فلاحی ریاست سے مراد ریاست کا وہ تصور جس میں ایک مملکت تمام شہریوں کو تحفظ اور شہریوں کے بہتری اور فلاح وبہبودکے لیے ذمہ داری اُٹھا ئی تھی۔ ایک فلاحی  مملکت اپنے شہریوں کے جانی و مالی تحفظ کو اولین ترجیح قرار دیتی ہے اور اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرتی ہے۔ ایک ریاست اپنے شہریوں میں کسی قسم کا امتیاز نہیں کرتی خواہ وہ لسانی،مذہبی،علاقائی امتیاز ہو یا اقتصادی و معاشرتی امتیاز ہو۔ انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے اسلام کی صورت میں بہترین ضابطہ حیات اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء رسول اکرم ﷺکے ذریعے اپنی کامل اور مکمل ترین شکل میں عطا فرمایا۔ حضور رسول کریم ﷺنے جس محنت اور احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنے فرائض نبوت کی بجا آوری فرمائی اور انسانیت کو ذلت سے نکال کر جس عروج ثریاتک پہنچایا کائنات اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے مثالی طرز حکمرانی نے داخلی و خارجی سطح پر بکھرے یثرب کو دنیا کی بہترین اسلامی فلاحی ریاست ’’مدینہ‘‘ میں تبدیل کر دیا۔ مدینہ منورہ میں رسول اکرم ﷺ نے ایک عظیم فلاحی ریاست کو قائم کیا۔ نبی کریمﷺ کی قائم کردہ اس ریاست نے روحانی اور مادی اعتبار سے پوری دنیا کی رہنمائی کا فریضہ بہترین طریقے سے انجام دیا۔ مدینہ منورہ کی ریاست ہر مسلمان کے لیے ایک آئیڈیل ریاست کی حیثیت رکھتی ہے۔ مدینہ طیبہ کی ریاست کو ہر دور میں ایک ماڈل قرار دیا جاسكتاہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مثالی ریاست مدینہ کی جھلک ہمہ وقت ہمارے سامنے ہو، تاکہ پیش آمدہ مشکل مسائل کو اُسوئہ حسنہ کی روشنی میں حل کر سکیں۔نبی اکرم ﷺکی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے فوری بعد مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی۔ یہ مسجد جہاں ایک طرف مسلمانوں کے لئے جائے عبادت ٹھہری وہاں ریاست کے سیکرٹریٹ کے طور پر بھی اقدامات کا مرکز قرار پائی۔ آپ ﷺتمام وفود اور سفیروں سے یہیں ملاقات کیا کرتے تھے۔ گورنروں اور عمائدین حکومت کو ہدایات مسجد نبوی سے دی جاتیں۔ سیاسی و دیگر معاملات میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہیں مشورہ کرتے۔ ہر قسم کی سیاسی اور مذہبی تقاریب کا انعقاد مسجد نبوی میں ہوتا۔ اس وقت مسجد مسلمانوں کا معاشرتی مرکز تھی۔ نماز پڑھانے والا اما م اسلامی فوج کا سپہ سالار ہوتا تھا اور جملہ مسلمانوں کو حکم تھا ایک دوسرے کے محافظ و معاون رہیں۔ مال غنیمت مسجد نبوی میں آتا تھا اور یہیں پر نبی کریم ﷺاسے مستحقین میں تقسیم کیا کرتے تھے۔افسوس! آج ہماری مساجد اور ائمہ مساجد معاشرے کی بہتری کے لیے کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے سے محروم دکھائی دیتے ہیںریاستی سیکرٹریٹ کے قیام کے بعد آپ ﷺ نے معاشی مسائل کے حل کو اولیت دی مہاجرین کی آمد کے ساتھ ہی ریاست مدینہ میں ایک طرح کی ہنگامی حالت کا نفاذ تھا۔ انصار مدینہ کی معاشی حالت ایک جیسی نہ تھی بلکہ ان میں سے کچھ متوسط تھے اور کچھ مالدار تھے۔ اس صورت حال میں محسن انسانیت ﷺنے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ مہاجرین اور انصار مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔مواخات مدینہ کی شکل میں معاشی مسائل کے قابل عمل حل کے بعد آپ ﷺ ریاست مدینہ کے تحفظ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس ضمن میں آپ ﷺ نے اہل مدینہ کو بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے ایسے اقدامات فرمائے کہ اہل مدینہ کے باہمی اختلافات کو بھی ہوا نہ ملے اور مدینہ کے باہر کے لوگ بھی مدینہ منورہ پر حملے کی جرات نہ کرسکیں۔ انہی اغراض و مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے رسول اکرم ﷺنے ہجرت کے چند ماہ بعدہی ’’میثاق مدینہ‘‘ کی شکل میں ایک دستاویز مرتب فرمائی۔ اس دستاویز کو متعلقہ اشخاص سے گفت و شنید کے بعد لکھا گیا۔ دستاویز کے ذریعے شہر مدینہ کو پہلی مرتبہ شہری مملکت قرار دیا گیا اور اس کے انتظام کا باقاعدہ دستور مرتب کیا گیا۔

معاشی انصاف قائم کرنے کے بعد نبی مکرم ﷺنے اسلامی مملکت کی داخلی سیاسی پالیسی کا اعلان فرمایا۔ آپ ﷺ نے مدینہ اور اس کے نواحی علاقوں پر مشتمل خطے کو ایک وحدت قرار دیا۔ اس وحدت میں بسنے والے غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ فرمایا اور ان کو مکمل شہری حیثیت دی گئی۔ شہری ریاست کو اندرونی خلفشار سے بچانے، استحکام بخشنے، امن کو فروغ دینے اور اخلاقی اقدار کو پیدا کرنے کے لیے آپ ﷺ نے مسلسل تدابیر اختیار کیں۔ خارجہ پالیسی کے لیے نبی معظم ﷺنے امن عامہ اور بین الاقوامی اتحاد کو بنیاد بنایا۔ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی جغرافیائی حدود میں وسعت اور جنگ و جدل پر مبنی نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ طے نہ پاتا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت مسلمان کمزور تھے اور غیر مسلموں کی قوت سے خوف زدہ تھے۔ اس لئے کہ صحابہ کرام نے تو جانیں قربان کر دینے کی قسمیں کھائی تھیں مگر ہادی کونین ﷺ نے غیر مسلموں کی تمام شرائط مان کر صلح کر لینا ہی بہتر سمجھا۔ اسلام کی خارجہ پالیسی کا اصول یہ ہے کہ باوقار زندگی کے لیے پُر امن جدو جہد جاری رکھی جائے۔ اگر کوئی شرپسند اس راہ میں حائل ہو تو اس حد تک اس کے خلاف کارروائی کی جائے جس حد تک اس کی ضرورت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے مختلف اقوام کے ساتھ دوستی کے معاہدے کیے۔ جو قومیں غیر جانبدار رہنا پسند کرتی تھیں ان کی غیر جانبداری کا احترام کیا۔ریاست مدینہ دنیاکی اولین ریاست تھی جس میں قانون سب کے لیے تھااور سب انسان قانون کی نظر میں برابر تھے۔ ریاست مدینہ کی تشکیل وتاسیس تک تو کسی ریاست نے اس بات کا دعوی بھی نہیں کیاتھا کہ اس کے ہاں سب برابر ہیں لیکن اس کے بعد آج کی ریاستوں میں کاغذی دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن قانون سب کے لیے یکساں کا رواج عملاً کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ عیسائی راہبات کے لیے سکارف کی اجازت ہے جبکہ مسلمان خواتین کے لیے اس قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ گوروں کے لیے مالیاتی و سفارتی قوانین الگ ہیں جبکہ کالوں اور سانولوں کے لیے مطلقاََ جدا جدا ہیں۔دوسری طرف ریاست مدینہ ایسی ریاست تھی جس میں انصاف و عدل کے تقاضوں کے مطابق مسلمان قاضی کا فیصلہ یہودی کے لیے برات اورمسلمان کے لیے گردن زنی کا تھا۔ ایک دفعہ جب محسن انسانیت ﷺ سے مجرم کے لیے قانون میں رعایت مانگی گئی تو فرمایامیری بیٹی بھی ایساجرم کرتی تو یہی سزا پاتی۔ آپ ﷺ بذات خود عمر کے آخری ایام میں مسلمانوں کے درمیان براجمان ہوئے اور فرمایا میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہو تو بدلہ لے لے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں آپ ﷺ کے درسِ مساوات نے ہی اس معاشرے کو عدل فاروقی کی منزل سے روشناس کرایا۔اسلامی ریاست میں نظام تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ آپ ﷺ نے ہجرت سے قبل ہی سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو معلم بنا کر مدینہ بھیج دیا تھا اور ہجرت کے بعد مسجد نبوی ﷺ کو باقاعدہ درس گاہ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ غیر مقامی طلبہ کی تدریس و رہائش کے لیے صفہ چبوترہ بنایا گیا۔ عرب میں چونکہ لکھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے مسجد نبوی میں ہی سیدنا عبد اللہ بن سعید بن العاص اور سیدنا عبادہ بن صامت کو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مختلف زبانیں سکھائی گئیں اور فنون جنگ کی تعلیم ہر جوان کے لیے ضروری قرار دی گئی۔ خواتین گھریلوں صنعتوں کے ساتھ علاج معالجے کا انتظام بھی کرتی تھیں، حتیٰ کہ ایک صحابیہ نے مسجد نبوی ہی میں خیمہ لگا دیا تھا جہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کی جاتی تھی۔ دنیاوی علوم سیکھنے کے لیے قیدیوں کی ڈیوٹی لگائی گئی کہ انھیں اپنی رہائی کے بدلے مسلمانوں کو پڑھانا ہوگا۔ مدینہ منورہ پہنچ کر نبی کریم ﷺنے شہریوں کے باہمی اختلافات دور کرنے اور اچھے حکومتی انتظام کی خاطر ایک قسم کا ریاستی آئین تشکیل دیا جو ’’میثاق مدینہ‘‘ کہلاتا ہے۔ ماضی میں وادی دجلہ و فرات، مصر اور یونان کی شہری ریاستیں بھی آئین بنا چکی تھیں مگر ’’میثاق مدینہ‘‘ جیسی فصیح و بلیغ آئینی دستاویز ہمیں پہلے نظر نہیں آتی۔ اس آئین ہی نے مدینہ منورہ میں فلاحی ریاست کی تشکیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس میں درج ہے :’’ریاست کا ہر شہری ظلم، ناانصافی اور کرپشن کے خلاف جدوجہد کرے گا۔‘‘ مدینہ منورہ کا انتظام سنبھال کر رسول مقبولﷺ کئی انقلابی اقدامات عمل میں لائے تاہم آپﷺ کی زیادہ توجہ کمزور و غریب طبقے کے مسائل حل کرنے پر مرکوز رہی۔ آپﷺ نے انصار و مہاجرین کے مابین مواخات یا بھائی چارہ کروایا تاکہ غریب مہاجروں کے معاشی مسائل حل ہوسکیں۔ جلد ہی زکوۃ کو ’’فرض‘‘ قرار دے دیا گیا۔ مقصد یہی تھا کہ دولت مندوں سے سرمایہ لے کر غریب غربا کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ کمزور و ناتواں طبقے کی بحالی کے لیے ہی بعد ازاں زکوۃ کو ارکان اسلام میں شامل کردیا گیا۔ سنت نبوی ﷺ پہ عمل کرتے ہوئے خلفائے راشدین نے اپنی حکومتوں میں غریب و کمزور طبقے کو نہایت سہارا دیئے رکھا۔ سیدنا ابو بکر صدیق نے تو ان امیر کبیر سرداروں سے جنگ فرمائی جو زکوۃ دینے سے منحرف ہوگئے تھے۔ یہ قدم غربا کو تحفظ دینے کی خاطر ہی اٹھایا گیا۔ سیدنا عمر فاروق نے اجتہاد سے کام لیتے ہوئے غریب اور ضرورت مند غیر مسلموں کو بھی ’’صدقہ‘‘ دینے کا حق دار بنا دیا۔ انہوں نے حکم جاری فرمایا کہ بیت المال سے غریب غیر مسلموں کی بھی ساری ضروریات پوری کی جائیں۔

 ”اسلا می مفکرین اور مؤرخین متفق ہیں کہ سیدنا عمر فاروق  اسلام کی پہلی مکمل فلاحی ریاست کے بانی تھے۔ ان کے دور میں اسلامی ریاست پھیل چکی تھی اور نئے مسائل پید ا ہوئے۔ آپ کو وسیع ریاست کا نظم و نسق چلانے کا پورا موقع ملا۔سیدنا عمر نے قرآن پاک کے پیغام اور رسول اللہ کے اسوہ حسنہ کی روشنی میں فلاحی ریاست کی تشکیل کی۔ دنیا کے کئی ممالک نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے ریاستی ماڈل کی روشنی میں فلاحی ریاستیں قائم کیں مگر مسلمان فرقہ واریت کا شکار ہو کر مسلکوں کی بحث میں اُلجھ کر رہ گئے اور قرآن و سنت کی اصل منشا اور فلاحی ریاست کی تشکیل کو ہی بھول بیٹھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج عالم اسلام زوال کا شکار ہے۔یہ تاثر درست نہیں ہے کہ مسلمانوں کے پاس مکمل ریاست کا ماڈل ہی نہیں ہے۔ ”معاملات سیدناعمر فاروق“ کی ترتیب اور تشکیل میں فلاحی ریاست کے تصورکو مرکز و محور بنایا گیا ہے تاکہ سیدنا عمر فاروق کی پہلی مکمل اسلامی فلاحی ریاست کے خدو خال کھل کر سامنے آسکیں اور مسلمان ممالک کامیاب فاروقی ماڈل سے سبق سیکھ کر اپنی ریاستوں کی تشکیل کر سکیں“۔”سیدنا  عمر فاروق نے فلاحی ریاست کا مکمل نمونہ پیش کیا۔ آپ نے اسلامی ریاست کے ہر شہری کے بنیادی حقوق کا مکمل خیال رکھا۔ آپ کے دور میں ریاست کا کوئی فرد لاوارث نہیں تھا۔ سیدنا عمر  کے دور میں پیش آنے والے حیران کن واقعات سے فلاحی ریاست کے خدو خال سامنے آتے ہیں“۔ ”سیدنا عمر کے دورِ خلافت میں سخت قحط پڑا جسے عالم الرمادہ یعنی ہلاکت کاسال کہا جاتا ہے۔ عرب قحط سالی کی وجہ سے مدینہ کے اطراف میں پناہ گزین ہوگئے۔ سیدنا عمر فاروق نے ذاتی دلچسپی لے کر ان کے کھانے کا انتظام کیا۔ ہر روز سینکڑوں دیگیں پکا کر کھانا مستحقین میں تقسیم کیا جاتا۔ دس ہزار ولوگ ہر روز کھانا کھاتے اور سیدنا عمر خود نگرانی کرتے، یہاں تک کہ بارش ہوگئی اور سیدنا عمر نے سب پناہ گزینوں کو سواریاں اور اناج دے کر اپنے علاقوں کی جانب روانہ کیا“۔(طبقات ابن سعد )

 ”سیدنا عمر ایک دفعہ لوگوںکو کھانا کھلا رہے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ ایک شخص بائیں ہاتھ سے کھانا کھارہا ہے۔ آپ نے سبب پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ جنگ موتہ میں میرا دایاں ہاتھ کٹ گیا تھا۔ آپ اس کے پاس بیٹھ گئے اور رو کر فرمانے لگے تم کو وضوکون کراتا ہوگا، سر کون دھوتا ہوگا، کپڑے کون پہناتا ہوگا؟ آپ نے اس کےلئے ملازم مقرر کرد یا جو اس کی معاونت کرتا۔“ (اسد الغابہ) ”سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ اپنے قبیلہ کے کچھ لوگوں کو لے کر سیدنا عمر فاروق کے پاس آئے۔ آپ نے قبیلہ ”بنو طے“ کے ہر فرد کےلئے دو ہزار درہم وظیفہ مقرر کیا مگر خود انہیں نظر انداز کر دیا۔ سیدنا عدی نے پوچھا امیر المومنین آپ نے مجھے کیوں نظر انداز کر دیا؟ سیدنا  عمر نے فرمایا، تم اسلام لانے میں ان سب سے آگے ہو اور ہمیشہ وفادار رہے ہو، سب سے پہلی زکوٰة تمہارے قبیلے نے دی تھی مگر میں نے ان لوگوںکا وظیفہ مقرر کیا ہے جن کو فاقوں نے گھیر لیا ہے حالاں کہ وہ اپنی قوم کے سردار رہے ہیں“۔(مسلم) سیدنا عمر فاروق دنیا کے مثالی حکمران ثابت ہوئے۔ ہزاروں سال گزر جانے کے بعد بھی ان کے اندازِ حکومت کو یاد کیا جاتا ہے۔ سیدنا عمر فاروق نے حکمرانی کے جو اصول مرتب کئے، بعد میں آنے والے دنیا کے حکمرانوں نے ان اصولوں پر عمل کرکے اپنی ریاستوں کو کامیاب بنایا۔ سیدنا عمر نے دنیا کی پہلی فلاحی ریاست کا ماڈل پیش کیا۔ ان کے دور میں اسلامی ریاست وسعت پذیر ہوئی اور مختلف سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل سامنے آئے۔ سیدنا عمر نے قرآن اور سنت کی روشنی میں ان مسائل کا حل پیش کیا۔ آپ نے آنے والی دنیا کے نظاموں پر اثرات مرتب کیے۔ آپ کے فلاحی ماڈل کو رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔ سیدنا عمر کے دورِ حکومت میں پیش آنے والے مستند واقعات آپ کی مثالی حکومت پر روشنی ڈالتے ہیں اور آنے والے حکمرانوںکےلئے مشعلِ راہ ہیں۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ قائداعظم نے فرمایا کہ ہم پاکستان کو تجربہ گاہ بنائیں گے۔ بدقسمت ملک میں مختلف نوعیت کے تجربات ہوتے رہے مگر پاکستان اسلامی فلاحی جمہوری ریاست نہ بن سکا۔ سیدنا عمر فاروق نے اپنے دور خلافت میں پہلی اسلامی فلاحی ریاست کی تشکیل و تکمیل کی حالانکہ ان کے دور میں ریاست وسیع و عریض ہوچکی تھی مگر آپ نے اچھی حکمرانی کے ذریعے ہر لحاظ سے ایک مثالی ریاست قائم کی۔ دنیا کے مختلف حکمرانوں نے سیدنا عمر کے ماڈل پر عمل کرکے اپنے ملکوں کو کامیاب ویلفیئر سٹیٹ بنایا۔ ایک کالم میں سیدنا عمر کی اسلامی فلاحی ریاست کا احاطہ ممکن نہیں البتہ اس کا خاکہ ضرور پیش کیا جاسکتا ہے۔’’سیدنا علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ سیدنا عمر اونٹ کی ننگی پشت پر بیٹھے جارہے ہیں۔ میں نے پوچھا عمر کدھر کو ارادہ ہے۔ آپ نے فرمایا صدقہ کا ایک اونٹ گم ہوگیا ہے اس کی تلاش میں نکلا ہوں۔ میں نے کہا اس طرح کی مثال قائم کرکے آپ نے اپنے جانشینوں کو فروتر کردیا ہے۔ آپ نے فرمایا علی مجھے اس پر ملامت مت کرو اللہ کی قسم !جس نے محمدﷺ کو نبوت کا منصب دے کر بھیجا اگر فرات کے کنارے پر بھیڑ کا بچہ بھی ضائع ہو گیا تو قیامت کے روز میری بازپرس ہوگی۔ [کنز العمال]  مگر یہ بات بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ جب تک سماجی روایات نہ بدلیں، محض قانون بنا نے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔اسلامی فلاحی ریاست صرف کہنے سے معرض وجود نہیں آئے گی اور نہ ہی قانون کے ذریعہ نافذ ہوگئی ،دنیا کا قانون طبیعی طور پر تو نتیجہ خیز ہوسکتا ہے مگر اخلاقی طور پر فکر اور نظریے کو بدلے بغیر ثمرآ ور نہیں ہوسکتا۔یہی وجہ ہے کہ ریاست مدینہ میں حرمت شرا ب کو تین مراحل میں طے کیا گیا۔کسی چیز پر عامل ہونے کے لیے اولین شے ذہن سازی ہوتی ہے۔مکہ کی ۱۳ برس کی ذہن سازی نے وہ غیو ر، شجاع اور دین کی حمیت میں ڈوبے وہ سپاہی اور مجاہدین تیار کیے جو دین کی آبرو اور اس کی آبیاری کے لیے جان ہتھیلی پر رکھے پھرتے تھے۔وسائل کی کمی کسی میدان میں بھی ان کے پیروں کی زنجیر نہیں بنی۔

ریاست مدینہ کے خدوخال کا جائزہ لے کر عصرِ حاضر میں بھی راہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے ۔ اے اللہ ! ہمیں بھی وہ دن جلد دکھا کہ جس دن ہمارا وطن عزیز پاکستان بھی اسلامی فلاحی مملکت بنے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے