بَاب الِاسْتِنْجَاءِ بِالْمَاءِ

پانی سے استنجاء کرنے کا بیان

20150– حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامُ بْنُ عَبْدِالْمَلِكِ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي مُعَاذٍ وَاسْمُهُ عَطَاءُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَتِهِ أَجِيءُ أَنَا وَغُلَامٌ مَعَنَا إِدَاوَةٌ مِنْ مَاءٍ يَعْنِي يَسْتَنْجِي بِهِ

ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے ابومعاذ سے جن کا نام عطاء بن ابی میمونہ تھا نقل کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ جب رسول اللہ ﷺرفع حاجت کے لیے نکلتے تو میں اور ایک لڑکا اپنے ساتھ پانی کا برتن لے آتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اس پانی سے رسول اللہ ﷺطہارت کیا کرتے تھے۔

Narrated Anas bin Malik: Whenever Allah’s Apostle went to answer the call of nature, I along with another boy used to accompany him with a tumbler full of water. (Hisham commented, “So that he might wash his private parts with it.)”

وروى بسند آخر حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي مُعَاذٍ هُوَ عَطَاءُ بْنُ أَبِي مَيْمُونَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ لِحَاجَتِهِ تَبِعْتُهُ أَنَا وَغُلَامٌ مِنَّا مَعَنَا إِدَاوَةٌ مِنْ مَاءٍ ( رقمه : 151 )

سلیمان بن حرب، شعبہ، عطاء بن ابی میمونہ، سيدناانس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺجب اپنی حاجت کے لئے نکلتے تھے تو میں اور ہم میں سے ایک لڑکا دونوں آپ کے پیچھے جاتے تھے، ہمارے پاس پانی کا ایک برتن ہوتا تھا۔

شر ح الكلمات :

لِحَاجَتِهِ

قضائے حاجت کے لیے

أَجِيءُ

میں آتا تھا

غُلَامٌ

لڑکا وہ چھوٹا بچہ جس کی عمر سات سال ہو

إِدَاوَةٌ

پانی کا برتن

يَسْتَنْجِي بِهِ

جس سے آپ  استنجاء فرماتے تھے

تراجم الرواۃ :

1 ھشام بن عبد الملک ابو الولید الباھلی کا ترجمہ حدیث نمبر 3 میں ملاحظہ فرمائیں ۔

2شعبہ بن حجاج کا ترجمہ حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں

3 نام ونسب : عطاء بن ابی میمونہ ۔ ابی میمونہ کا نام منیع تھا ، بصرہ سے تعلق تھا ۔

کنیت : ابو معاذ

محدثین کے ہاں رتبہ :

امام ابن حجر کے ہاں ثقہ ہیں لیکن قدری ہونے کا الزام تھا۔ اور امام ذہبی کے ہاں صدوق تھے۔

وفات : عطاء بن ابی میمونہ نے 131 ہجری کو بصرہ میں طاعون کے سبب وفات پائی۔

4 انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا ترجمہ حدیث نمبر 2 میں ملاحظہ فرمائیں ۔

تشریح : 

شریعت طہارت کے معاملے میں خوب مبالغہ کا حکم دیا ہے کہ خو اچھی طرح طہارت حاصل کرنی چاہیے اللہ تعالیٰ بھی اچھی طرح پاکی حاصل کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : 

وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ (التوبة: 108)

’’اور اللہ تعالیٰ طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتاہے۔‘‘

اس حدیث سے یہ راہنمائی بھی ملتی ہے کہ قضائے حاجت کے لیے جانے سے پہلے طہارت حاصل کرنے کا انتظام کرلیا جائے ممکن ہے کہ بروقت طہارت کیلئے کوئی چیز میسر نہ ہو ۔استنجاء ڈھیلے سے بھی کیا جاسکتاہے مگر پانی سے استنجاء کرنا افضل ہے ۔ ڈھیلے اور پھر پانی سے استنجاء کرنا افضل ترین ہے۔طہارت حاصل کرنے میں نوعمر بچوں یا کسی بھی شخص سے مدد لی جاسکتی ہے۔ظاہری اور باطنی طہارت کا اہتمام کرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہوتے ہیں۔

بہر کیف پانی سے استنجاء کرنے کے بارے میں کچھ اختلاف بھی پایا جاتاہے۔ سیدناحذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ وہ پانی سے استنجا ءنہیں کرتے تھے کیونکہ اس سے ہاتھ میں بدبو باقی رہ جاتی ہے۔سیدناعبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے متعلق بھی روایت میں ہے کہ وہ پانی سے استنجا نہیں کرتے تھے۔سیدناعبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں کرتے تھے۔بعض حضرات نے پانی سے استنجا اس لیے درست نہیں خیال کہ یہ پانی مشروبات سے ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ عنوان قائم کرکے اس موقف کی تردید فرمائی ہے۔( فتح الباری 329/1)

بعض لوگوں نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا ہے کہ عنوان کا ثبوت حدیث سے نہیں ملتا کیونکہ حدیث کے جس حصے سے عنوان کاتعلق ہے،وہ سیدناانس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان نہیں بلکہ وہ نیچے کے راوی ابوالولید ہشام کی وضاحت ہے۔لیکن یہ اعتراض بے بنیاد ہے کیونکہ روایات میں سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے اس بات کی صراحت ہے کہ یہ پانی رسول اللہ سے استنجا ءکرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ (صحیح البخاری الوضو حدیث 152)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے علاوہ بھی روایت کا حوالہ دیاہے۔( فتح الباری 330/1)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس عنوان سے یہ بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پانی کی بجائے مٹی کے ڈھیلے بھی بطور استنجاء استعمال کیے جاسکتے ہیں۔لیکن پانی کا استعمال بہتر ہے کیونکہ مٹی کے ڈھیلوں سے عین نجاست تودور ہوجاتی ہے لیکن اس کے ا ثرات باقی رہتے ہیں جبکہ پانی کے استعمال سے نجاست اوراس کے اثرات ونشانات بھی زائل ہوجاتے ہیں۔پانی اورڈھیلوں کا جمع کرنا تو بالاتفاق افضل ہے۔واللہ اعلم بالصواب

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے