اوراقِ تاریخ اس بات پر شاہدہیں کہ اسلام اور اہل حق کو ہمیشہ مختلف زاویوں سے نشانے پر رکھا جاتا رہا ہے مگر ان تمام مذموم و ناپاک عزائم کو ہمیشہ منہ کی کهانی پڑی ہے!!!

یہ سلسلہ ابھی، چند برس یاصدیاں قبل نہیں بلکہ ولادت  آدم سے جاری و ساری ہے کبھی آدم و ابلیس کبھی ہابیل و قابیل کبھی ابراہیم و نمرود سے لیکر وغیرہ وغیرہ پر بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا!!!

قصہ مختصر کہ آج بھی یہ سازشیں ہر روز نت نئے پہلوؤں اور طریقوں سے نمودار ہوکر اسلام پہ حملہ آور ہیں بلکہ یہ بات اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ آج کلمہ گو سادہ مسلمان بھی لاشعوری طور پرمتاثر ہوکر اکثر اوقات سوالات کرنے لگ جاتے ہیں کہ یہ بات اسلام میں کیوں ہے!!!

اسلامی تہذیب و تمدن ہو یا شرعی اصول و قواعد!!! ہر جگہ خودساختہ اعتراضات گھڑ گھڑ کر اسلامی شعار کو بدنام کرنے کی پوری کوشش کی جاتی ہے!!!

ان اصول و قواعد میں سے ایک رکن ذبیحہ یعنی عید قربان بھی ہے جس میں تمام مسلمان عیدالاضحیٰ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر یہاں بھی انسانیت کا خودساختہ رونا رو کر سادہ لوح مسلم و غیرمسلم کے اذہان میں شدید قسم کے اعتراضات اٹھائےجا رہے ہیں!!!

حقیقی معنوں میں یہ جو اعتراضات کیئے جاتے ہیں میں بحیثیت ایک کامرس طالبعلم  انہیں اعتراض بھی نہیں گردانتا بلکہ یہ ان جہلا کی جہالت ہی ہے جو مختلف شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے وگرنہ معاشیاتی علم رکھنے والا کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا!!!

آئیے اسلام مخالف (ملحدین) گروہ کے ان اعتراضات کا مختصرا جائزہ لیتے ہیں جس کا ہر ماہ ذی الحج میں رونا رویا جاتا ہے!!!

1قربانی کے نتیجے میں غربت کا رونا رونے والے شاید یہ نہیں جانتے کہ درحقیقت زیادہ فائدہ کسان اور مویشی صنعت (cattle industry) کو ہی ہوتا ہے اور غریب طبقہ کیلئے پورے سال میں یہی سنہری ایام ہوتے ہیں جن میں وہ اپنی محنت کا پھل اٹھا پاتا ہے۔

جو عام مارکیٹ میں نہیں مل پاتا یوں یہ رسم تقسیم دولت پر مثبت اثرات ڈالتی ہے۔

2 پھر یہ پروپیگنڈہ دہرا دیا جاتا ہے کہ یہ رقم مویشیوں کا خون بہانے کے بجائے غریبوں میں بانٹ دی جائے مگر وہ کم عقل اس بات سے ناواقف ہیں کہ غربت مٹانے کیلئے رقم بانٹنا علاج نہیں ہوتا بلکہ غریب طبقے کیلئے معاشی ایکٹیویٹی کا پہیہ چلانا ہوتا ہے اور قربانی سے بڑھ کر بھلا  اس عمل کا بہترین ذریعہ اور کیا ہو سکتا ہے؟

3 مارکیٹ ریٹ کو دیکھا جائے تو ان بڑے جانوروں کا گوشت اس قیمت میں فی کلو فروخت ہوتا ہے جو مڈل کلاس بھی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا مگر یہ کتنی عظیم قربانی ہے کہ معاشرے میں غرباء و مساکین بڑے آسانی سے گوشت بالکل مفت میں حاصل کرتا ہے جو پورا سال صرف اس کا خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔

4 اس کے علاوہ قربانی سے جو کھالیں حاصل ہوتی ہیں وہ بھی مختلف ہسپتالوں کے علاوہ سینکڑوں فلاحی و رفاہی اداروں کے فنڈنگ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے جن سے کروڑوں لوگ استفادہ کرتے ہیں اور اس کہ ساتھ ساتھ اس سے لیدر پراڈکٹس بنتی ہیں جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔

5 پھر مویشیوںکی ترسیل کے لیے جو ٹرانسپورٹ کا استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی روز روشن کہ طرح عیاں ہے کہ کیسے ان جانوروں کی ترسیل سے کروڑوں روپے گورنمنٹ کو جاتے ہیں جس سے ملک کا پہیہ چلتا ہے اور ٹرانسپورٹ سے منسلک لوگ (ڈرائیور، کنڈیکٹروغیرہ) بھی وہ پیسہ روپیہ کما لیتے ہیں جن سے ان کے گھر کا چولہا چلتا ہے ۔

مختصر یہ کہ عیدالاضحٰی میں قربانی کے چند دنوں کے دوران کھربوں روپے کی خطیر رقم کو حرکت دیکر جس طرح ملکی معیشت کو مثل برکت دیتا کے وہ بالکل خشک کنواں کو پانی سے بھرنے کے مصداق ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ان بے دین افراد کو غریب و مساکین کا خیال ہمیشہ اسلامی تہواروں پر آتا ہے یہ غریبوں کا ہمدرد بنتے ہوئے عید کی خوشیاں نہیں مناتے مگر کرسمس، ہولی، دیوالی ودیکر غیر اسلامی تہواروں پر مبارکباد دیتے نہیں تھکتے!!!

یہ عیدین میں مسلمانوں کی خریداری پر تو انگلی تو اٹھاتے ہیں مگر انہیں وہ لاکھوں کھربوں نظر ہی نہیں آتے جوہر میک اپ و  کاسمیٹکس انڈسٹری (cosmetics industry) میں فالتو خرچ کیئے جاتے ہیں تاکہ میں تادیر جواں دیکھائی دوں۔

خلاصۂ کلام یہ کہ تدبر و فکر کی نظر سے اگر معاشرے میں نظر دوڑائی جائے تو اربوں کھربوں کی خطیر رقم کے بے دریغ ضیاع پر کوئی ملحد بھی اعتراض کرنے و اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا جو اپنی نوعیت میں غریب کی احساس محرومی بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی مگر سنت ابراہیمی کی ادائیگی پر ایسے ہمدرد دیکھائی دیتے ہیں کہ ان سے زیادہ کوئی ہمدرد پیدا ہی نہیں ہوا ، دراصل یہ تمام چالاکیاں غربت کی ہمدردی نہیں بلکہ فقط اسلامی تعلیمات تہذیب و تمدن کی مخالفت ہے جو انہیں پتہ نہیں کیوں ہضم نہیں ہوتیں!!!

اخيراً اللہ تعاليٰ سے بدست دعا ہوں کہ اللہ رب العزت ان تمام احباب کو ہدایت دے جو شعوری اور لاشعوری کیفیت میں مخالفت حق میں لگے ہوئےہیں۔

آمین یارب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے