قارئین کرام ! اللہ تعالی نے رسول اللہ ﷺکو جو بے تحاشا معجزے عطا فرمائے تھے ان میں ایک معجزہ آپ کا لعاب مبارک ہے ۔

آپ کے لعاب مبارک میں اللہ تعالی نے بڑی رحمتیں اور برکتیں پوشیدہ رکھی تھیں ۔

آپ کا لعاب ہر قسم کی بیماری و تکلیف کے لیے بڑے تریاق کا درجہ رکھتا تھا ۔

یہی سبب تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کے لعاب مبارک کو نیچے گرنے سے پہلے پہلے اٹھا لیتے تھے اور بغرض تبرک اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتے تھے ۔

عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :اے لوگو : اللہ کی قسم ! میں بادشاہوں کے درباروں میں گیا ہوں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کا دربار بھی دیکھ کر آیا ہوں ۔ مگر میں نے کسی بادشاہ کو نہیں دیکھا کہ اس کے ساتھی اس کی اس قدر تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد کے اصحاب آپ کی تعظیم کرتے ہیں ۔

فَوَالله مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ .

اللہ کی قسم ! اگر محمد تھوکتے ہیں تو ان کا لعاب ان کے کسی صحابی کے ہاتھ میں گرتا ہے اور وہ اسے اپنے چہرہ اور بدن پر مل لیتا ہے ۔ اگر آپ کسی کام کا حکم دیتے ہیں تو اس کی بجا آوری میں لوگ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آپ وضو کرنے لگتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے وضو کے پانی پر لڑائی ہو جائے گی یعنی ہر شخص اس پانی کو لینے کی کوشش کرتا تھا ۔(صحیح بخاری : 2732)

قارئین کرام ! آپ اب رسول اللہ کے لعاب مبارک کی مزید برکتیں ملاحظہ فرمائیں ۔

1 علی رضی اللہ عنہ کی آنکھیں صحتیاب ہو گئیں

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے غزوہ خیبر کے دن فرمایا تھا : میں اسلامی جھنڈا ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دوں گا جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ فتح عنایت فرمائے گا۔ اب سب اس انتظار میں تھے کہ دیکھیں جھنڈا کسے ملتا ہے ؟ جب صبح ہوئی تو سب سرکردہ لوگ اسی امید میں رہے کہ کاش ! انہیں کو مل جائے ۔ لیکن آپ نے دریافت فرمایا : علی کہاں ہیں؟ عرض کیا گیا : وہ آنکھوں کے درد میں مبتلا ہیں۔

فَأَمَرَ فَدُعِيَ لَهُ فَبَصَقَ فِي عَيْنَيْهِ فَبَرَأَ مَكَانَهُ حَتَّى كَأَنَّه لَمْ يَكُنْ بِهِ شَيْءٌ

آخر آپ کے حکم سے انہیں بلایا گیا۔ آپ نے اپنا لعاب مبارک ان کی آنکھوں میں لگایا تو وہ فوراً صحتیاب ہو گئیں ۔ جیسے انہیں کوئی تکلیف ہی نہ تھی (پھر آپ نے انہیں جھنڈا دیکر خیبر کے طرف روانہ کیا) ۔(صحیح بخاری : 2942)

2 سیدناعمرو بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ٹانگ صحیح ہوگئی

سیدناعبداللہ بن بریدہ اپنے والد سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ :

تَفَل فِي رِجْلِ عَمْروِ بن مُعَاذِ حِين قُطِعَتْ رِجْلُه فَبَرَأتْ

جب عمرو بن معاذ رضی اللہ عنہ کی ٹانگ كاٹی گئی تو رسول اللہ نے اس پر اپنا لعاب مبارک لگایا ، جس سے وہ صحیح ہو گئی۔ (سلسلة الاحاديث الصحيحة : 2305)

3 لعاب مبارک کی برکت سے زہر کا اثر ختم ہوگیا

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : سفر ہجرت کی رات غار کے پاس پہنچ کر سیدنا ابوبکر نے رسول اللہ   سے کہا : اللہ کے لیے ابھی آپ اس میں داخل نہ ہوں ۔ پہلے میں داخل ہوکر جائزہ لیتا ہوں ، اگر اس میں کوئی ایسی چیز ہو تو آپ کی بجائے اس کا مجھ سے سابقہ پڑے ۔ چنانچہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اندر گئے اور غار کو اچھی طرح صاف کیا ، ایک جانب چند سوراخ تھے جنہیں اپنا تہہ بند پھاڑ کر بند کر دیا ، لیکن دو سوراخ ابھی بھی باقی بچ گئے جن پر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنا پاؤں رکھ دیا ۔ اور رسول اللہ سے عرض کیا کہ اب آپ اندر تشریف لے آئیں ، آپ اندر تشریف لے آئے اور سیدنا ابوبکر کی آغوش میں سر رکھ آرام فرمانے لگے ۔ ادھر ابوبکر کے پاؤں کو کسی چیز نے ڈس لیا لیکن اس ڈر سے ہلے نہیں کہ رسول اللہ کی نیند میں خلل نہ آئے ۔ پس ان کے آنسو آپ کے چہرہ انور پر ٹپک پڑے اور آپ کی آنکھ کھل گئی ۔ آپ نے فرمایا : ابوبکر تمہیں کیا ہوا ؟

عرض کی : میرے ماں باپ آپ پر قربان ! مجھے کسی چیز نے ڈس لیا ہے ۔

فَتَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ فَذَهَبَ مَا يَجِدُهُ .

جس پر رسول نے اپنا لعاب مبارک لگایا تو تکلیف ختم ہو گئی ۔(رحیق المختوم : 231 : بتصرف)

4 آسیب زدہ بچہ نجات پا گیا

سیدہ ام جندب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو یوم النحر کو بطن وادی میں جمرہ عقبہ کی رمی کرتے دیکھا ۔ پھر آپ لوٹے تو آپ کے پیچھے پیچھے قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی، اس کے ساتھ ایک بچہ تھا جس پر آسیب کا اثر تھا، وہ بول نہیں سکتا تھا، اس نے عرض کیا : اللہ کے رسول ! یہ میرا بیٹا ہے اور یہی میرے گھر والوں میں باقی رہ گیا ہے، اور اس پر ایک بلا ( آسیب ) ہے کہ یہ بول نہیں پاتا، رسول اللہ نے فرمایا :

ائْتُونِي بِشَيْءٍ مِنْ مَاءٍ ،‏‏‏‏ فَأُتِيَ بِمَاءٍ فَغَسَلَ يَدَيْهِ،‏‏‏‏ وَمَضْمَضَ فَاهُ،‏‏‏‏ ثُمَّ أَعْطَاهَا،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ اسْقِيهِ مِنْهُ،‏‏‏‏ وَصُبِّي عَلَيْهِ مِنْهُ،‏‏‏‏ وَاسْتَشْفِي الله لَهُ .

تھوڑا سا پانی لاؤ ، پانی لایا گیا، تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے اور اس میں کلی کی، پھر وہ پانی اسے دے دیا، اور فرمایا : اس میں سے تھوڑا سا اسے پلا دو، اور تھوڑا سا اس کے اوپر ڈال دو، اور اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے شفاء طلب کرو ۔ ام جندب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں اس عورت سے ملی اور اس سے کہا : اگر تم اس میں سے تھوڑا سا پانی مجھے بھی دے دیتیں، ( تو اچھا ہوتا ) تو اس نے جواب دیا : یہ تو صرف اس بیمار بچے کے لیے ہے ۔ ام جندب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : میں اس عورت سے سال بھر کے بعد ملی اور اس بچے کے متعلق پوچھا تو اس نے بتایا :

بَرَأَ وَعَقَلَ عَقْلًا لَيْسَ كَعُقُولِ النَّاسِ

وہ ٹھیک ہو گیا ہے ! اور اسے ایسی عقل آ گئی ہے جو عام لوگوں کی عقل سے بڑھ کر ہے۔ (سنن ابن ماجة : 3532)

5 سیدناسلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پنڈلی بے ضرر بن گئی

جناب یزید بن ابی عبید سے روایت ہے کہ : میں نے سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی پنڈلی میں ایک زخم کا نشان دیکھا تو ان سے پوچھا : اے ابومسلم ! یہ زخم کا نشان کس چیز کا ہے؟ انہوں نے بتایا : غزوہ خیبر کے دن مجھے یہ زخم لگا تھا ، لوگ کہنے لگے : سلمہ زخمی ہو گیا ہے ۔

فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَفَثَ فِيهِ ثَلَاثَ نَفَثَاتٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا اشْتَكَيْتُهَا حَتَّى السَّاعَة .

چنانچہ میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ نے تین مرتبہ اس پر اپنا لعاب مبارک ملا ہوا دم کیا ، اس کی برکت سے آج تک مجھے اس زخم سے کوئی تکلیف نہیں پہنچی ۔ (صحیح بخاری : 4206)

6 بچے کا جلا ہوا ہاتھ ٹھیک ہوگیا

سیدنا محمد بن حاطب رضی اللہ عنہ کی والدہ ام جمیل کہتی ہیں:ایک مرتبہ میں تمہیں سر زمین حبشہ سے لیکر آرہی تھی ، جب میں مدینہ منورہ سے ایک یا دو راتوں کے فاصلے پر رہ گئی تو میں نے تمہارے لیے کھانا پکانا شروع کیا ، اسی اثناء میں لکڑیاں ختم ہو گئیں ، میں لکڑیوں کی تلاش میں نکلی تو تم نے ہانڈی پر ہاتھ مارا اور وہ الٹ کر تمہارے بازو پر گر گئی ، میں تمہیں لیکر نبی کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! یہ محمد بن حاطب ہے ۔

فَتَفَلَ فِي فِيكَ، وَمَسَحَ عَلَى رَأْسِكَ، وَدَعَا لَكَ، وَجَعَلَ يَتْفُلُ عَلَى يَدَيْكَ وَيَقُولُ : أَذْهِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا .

نبی کریم نے تمہارے منہ پر اپنا لعاب مبارک ڈالا ، اور تمہارے سر پر ہاتھ پھیر کر تمہارے لیے دعا فرمائی،نبی معظم تمہارے ہاتھ پر اپنا لعاب مبار ڈالتے جاتے اور کہتے جاتے : اے لوگوں کے رب ! اس تکلیف کو دور فرما ، اور شفا عطا فرما کہ تو ہی شفا دینے والا ہے ، تیرے علاوہ کسی کو شفا نہیں ہے ، ایسی شفا عطا فرما جو بیماری کا نام و نشان بھی نہ چھوڑے ، میں تمہیں نبی کے پاس سے لیکر اٹھنے بھی نہیں پائی تھی کہ تمہارا ہاتھ ٹھیک ہو گیا ۔(مسند احمد : 15453)

7 سیدناجابر رضی اللہ عنہ کی دعوت میں برکت پڑ گئی

سیدنا جابر سے روایت ہے کہ : (جب غزوہ خندق کے دن) خندق کھودی جا رہی تھی تو میں نے معلوم کیا کہ نبی انتہائی بھوک میں مبتلا ہیں۔ میں فوراً اپنی بیوی کے پاس آیا اور کہا : کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ میرا خیال ہے کہ نبی انتہائی بھوک میں ہیں۔ میری بیوی ایک تھیلا نکال کر لائیں جس میں ایک صاع جَو تھے۔ گھر میں ہمارا ایک بکری کا بچہ بھی بندھا ہوا تھا۔ میں نے بکری کے بچے کو ذبح کیا اور میری بیوی نے جَو کو چکی میں پیسا۔ جب میں ذبح سے فارغ ہوا تو وہ بھی جَو پیس چکی تھیں۔ میں نے گوشت کی بوٹیاں کرکے ہانڈی میں رکھ دیا اور رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میری بیوی نے پہلے ہی تنبیہ کر دی تھی کہ نبی کریم اور آپ کے صحابہ کے سامنے مجھے شرمندہ نہ کرنا۔ چنانچہ میں نے نبی معظم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کے کان میں یہ عرض کیا کہ : یا رسول اللہ ! ہم نے بکری کا ایک چھوٹا سا بچہ ذبح کیا ہے اور ایک صاع جَو پیس لیے ہیں جو ہمارے پاس تھے۔ اس لیے آپ دو ایک صحابہ کو ساتھ لے کر تشریف لے چلیں۔ آپ نے بہت بلند آواز سے فرمایا : اے اہل خندق ! جابر نے تمہارے لیے کھانا تیار کروایا ہے۔ بس اب سارا کام چھوڑ دو اور جلدی چلے چلو۔ اس کے بعد نبی رحمت نے فرمایا : جب تک میں آ نہ جاؤں ہانڈی چولھے سے نہ اتارنا اور تب ہی آٹے کی روٹی پکانا شروع کرنا۔ میں اپنے گھر آیا۔ ادھر آپ بھی صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ میں اپنی بیوی کے پاس آیا تو وہ مجھے برا بھلا کہنے لگیں۔ میں نے کہا : تم نے جو کچھ مجھ سے کہا تھا میں نے وہی نبی اکرم کے سامنے عرض کر دیا تھا۔ آخر میری بیوی نے گندھا ہوا آٹا نکالا اور آپ نے اس میں اپنے لعاب دہن کی آمیزش کر دی اور برکت کی دعا کی۔ ہانڈی میں بھی آپ نے لعاب کی آمیزش کی اور برکت کی دعا کی۔ اس کے بعد آپ نے (میری بیوی سے) فرمایا : ايک روٹی پکانے والی اور بلالے جو تیرے ساتھ مل کر روٹی پکائے ۔ اور ہانڈی سے گوشت نکالتی جا لیکن ہانڈی چولھے سے نہ اتارنا۔ صحابہ کی تعداد ہزار کے قریب تھی۔ میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ اتنے ہی کھانے کو سب نے ( شکم سیر ہو کر ) کھایا اور کھانا بچ بھی گیا۔ جب تمام لوگ واپس ہو گئے تو ہماری ہانڈی اسی طرح ابل رہی تھی جس طرح شروع میں تھی اور آٹے کی روٹیاں برابر پکائی جا رہی تھیں۔ (صحیح مسلم : 5315)

8 کنویں کا پانی بڑھ گیا

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ کے ساتھ ایک ہزار چار سو کی تعداد میں لوگ تھے یا اس سے بھی زیادہ۔ ایک کنویں پر پڑاؤ ہوا ، تو لشکر نے اس کا ( سارا ) پانی کھینچ لیا اور رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ رسول اللہ کنویں کے پاس تشریف لائے اور اس کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔

پھر فرمایا : ایک ڈول میں اسی کنویں کا پانی لاؤ۔ پانی لایا گیا تو :

فَأُتِيَ بِهِ فَبَصَقَ فَدَعَا

آپ نے اس میں کلی کی ( اپنا لعاب مبارک ڈالا) اور دعا فرمائی۔ پھر فرمایا : کنویں کو یوں ہی تھوڑی دیر کے لیے رہنے دو۔ اس کے بعد سارا لشکر خود بھی سیراب ہوتا رہا اور اپنی سواریوں کو بھی خوب پانی پلاتا رہا۔ یہاں تک کہ وہاں سے انہوں نے کوچ کیا۔ (صحیح بخاری : 4151)

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے