے والے پر خوشبو لگانا اور اس کا سر ڈھانپنا

أَقْبَلَ رَجُلٌ حَرَامًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَّ مِنْ بَعِيرِهِ، فَوُقِصَ وَقْصًا، فَمَاتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَأَلْبِسُوهُ ثَوْبَيْهِ، وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُلَبِّي (صحیح مسلم : 2894)

ایک شخص احرام کی حالت میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ آیا ، وہ اپنے اونٹ سے گر گیا ( اس سے ) اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ فوت ہو گیا تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا : اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو۔ اس کے اپنے ( احرام کے ) دو کپڑے پہناؤ اس کا سر نہ ڈھانپو بلا شبہ وہ قیامت کے روز آئے گا ۔ تلبیہ پکار رہا ہوگا ۔

* حجر اسود کو بوسہ دینے کے لیے مزاحمت کرنا

سيدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

يَا عُمَرُ، إِنَّکَ رَجُلٌ قَوِيٌّ، لَا تُزَاحِمْ عَلَى الْحَجَرِ فَتُؤْذِيَ الضَّعِيفَ،إِنْ وَجَدْتَ خَلْوَةً فَاسْتَلِمْهُ، وَإِلَّا فَاسْتَقْبِلْهُ فَهَلِّلْ  وَکَبِّرْ  (مسند احمد : 190)

اے عمر ! تو طاقتور آدمی ہے ، کمزوروں کو تکلیف نہ پہنچانا، جب حجر اسود تمہیں خالی مل جائے تو استلام (چھولو ) کرلو اگر (بھیڑ ہو تو) اس کی طرف منہ کر کے اللہ اکبر کہو (اور اشارہ کرتے ہوئے گزر جاؤ)۔

S میدان عرفات کے بجائے وادئ عرنہ میں وقوف کرنا

سيدنا جبير بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

کُلُّ عَرَفَةَ مَوْقِفٌ، وَارْفَعُوا عَنْ عُرَنَةَ

پورا عرفات وقوف کی جگہ ہے وادی عرنہ سے اوپر رہو  يعنی وہاں وقوف نہ کرو ۔(المعجم الکبير :  1583)

عرنہ میدان عرفات کے ساتھ ایک وادی ہے جو عرفہ میں داخل نہیں ہے اس لیے وہاں وقوف کرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

) حاجی کا عرفات کے دن روزہ رکھنا

سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ

شَکَّ النَّاسُ يَوْمَ عَرَفَةَ فِي صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَبَعَثْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَرَابٍ فَشَرِبَهُ

عرفہ کے دن لوگوں کو رسول اللہ ﷺکے روزے کے متعلق شک ہوا ، اس لیے میں نے آپ کو پینے کے لیے کچھ بھیجا جسے آپ نے پی لیا۔ (صحیح بخاری : 1658)

ایک حاجی کے لیے عرفات کے دن روزہ رکھنا مسنون نہیں جبکہ غیر حاجی کے لیے عرفہ کا روزہ رکھنا مستحب ہے اور بہت بڑے اجر وثواب کا باعث ہے ۔(ملاحظہ ہو: صحیح مسلم : 1162)

a حاجی کی گری ہوئی چیز اٹھانا

سيدنا عبدالرحمان بن عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ لُقَطَةِ الْحَاجّ (صحیح مسلم : 4509)

رسول اللہ ﷺنے حاجیوں کی گری ہوئی چیز اٹھانے سے منع فرمایا ہے ۔

حاجی کی گری ہوئی چیز اٹھانا منع ہے ، ہاں اگر اعلان کرنے کا ارادہ ہو تو درست ہے ۔ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت بخاری میں موجود ہے ۔

b  مزدلفہ کے بجائے وادئ محسر میں ٹھہرنا

سيدنا جبير بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :

کُلُّ مُزْدَلِفَةَ مَوْقِفٌ، وَارْفَعُوا عَنْ بَطْنِ مُحَسِّرٍ

پورا مزدلفہ ٹھہرنے کی جگہ ہے وادئ محسر سے اوپر رہو يعنی وہاں نہ ٹھہرو ۔(المعجم الکبير :  1583)

محسر منی و مزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے جو مزدلفہ میں داخل نہیں ہے ، اسی ہی مقام پر اصحاب فیل پر پتھر برسائے گئے تھے ، اس لیے وہاں ٹھہرنے سے منع کیا گیا ہے ۔

c  طواف افاضہ میں رمل کرنا

سيدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْمُلْ فِي السَّبْعِ الَّذِي أَفَاضَ فِيهِ

رسول اللہ نے طواف افاضہ کے سات چکروں میں رمل نہیں کیا ۔(صحیح ابن خزیمة : 2943)

d رسول اللہ کی قبر کو عیدگاہ بنانا

سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

لَا تَجْعَلُوا قَبْرِي عِيدًا، ‏‏‏‏‏‏وَصَلُّوا عَلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ تَبْلُغُنِي حَيْثُ کُنْتُمْ  (سنن ابی داؤد : 2042)

میری قبر کو عیدگاہ نہ بناؤ اور میرے اوپر درود بھیجا کرو کیونکہ تم جہاں بھی رہو گے تمہارا درود مجھے پہنچایا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے