پہلا خطبہ :

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ، وہی غالب اور عطا کرنے والا ہے، گناہ معاف اور توبہ قبول کرنے والا ہے، وہ سخت عذاب اور شدید پکڑ والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں، اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، میں اپنے رب کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، اسی کی طرف توبہ کرتے ہوئے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ، وہ بہت بڑا اور بلند ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، آپ جنت کی خوشخبری دینے والے اور عذاب الہی سے ڈرانے والے ہیں، یا اللہ! اپنے بندے  اور رسول محمد پر ، ان کی آل اور نیکیوں کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تمام صحابہ کرام پر ڈھیروں درود و سلام نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد! اللہ تعالی کے احکامات کی تعمیل ، اور ممنوعہ کاموں سے بچتے ہوئے تقوی الہی اختیار کرو۔

اللہ کے بندو!اپنی آخرت سنوارنے کے لیے نیک کام کرو، اور اپنی نیکیوں کو ضائع مت کرو ورنہ نقصان میں پڑ جاؤ گے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ وَسَتُرَدُّونَ إِلَى عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (التوبۃ : 105)

ان سے کہہ دیں کہ : عمل کرتے جاؤ! اللہ، اس کا رسول اور سب مومن تمہارے طرز عمل کو دیکھ لیں گے اور عنقریب تم کھلی اور چھپی چیزوں کے جاننے والے کی طرف لوٹائے جاؤ گے تو وہ تمہیں بتا دے گا جو کچھ تم کرتے رہے ہو ۔

ایسے ہی فرمایا:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ (محمد : 33)

اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول اللہ کی اطاعت کرو، اور اپنے اعمال ضائع مت کرو۔

ایک مقام پر فرمایا:

قُلْ إِنَّ الْخَاسِرِينَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَلَا ذَلِكَ هُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِينُ

آپ کہہ دیں: خسارہ پانے والے تو وہ لوگ ہیں جنہوں

نے اپنے آپ اور اپنے اہل خانہ کو روز قیامت خسارے

میں ڈال دیا ، یقیناً یہی واضح خسارہ ہے۔[الزمر : 15]

اپنی دنیا سنوارنے کے لیے حلال کمائیں اور اسے فرض، مستحب اور مباح امور میں خرچ کریں، اس دنیا کو سفرِ جنت کے لیے کام میں لائیں، دیکھنا تمہیں دنیاوی رونقیں دھوکے میں نہ ڈال دیں، اور تم آخرت سے غافل ہو جاؤ، اس لیے مسلمانو! اپنی دنیا بنانے اور آخرت پانے کے لیے نیکیاں کرو۔

ایک اثر ہے کہ: ’’تم میں سے اپنی دنیا کے لیے آخرت ترک کرنے والا بہتر نہیں ہے، اور نہ ہی وہ شخص بہتر ہے جو اپنی آخرت کے لیے دنیا چھوڑ دے۔‘‘

سیدنا مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “ہم نبی کریم کے پاس دنیا اور آخرت کا تذکرہ کر رہے تھے اس دوران کچھ لوگوں نے کہا: دنیا [افضل ہے اس لیے کہ یہ]آخرت کی دہلیز ہے، اس میں نیکیاں، نمازیں اور زکاۃ ادا کی ادائیگی ہوتی ہے، جبکہ کچھ لوگوں نے کہا: آخرت میں جنت ہے[اس لیے آخرت دنیا سے افضل ہے] انہوں نے کچھ اور باتیں بھی کیں، تو رسول اللہ نے فرمایا: دنیا آخرت کے مقابلے میں ایسے ہے جیسے تم میں سے کوئی سمندر میں اپنی انگلی ڈالے تو جو کچھ اس کی انگلی کے ساتھ لگے تو وہ دنیا ہے۔(حاکم نے اسے مستدرک میں روایت کیا ہے)

اسی طرح حاکم نے سعد بن طارق سے بیان کیا ہے کہ وہ اپنے والد سے اور وہ نبی سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: دنیا ایسے شخص کے لیے بہترین مقام ہے جو یہاں آخرت کے لیے اتنا کرے کہ رب راضی ہو جائے ، اور اس شخص کے لیے برا مقام ہے جسے دنیا آخرت سے دور اور رضائے الہی سے محروم کر دے۔

حسن بصری رحمہ اللہ کہا کرتے تھے: دنیا مؤمن کے لیے اچھا مقام ہے، وہ اس طرح کہ یہاں مؤمن تھوڑا عمل کر کے جنت کا راہی بن جاتا ہے، اور یہی دنیا کافر اور منافق کے لیے بری ہے کہ وہ اپنی راتیں کالی کر کے جہنم کا راہی بن جاتا ہے۔( احمد نے اسے “الزہد” میں روایت کیا ہے)

ہر کسی کو یقین ہے کہ اس نے یہاں سے جانا ہے، اور اللہ کی طرف سے نوازا ہوا سب کچھ یہیں چھوڑ جانا ہے، اُس کے ساتھ صرف عمل ہی جائے گا، یہ عمل اچھا ہوا تو اچھا بدلہ ملے گا اور اگر برا ہوا تو بدلہ بھی برا ملے گا، جب ہر ایک کی یہی صورت حال ہوگی ، اور اس مرحلے سے لازمی گزرنا ہے تو سب کے لیے حسب استطاعت اچھے سے اچھا عمل لے کر جانا ضروری ہے، کیونکہ خالق اور مخلوق کے درمیان کوئی وسیلہ عمل کے بغیر کار گر نہیں ہو گا؛ کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا أَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضِّعْفِ بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفَاتِ آمِنُونَ

تمہارے اموال اور اولاد ایسی چیزیں نہیں ہیں جن سے تم ہمارے ہاں مقرب بن سکو ، ہاں جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے اعمال کا دگنا صلہ ملے گا اور وہ بالا خانوں میں امن و چین سے رہیں گے ۔[سبأ : 37]

اے مسلم! تمہارا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ سید ولد آدم نبی مکرم کے حوض کوثر سے پانی پینے میں کامیاب ہو جاؤ، یہ ہدف کیسے پا سکتے ہو ؟ اہل جنت اولین کش اسی حوض سے لگائیں گے۔

چنانچہ جس شخص کو اللہ تعالی حوض کوثر سے پانی پینے میں کامیابی عطا فرما دے تو اس کے بعد اسے کوئی خوف و خطر نہیں ہوگا، نبی کے ہاتھوں اس حوض سے پانی پینے والے شخص پر اللہ تعالی قیامت کی سختیاں پہلے ہی آسان فرما دے گا۔

حوض کوثر پر ایمان رکھنا یوم آخرت پر ایمان کا حصہ ہے، اور جو شخص حوض کوثر پر ایمان نہیں رکھتا اس کا کوئی ایمان نہیں ہے، کیونکہ اجزائے ایمان میں تفریق ممکن نہیں ہے، لہذا جو شخص ایمان کے ایک رکن کا انکار کر دے تو وہ سب ارکان سے کفر کرتا ہے۔

حوض کوثر اللہ تعالی کی طرف سے نبی مکرم کے لیے اعزاز و تکریم ہے، اس حوض سے آپ کی امت ارض محشر میں پانی پیے گی، وہ دن کفار پر پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا، لیکن اللہ تعالی مؤمنوں کے لیے اس دن کو مختصر فرما دے گا۔

اس دن لوگوں کے سر چکرا رہے ہوں گے، حساب کے دوران ان پر تکلیف کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہوں گے، اگر اللہ تعالی انہیں برداشت کرنے کی قوت و صلاحیت نہ دے تو سب کے سب مر جائیں ۔

دوران حساب لوگوں کو اتنی سخت پیاس لگے گی جس سے کلیجا پھٹنے کو ہوگا، پیٹ پیاس کی وجہ سے آگ بن چکا ہوگا، انہیں اس سے پہلے اتنی سخت پیاس نے کبھی نہیں ستایا ہوگا۔

پھر اللہ تعالی اپنے نبی کو اعزاز بخشتے ہوئے امت محمدیہ کے لیے حوض کوثر عطا فرمائے گا، آپ اپنے حوض کے کنارے کھڑے اپنی امت کو دیکھ کر بہت ہی خوش ہوں گے، اور سب کو پانی پینے کی دعوت دینگے۔

حوض کوثر کے رقبے اور پانی کی شفافیت متعلق متواتر احادیث ہیں بلکہ حوض کوثر کے تذکرے کے لیے قرآن مجید میں ایک سورت “الکوثر” کے نام سے موجود ہے۔

ہر نبی کو الگ سے ایک حوض دیا جائے گا، چنانچہ سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی نے فرمایا: (انبیاء اپنے پیروکاروں کی زیادہ تعداد پر ایک دوسرے سے فخر کرینگے ، اور مجھے امید ہے کہ اس دن سب سے زیادہ میرے پاس لوگ پانی پینے آئیں گے، اور ہر نبی اپنے بھرے ہوئے حوض پر کھڑے ہو کر ہاتھ میں عصا لیے اپنی امت کے لوگوں کو پہچان کر بلائے گا، ہر امت کے لیے خاص نشانی ہوگی جس سے ہر نبی اپنی امت کو پہچان لے گا۔(ترمذی، طبرانی)

ہمارے نبی کریم کا حوض آپ کی شریعت کی طرح سب سے بڑا اور سب سے میٹھا ہے، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا: میرے حوض کا رقبہ ایلہ سے عدن کے فاصلے سے بھی زیادہ ہے، وہ دودھ سے زیادہ سفید ، شہد سے زیادہ میٹھا ، برف سے زیادہ ٹھنڈا ہے، اور اس کے آبخورے تاروں کی تعداد سے بھی زیادہ ہوں گے۔(صحیح مسلم) جبکہ دیگر احادیث میں یہ بھی ہے کہ: اس کی خوشبو کستوری سے زیادہ اچھی ہوگی۔

اور سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی مكرم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! حوض کوثر کے آبخورے اندھیری شفاف رات میں آسمان کے تاروں سے بھی زیادہ ہیں ، حوض کوثر کا پانی نوش کرنے والا کبھی بھی پیاسا نہ ہوگا، اس حوض میں جنت سے دو پرنالے گرتے ہیں۔(احمد، مسلم، نسائی)

سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی نے فرمایا:میرا حوض عدن تا عمان کے فاصلے سے بھی بہت بڑا ہے، اس کے سونے اور چاندی کے دو پرنالے ہیں ، اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید ، ذائقہ شہد سے میٹھا، خوشبو کستوری سے بھی اچھی ہے، جو اس حوض سے پی لے گا اس کے بعد پیاسا نہیں ہوگا، اور اس کا چہرہ کبھی سیاہ نہیں ہوگا۔( احمد، ابن ماجہ، ابن حبان)

اسی طرح زید بن خالد رضی اللہ عنہ نبی سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہوکوثرکیا ہے؟ یہ ایک جنت کی نہر ہے جو مجھے میرے رب نے عطا کی ہے، اس میں بہت ہی خیر ہے، میری امت اس سے پانی پیے گی، اس کے آبخورے تاروں کے برابر ہیں، میری امت کے ایک شخص کو وہاں سے دور ہٹا دیا جائے گا! میں کہوں گا: یا الہی! یہ میرا امتی ہے، تو کہا جائے گا: “آپکو نہیں معلوم اس نے آپ کے بعد کیا کیا بدعات ایجاد کیں” ۔( احمد، مسلم، ابو داود)

حوض کی میدان محشر میں بہت وسیع زمین ہے، اللہ تعالی اسے نہر کوثر کے پانی سے بھر دے گا، اور اس حوض میں نہر کوثر سے گرنے والے سونے چاندی کے دو پرنالے ہیں ، اس کا پانی کبھی کم نہیں ہوگا، نیز ہر مؤمن مرد و زن اس سے پانی ضرور پییں گے، اور پھر کبھی بھی پیاسے نہیں ہوں گے۔

حوض کوثر پر نبی کے ہاتھوں سے پانی پینے والے خوش نصیب وہ لوگ ہیں جو نبی کی سنت پر عمل پیرا اور کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنْ تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُمْ مُدْخَلًا كَرِيمًا

اگر تم منع کردہ کبیرہ گناہوں سے بچو تو ہم تمہارے گناہ مٹا کر عزت کی جگہ میں داخل کر دیںگے۔[النساء : 31]

وہ لوگ سنت نبوی پر کار بند ہوتے ہوئے علی وجہ البصیرت اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ

آپ کہہ دیں: یہ میرا راستہ ہے، میں اور میرے پیروکار اللہ کی طرف بصیرت کے ساتھ دعوت دیتے ہیں، اور اللہ تعالی ہر عیب سے پاک ہے، اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔[يوسف : 108]

وہ لوگ نبی کریم کی شریعت کی طرف لوگوں کو زبانی اور عملی نمونہ بن کر بلاتے ہیں، دین میں بدعات اور خود ساختہ امور سے بچتے ہیں اور شریعت سے متصادم کوئی کام نہیں کرتے، نیز ریا کاری اور شہرت پسندی سے بالکل پاک اخلاص کے پیکر ہوتے ہیں، ہر قسم کے شرک سے اجتناب کرتے ہیں۔ اسی طرح نبی پر کثرت سے درود و سلام پڑھنا حوض کوثر سے پانی پینے کے لیے بہترین نسخہ ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ

یقیناً ہم نے آپ کو کوثر عطا کی ہے چنانچہ آپ اپنے رب کے لیے نماز پڑھیں اور قربانی کریں بیشک آپ کا دشمن ہی لا وارث ہے۔[الكوثر : 13]

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کے لیے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اس کی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، نیز ہمیں سید المرسلین کی سیرت اور ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو بیشک وہ بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے ۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو جلال و اکرام والا ہے، وہ ایسا بادشاہ ہے جس کا کوئی مد مقابل نہیں، اس کے غلبے کے سامنے کوئی ٹھہر نہیں سکتا، میں ڈھیروں نعمتوں پر اسی کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ وہی معبودِ بر حق ہے، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، وہ بادشاہ، پاکیزہ اور سلامتی والا ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، آپ پر آپ کی آل اور صحابہ کرام پر افضل ترین درود و سلام ہوں۔

حمدو صلاۃ کے بعد:

اللہ سے کما حقہ ڈرو اور اسلام کو مضبوط کڑے سے تھام لو۔

اللہ کے بندو!اس شخص کی کامیابی کے کیا کہنے جسے اللہ تعالی ہمارے نبی محمد کے حوض سے پانی پینے کی سعادت نصیب کر دے، وہاں سے پانی پینے کے بعد وہ کبھی بھی پیاسا نہیں رہے گا۔

اس کے برعکس وہ کتنا بد نصیب شخص ہے جسے اس سعادت سے محروم رکھا جائے گا ، بلکہ دھتکار دیا جائے گا، اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔

مسلمانو!حوض کوثر سے آب نوشی میں رکاوٹ بننے والے اعمال میں یہ بھی شامل ہیں کہ بدعات اور خود ساختہ امور دین میں داخل کیے جائیں یا پھر زبانی کلامی یا عملی طور پر اسلام سے روکا جائے، یہ باتیں حوض کوثر سے دھتکارے جانے سے متعلق احادیث میں موجود ہیں مثلاً: (آپکو نہیں معلوم آپ کے بعد انہوں نے کیا بدعات ایجاد کیں)تو رسول اللہ فرمائیں گے: میرے بعد دین تبدیل کرنے والوں کے لیے تباہی ہے۔

اسی طرح حوض کوثر سے پانی پینے کے لیے رکاوٹوں میں کبیرہ گناہ بھی شامل ہیں ؛ کیونکہ یہ دلوں کو خبیث بنا دیتے ہیں، اسی طرح ریا کاری، شہرت پسندی اور لوگوں پر ظلم کرنا بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔

ان اعمال کے رکاوٹ بننے کی وجوہات اہل خرد کے لیے بالکل واضح ہیں کہ جس نے دنیا میں نبوی شریعت کی اطاعت کی اور مرتے دم تک آپ کی عملی سیرت پر کار بند رہا تو وہ آپ کے حوض سے پانی پیے گا، جبکہ دین میں تبدیل کرنے والے اور بدعتی کو روک دیا جائے گا، کیونکہ اس نے حق بات سے اپنے آپ کو روکے رکھا۔

اللہ کے بندو!

إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الأحزاب: 56)

یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو۔

اور آپ کا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد. وسلم تسليما كثيرا۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے