اس دنیا میں خوشی اور غم کے پیمانے ہر شخص کے لیے الگ ہیں، اکثر ایک کی خوشی دوسرے کے لیے غم یا دکھ کا باعث بنتی ہے۔ اسی طرح ہر انسان کے نزدیک خیر اور شر کے پیمانے اور اس کے احساسات جدا جدا ہیں۔بظاہر تو خیر وہ ہے جو انسانوں کی اجتماعیت کے لیے پسندیدہ اور قابل قبول ہوجب کہ اس کی معکوس شکل سواد اعظم کے لیے ناقابل قبول اور کراہیت آمیز ہو۔در اصل انسان خیر و شر دونوں کی بیک وقت صلاحیتوں کا حامل ہے ،جو بلا واسطہ ربّ کا ئنات سے انسان کی طرف منتقل ہوئی ہے۔پس فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا اس کی دلیل ہے۔

اس دنیوی زندگی میں انسان کے افعال کی دو ہی صورتیں ہیں فطری اور اخلاقی یا دیگر الفاظ میں اعضاء کے افعال اور دل کے افعال، چنانچہ ہمارا عمل اسی صورت میں اخلاقی ہو سکتا ہے جب کہ ہم اسے حالت اختیار میں کریں نہ کہ کسی دباؤ کے زیر اثر ۔اخلاقی فعل انسان کی اکتسابی ملک ہے ، اس کے بر خلاف علم وہبی ہے، کچھ تو وحی کے ذریعے سے اور کچھ روشنی طبع سے عطا ہوا ہے اگرچہ نزول وحی سے پہلے بھی انسان پر یہ فرض تھا کہ وہ اپنے خالق و مالک کو پہچانے، خیر و شر میں تمیز کرے، نیک، سچائی اور عدل کی زندگی بسر کرے۔سمیع و بصیر ہونے کی صلاحیت نے انسان کوعبدیت و اطاعت کا مکلف بنا یا ہے۔

قدرت نے انسان کے وجود میں فجور و تقویٰ کا مادہ رکھ کر اور اسے ارادہ و اختیار کی آزادی دے کر دنیا میں بھیجا ہے۔ اب یہ انسان کے اپنے اوپر منحصر ہے کہ وہ اچھائی اور برائی میں سے کس راستے کا انتخاب کر تا ہے اور اپنی زندگی کس ڈھب اور اور کن طریقوں پر گزارتا ہے۔انسان کا طرز زندگی دراصل عکس ہوتا ہے اس کی فکر اور سوچ کا ۔ انسان کے کردار پراس کی سوچ کا گہرا اثر پڑتا ہے۔جس طرح کے عقائد و نظریات ہوں گے ، اعمال بھی اسی کے مطابق ہوں گے۔گویا انسان کا نظریۂ زندگی ہی اس کے تمام اعمال و افعا ل پر حکمرانی کرتا ہے۔

ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ انسانی سوچ ایک اندرونی و ذہنی عمل ہے جس میں چیزوں اور واقعات کو مختلف انداز میں ترتیب دیا جاتا ہے۔یعنی سوچ ایک داخلی عمل ہے جو فرد کے ماضی کے تجربات ، مو جودہ حالات اورانسان کی اندرونی کیفیات سے متعین ہوتا ہے۔انسان حیوانات سے اسی بنا پر فائق ہے کہ حیوانات میں شعور ہے ، عقل نہیں ہے۔ جبکہ انسان میں عقل بھی ہے اور شعور بھی، چنانچہ اسی عقل و شعور کے امتزاج سے انسان غور و فکر کے مراحل طے کر کے اپنے لیے ہدایت کا راستہ تلاش کر لیتا ہے۔ تاریخ انسانی میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اس حقیقت کا  بہترین نمونہ ہیں ۔ آپ نے غور و فکر کے مدارج طے کر کے ہی ذاتِ باری تعالیٰ کی معرفت حاصل کی اور وہ بالآخر راہِ ہدایت سے فیضیاب ہوئے تھے۔

مذکورہ بالا تمام حقائق کے علاوہ ایک اور بھی حقیقت نفس الامری ہے کہ انسان کے افکار و اعمال میں خیر و شر پھیلانے میںمعاشرے کا بھی بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ ایک طرف جہاں معاشرہ کی کچھ سعید ہستیاں انسانوں میں اعلیٰ اخلاق اور مہذب طرز زندگی کی راہ دکھاتی ہیں ان کی دنیا و دین کی بھلائیوں سے ان کے دامن بھرتی رہتی ہیں ، وہاں دوسری طرف معاشرہ کے ناسور اپنی

خباثتوں اور مجرمانہ ذہنیت کے تحت ایک تناؤ، خلفشار اور

اخلاقی قدرو ں کی پامالی کا سبب بنتے ہیں۔ ان کے راہ و رسم اور طرز عمل میں حق تلفیاں، نا انصافیاں، جبرو استبداد اور عصبیت پسندی کی روش نمایاں ہوتی ہے جس سے سماج میں ایک ہیجان ، احساس محرومی کی تلخیوں کا زہر انسانیت کی رگوں میں سرایت کر رہا ہوتا ہے جو معاشرہ کی رگوں میں مایوسیوں اور منفی سوچوں کا اندھیرا پھیلا رہا ہوتا ہے۔ اور یہ سب انفردادی اور اجتماعی سطح دونوں پر ہوتا ہے۔

در اصل قوموں کی بقا اور ترقی ان کی تہذیب و تمدن کی نشوونما اور ان کے اعلیٰ اخلاق اور احترامِ آدمیت پر منحصر ہوتی ہے۔

پروفیسر خورشید احمد اپنی تالیف ’’ اسلامی نظریۂ حیات‘‘ میں لکھتے ہیں:’’ اخلاق کا تعلق خدا اور بندے کے باہمی رشتے سے نہیںبلکہ ان تعلقات سے ہے جو انسانوں اور انسانوں کے درمیان قائم ہوتے ہیں۔معاشی لین دین ہویا سیاسی معاملات ، سماجی برتاؤ ہو یا افراد خاندان سے سلوک، اسلام سب کو اخلاقی اصولوں کے مطابق انجام دینے کی تعلیم دیتا ہے۔قرآن و سنت میں معاملات و معاشرت سے متعلق با لتفصیل ان کی صفات کا ذکر ہے جو خدا کو پسند یا نا پسند ہیں۔‘‘

خیر و شر کی دو ممکنہ صورتیں ظہور پذیر ہوسکتی ہیں۔ ایک فاعلی صورت اور دوسری مفعولی۔ فاعلی صورت میں ہم کسی کو خیر مہیا کر رہے ہوتے ہیں اور مفعولی حالت میں ہم خود کسی ذریعے یا وسیلے سے خیر حاصل کرتے ہیں۔بعینہٖ شر اور فساد کو پھیلانے میں بھی ہم کبھی فاعل اور کبھی مفعول کا کردار ادا کرتے ہیں، دانستہ یا نا دانستہ دونوںکیفیات میں ہم سے یہ اعمال صادر ہوتے ہیں۔ اس بات کو ایک اور انداز میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہم اس دنیا میں اپنے طرز عمل سے ارد گرد کے لوگوں کو تہذیب ، انسانیت اور اعلیٰ قدروں سے قریب کر رہے ہوتے ہیں یا انھیں ان سب سے دور، دراصل ایک تبلیغ خاموشی کی زبان سے بھی ہوتی ہے، جسے بدن بولی کہتے ہیں، جبکہ بسا اوقات بڑے بڑے علمی، ادبی ، مذہبی مباحث ، فکری مقالات اور مکالماتِ فلاطون بھی بے تاثیر ہوجاتے ہیں ۔اس لیے کہ تربیت پیدا شدہ حالات کے درمیان رہنمائی کے ذریعہ کی جاتی ہے نہ کہ مجرد قسم کی وعظ خوانی کے ذریعہ۔ بقول شاعر     ؎

واعِظ کے پند سے دل پہ اثر کیا خاک ہو

خواہش دل اور ہے طرز بیاں کچھ اور

فرانسیسی سرجن اور بائیلوجسٹ ڈاکٹر الیکسس کیلر(alexis Carrel)اپنی کتاب (The Unknown Man) میں لکھتے ہیں: ’’موجودہ زندگی انسان کو ترغیب دیتی ہے کہ وہ دولت کو ہر ممکن ذریعہ سے حاصل کرے۔ لیکن یہ ذرائع دولت کے مقصد تک نہیں پہنچاتے ، یہ انسان میں ایک دائمی ہیجان اور جنسی خواہشات کی تسکین کا ایک سطحی جذبہ پیدا کر تے ہیں۔ ان کے اثر سے انسان صبر و ضبط سے خالی ہوجاتا ہے۔اور ہر ایسے کام سے گریز کرتا ہے جو ذرا دشوار ہوتا ہے۔‘‘ عالم انسانیت کی دورِ حاضر کی حالت کا جائزہ لیتے ہوئے ایسا نظرآتا ہے کہ تہذیب ِ جدید ایسے انسان پیدا کرہی نہیں سکتی جن میں فنی تخلیق،ذکاوت و جرأت اور فراست و دانش ہو۔یہی وجہ ہے کہ ہرملک کے صاحب اقتدار طبقے میں جس کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے، ذہنی اور اخلاقی قابلیت میں نمایاں انحطاط واضح نظر آتا ہے۔ اس صورتِ حال میں کہ تہذیب جدید نے ان بڑی بڑی اور ناگزیر ضرورتوں اور احتیا جات کو کما حقہ پورا نہیں کیا جو انسانیت نے اس سے وابستہ کر رکھی تھیں۔ اوریہ تہذیب ایسے لوگ پیدا کرنے میں ناکام رہی جو ذہانت و فطانت اور ہمت و جرأت کے مالک ہوں اور تہذیب کو ان دشوار گزار راستے پر سلامتی و آسودگی کے ساتھ لے جاسکیں ، جس پر آج انسانیت ٹھوکریں کھا رہی ہے اور احترام آدمیت دنیاسے بتدریج مٹتا جا رہا ہے۔

جب تک سماجی روایات نہ بدلیں، محض قانون بنا نے سے کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔اس قسم کی چیزیں کبھی قانون کے ذریعہ نافذ نہیں ہوسکتیں ،دنیا کا قانون طبیعی طور پر تو نتیجہ خیز ہوسکتا ہے مگر اخلاقی طور پر فکر اور نظریے کو بدلے بغیر ثمر ور نہیں ہوسکتا۔یہی وجہ ہے کہ ریاست مدینہ میں حرمت شرا ب کو تین مراحل میں طے کیا گیا۔کسی چیز پر عامل ہونے کے لیے اولین شے ذہن سازی ہوتی ہے۔مکہ کی ۱۳ برس کی ذہن سازی نے وہ غیو ر، شجاع اور دین کی حمیت میں ڈوبے وہ سپاہی اور مجاہدین تیار کیے جو دین کی آبرو اور اس کی آبیاری کے لیے جان ہتھیلی پر رکھے پھرتے تھے۔وسائل کی کمی کسی میدان میں بھی ان کے پیروں کی زنجیر نہیں بنی۔بقول علامہ اقبال    ؎

کافر ہے تو شمشیر پہ کر تا ہے بھروسہ

مؤمن  ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

اس حیاتِ دنیوی میں اکثر و بیشتر خلافِ مزاج باتیں پیش آتی رہتی ہیں،زندگی تو نام ہے ناموافق باتوں کاسامنا کرتے ہوئے سفرحیات طے کرنا ۔ جو انسان جتنا زیادہ بامقصداور با اصول ذہن کا حامل ہو اتنا ہی زیادہ اس کو اپنی پسند اور مرضی کے خلاف معاملات کو برداشت کر نا پڑے گا۔اس صفت کی ضرورت دنیوی معاملات میں بھی پیش آتی ہے اور دینی معاملات میں بھی۔

ہم جس دنیا میں بستے ہیں وہ اسباب و علل کی دنیا ہے۔دنیا میں پیش آنے والے واقعات اور حادثات کسی نہ کسی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔اس میں کچھ ہم انسانوں کا اور کچھ تکوینی مصلحتوں کا عمل دخل ہوتا ہے۔لیکن ہر انسان اپنے ساتھ پیش آنے والے ناخوشگوار حالات کا ذمہ دار دوسروں کو ہی گردانتا ہے ۔اپنا محاسبہ کرنا اس کے حاشیہ خیال میں ہی نہیں ہوتا۔اور اگر کبھی خیال آبھی جائے تو اس کا برملا اظہار کرنے کی جرأت ہی اس میں نہیں ہوتی۔اور وہ حاالات کی گتھی کو کبھی سلجھا نہیں پاتا۔ بقول شاعر    ؎

الٰہی   خیر  ہو  الجھن  پہ  الجھن  پڑتی  جا  تی  ہے

نہ  میر ا  دم  نہ  ان  کے  گیسو  کا  خم  نکلتا  ہے

لیفٹینیٹ کرنل (ر) عادل اختر اپنی تصنیف ’’ چہ باید کرد‘‘ میں رقم طراز ہیں :’’ اخلاقی اقدار کا امین درمیانہ طبقہ ہوتا ہے۔ہمت، حکمت ، علم اور عقل اس طبقے کی میراث ہوتی ہے۔اس طبقے کے اندر لڑنے مرنے اور آگے بڑھنے کا جوش و جذبہ ہوتا ہے۔مگر اس طبقے کی تعداد اور طاقت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔‘‘

فطری حالت میں نفس انسانی علم سے خالی ہوتا ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: 

وَاللَّهُ أَخْرَجَكُمْ مِنْ بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

’’ اور اللہ ہی نے تم کو تمہاری ماؤں کے شکم سے پیدا کیا جبکہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔اوراس نے تم کو کان اور آنکھیں اور دل (اور ان کے علاوہ اور اعضاء ) بخشے تاکہ تم شکر ادا کرو۔‘‘ ( النحل ۷۸)

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے واضح کر دیا کہ پیدائش کے وقت بچے کا ذہن یکسر صاف ہوتا ہے، ما سوا اس کی جبلی ضرورتوں، بھوک ، نیند ،موت وغیرہ۔جبکہ ہر پیدا ہونے والا بچہ اپنے اندر استعداداتِ علم (Faculties of Knowkedge ) ، سماعت و بصارت اور سوچنے والا دل بھی لے کر اس دنیا میں آتا ہے۔ چنانچہ یہ جبلی صلاحیتیں اس کا جوہر ہوتی ہیں جبکہ استعدادات علم کو تصرف میں لاکر اس کی شخصیت پر وان چڑھتی ہے۔اور اس کے نظریات، عقائد اور اخلاقی تصورات تشکیل پاتے ہیں۔ آدمی کے ذہنی ارتقا کے لیے لازمی ہے کہ اس کا پیدائشی جوہر اور اس کی شخصیت بیک وقت ترقی کرتے رہیں اور ایک دوسرے کی ہم آہنگی میں ایک دوسرے کے اوپر اثر انداز ہوں۔لیکن اکثر ان دونوں کا متوازی سفر کرنا محال ہوتا ہے۔جوہر غالب آجائے تو شخصیت مضمحل ہونے لگتی ہے اور شخصیت فوقیت حاصل کرلے تو جوہر سسکنے لگتا ہے۔

ہر انسان کے اندر ایک آدمی بھی ہوتا ہے۔اس فرق کے ساتھ کہ کچھ لوگوں میںآدمیت کا غلبہ ہوتا ہے اور کچھ میں انسانیت کا ترفع۔شعور ذات(Self Consiouness) کا صحیح ادراک آدمی کو انسان کے درجہ پر فائز کرتا ہےاور پھر وہ اپنی بالقوہ (Potential ) استعدادات و صلاحیتو ںکی کشادہ پگڈنڈیوں پر اپنے لیے وہ راہ اختیار کر تا ہے جو اسے اپنے خالق اور پالن ہار تک پہنچنے کے لیے روشنی دکھا تی ہے۔جب کہ محض آدمیت کا رنگ انسانی شخصیت کو مادی لذتوں کا ہی اسیر بنادیتا ہے۔اس لیے ہر آدمی کو اپنے باطن میں جھانک کر اپنا مقصد زندگی کو سمجھنا نا گزیر ہوتاہے۔خیر و شر کا اصل پیمانہ عقل و خرد کی روشنی میں ہی واضح نظر آسکتا ہے۔ورنہ نفس کی خواہشات کے ابھرتے تقاضے آدمی کو انسان بننے ہی نہیں دیتے۔

مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی ؒ ’’ اخلاق اور فلسفہ اخلاق‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ انسان اپنے نفس کی گہرائی میں ایک قوت محسوس کرتا ہے جو اس کو برے کام سے اس وقت روکتی ہے جب وہ اس کو کرنے پر ترغیب دیا جاتا ہے، اور وہ برابر اس کے درپے رہتی ہے کہ کسی طرح وہ اُس کو وہ عمل نہ کرنے دے ،اور وہ جب اس عمل کے کرنے پر ہٹ کرنے لگتا ہے،اور اس کو شروع کر دیتا ہے تو وہ اثناء عمل میں محسوس کرتا ہے اس قوت کے اثر کو نہ ماننے کی وجہ سے اُس کو راحت و سکون ِ قلب حاصل نہیں ہے۔ٍٍ

اسی طرح یہ قوت اُس کو واجب اور ضروری اعمال کے کرنے کا حکم دیتی ہے ،اور اگر وہ حکم کے زیر اثر اس کام کو کرنے لگتا ہے تو اس عمل کے دوام و استمرار پر اُس کو بہادر بناتی ہے، اور جب وہ اس کو مکمل کر لیتا ہے تو اطمینان اور راحت پاتا ہے اور نفس کی رفعت و بلندی کو محسوس کرتا ہے۔ایسی آمر وناہی (حکم کرنے والی اور منع کرنے والی) قوت کا نام ’’وجدان یا ضمیر ہے۔‘‘

انسانی نفس کا صدور روحِ مطلق سے ہوا ہے اور تمام افراد کی روحیں مل کر ایک جوہر بناتی ہیں جسے انسان مطلق یا روحِ انسانیت کہہ سکتے ہیں۔ لیکن ہرایک روح مادے کے اندر شامل ہے اور بتدریج غیر مادی بنتی ہے۔اس کام کے لیے اس میں بہت سی صلاحیتیں اور قوتیں موجود ہیں ۔ ان میں نظری قوتیں سب سے برتر ہیں کیونکہ علم ہی روح کی جان ہے۔

انسان کے افعال نیک اس وقت کہلاتے ہیں جب وہ اپنی فطرت اصلی کی پیروی کر تاہے،جو قابل تحسین نفس کا آزاد عمل ہے۔ پسندیدہ وہ کام ہے جو عقلی غورو فکر کے بعد کیا جائے اور مستحق جزاء یعنی عالم افلاک میں پہنچا دینے والی کائنات کے ناموس الٰہی کی پابند ی ہے۔اس کے لیے ناگزیرہے کہ قلب انسانی میں روحانی ترقی کی طلب ہو اس لیے سب سے افضل نیکی محبت ہے جو محبوبِ حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ سے وصل کی طالب ہے اور اس آرزو کے اثر کے تحت انسان اس دنیوی زندگی میں بھی مذہبی روا داری سے کام لیتا ہے،مخلوق کا درد اسے اپنا درد محسوس ہوتا ہے۔اور وہ ہر برائی کو احسن طریق پر دور کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔قرآن حکیم کے اس حکم کے بموجب:

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ  ( حٰم السّجدہ 34۔35)

’’ اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی ۔تو(سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دوجو بہت اچھا ہو،(ایسا کرنے سے تم دیکھوگے)کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی وہ تمھارا گرم جوش دوست ہے۔اور یہ بات انھیں لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں۔ اور ان ہی کو نصیب ہوتی ہے جوبڑے نصیب والے ہیں۔‘‘

 پروفیسر محمد منور نے اپنی تصنیف ’ برہانِ اقبال‘‘ میں لکھا ہے:

’’ایک اور بات جو قرآنِ حکیم کے مطالعہ سے واضح ہوتی ہے ، و ہ یہ ہے کہ تاریخ ِآدم حیوانی جبلتوں اور روح کے مابین ایک مستقل کشمکش کا نام ہے۔بقول ِ برگساں، ارتقا زندگی کی اس جدوجہد کا نام ہے جو وہ مادے کے تسلط سے نجات پانے کی خاطر عمل میں لاتی ہے۔مادہ مادے کی طرف کھنچتا ہے اور ظاہر ہےانسانی وجود میں ٹھوس وزنی حصہ مادے ہی کا ہے اور وہی بالعموم حاوی رہتا ہے۔روح کی لطافت کو محنت سے تقویت دینا پڑتی ہے،جب کہیں وہ وجود کے مادی حصے کو مادے کی نذر ہونے سے بچا پاتی ہے۔ انسان ذرا غا فل ہو تو پستی میںچلا جاتا ہے۔‘‘

خیر و شرکے مسئلے کو اس کے اصل تناظر میں سمجھنے کے لیے مجرد ہمار ا فہم علم اور سطحی مشاہدہ کافی نہیں ہے۔انسان کو ودیعت کیے ہوئے حواس خمسہ نے بلاشبہ کائنات کی بہت ساری گتھیوں کو سلجھا کر اس کو زندگی کی سہولتیں اور محیر العقول ایجادات و اختراعات سے نوازا ہے اس لیے عقل کی اہمیت سے کلّی طور پر انکار ممکن نہیں۔تاہم اللہ کی تائید و نصرت ساتھ نہ ہو تو بہت سے عقدے نہیں کھل پاتے اور انسان لاعلمی کے اندھیروں میں بھٹکتا رہتا ہے۔اس لیے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو علم ملا ہے اس کی قلت اور محدودیت کا اعتراف تو انسان ہی نہیں فرشتوں نے بھی کیا ہے، قرآن حکیم میں ملائکہ کا یہ قول نقل ہوا ہے:

قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ

’’انھوں نے کہا تو پاک ہے جتنا علم تونے ہمیں بخشا ہے اس کے سوا ہمیں کچھ معلوم نہیں۔بیشک تو دانا (اور) حکمت والا ہے۔‘‘ (البقرہ ۳۲)

چنانچہ اسلام کی تعلیمات کے بغور مطالعہ کے بنا ہم نیکی و بدی اور خیر و شر کا صحیح فہم حاصل نہیں کرسکتے۔مجرد علم ہر گتھی کو سلجھانے میں مددگار ثابت نہیں ہوتا جب تک اللہ کی ہدایت رہنمائی نہ فرمائے۔قرآن حکیم نے جو خیر و شر کا نظریہ پیش کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ معروف اور جانی پہچانی چیز کو خیر کہتے ہیں۔فطرت جسے قبول کرنے میں سوچ بچار نہیں کرتی، مانوسیت کا ایک لطیف احساس انسان کو اپنے قلب و ذہن میں اترتا محسوس ہوتا ہے۔اور شر وہ ہے جسے منکر کا نام دیا گیا ہے۔ اور ہر قسم کے منکرات سے اجتناب کر نے پر مذہب زور دیتا ہے۔اور نہ صرف یہ کہ انسان بذاتِ خود بھی معروف پر عمل پیرا ہو اور منکرات سے بچے بلکہ دوسروں کو بھی اس کا حکم  دے اور اس کو کرنے سے روکے۔ازروئے قرآن حکیم:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

’’ اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چا ہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دےاور برے کاموں سے منع کرے۔ یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔‘‘ ( آلِ عمران ۱۰۴)

نیکی جو اپنے حقیقی تقاضوں کے ساتھ کی جائے وہی دراصل خیر اعلیٰ ہے۔اور اس خیر اعلیٰ کے لیے انسان کو اپنی کئی خواہشات اور آرزؤںکو دبانا پڑتا ہے، بیج کو زمین کے سینے میں دبا کر اس کی آبیاری کی جائے تب ہی وہ پہلے پودا اور پھر درخت بنتا ہے۔اسی طرح اگر انسان خود کو خواہشات اور نفس کے حصار میں مقید کر دے تو نیکی اپناپھیلا ہوا دامن سمیٹ لیتی ہے۔اور یوں ایک انسان خیرسمیٹتے سمیٹتے شر و فساد کے اس جال میں جا گرتا ہے جو شیطانی قوتوں نے روز ازل سے ہی ابن آدم کے لیے بچھایا ہوا ہے۔

جرمن فلسفی کانٹ (Immanuel kant) کہتا ہے کہ :

’’انسان اپنی زندگی دو قسم کے محرکات کے تحت گزارتاہے۔ایک حسی(Sensual) اور دوسراخلاقی (Moral) اور دونوں محرکات کے مابین ایک معنوی ربط و تعلق قائم رہتا ہے۔حسی محرکات کا اخلا قی محرکات کے تابع ہونا نا گزیر ہے ، اگرچہ عام طور سے ایسا ہوتا نہیں ہے ، اخلاقی محرکات حسی محرکات کے تابع ہوجا تے ہیں۔اور جونہی حسی محرکات اخلاقی محرکات میں مزاحم ہوتے ہیں ، یہ ’’ شر‘‘   بن جاتے ہیں۔اس لیے انسان میں فطری طور پر’’ شر‘‘ کا رجحان پایا جاتا ہے۔‘‘( بحوالہ:  اسلام اور فلسفہ از خان محمد چاولہ)

  ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمیں خیرو شر کے فلسفے کو اسلام کے نقطہ نظر سے بھی دیکھنا چاہئے۔ خالق ارض و سماء نے ہر انسان میں اپنی حکمت و مصلحت اور تکوینی اسرار کے تحت خیر وشرکے داعیات رکھے ہیں۔اس کا ایک جواب تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:

وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا

’’ اور (قسم ہے) انسانی جان کی اور اس کی جس نے اسے سنوارا، پھر اس کے دل میں وہ بات بھی ڈال دی جو اس کے لیے بدکاری ہے، اور وہ بھی جو اس کے لیے پرہیزگاری ہے، فلاح اسے ملے گی جو اس نفس کو پاکیزہ بنائے، اور نامراد وہ ہوگا جو اس کو (گناہ میں)دھنسا دے۔ ‘‘ ( الشّمس ۷،۸،۹،۱۰)

قرآنِ حکیم کی آیات پر غور کرنے سے یہ حقیقت آشکارہوتی ہے کہ وہ خیر اور بھلائی کو کئی معنوں میں بیان کرتا ہے مثلاً ایک جگہ ارشاد ہے کہ:

وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ

’’ اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جس کے افراد(لوگوں کو ) بھلائی کی طرف بلائیں ، نیکی کی تلقین کریں ، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ (آلِ عمران ۱۰۴)

دراصل ہمیں اس عالم رنگ و بو میں جو شرنظر آتا ہے اس میں بھی کوئی نہ کوئی خیر کا پہلوپوشیدہ ہوتا ہے ، یہ اور بات ہے کہ وہ ہمیں نظر نہیں آتا۔ اس لیے کہ زندگی کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لیے بصارت نہیں بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر ایک کو حاصل نہیں۔ اس کی دلیل سورۃ البقرہ آیت ۲۱۶ میںبیان ہوئی ہے۔

’’ یہ عین ممکن ہے کہ ایک چیز کو تم برا سمجھو حالانکہ وہ تمھارے حق میں بہتر ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو،حالانکہ وہ تمھارے حق میں بری ہو( اصل حقیقت تو اللہ) جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘

الشیخ ابن العربی ؒ نے اپنی تصنیف ’’  فُصُوص الحکم‘‘  میں لکھا ہے:’’ اللہ تعالیٰ نے ہر بندے کی چشم ِ بصیرت ایسی نہیں کھولی کہ اشیاء کی فطرت اور ان کی حالت نفس الامری کو جانتا ہو کیونکہ بعض اقتضائے عین سے عالم ہیں اور بعض جاہل ۔ اسی لیے نہ سب کی ہدایت چاہی ، نہ سب کی ہدایت کی اور نہ سب کی ہدایت چاہے گا۔‘‘

قدرت کے ہر کام میں خیرپنہاں ہوتا ہے۔’الوجود خیر کلہ‘   تمام وجود اپنی ذات میں خیر ہی خیر ہیں۔برسات اگر کوٹھی بنگلوں اور مضبوط مکانوں کے مکینوں کے لیے بارانِ رحمت ، مسرت اور تفریح طبع کا باعث ہوتی ہے تو کچے پکے مکانوں اور جھگیوں میں رہنے والوں کے لیے یہی بارش زحمت، تکلیف اور پریشانیوں کا ذریعہ بنتی ہے۔ مگر بظاہریہی تکلیف دہ چیز زمین میں بوئے گئے بیجوں کی آبیاری کے لیے، سوکھی اور پیاسی زمینوں پر لہلہاتی کھیتیوں ، غلہ ، پھل اور میوہ جات جیسی نعمت خداوندی کے حصول کے لیے قدرت کی بے پایاں نعمت ہے ۔ علاوہ ازیںیہی برسات فضا میں پھیلی کثافتوں کو اپنے شفاف پانی سے دھونے اوربہت سارے جسمانی عوارض سے شفا یابی کا باعث بھی بنتی ہے ۔ گویا بظاہر نظر آنے والا شر انسانوں کے لیے خیر ، بھلائی اور خوشحالی کی نوید لے کر آتا ہے۔ثابت یہ ہوا کہ خیر ہو یا شر دونوں ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر ہی خیر ہیں۔اور اس پر ایمان لانا ایک مؤمن کے لیے لازمی ہے۔سرورِ کائنات نے فرمایا:’’ بندۂ مؤمن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کے ہر معاملے اور ہر حال میں خیر ہی خیر ہے، اگرا س کو خوشی اور راحت و آرام ملے تو وہ اپنے ربّ کا شکر ادا کرتا ہے، اور یہ اس کے لیے خیر ہی خیر ہے، اور اگر اسے کوئی دکھ اور رنج پہنچتا ہے تو وہ(اس کو بھی اپنے حکیم و کریم ربّ کا فیصلہ اور اس کی مشیت یقین کر تے ہوئے) اس پر صبر کر تا ہے تو یہ صبر بھی اس کے لیے سراسر خیراور موجب برکت ہے۔‘‘( مسلم)

عمل کے میدان میں انسان ایک عجیب تضاد میں مبتلا رہتا ہے۔جب وہ بے لوث اور بے غرض ہو کر سوچتا ہے تو انسانوںکے بنیادی حقوق اور ان کی فلاح کی ایک ایمان دارانہ فہرست اس کی ترجیحات میں ہوتی ہے، جس میں عدل و انصاف اور قوانین کی پیروی بھی شامل ہوتی ہے۔ لیکن جب ان سب پر عمل کی باری آتی ہے تو یہی انسان اپنے مسلمہ اصولوں اور ترجیحات کے خلاف ، مفاد پرستی کو حق و انصاف کے تقاضوں پر ترجیح دیتا ہے۔اور اس طرح اپنے کردار و عمل سے اپنی ہی عقل کے مسلمہ تقاضوں کی تکذیب کا مرتکب ہوتاہے۔ دراصل انسانی عقل یہ بتا نے سے با لکل قاصر ہے کہ کون سی قوت ، مفاد پرستی پر حق و انصاف کے تقا ضوں کو مقدم رکھنے کی ضامن ہو سکتی ہے۔چنانچہ یہ ضمانت بھی مذہب ہی فراہم کرتا ہے۔قادر مطلق اور روز محشر ، محاسبۂ اعمال پر ایمان و یقین ہی اس کا واحد ضامن ہے۔اور اس ایمان پر پختگی اور صلابت کے لیے بہترین نمونہ رسول مکرم کی ذات مبا رکہ میں بدیہی طور پر موجود ہے۔ارشاد باری  تعالیٰ ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ

’’ بلا شبہ تم لوگوں کے لیے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یومِ آخرت کا امید وار ہو۔‘‘( الاحزاب  ۲۱)

انسان نہ آزاد مطلق و کامل مختارہے اور نہ مجبور ِ محض! انسان کے نفس میں اس کی آزادی کی تکمیل ہوتی ہے، لیکن وہ خارجی حالا ت کی وجہ سے محدود رہتی ہے۔اس طرح ہمارے افعال کی علت مؤثرہ خود ہم میں موجود ہے۔البتہ علت عرضیہ ہم سے خارج ہے، کیونکہ جو قوت ہم کو اپنی طرف کھینچتی ہے وہ ایک علیحدہ مستقل وجود رکھتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کے افعال میں آزادی دی ہے،مگر خارجی اسباب سے اسے محدود کردیا ہے۔ (بحوالہ:  الکشف عن مناھج الاوّلۃ فی عقائد الملۃ، مصنف:  ابن رشد)

بندۂ مؤمن کا ایمان و یقین اس بات پر ہونا چاہئے کہ یہ دنیا او ر اس کی اپنی زندگی ابدی اور غیر فانی نہیں ہے۔ اس لیے یہاں کی   خیر و بھلائی ، عیش وآرام، دنیاوی نعمتوں کو ایک دن ختم ہوجانا ہے ۔ اور شر کا وجود اور اس کا پھیلاؤ بھی عارضی ہے، یہاں کی تکلیفیں ، اذیتیں،نا انصافیاں اور ظلم وستم بھی ایک دن فنا ہونے والا ہے۔ اور ان تمام کلفتوں ،محرومیوں اور تلخیوں کا بہترین بدل آخرت میں ملنا یقینی ہے۔  

 جس کو ان حقائق پر تیقن حاصل ہوگیا اس کے لیے اس دنیا میں نہ کوئی غم باقی رہے گا اور نہ کوئی خوف!دراصل آزمائش کی اساس ہی خیر و شر ہے۔آزمائش مقصود نہ ہوتی تو نہ شر ہوتا اورنہ خیر کا کوئی تصور، اور نہ موت و زندگی کا یہ سلسلہ تخلیق کیا جاتا ۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ

 ’’ اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے تاکہ تمھاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے کام کر تا ہے۔اور وہ زبردست(اور) بخشنے والا ہے۔‘‘ (الملک :۲)

خیر ہو یا شر دونوں اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہیں، چنانچہ ایک بندۂ مؤمن کا کام اللہ کی رِضا اور اس کے فیصلوں پر سر تسلیم خم کردینا ہی بندگی کی شان ہے۔ شر کے پردے میںحکمت الٰہی کو سمجھنے کی جہد مسلسل انجام کار ایک دن ذہن کے پرت کھول کر حقیقت سے پردہ اٹھا ہی دیتی ہے۔ اور انسان حینِ حیات اس گردابِ ریب و تردد اور ورطہ ٔ  حیرت سے باہر نکل آتا ہے۔

تلاش  او  کنی  جز  خود  نہ  بینی

تلاش  خود  کنی  جز  او  نہ  یابی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے