25 جولائی 2018ء کے الیکشن نتائج کے بعد پی ٹی آئی بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئی ہے۔ یہ کامیاب ہوئی ہے یا کرائی گئی ہے، یہ ایک الگ بات ہے، البتہ نتائج آنے کے بعد عمران خان صاحب وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ جیتنے کے بعد خان صاحب نے جو پہلی تقریر کی اس میں مدینہ کی طرز پر ایک نیا پاکستان بنانے کی بات کی جسے لوگوں کی طرف سے سراہا گیا۔ اگر خان صاحب اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ اہل پاکستان پر بہت بڑا احسان ہو گا لیکن اگر ان کا یہ دعویٰ صرف جذباتی گفتگو تک محدود رہتا ہے تو پھر اہل پاکستان کے ساتھ یہ وہ دھوکا اور فراڈ ہوگا جس کے بعد سہ بارہ خان صاحب پر اعتماد کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ (سہ بارہ اس لیے کہ پہلا موقع کے پی کے میں اور دوسرا موقع وفاق میں دیا جا رہا ہے۔) خان صاحب نے یہ جو مدنی ریاست کی بات کی ہے کوئی چھوٹی بات نہیں بلکہ بہت بڑی بات کی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ قانون کی بہت ساری شقوں اور حالات کو یکسر بدل دینا۔ اس میں وہ سب باتیں آتی ہیں جن کا ذکر ہم آنے والی سطور میں کریں گے۔ البتہ خان صاحب کی گفتگو سے بظاہر یہ محسوس ہو رہا تھا کہ وہ مدنی ریاست سے مراد صرف انصاف کی فراہمی لے رہے تھے۔ اگر انھوں نے مدنی ریاست کا مطلب صر ف انصاف کی فراہمی سمجھا ہے تو یہ ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ انصاف کی فراہمی تو مدنی ریاست کا صرف ایک پہلو تھا، انصاف کے علاوہ اور انصاف سے پہلے اور بھی بہت سارے پہلو ہیں جن سب کے ملنے سے مدنی ریاست کا ڈھانچہ تشکیل پاتا ہے۔

ذیل میں ہم مدنی ریاست کا ایک خاکہ پیش کرتے ہیں۔ اگر خان صاحب اپنے اس دعوے میں مخلص ہیں تو انھیں اس خاکے کے مطابق نئے پاکستان کی بنیاد رکھنا ہو گی۔ اگر وہ مدنی ریاست کے صرف ایک پہلو ’’انصاف‘‘ کو لیں اور باقی تمام پہلوؤں کو پس پشت ڈال دیں تو پھر ان کا مدنی ریاست کا بیانیہ سراسر دھوکے اور فراڈ پر مبنی ہو گا۔ پھر انھیں چاہیے کہ وہ مدنی ریاست کا نام لینے کی بجائے صرف ’’انصاف‘‘ کا نام لیں۔ اس لیے کہ مدنی ریاست کا جو خاکہ ہم پیش کرنے جا رہے ہیں وہ ہمارا اپنا تیار کردہ نہیں ہے بلکہ یہ قرآن اور کتب سیرت و احادیث میں منقول مدنی ریاست کے وہ حقائق ہیں جن کا انکار ممکن نہیں۔ آئیے! پڑھتے ہیں مدنی ریاست کے مختصر خدوخال:

عقیدئہ توحید

ریاست مدینہ کی سب سے اہم اور بنیادی اینٹ عقیدئہ توحید تھی۔ رسول اللہe نے تیرہ سال اہل مکہ کو عقیدئہ توحید کی دعوت دی۔ چند ایک افراد نے اس دعوت کو قبول کیا، اکثریت اس کی انکاری رہی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپe نے مکہ سے یثرب ہجرت کی اور مدینۃ النبی کے نام سے اس ریاست کی بنیاد عقیدئہ توحید پر رکھی۔ اس کے بعد دس سال آپe نے اس ریاست میں توحید کی خوب آبیاری کی۔ آپe نے فرمایا: ’’مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ جب تک لوگ عقیدئہ توحید قبول نہ کر لیں تب تک ان سے قتال کرتا رہوں۔‘‘ (صحیح البخاري:25)

ایک مرتبہ صحابہ کرامy نے آپe کے سامنے تبرک کے حصول کے لیے ذات انواط کے نام سے ایک درخت مقرر کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ آپe نے ان کی اس خواہش پر غصے کا اظہار کیا اور فرمایا: ’’تم نے بالکل ویسے ہی مطالبہ کیا ہے جیسا موسیٰu کے حواریوں نے ان سے کیا تھا کہ ہمارے لیے بھی کوئی ایسا معبود مقرر کر دیں جیسے دوسرے لوگوں نے معبود بنا رکھے ہیں۔‘‘ (جامع الترمذي: 2180)

گویا عقیدئہ توحید ریاست مدینہ کی ایک بنیادی اکائی تھی۔ مدینہ طیبہ میں درباروں، مزاروں اور قبروں کی پوجا پاٹ کا نہ تو کوئی وجود تھا اور نہ ہی کوئی ایسا تصور صحابہ کرامy میں پایا جاتا تھا۔ جب کبھی شیطان کے ورغلانے سے صحابہ کرامy کے ذہنوں میں ایسی کوئی سوچ آئی تو آپe نے فوراً ان کی اصلاح کی۔ جس دن رسول اللہe کے بیٹے ابراہیمt کی وفات ہوئی اسی دن سورج کو گرہن لگ گیا۔ بعض صحابہ کرامy کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ آج سورج کو گرہن ابراہیمt کی وفات کی و جہ سے لگا ہے۔ آپe کو اس خبر کی اطلاع ہوئی تو آپe نے فرمایا: ’’یہ سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ یہ کسی شخص کی موت یا پیدائش کی و جہ بے نور نہیں ہوتے، جب کبھی تم ان کو گرہن لگا دیکھو تو نماز پڑھو اور اللہ کا ذکر اور اس کی حمد و ثنا بیان کرو۔‘‘ (صحیح البخاري: 1043)

عقیدئہ توحید ریاست مدینہ کی وہ بنیادی اکائی ہے جس کے بغیر مدینہ کی تکمیل نامکمل ہے۔ اب مدینہ کی طرز پر جو بھی ریاست تعمیر ہو گی اس کی بنیاد عقیدئہ توحید پر ہونا لازمی اور ضروری ہے۔ گویا مدینہ کی طرز پر نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے شرک کے تمام اڈوں کا خاتمہ، درباروں اور مزاروں کا صفایا ضروری ہے۔ اگر خان صاحب اپنے اس دعوے میں مخلص ہیں تو وزارت کا حلف اٹھانے کے بعد سب سے پہلے یہی قدم اٹھائیں ورنہ اس اقدام کے بغیر ریاست مدینہ کا خواب محض خام خیالی ہے اور کچھ نہیں۔

نظام صلاۃ

نماز کی پابندی ریاست مدینہ کی ایک اہم خوبی تھی۔ جیسے ہی اذان ہوتی ایک عام مسلمان سے لے کر حکمران مدینہe تک تمام لوگ مسجد کا رخ کرتے۔ اگر کوئی شخص سخت بیماری یا سفر پر جانے کی و جہ سے مسجد میں حاضر نہ ہو پاتا تو آپe اس کے بارے میں معلوم کراتے۔ حکمران مدینہe کا فرمان ہے: ’’اللہ کی قسم! میں نے کئی بار یہ ارادہ کیا کہ میں لکڑیاں اکٹھی کرنے کا حکم دوں اور پھر اذان کے بعد ایک شخص کو نماز پڑھانے کی ڈیوٹی سونپ دوں اور میں ان لوگوں کے گھروں کو جا کر آگ لگا دوں جو نماز باجماعت کے لیے مسجد میں نہیں آتے ہیں‘‘آپe نے یہ عام آرڈیننس جاری کیا کہ جو شخص عشاء اور فجر کی نماز کے لیے مسجد میں حاضر نہیں ہوتا اس میں نفاق کی علامت پائی جاتی ہے۔ (صحیح مسلم: 651)

حکمران مدینہe کی اپنی حالت یہ تھی کہ سخت بیماری کے ایام میں بھی صحابہ کرامy کے کندھوں کا سہارا لے کر مسجد میں تشریف لاتے ہیں۔ (صحیح البخاري: 664)

آخری وقت میں آپe نے اہل مدینہ اور تمام امت کو نماز کی اہمیت سے آگاہ کیا اور فرمایا: ’’نماز، نماز، نماز۔‘‘ (سنن أبي داود: 5156)

گویا ریاست مدینہ کی طرز پر تعمیر ہونے والے نئے پاکستان میں نماز کی پابندی لازمی قرار دی جائے۔ عام شخص سے لے کر ارکانِ پارلیمنٹ تک تمام افراد کو نماز بروقت اور باجماعت ادا کرنے کا پابند کیا جائے کیونکہ نماز کی پابندی ریاست مدینہ کی ایک نمایاں خوبی تھی۔

نظام زکاۃ

ریاست مدینہ کا ایک اہم پہلو زکاۃ کا نظام تھا۔ حکمران مدینہe نے ٹیکس کی بجائے زکاۃ کا نظام متعارف کرایا۔ ٹیکس وصول کرنے والوں کے بارے سخت وعیدیں ارشاد فرمائیں اور زکاۃ ادا کرنے والوں کو بڑی بڑی نویدیں سنائیں۔ اسی نظام زکاۃ کی بدولت ریاست مدینہ نے شاندار معاشی ترقی کی۔ ایک وقت ایسا آیا کہ زکاۃ دینے والے زکاۃ لینے والوں کو ڈھونڈ رہے تھے مگر ریاست مدینہ میں کوئی زکاۃ لینے والا میسر نہ تھا۔ گویا مدینہ کی ترقی میں نظام زکاۃ کا ایک اہم کردار شامل تھا کہ جب امراء نے غرباء کو اپنے اموال کی زکاۃ دی تو غرباء نے اس کے ساتھ اپنا بزنس شروع کیا اور یوں وہ بھی اپنے آپ کو امیر لوگوں کے برابر لانے میں کامیاب ہو گئے۔ اگر خان صاحب ملکی ترقی چاہتے ہیں اور مدینہ کی طرز پر نئے پاکستان کی تعمیر چاہتے ہیں تو اس کے لیے ٹیکس کے نظام کا خاتمہ اور نظام زکاۃ کا نفاذ ضروری ہے۔

حدود اللہ کا نفاذ

مدینہ طیبہ میں حدود اللہ کا نفاذ ایک یقینی امر تھا۔ زنا، چوری اور قصاص جیسی حدود بلاتفریق نافذ کی جاتی تھیں۔ حدود اللہ کے عملی نفاذ کی بنا پر ریاست مدینہ امن کا گہوارہ بن چکی تھی۔ حکمران مدینہe کا حدود اللہ کو نافذ کرنے کا قانون اس قدر صاف اور شفاف تھا کہ امیر اور غریب کا لحاظ کیے بغیر حد جاری کر دی جاتی تھی۔ آپe حدود کے نفاذ میں اس قدر سختی سے عمل پیرا تھے کہ کوئی بھی شخص کسی کی سفارش کرنے کی جرأت نہ رکھتا تھا۔ اگر کسی نے کبھی یہ جسارت کی بھی تو آپ نے سختی سے اسے ٹھکرا دیا اور سفارش کرنے والے کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ حدود اللہ کے نفاذ کا نتیجہ تھا کہ ریاست مدینہ میں ہر کسی کی عزت اور مال محفوظ تھا۔ ایک موقع پر جب حکمران مدینہe کی طرف سے چوری کی حد نافذ کرنے کا آرڈیننس جاری ہو گیا تو بعض صحابہ کرامy کے کہنے پر سیدنا اسامہ بن زیدw نے حکمران مدینہe کی خدمت میں حاضر ہو کر اس حکم کو کالعدم کرنے کی سفارش کی۔ آپe نے سخت ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا: ’’کیا تم اللہ کی حدود کے نفاذ میں آڑے آتے ہو، تم سے پہلے لوگوں کی ہلاکت اور بربادی کی ایک و جہ یہ بھی تھی کہ جب ان میں کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی غریب آدمی چوری کرتا تو اس پر حد نافذ کر دی جاتی۔ اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمدe بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا۔‘‘ (صحیح البخاري: 3475)

ریاست مدینہ میں حدود اللہ کے نفاذ میں امیر اور غریب کے مابین کوئی تفریق روا نہیں رکھی جاتی تھی۔ اس لیے ضروری ہے کہ ریاست مدینہ کی طرز پر تعمیر ہونے والے نئے پاکستان میں حدود اللہ کا نفاذ یقینی بنایا جائے۔ زانی کو سرعام سنگسار کیا جائے اور چور کا ہاتھ کاٹا جائے۔ مقتول کے ورثاء کو انصاف کی فراہمی یقینی بنائی جائے اور قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے، الا یہ کہ قاتل دیت دے اور ورثاء بھی دیت لینے پر راضی ہو جائیں۔ اگر خان صاحب مدنی ریاست کو رول ماڈل بنانے میں مخلص ہیں تو پھر حدود اللہ کے نفاذ کو یقینی بنانا ہو گا۔ خان صاحب نے اپنی گفتگو میں انصاف کی فراہمی پر بہت زور دیا ہے مگر حقیقی انصاف تب ہی میسر ہو گا جب حدود اللہ کا نفاذ ہو گا۔ بہرحال حدود اللہ کا نفاذ ریاست مدینہ کا وہ لازمی عنصر تھا جس کے بغیر ریاست نامکمل ہے، اس لیے اس طرز پر جس ریاست کی بھی بنیاد رکھی جائے گی وہاں حدود اللہ کا نفاذ ضروری ہے۔ صحابۂ کرامy میں سے اگر کسی سے زنا کا ارتکاب ہو جاتا تو وہ رجم کی سزا کے لیے عدالت مدینہ میں اپنے آپ کو پیش کر دیتے تھے۔ اگر جرم ثابت ہو جاتا تو حکمران مدینہ اسے رجم کرنے کا حکم جاری فرما دیتے۔ چونکہ خان صاحب بھی اس جرم کا ارتکاب کر چکے ہیں، بقول ریحام خان ایک دو بار نہیں بلکہ بارہا اس جرم کا ارتکاب کر چکے ہیں اور عالمی عدالتوں میں یہ جرم ثابت بھی ہو چکا ہے۔ اب اگر خان صاحب ریاست مدینہ کی اتباع کرتے ہوئے حدود اللہ کے نفاذ میں سب سے پہلے اپنی ذات کو پیش کرتے ہیں تو یہ اس دور میں ایک عظیم مثال ہو گی۔

ارتداد کی سزا

ریاست مدینہ میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگ بھی رہائش پذیر تھے۔ حکمران مدینہ کی جانب سے انھیں وہاں رہنے کی اجازت تھی مگر انھیں اس بات کا حق حاصل نہیں کہ وہ مدینہ میں اپنے مذہب کا پرچار کریں اور مسلمانوں کو اپنے مذہب میں داخل کر لیں۔ اس کی بنیادی و جہ یہ تھی کہ دین اسلام کے بعد سابقہ تمام ادیان منسوخ ہو چکے تھے۔ اب نہ تو کوئی سابقہ دین قابل قبول تھا اور نہ ہی اسلام سے ہٹ کر کوئی نیا دین یا نیا نبی۔ ا سی اصول کے تحت ریاست مدینہ کے منشور میں یہ شق شامل تھی: ’’جو اپنا دین (دین اسلام) بدلے اسے قتل کر دو۔‘‘ (صحیح البخاري: 6922)

ریاست مدینہ کی طرز پر تعمیر ہونے والے نئے پاکستان کی اس شق کو عملاً نافذ کیا جائے۔ پرانے پاکستان میں جتنے بھی مرتدین موجود ہیں انھیں اسلام میں دوبارہ داخل ہونے کا ایک موقع دیا جائے۔ اگر وہ توبہ کرکے اسلام میں واپس لوٹتے ہیں تو ٹھیک ورنہ ان سب کی گردنیں تن سے جدا کر دی جائیں۔ خصوصاً قادیانیوں کا اس ملک سے خاتمہ کیا جائے جو اسلام اور اہل اسلام کے خلاف آستین کے سانپ کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ تمام مرتدین کو آزادی مذہب کی چھتری تلے پناہ د ینے کی بجائے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اس قانون کی زد میں اگر خان صاحب کی اپنی سابقہ بیوی بھی آئے تو اس قانون کے نفاذ میں ان کے قدموں میں ڈگمگاہٹ نہیں آنی چاہیے۔ ریاست مدینہ میں غزوئہ بدر کے موقع پر سیدنا عمر فاروقt نے یہی کہا تھا کہ یارسول اللہ (e)! جو میرے رشتے دار ہیں انھیں میرے حوالے کیا جائے، میں انھیں قتل کروں گا اور جو سیدنا ابوبکرt کے رشتے دار ہیں وہ ان کے سپرد کیے جائیں اور وہ انھیں قتل کریں۔ مدینہ کی طرز پر قائم ہونے والی ریاست کا بھی یہی تقاضا ہے۔

سودی نظام کا خاتمہ

سودی معاملات کو اللہ تعالیٰ سے جنگ قرار دیا گیا ہے۔ اس کا سب سے کم اور ہلکا درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی سگی ماں سے زنا کا ارتکاب کرے۔ (سنن ابن ماجہ: 2274)

اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سے اوپر والے درجات کی ہیبت کیا ہو گی۔ سودی معاملات کے نتیجے میں امیر آدمی امیر سے امیر ترین اور غریب آدمی غریب سے غریب ترین ہوتا چلا جاتا ہے۔ اکثر لوگوں کی تو زندگی سودی قرض اتارتے اتارتے گزر جاتی ہے۔ ریاست مدینہ سودی غلاظت سے بالکل پاک اور صاف تھی۔ حکمران مدینہe نے سود کی تمام اقسام سے اپنی رعایا کو آگاہ کیا اور انھیں ان اقسام کو اپنانے سے سختی سے منع کیا۔ فتح مکہ کے موقع پر آپe نے عام اعلان کر دیا کہ آج سے پہلے اہل مکہ کے مابین بھی جو سودی معاملات تھے وہ ختم کیے جا رہے ہیں، ہر شخص قرض کی اصل رقم وصول کرے، اس پر سود لینا اس کے لیے قانوناً اور شرعاً ناجائز ہے۔

مدینہ کی طرز پر نیا پاکستان تعمیر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ یہاں سے سود کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ سود کی جتنی بھی صورتیں ملک میں رائج ہیں انھیں قانوناً جرم قرار دیا جائے۔ نچلی سطح سے لے کر بینکنگ نظام تک تمام ادارے سود سے پاک کیے جائیں۔ اگر خان صاحب سودی نظام کو زیرو پر لے جاتے ہیں تو نئے پاکستان کی تشکیل میں اہم کامیابی پا لیں گے اور اگر اس طرف توجہ نہیں دیتے تو پھر طرز مدینہ پر ریاست تشکیل دینے کے دعوے محض بیان بازی کے علاوہ کچھ نہیں۔

بے حیائی اور فحاشی کی روک تھام

ریاست مدینہ کا بے حیائی اور فحاشی کے تعلق سے منشور اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان کیا ہے۔ فرمایا:

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ  (النور 19)

’’وہ لوگ جو اہل ایمان میں بے حیائی کے فروغ کو پسند کرتے ہیں، ان کے لیے دنیا اور آخرت میں المناک عذاب ہے۔‘‘

حکمران مدینہe نے اس کی ذیلی شق یوں بیان کی: ’’مومن نہ تو طعن کرنے والا ہوتا ہے ، نہ لعنت و ملامت کرنے والا اور نہ فحاشی کی باتیں کرنے والا۔‘‘ (صحیح المفرد: 232/1)

گویا ریاست مدینہ کے منشور میں یہ شق شامل تھی کہ ریاست میں رہتے ہوئے بے حیائی اور فحاشی کی کسی بھی صورت کا ارتکاب قانوناً جرم ہے۔ یہ صرف قانون ہی نہیں تھا بلکہ حکمران مدینہe نے اپنی رعایا کی تربیت بھی بڑی پاکیزہ کی تھی۔ یہی و جہ ہے کہ ریاست مدینہ میں خواتین بامر مجبوری گھر سے باہر نکلتی تھیں۔ جب گھر سے باہر نکلتیں تو مکمل پردے میں ہوتیں، حتی کہ سر تا پا چادریں زمین پر گھسٹ رہی ہوتیں۔ منشور مدینہ میں بھی باحیا معاشرے کی تشکیل کے لیے خواتین کو یہی حکم دیا گیا تھا:

وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی (الأحزاب 33)

’’اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور پہلی جاہلیت کے زینت ظاہر کرنے کی طرح زینت ظاہر نہ کرو۔‘‘

طرز مدینہ پر قائم ہونے والی ریاست میں ضروری ہے کہ معاشرے کو بے حیائی اور فحاشی کے کیچڑ سے نکالا جائے۔ خان صاحب گزشتہ کچھ برسوں سے اپنے دھرنوں اور جلسوں میں بے حیائی اور فحاشی کو فروغ دینے میں خاصے معروف ہوئے ہیں۔ اب چونکہ وہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہو رہے ہیں اور نئے پاکستان کی تعمیر مدینہ کی طرز پر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس لیے انھیں اب اپنی پرانی روش کو بدلنا ہو گا۔ اگر وہ اپنے آئندہ ہونے والے جلسوں میں قوم کی بیٹیوں کو نچانے والی روش کو جاری رکھتے ہیں اور نام ریاست مدینہ کا لیتے ہیں تو یہ مدینہ طیبہ کی گستاخی ہے۔ ریاست مدینہ میں خواتین کا یوں غیر محرموں کے ساتھ مل کر ناچ گانا کرنا تو درکنار وہ تو مکمل پردے کے بغیر گھروں سے نکلا ہی نہیں کرتی تھیں۔ وہ تو راستے میں چلتے ہوئے بھی دیواروں کے ساتھ گھسٹ کر گزرتی تھیں کہ کہیں غیر مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو جائے۔ بہرحال اب خان صاحب کو اس پر خاص توجہ دینی ہو گی، اگر وہ ریاست مدینہ کی طرز پر نئے پاکستان کی تشکیل کے خواہاں ہیں تو انھیں بے حیائی اور فحاشی کے سیلاب کو روکنا ہو گا اور بے حیائی کی تمام قسموں کا خاتمہ یقینی بنانا ہو گا، چاہے وہ مخلوط سسٹم اور ناچ گانے کی صورت میں ہو یا کلچر کی آڑ میں ہونے والے پروگراموں کی صورت میں ہو یا اس کے علاوہ کسی بھی صورت میں۔ اگر بے حیائی اور فحاشی یونہی رائج رہے اور دعوے ریاست مدینہ کے ہوں تو یہ قوم کے ساتھ سراسر دھوکا اور فریب ہے۔

با حیا اور غیرت مند حکمران

ریاست مدینہ کے حکمران محمدe ایک باحیا اور پاکیزہ صفت انسان تھے۔ آپ کا ماضی بھی پاکیزہ تھا اور حال بھی۔ غیر محرم عورتوں کے ساتھ آپ کا تعلق صرف اس حد تک ہوتا کہ جو عورتیں آپ سے دینی سوال پوچھتیں آپe انھیں ان کے سوالوں کے جواب دیتے اور ان کے ساتھ کوئی اضافی اٹھک بیٹھک نہ کرتے۔ آپe کی حیا اور پاکیزگی کا عالم تو یہ تھا کہ خواتین آپe کے ہاتھ پر بیعت کرنے آتیں مگر آپe نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔ آپe اپنے تعلق سے لوگوں کے ذہنوں کو ہمیشہ صاف رکھتے اور اپنی صفائی پیش کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہوتے۔ آپe مسجد میں اعتکاف بیٹھے ہوئے تھے۔ آپe کی ایک بیوی سیدہ صفیہr ملنے کے لیے آئیں۔ جب وہ واپس جانے لگیں تو آپe انھیں چھوڑنے کے لیے باہر تک آئے۔ آپe ابھی اپنی زوجہ محترمہ سے گفتگو کر رہے تھے کہ وہاں سے دو آدمی گزرے۔ آپe نے انھیں روکا اور فرمایا: ’’یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی ہے۔‘‘ انھوں نے کہا: سبحان اللہ۔ یا رسول اللہe !ہمارے ذہنوں میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ آپe نے فرمایا: ’’شیطان، انسان کے جسم میں ایسے ہی دوڑتا ہے جیسے رگوں میں خون۔ مجھے یہ خوف محسوس ہوا کہ وہ کہیں تمھارے دلوں میں کوئی غلط بات نہ ڈال دے۔‘‘ (صحیح البخاري: 2038)

حکمران مدینہe نے فوراً اپنی صفائی پیش کی کہ کہیں شیطان ان کے دلوں میں غلط بات نہ ڈال دے کہ محمدeکسی غیر عورت کے ساتھ کھڑے تھے۔ گویا حکمران مدینہe کا ماضی بھی پاکیزہ اور حال بھی پاکیزہ تھا۔

خان صاحب بھی طرزِ مدینہ پر بننے والے نئے پاکستان کے حکمران بننے جا رہے ہیں۔ ان کا ماضی کیسا تھا؟ ہم اسے نہیں چھیڑتے، البتہ اتنا ضرور عرض کریں گے کہ اب انھیں اپنے ماضی سے توبہ تائب ہو کر اپنے حال کو بدلنا ہو گا۔ اب انھیں طرز مدینہ پر قائم ہونے والے نئے پاکستان میں غیر محرم عورتوں سے میل ملاپ اور ان کے ساتھ چمٹ کر پوز بنانے سے گریز کرنا ہو گا۔ اگر آپ ریاست مدینہ کی طرز پر نئے پاکستان کی تعمیر کا عزم رکھتے ہیں تو پھر آپ کو بھی بحیثیت حکمران، حکمران مدینہe کے اعلیٰ اوصاف کو اپنانا ہو گا۔

اعلیٰ اخلاق و آداب

حکمران مدینہe بڑے اعلیٰ اخلاق اور آداب کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی قرآن مجید میں یوں دی ہے:

وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم 4)

’’بے شک آپ بڑے اعلیٰ اخلاق پر ہیں۔‘‘

آ پ کے اعلیٰ اخلاق کا عالم یہ تھا کہ اگر کوئی آپ کو تکلیف بھی دے دیتا تو آپ نے اس سے کبھی انتقام نہیںلیا۔ حکمران مدینہe نے اپنے ورکرز کی بھی بڑی اعلیٰ تربیت کی اور فرمایا: ’’جو ہمارے بڑے لوگوں کی عزت نہیں کرتا اور چھوٹے لوگوں پر رحم نہیں کرتا اس کاہم سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘ (جامع الترمذي: 1919)

خان صاحب ماضی میں اس حوالے سے خاصے ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اس پر ان کے جلسوں میں ہونے والی گفتگو شاہد ہے۔ بہرحال اب انھیں اپنے اس انداز کو بدلنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنے ورکرز کی بھی تربیت کرنا ہو گی۔ انھیں بڑوں اور چھوٹوں کا ادب سکھانا ہو گا۔ ان کے ذہنوں میں اپنی پارٹی کے علاو جو دیگر پارٹیوں کا بغض اور نفرت بھر دیا گیا ہے اسے ختم کرنا ہو گا۔ ان کے اندر حق بات سننے اور اسے برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہو گا۔ انھیں گالی گلوچ کی سیاست سے نکال کر اخلاقیات کے دائرے میں لانا ہو گا۔

عورت کی سربراہی

ریاست مدینہ میں عورت کی سربراہی کا کوئی وجود نہیں تھا۔ حکمران مدینہ نے امور ریاست انجام دینے کے لیے کسی عورت کو اپنا وزیر یا نگران مقرر نہیں کیا تھا۔ آپe نے مدینہ سے باہر بھی ہمیشہ مردوں ہی کو نگران بنا کر بھیجا۔ آپe نے اس ریاست کو ناکام ریاست قرار دیا جس ریاست کی سربراہ عورت ہو۔ مدینہ کی طرز پر تعمیر ہونے والے نئے پاکستان میں اس بات کا لحاظ رکھنا ہو گا کہ کسی بھی عورت کو کسی عہدے پر فائز نہ کیا جائے۔

دور نبوت کی ریاست مدینہ کا یہ مختصر نقشہ ہم نے کھینچا ہے۔ عمران خان صاحب نے پرانے پاکستان کو ریاست مدینہ کی طرز پر نئے پاکستان میں بدلنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اگر وہ اپنے اس عزم میں مخلص ہیں تو انھیں ان تمام پہلوؤں کو عملاً اپنانا ہو گا تاکہ وہ اپنے اس عزم میں کامیاب ہو سکیں اور اہل پاکستان نئے پاکستان کی شکل میں مدنی ریاست کا دیدار اپنی آنکھوں سے کر سکیں۔ چونکہ خان صاحب نے اس عزم کا اظہار کیا ہے تو ہم ان کے لیے دعاگو ہیں کہ وہ مذکورہ نقشے کے مطابق نئے پاکستان کی تشکیل میں کامیاب ہو جائیں۔ البتہ کچھ ٹھوس حقائق اور مشاہدات و تجربات یہ بتا رہے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کر پائیں گے۔ جن بنیادوں پر ریاست مدینہ کو قائم کیا گیا تھا ان بنیادوں پر نئے پاکستان کی تعمیر مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن نظر آرہی ہے۔ اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ہم نے پہلے عرض کیا کہ ریاست مدینہ کا مطلب صرف انصاف کی فراہمی نہیں بلکہ وہ تمام پہلو ہیں جو ہم نے ذکر کیے ہیں۔ مدنی ریاست کی طرز پر نئے پاکستان کی تعمیر کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ خان صاحب کو سب سے پہلے اپنے گھر کی اصلاح کرنا ہو گی۔ انھیں یہ ٹھوس عقیدہ اپنانا ہو گا کہ مزاروں پر پیشانی رگڑنا ریاست مدینہ کے قانون میں حرام ہے۔ انھیں اپنی پیرنی زو جہ محترمہ کا قبلہ بھی درست کرنا ہو گا۔ انھیں ریاست میں موجود شرک کے تمام اڈوں کا خاتمہ کرنا ہوگا، یہ وہ کام ہے جس پر عمل درآمد دو بنیادی وجوہات کی بنا پر بالکل ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ پہلی و جہ یہ کہ بہت سارے امور ریاست کا انحصار ان مزارات سے حاصل ہونے والے نذرانوں پر ہے۔ کوئی بھی جمہوری حکومت یہ نہیں چاہتی کہ اس قدر وسیع ذریعہ آمدنی بند کر دیا جائے۔ دوسری وجہ یہ کہ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خاندانی طور پر مزارات کے گدی نشین ہیں۔ وہ اپنا یہ ذریعہ معاش بند ہوتا ہوا ہرگز قبول نہیں کریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک یہ اقدام نہیں ہوتا تب تک مدنی ریاست کا خواب فقط خام خیالی ہے۔

اسی طرح مدنی ریاست کے لیے ضروری ہے کہ نظام صلاۃ قائم ہو، ٹیکس کا خاتمہ اور زکاۃ سسٹم رائج کیا جائے۔ حدود اللہ کا عملی نفاذ ہو، سودی نظام کا خاتمہ ہو، معاشرے سے بے حیائی اور فحاشی کو ختم کیا جائے، قوم کے افراد کی اچھی تربیت کی جائے، یہ اور وہ تمام امور جو مدنی ریاست کے لیے ضروری ہیں انھیں یقینی بنایا جائے۔ یہاں یہ اعتراض بھی اٹھایاجا سکتا ہے کہ گزشتہ حکومتوں سے تو یہ مطالبہ نہیں کیا گیا، خان صاحب سے کیوں کیا جا رہا ہے۔ اس پر عرض کریں گے کہ گزشتہ حکومتوں نے قوم کو مدنی ریاست کا خواب نہیں دکھایا۔ خواب کی تعبیر کا مطالبہ بھی اسی سے کیا جاتا ہے جو خواب دکھاتا ہے۔ خان صاحب نے نئے پاکستان کی تعمیر ریاست مدینہ کی طرز پر کرنے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ مطالبات بھی خان صاحب ہی سے ہوں گے۔ مقولہ مشہور ہے: خوابوں کے ٹوٹنے پر ارمان اس شخص پر ہوتا ہے جس نے خواب دکھائے ہوتے ہیں، اس کے برعکس اس شخص پر ارمان نہیں ہوتا جس نے خواب دکھائے ہی نہ ہوں۔ خان صاحب اگرچہ اپنے خوابوں کی تعبیر میں مخلص ہوں مگر ان کے اردگرد جن لوگوں کا جمگھٹا ہے وہ ہرگز ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ ہاں اگر خان صاحب اپنے دعوے کے مطابق ریاست مدینہ کا نقشہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو خان صاحب قوم کے ہیرو ہیں اور اگر یہ فقط کھوکھلے دعوے ہیں تو قوم انھیں معاف نہیں کرے گی!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے