پانی اک بے مثال انعام الٰہی

پانی کی اہمیت و حفاظت اور بھارتی آبی جارحیت سے متعلق رہنما تحریر

ڈاکٹر مقبول احمد مکی

اللہ تعالی کی ان گنت نعمتیں ہیں، انسان پیدا ہونے سے لے کر موت تک زندگی کا ہر لمحہ نعمتِ الٰہی کے سایہ میں گزا ر تا ہے بلکہ انسان کا پورا وجود انعاماتِ الہی کا مظہراور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے بے کراں احسان و انعام کا احساس دلانے والا ہے ۔قرآن کریم میں اسی لئے اللہ تعالی نے انسا ن کو اس بات کا احساس دلایا کہ تم اللہ کی نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتے ،ارشاد باری تعالی ہے

:وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا  ( ابراھیم:34)

اوراگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمارکرنے لگوتو شمار نہیں کرسکتے ۔‘‘ اللہ تعالی کی بے شمار نعمتوں میں ایک اہم ترین نعمت پانی بھی ہے ،جس پر انسان کی بقا اور حیات موقوف ہے ۔ اللہ تعالی نے نظامِ کائنات کو پانی کے ذریعہ غیر معمولی انداز میں جوڑے رکھا ہے اور انسان کی اکثر ضرورتیں پانی ہی سے پوری ہوتی ہیں۔پانی کے ذریعہ ہی مردہ زمین سرسبز و شاداب ہوتی ہے، جھاڑ اور پودے ،پھل اور پھول لہلہانے لگتے ہیں ،پانی کے سبب ہی انسان اپنی ظاہری نجاست اور میل کچیل کو دور کرپاتا ہے ،پانی ہی سے انسان ترو تازگی حاصل کرتا ہے ، پانی سے کھیت و کھلیان ہرے بھرے رہتے ہیں ،انسانی آبادی وہاں مقیم ہونا پسند کرتی ہے جہاں پانی کا نظم ہو ،ورنہ بغیر پانی کے آباد بستیاں بھی ویران جنگل بن جاتی ہیں۔غرض یہ کہ اللہ تعالی نے انسان کی بہت سی حاجتوں کو پانی سے وابستہ رکھا ہے ۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے :  اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُزْجِيْ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيْنَهٗ ثُمَّ يَجْعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلٰلِهٖ ۚ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ جِبَالٍ فِيْهَا مِنْۢ بَرَدٍ فَيُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَصْرِفُهٗ عَنْ مَّنْ يَّشَاۗءُ  ( نور:43)

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ بادلوں کو چلاتا ہے، پھر انھیں ملاتا ہے پھر انھیں تہ بہ تہ کر دیتا ہے، پھر آپ دیکھتے ہیں ان کے درمیان مینہ برستا ہے وہی آسمانوں کی جانب اولوں کے پہاڑ میں سے اولے برساتا ہے، پھر جنہیں چاہے ان کے پاس انھیں برسائے اور جن سے چاہے ان سے انھیں ہٹا دے ۔

دوسری جگہ پر اس کو نعمت سے’’موسوم‘‘ کرتے ہوئے فرمایا

:وَهُوَ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ  ۭ حَتّٰى اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ  ۭكَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ( الاعراف :57)

اور وہی ( اللہ ) ہے جو اپنی رحمت ( یعنی بارش ) کے آگے آگے ہوائیں بھیجتا ہے جو (بارش کی ) خوش خبری دیتی ہیں ،یہاں تک کہ جب وہ بوجھل بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف چلاجاتے ہیں ،پھر وہاں پانی برساتے ہیں ،اور ان کے ذریعہ ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں ۔

نباتات ،حیوانات ، معدنیات ظاہرہ ہوں یا پوشیدہ غرض کہ وہ تمام اشیاء جن پر اس کائنات کے تحفظ و بقا کا دارو مدار ہے ، ان میں سب سے اہم چیز’’پانی‘‘ ہے جس کی بقاء میں کائنات کی تمام مخلوق کی بقاء وحفاظت مضمر ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں

: وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاۗءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ۝۰ۭ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ۝۳۰ (الانبیاء)

’’اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟ ‘‘

باری تعالیٰ نے اپنی توحید ربوبیت کے دلائل میں پانی کی نعمت کا تذکرہ بطورِ خاص کیا ہے فرمان باری تعالیٰ ہے

اَفَرَءَيْتُمُ الْمَاۗءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَ۝۶ ءَاَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ۝۶۹ لَوْ نَشَاۗءُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ۝۷۰ (الواقعہ)’’

بھلا دیکھو تو کہ جو پانی تم پیتے ہو ،کیا تم نے اس کو بادل سے نازل کیا ہے یا ہم نازل کرتے ہیں؟ ،اگر ہم چاہیں تو ہم اسے کھاری کردیں پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے؟۔‘‘

مزید ارشاد فرمایا :

  وَّيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَيُحْيٖ بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا۝۰ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ۝۲۴ ( الروم)

’’اور آسمان سے مینہ برساتا ہے۔ پھر زمین کو اس کے مر جانے کے بعد زندہ (و شاداب) کر دیتا ہے۔ عقل والوں کے لئے ان (باتوں) میں (بہت سی) نشانیاں ہیں ۔‘‘

الغرض قرآن کریم میں اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک مقامات پر اللہ تعالیٰ نے پانی کی اہمیت اور افادیت کے بارے ارشاد فرمایا ہے۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی میں حیات کی تاثیر رکھی ہے ،اس لیے پانی پر صرف انسان کا ہی حق نہیں بلکہ جتنا انسان کو حق اتنا ہی دوسری مخلوق کابھی حق ہے ۔

وطن عزیز کو باری تعالیٰ نے اپنی قدرت کے انمول خزانوں سے نوازا ہے اسی طرح اپنی نعمت عظیم پانی سے بھی اہل پاکستان کو خود کفیل کیا تھا مگر ہمارے ذاتی مفاد پرست حکمران ان نعمتوں کو یا تو ضائع کر رہے ہیں یا ان کو صرف اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے تک ہی استعمال میں لا رہے ہیں، پاکستان میں پانچ بڑے دریا بہتے ہیں مگر شومئی قسمت کہ ان میں سے اکثر دریاؤں کا منبع دشمن ملک میں ہے اور ہر محاذ پر شکست کھانے کے بعد بھارت پاکستان کیخلاف پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے۔ اس نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کئی ڈیم بنائے۔ پاکستان بھارت کی ایسی مکروہ سکیموں کیخلاف متعلقہ عالمی فورمز پر معاملات اٹھا چکا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960ء میں عالمی بینک کی ضمانت کے ساتھ دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے ’سندھ طاس‘ معاہدہ طے پایا تھا۔

اس معاہدے کی ضرور ت 1948 میں اس وقت پیش آئی جب بھارت نے مشرقی دریاؤں کا پانی بند کردیا ۔دونوں ملک کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی کے باعث عالمی برادری متحرک ہوئی اور 1960 میں پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہد ہ طے پایا ۔

اس معاہدےکے تحت انڈس بیسن سے ہر سال آنے والے مجموعی طورپر168 ملین ایکڑفٹ پانی کو پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم کیا گیا جس میں تین مغربی دریاؤں یعنی سندھ ،جہلم اور چناب سے سے آنے والے 80 فیصد پانی پر پاکستان کاحق تسلیم کیا گیا جو 133 ملین ایکڑ فٹ بنتا ہےجبکہ بھارت کو مشرقی دریاؤں جیسے راوی،بیاس اور ستلج کا کنٹرول دے دیا گیا۔

چونکہ مغربی دریاوں میں کئی کا منبع بھارت اور مقبوضہ کشمیرمیں تھا اس لئے بھارت کو 3اعشاریہ6 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنےاور محدود حد تک آب پاشی اور بجلی کی پیداوار کی اجازت بھی دی گئی لیکن بھارت نے معاہدے کی اس شق کو پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کےلئے استعمال کرنا شروع کردیا اور مقبوضہ علاقوں سے گزرنے والے دریاؤں میں یعنی سندھ ، چناب اور جہلم پر 15 سے زائد ڈیم بنا چکا ہے جبکہ مزید 45 سے 61 ڈیمز بنانے کی تیاری کررہا ہے ۔

اس کے علاوہ ان دریاؤں پر آب پاشی کے 30 سے زائد منصوبے بھی مکمل کئے گئے ہیں ۔حال ہی میں آنے والی خبروں کے مطابق اب بھارت 15 ارب ڈالر کی

لاگت سے مزید منصوبوں پر کام کا آغاز کرہا ہے جس میں 1856 میگاواٹ کا سوا لکوٹ پاور پروجیکٹ بھی شامل ہے ۔ کشن گنگا ، رتل ، میار ،لوئر کلنائی ،پاکال دل

ہائیڈروالیکٹرک پلانٹ اور وولر بیراج نیوی گیشن پروجیکٹ پر بھی کام کا آغاز کررہا ہے جن کا مقصد بظاہر تو بجلی بنانا ہے لیکن اس کے ذریعے پانی کے بہاؤ کو کنٹرول  کرنا بتایا جاتا ہے ۔

بھارت پاکستان کو دباؤ میں لانے کےلیے کئی بار سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی بھی دے چکا ہے جبکہ دریاؤں کا رخ موڑنے کا اعلان بھی کرتا نظر آتا ہےاگرچہ یہ معاہدہ برقرار ہے لیکن دونوں ملکوں ہی کے اس پر تحفظات رہے ہیں اور بعض اوقات اس معاہدے کو جاری رکھنے کے حوالے سے خدشات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔انڈیا نے ہمیشہ سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور ماضی میں پاکستان کے بیوروکریٹس نے وطن سے غداری کرتے ہوئے پاکستان کے موقف کو ہمیشہ کمزور دلائل سے پیش کیا ہے جس کی بنا پہ سندھ طاس کے معاہدے کی روح پر عمل درآمد نہیں ہوسکا جس کا خمیازہ وطن عزیز آج تک بھگت رہا ہے۔

زرعی ملک ہونے کےناطے پاکستان میں فصلوں کی کاشت کا زیادہ تر دارومدار دریاؤں سے پانی کی آمد پر ہوتا ہے۔ایسے میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان کےلئے کافی اہم ہے۔

درج بالا سطور میں آبی وسائل پہ بھارتی جارحیت کھل کر سامنے لائی جاچکی ہے اب اس سنگین مسئلے کا حل کیا ہے ؟

وطن عزیز کے آبی مسائل کا حل بنیادی طور پہ دو اہم ترین اقدامات کے ذریعہ ممکن ہے۔

الف: موجودہ آبی ذخائر کو استعمال کرنے میں اسلامی احکامات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اسراف وتبذیر سے دور رہ کر کفایت شعاری کو اپنانا ہوگا اس سلسلہ میں دین اسلام ہمیں واضح ہدایات بھی فراہم کرتاہے۔

پانی کا ضرورت سے زیادہ استعمال اسراف کے زمرہ میں آتا ہے  اور اسراف کو اسلام نے ناجائز قرار دیاہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :

وَلَا تُسْرِفُوْا۝۰ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ۝۱۴۱ۙ  ’’

بےجا نہ اڑاؤ کہ اللہ  بیجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘

اس طرح کے اسراف سے کیون کہ دوسروں کے حقوق بھی سلب ہوتے ہیں ، اور نظام تکوینی میں بھی خلل واقع ہوتا ہے،جس سے زمینی نظام میں فساد کا باعث ہوگا اس طرح کےفساد کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے ۔

اسلام میں پانی کی حفاظت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پنچ وقتہ نمازوں کے لیے جو وضو کیا جاتا ہے اور اس میں پانی کی مقدار پر بھی اسلام نے نظر رکھتا ہے۔ ایک مرتبہ سیدنا سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ وضو کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے، سعد رضی اللہ عنہ! کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ وہ اپنے اعضاء وضو پرکچھ زیادہ ہی پانی ڈال رہے ہیں ، یہ دیکھ کر فرمایا ! لا تسرف اے سعد اسراف نہ کرو، سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، یا ر سول اللہ ! کیا پانی میں بھی اسراف ہوتا ہے ، فرمایا ہاں، اگر چہ تم بہتی ہوئی نہر پر ہو ، (سنن ابن ماجہ :1/147)

اس بارے میں اور بھی احادیث مبارکہ ہیں جن کو طوالت کے پیش نظرذکر نہیں کیا جارہا ۔

اسلام نے پانی کی حفاظت کے لیے جو غیر معمولی اقدامات کیے ہیں ان کا اندازہ درج ذیل احادیث مبارکہ سے لگایا جاسکتاہے ۔

سیدنا جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ سرکار دوعالم ﷺنے بہتے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (المعجم الا وسط للطبرانی: 2/208، رقم الحدیث :1749)

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول ﷺ کا یہ ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں کہ ’’پانی کا برتن ڈھانپ دیا کرو اور مشکیز ے کا منہ باندھ دیا کرو۔‘‘(صحیح مسلم :6؍ 105، رقم الحدیث : 5364)

رسول اکرم ﷺنے پانی کی حفاظت کے سلسلہ میں عملی نمونہ بھی پیش فرمایا ہے جیسا کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ  ایک ’’مد‘‘کی مقدار پانی سے وضوء فرمالیا کرتے تھے اور ایک’’صاع ‘‘کی مقدار پانی سے غسل فرمالیا کر تے تھے ۔’’ مد ‘‘یعنی دو ہاتھ بھر کر پانی کی مقدار کو کہتے ہیں اور صاع چار ’’ مد ‘‘ کی مقدار کو کہتے ہیں ۔  درج بالا احادیث مبارکہ سےپتہ چلتا ہے کہ اسلام نے پانی کے تحفظ کو بڑی اہمیت دی ہےلہٰذا ان اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہمیں پانی کی حفاظت کرنی چاہئے کیونکہ وہ ایسا سرمایہ ہے جو قیمت سے بالاتر ہے۔

ب : آبی وسائل کی حفاظت کا دوسرا اہم ترین ذریعہ وطن عزیز میں فی الفور ہنگامی بنیادوں پہ مختلف حجم کے ڈیمز کی تعمیر ہے ۔

پاکستان کونسل برائے تحقیق آبی ذخائر کے مطابق 1990ء میں پاکستان ان ممالک کی صف میں شامل ہو گیا تھا جہاں آبادی کے مقابلے میں آبی ذخائر کم ہو گئے تھے۔ پاکستان کے قیام کے وقت ہر شہری کیلئے 5 ہزار 6 سو کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر صرف ایک ہزار کیوسک میٹر رہ گیا ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمز اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں خبردار کر چکا ہے کہ پاکستان میں پانی کی کمی بجلی کی قلت سے بھی بڑا مسئلہ ہے، حکومت کو اسی پر توجہ دینا ہو گی۔

1970ء کے انٹرنیشنل واٹر کنونشن رولز کے مطابق کوئی بھی ملک دریاؤں کو مکمل طور پر بند نہیں کر سکتا مگر بھارت ہمارے دریاؤں پر یہ ظلم کرتا چلا جا رہا ہے۔ پانی کے انتہائی اہم اور حساس مسئلے کے متعلق ہمارا یہ انداز تغافل ہمیں تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ زندگی کیلئے جزولاینفک پانی کے بارے میں ہماری یہ تساہل پرستی ہمیں بربادیوں کے دہانے پر لاکھڑا کرے گی۔ اس دنیا میں حیات کے سارے لمحات کا دارومدار پانی اور ہوا کے گرد گھومتا ہے۔ جب دریاؤں کے سینوں پر پانی کے بجائے ریت اڑے گی تو پھر یہ ریت ہماری تمام تر خواہشات اور آسودگیوں کو بھی اڑا لے جائے گی۔ زمینیں بنجر ہو جائیں تو فصلوں کے منظر ہولناک ہو جایا کرتے ہیں اور فصلیں اجڑ جائیں تو پھر قحط بن بلائے آدھمکتا ہے۔

مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ بات لکھنی پڑ رہی ہے کہ پچھلے کئی عشروں سے ہمارے حکمرانوں نے ملک میں پانی کے ختم ہوتے ہوئے ذخائر کے بارے کوئی جامع پالیسی نہیں بنائی اور یہی وجہ ہے کہ ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے ہم ہر سال 90ملین ایکڑ فٹ پانی ضائع کر دیتے ہیں جس میں سے صرف ایک ملین ایکڑ فٹ پانی کی مالیت 50کروڑ امریکی ڈالر ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ تربیلا ڈیم کے بعد کم ازکم ہر دس سال بعد نیا ڈیم بنایا جاتا لیکن بد قسمتی کے ساتھ حکمرانوں کی عیاشیوں کی وجہ سے اب تک کوئی ڈیم نہ بنایا جا سکا ۔ ڈیم ہمارے پانی کو ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ سستی بجلی کی پیداوار کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہے۔

پاکستان میں لیبر پہلے ہی سستا ہے اگر پاکستانی کارخانوں کو سستی بجلی فراہم کی جائے تو پاکستان میں بند ہونے والے تمام کارخانے چل پڑیں اور لاکھوں لوگوں کو فوری طور پر روزگار مل جائیگا۔

 ڈیمز کی تعمیر سے پاکستان کا انڈین ڈیموں کے خلاف عالمی محاذ پر کیس مضبوط ہوگا کہ پاکستان کے پاس ڈیم ہے اور پاکستان دریاؤوں کا پانی ضائع نہیں کر رہا ہے۔ ڈیم کے تعمیری منصوبے میں لوگوں کو براہ راست ملازمتیں ملیں گی۔ڈیم کی جھیل میں جمع ہونے والے پانی سے ماحول پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں اورموسمی ماہرین کے مطابق کچھ عرصہ بعد قریبی اضلاع کے درجہ حرارت میں کمی اور بارشوں میں اضافے کا امکان بھی پیدا ہوجاتاہے۔

اس کے ساتھ ساتھ  پاکستان میں زیادہ بارشوں کی وجہ سے یا انڈیا کے زیادہ پانی چھوڑنے کی وجہ سے ہر تھوڑے عرصے بعد آنے والے سیلاب کا سدِ باب اور زائد پانی کو فوری طور پر ذخیرہ  بھی ڈیم کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔ یوں ہر سال ہونے والا اربوں روپے کا نقصان اور عوام کو پہنچنے والی تکلیف بھی ختم ہوجائیگی۔

پانی کا ایک ایک قطرہ زندگی ہے اس کی حفاظت ہمارا انفرادی اور اجتماعی فریضہ ہے ،گھریلو طور پر پانی کے ضیاع کے جو مناظر ہمیں اپنے اطراف نظر آتے ہیں وہ بے حد تکلیف دہ ہیں ،چنانچہ معاشرتی سطح پر پانی کے استعمال میں کفایت اور پانی کو ذخیرہ کرنے کے منصوبو ں پر فوری توجہ نہ کی گئی تو ہمیں مستقبل میں کسی بڑی آزمائش سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے ،اس سلسلے میں اسکول ،کالجز ،جامعات اور مدارس کے علاوہ معاشی سطح پر دینی و سائنسی طرز پر شعورو آگہی کے پروگرام کرنے کی فوری ضرورت ہے ۔ سوشل ،پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ پانی کے محتاط استعمال کے حوالے سے عوام الناس کی ذہن سازی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے،صاف شفاف ،صحت مند اور منرلز سے بھرپور پانی رکھنے کے لیے حکومتی سطح پر ہنگامی اقدامات کئے جائیں ،حکومت پانی کو محفوظ کرنے اور توانائی بحران کے خاتمہ کیلئے ڈیموں کی تعمیر سیاست کی نذر نہ کیا جائے اور قیمتی پانی کو سمندر کی نذر ہونے کی بجائے اس ڈیم میں محفوظ کیا جائے ،سمندری پانی صاف کرنے کے پلانٹ لگائے جائیں،زمین پر بڑھتی ہوئی آلودگی نہ صرف زمینی اور زیر زمین آبی وسائل کی بربادی کا باعث بن رہی ہے بلکہ یہ آلودگی سمندر کا حصہ بھی بنتی جا رہی ہے ،آبی آلودگی کے تدارک کیلئے مناسب اقدامات کرۂ ارض پر حیات انسانی کی بقا و سلامتی کے متقاضی ہیں۔

آیئے اس گھمبیر صورت حال میں ہم اپنی ذمہ داری کو بطریق احسن ادا کرنے کا وعدہ کریں ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ملک عزیز کو پیش آمدہ مشکلات سے نکالنے کی سبیل پیدا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے