علامہ سیّد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ

 1926ء – 1996ء

درمیانہ قد، ہلکا پھلکا معتدل جسم، تیکھے نقوش، کشادہ جبیں پر علم و فضل کا آفتاب جلوہ گر،خوبصورت گنجان مسجّع چہرے پر پھیلی پوری داڑھی،بڑی بڑی جھیل سی جہاندیدہ ملّت مسلمہ کے دکھ میں متفکر آنکھیں،سفید شلوار قمیص اور سر پر ٹوپی،علم و ادب کا بحر ذخار، تقلید سے کوسوں دور ، کتاب و سنت کے شیدائی، علم و حلم کا مجسّمہ، دیکھنے میں تو دبلا پتلامگر ذات و صفات میں کسی کوہ گراں سے کم نہیں ‘ تکلفات و تصنعات سے ناآشنا، حاضر جواب، بذلہ سنج،معاملہ فہم،مہمان نواز، اور وضع دار یہ تھے شیخ العرب و العجم علامہ سیّد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ (۱۹۲۶ ۔ ۱۹۹۶ء)

آپ کا نسب نامہ کچھ اس طرح ہے سیّد بدیعُ الدین شاہ بن سیّد احسانُ اللہ شاہ بن سیّد رُشدُ اللہ شاہ راشدی بن سیّد رشید الدین شاہ بن سیّد یاسین شاہ راشدی رحمھُم اللہ تعالیٰ بلاشبہ آپ فولادی اعصاب کے مالک تھے، مصائیب و آلام سے کبھی نہ گھبراتے، ملّت مسلمہ کے پاکیزہ ماضی کے امین تھے، آپ بلند پایہ مفسر قرآن، فن رجال کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کے بلند پایہ خطیبوں میں بھی شمار ہوتے تھے، ان کا انداز خطاب بڑا دلکش، دلنشین اور دل آویز ہوا کرتا تھا، ان کا ہر ہر جملہ کتاب و سنت کی تعلیمات عالیّہ سے مزیّن اور ادبی شہّ پارہ محسوس ہوتا تھا، میری خوش نصیبی کہیے کہ تقریباً ہر سال وادی ریگستان تھرپارکر کے تبلیغی دوروں میں اس ناچیز کو انکی معیّت حاصل ہوتی تھی، تھرپارکر کی رات بڑی پُر سکون اور ٹھنڈی ہوتی ہے ایسے میں دل چاہتا تھا کہ آپ پوری شب بولتے رہیں اور قرآن سنت پڑھتے جائیں حوالے دیتے جائیں ، توضیح و تشرح کرتے جائیں ، آپ قرآن عظیم پڑھتے وقت پارہ اور رکوع کا بالعموم حوالہ دیا کرتے تھے،جی چاہتا تھا کہ شاہ صاحب بولتے رہیں، اور انکی فصیح زبان سے ایک مخصوص انداز میں پھول جھڑتے رہیں اور ہم جیسے سامعین چُنتے رہیں، شاہ صاحب کے مزاج میں بے انتہا تنوّع تھا، آپ جب ملت مسلمہ کی بے اعمالی و بدحالی کا تذکرہ یا فکر آخرت کا نوحہ چھیڑتے تو لوگوں کی آنکھیں اشکبار، اور جذبات پر قابو پانا بڑا مشکل ہوتا ، کئی بار تقریر کرتے ہوئے رات کے دو بج جاتے تھے، شب کی تنہایوں میںمیں نے شاہ صاحب کو تقریر کرتے سنا پھر انکی اثر انگیزی سے زارو قطار لوگوں کو روتے ہوئے پایا۔ آہ

 از دل خیزد بر دل ریزد

انکی زبان شائستہ شسّتہ اور شگفتہ تھی، بعض اوقات جب وہ پیروں فقیروں ، صوفیوں اور سجادہ نشینوں کے کشف و کرامات کے زدہ عام محیّر العقول قصے چھیڑتے تو سامعین کے چہروں پر مسکراہٹ سج جاتی تھی، شاہ صاحب ساری زندگی صلہ ،ستائش اور شہرت سے بے نیاز ہوکر دور افتادہ گوٹھوں اور قصبوں میں اونٹوں گھوڑوں پرجاکر کتاب و سنت کی دعوت پیش کرتے، سوز و تڑپ کے ساتھ فکر عالم عقبیٰ کی باتیں کر کے لوگوں تک حق اور سچ پہنچایا کرتے تھے، مجھے کئی بار عزیزالقدر ڈاکٹر پروفیسر عبدالعزیز نہڑیو کے ساتھ انکو بار بار قریب سے دیکھنے اور سننے کے مواقع ملے پھر کبھی شا ہ صاحب سے خط و کتاب کا سلسلہ بھی باقائدہ نکل آتا ، میں نے انکو بلند ظرّف، وسیع القلب، حسّاس اور محبت کرنے والا شخص پایا،

 بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن

خدا رحمت کند این عاشقاں پاک طنیت را

آپ خورد نوازی، ہمت افزائی، نیک نیتی، دینداری اور

تقویٰ و طہارت جیسے کئی اوصاف حمیدہ کے مالک تھے، انہونے پوری زندگی شرک و بدعت کی بیخ کُنی، کتاب و سنت کی ترقی و ترویج میں کمی آنے نہ دی اور انہوں نے ہمیشہ فرقہائے باطلہ کا قرآن و سنت کی روشنی میں علمی تعاقب کیا، انکو تفسیر، حدیث، فن رجال اور مذاہب اربعہ کی فقہ میں مہارت تامہ تھی، آپ کا مطالعہ و مشاہدہ بے انتہا وسیع تھا، آپ انسان دوست مردم شناس بھی تھے، آپ بلند پایہ زود نویس مصنف تھے، انہوں نے عربی، اردو اور سندھی مین ایک سو سے زائد معیاری و مثالی تصانیف اپنے پیچھے یادگار چھوڑی ہیں جن میں عربی ’۶۰‘ سندھی ’۲۸‘ اور اردو ’۱۹‘ شامل ہیں، {جن میں کافی علمی کُتب فضیلۃ الشیخ مولانا افتخار احمد تاج الدین الازہری حفظہ اللہ کی مرتب کردہ کتاب ’مقالات راشدیہ کی گیارہ جلدوں میں اشاعت پذیر ہو چُکی ہیں} علامہ بدیع الدین شاہ راشدی نادر روزگار شخصیت کے مالک تھے، آپ کی تصانیف لطیف کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وفور معلومات، تبحر علمی، وسعت مطالعہ ومشاہدہ، تحقیق و تدقیق کے بادشاہ تھے، حق گوئی، حق شناسی اور حق پسندی کی علاوہ سنجیدگی وقار توسط واعتدال شاہ صاحب کی تصانیف کی سطر سطر سے پھوٹتا ہوا نظر آتا ہے، ویسے بھی جو وقت انکی قربت میں گذارا اُس میں آپ کی شخصیت عُلوّ ھمّت ، وسعت ظرف ذھانت و فراست کے ساتھ انکی بذلہ سنجی اور شگفتہ مزاجی میں میں نے انکو یکتا پایا، تحمل و برداشت کے ساتھ دلربا شخصیت کے مالک تھے، انکی فقیہانہ بلند نگاہی، اسماء والرجال پر عبور، متکلمانہ بصیرت، مناظرانہ اسلوب ، استدلال بیان جیسی سب چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے انکو سرفراز کیا تھا، باقی کتب چھوڑ کر صرف انکی ایک تالیف ’بدیع التفاسیر‘ گیارہ جلدوں کا بغور مطالعہ کریں تو انکی بلند نگاہی اور جرّــأت گفتار و کردار میں آپ اپنے اور غیروں کی ماتھے کا جھومر نظر آتے ہیں۔

 ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جِسے

علامہ سید بدیع الدین شاہ راشدی وادی سندھ کے سرسبز و شاداب خِطّہ ہالا کے قریب بمقام گوٹھ فضلُ اللہ پیر آف جھنڈو میں ۱۲ مئی ۱۹۲۶ء کو نابغہ روزگار علامہ سیّد احسانُ اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ(متوفی۱۹۳۸ء) کے گھر میں پیدا ہوئے جنہیں اپنے دور کا فن رجال کا امام کہا جاتاتھا۔(علامہ سیّد سلیمان ندوی، یاد رفتگان)گویا کہ قائدہ کُلیّہ نہیں چونکہ آئے دن اکثر دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ اکابرین علم و ادب کی اولاد اپنے والد کے کمالات عالیہ سے محروم بلکہ یکسر مخالف نظر آتی ہے، ایسے میں علامہ سیّد احسانُ اللہ شاہ راشدی کا یقینا خو ش نصیب گھرانہ ہے جس میں علامہ سیّد محبُ اللہ شاہ راشدی اور علامہ سیّد بدیع الدین شاہ راشدی جیسے علم و ادب کے باکمال بیٹے پیدا ہوئے ہوں یہ اللہ تعالی کی خاص مہربانی ہے ان کو اللہ تعالیٰ نے چار فرزندوں ۱۔ محمد شاہ راشدی ، ۲۔نور اللہ شاہ راشدی، ۳۔رشد اللہ شاہ راشدی اور ۴۔ خلیل اللہ شاہ راشدی سے نوازا تھا۔

انکی ابتدائی تعلیم انکے آبائی مدرسہ دارالرشاد پیر جھنڈو میں ہوئی، تین ماہ کی مختصر مدت میں آپ نے قرآن عظیم حفظ کر لیا، پھر تیرہ کے قریب بلند پایہ باوقاراساتذہ کرام سے تحصیل علم کیا، شاہ صاحب کا مزاج خالص علمی و تحقیقی تھا، آپ کی پوری زندگی علمی تلاش و جستجو تحقیق ، بحث و نظرسے عبارت تھی، بلاشبہ راشدی برادران علامہ سید محبُ اللہ شاہ راشدی رحمه الله(متوفی ۱۹۹۵ء) اور علامہ بدیع الدین شاہ راشدی صاحباں اس بے آب و گیاہ صحرا میں تن تنہاچل پڑے، پھر چشم فلک نے دیکھا کہ سرسبز و شاداب باغ و بہار کا پورا قافلہ عظیم اپنے ساتھ لائے، علامہ سید بدیع الدین شاہ بے مثال قوت حافظہ، پاکیزہ ذھن و فکر کے مالک تھے انہوں نے ساری زندگی کتاب و سنت کی آبیاری میں پوری طرح وقف کردی بڑی بات کہ ان کی طبیعت میں کسی کے لئے کبھی کینہ نہ آیا نسب نامہ کے لحاظ سے آپ چالیسویں پشت میں سیدنا حسین رضي الله عنه سے ملتے ہیں، آپ نے کے مختلف ممالک جن میں امریکا، برطانیہ اور ڈینمارک شامل ہیں ہزاروں مواعظ حسنہ اور محاظراتِ علمیہ پیش کیے۔

 خاک کوئے تو ہر گھ کہ دم زند حافظہ

نسیم گلشن جان در مشام افتد

آپ نے جن عُلماء سے علمی استفادہ کیا ان میں ابو الوفاء ثنائُ اللہ امرتسری رحمہ اللہ (م۱۹۴۸ء) حافظ محمد عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ(م۱۹۶۴ء)شیخ عبدالحق ہاشمی رحمہ اللہ (م۱۹۷۰ء) علامہ ابو اسحٰق نیک محمدرحمہ اللہ (م۱۹۵۴ء) مولانا شرف الدین محدث دھلوی رحمہ اللہ (م۱۹۶۱ء)سیّد محبُ اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ(۱۹۹۵ء) وغیرھُم شامل تھے۔آپ نے اپنی علمی استعداد بڑھانے کی غرض سے اپنی خاندانی لائبریری میں ہزاروں نادر و نایاب قلمی مخطوطات اور شاہکار کتب کا اضافہ کیا یہ سب چیزیں انکی ذاتی دلچسپیوں، صلاحیتوں اور بلند نگاہی کا مظہر تھیں، انکی مجالس علمیّہ، پند و وعظ، تبلیغ و تلقین سننے کے لئے آج بھی دل اور آنکھیں ترستی ہیں۔

 ھنوز آرزم باشد کہ یکبار دگر بینم

مختصراً آپ رسوخ فی العلم، اخلاص عمل، جہد پیہم کے پیکر تھے، ہر لمحہ تحقیق و جستجو، مشغولیت و مصروفیت، استغناء و توکل کے بحر بے کنار تھے۔

 آں قدح بشکست و آں ساقی نماند

شاہ صاحب کے قریبی احباب شاہد ہیں کہ آپ کبھی حالات سے مرعوب نہ ہوئے، ان پر کبھی گبراہٹ طاری ہوتے نہیں دیکھی گئی، وہ ہر حال میں اپنے رب کے شکر گذار رہتے تھے، بلاشبہ شا ہ صاحب بھی گوشت پوشت کے انسان تھے، وہ فرشتہ نہیں تھے، بشری خطائوں سے کون مبّرأ؟ لیکن جب موجودہ ماحول میںایک اچھا ،سچا، مخلص، جادہ حق پر چلنے والا، مہربان انسان بننا بھی بڑی عظمت کی بات ہے، ایسے میںوہ کبھی حالات کے ہاتھون قدرے دکھی بھی ہو جایا کرتے تھے، لیکن ہم نے انکوروٹھے ہوں کو مناتے بھی دیکھا، انہوں نے غیروں کو اپنا بنانے کی کئی مثالیں بھی قائم کر دکھائیں، انکے انداز بیان میں کبھی ایک محبت بھری تیزی بھی آجاتی تھی جس سے انکا اندازِ بیان مزید مخلصانہ ہوجایا کرتا تھا، وہ بڑی سعادت مندقوم کے بیٹے تھے کہ انہوں نے اپنی حیات مستعار کے کئی سال ’حرمین شریفین‘ میں کتابُ اللہ و سنت رسولُ اللہ ﷺکی تبلیغ و تلقین میں گذارے جہاں خانہ کعبہ میں انکے چاہنے والوں کی کثیر تعدادآکر ان کے محاضرات علمیّہ سے استفادہ کرتی تھی، جس میں بے شمار علماء و مشاہیر بھی شامل تھے، انکو سعودی عرب میں بھی بفضل اللہ تعالیٰ محبت بھری پذیرائی ملی، برصغیر کے علاوہ عرب ممالک میںبھی انکے تلامذہ کی فہرست طویل ہے بہرحال شاہ صاحب نے ۷۲ سالہ زندگی کتاب و سنت کی دعوت دیتے ہوئے گذار دی انکی زندگی کے آخری لمحات بھی قابلِ رشک تھے جب وہ موسیٰ لین کراچی میں کسی تبلیغی کام کی غرض سے گئے ہوئے تھے ، عشا ء کی نماز سے فارغ ہوئے تھے کہ درد دل کے ہاتھوںرب کائنات کا حکم آیااور چند ہی منٹ میں دارِ فانی سے دارِ الخُلد کی جانب ۸ جنوری ۱۹۹۶ء کو مراجعت ہوئی اور علامہ فضیلۃ الشیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی امامت میں نمازہ جنازہ ادا کی گئی، پھر اپنے آبائی گائوں درگاہ شریف نزد نیو سعیدآباد میں اپنے والد مکرم اور بڑے بھائی علامہ سید محبُ اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کے پہلو میں ابدی آرام ہوئے، اللہ تعالی انکی مغفرت فرمائے اور درجات بلند کرکے اعلی علیین میں مقام عطا فرمائے ، آپ عمر عزیز کے آخری حصّے میںمال و اسباب، دنیاوی امور سے کلیۃ دستکش و بے نیاز ہو چکے تھے اوربہت ہی تھکے تھکے نظر آتے تھے۔

 دامان نگھ تنگ و گل حسن تو بسیار

 گلچین بھارِ تو زد امان نگھ دارد

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے