محترم قارئین ! صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نبی کریم ﷺ سے بے تحاشا محبت کیا کرتے تھے نبی معظم علیہ السلام پر اپنی جان مال و دولت قربان کر دینا اپنے لیے بڑی سعادت سمجھتے تھے ۔ نبی کریم ﷺ کی وفات کے دن جیسے قریب آئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بہت زياده اشكبارہوئے جیسا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق سیدنا ابو سعید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ :

خَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ اللَّهَ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ ‏‏‏‏‏‏فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ فِي نَفْسِي:‏‏‏‏ مَا يُبْكِي هَذَا الشَّيْخَ؟ إِنْ يَكُنِ اللَّهُ خَيَّرَ عَبْدًا بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ مَا عِنْدَهُ فَاخْتَارَ مَا عِنْدَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الْعَبْدَ ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ أَعْلَمَنَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ يَا أَبَا بَكْرٍ لَا تَبْكِ ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أَمَنَّ النَّاسِ عَلَيَّ فِي صُحْبَتِهِ وَمَالِهِ أَبُو بَكْرٍ ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا مِنْ أُمَّتِي لَاتَّخَذْتُ أَبَا بَكْرٍ ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنْ أُخُوَّةُ الْإِسْلَامِ وَمَوَدَّتُهُ لَا يَبْقَيَنَّ فِي الْمَسْجِدِ بَابٌ إِلَّا سُدَّ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا بَابُ أَبِي بَكْرٍ

ایک دفعہ رسول اللہ نے خطبہ میں فرمایا : بےشک اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو اختیار دیا ہے کہ وہ دنیا میں رہے یا جو اللہ کے پاس ہے اسے اختیار کرے۔ تو اس نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے۔یہ سن کر سيدنا ابوبکر صدیق  رونے لگے۔میں نے اپنے دل میں کہا: یہ بوڑھا کس لیے روتا ہے؟بات تو صرف یہ ہے کہ اللہ نے اپنے ایک بندے کو دنیا یا آخرت دونوں میں سے جسے چاہے پسند کرنے کا اختیار دیا ہے اور اس نے آخرت کو پسند کیا ہے۔ (تو اس میں رونے کی کیا بات ہے)؟ مگر بعد میں یہ راز کھلا کہ بندے سے مراد خود رسول اللہ تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق ہم سب سے زیادہ سمجھنے والے تھے۔ پھر رسول اللہ نے فرمایا: ابوبکر تم مت روؤ، میں لوگوں میں سے کسی کے مال اور صحبت کا اتنا زیر بار نہیں جتنا ابوبکر کا ہوں۔ اگر میں اپنی امت سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن اسلامی اخوت و محبت ضرور ہے۔ دیکھو! مسجد میں ابوبکر کے دروازے کے سوا سب کے دروازے بند کر دیے جائیں۔ (صحیح بخاری : 466 )

اور اسی طرح ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے متعلق فرماتی ہیں :

دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام فِي شَكْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ فَسَارَّهَا بِشَيْءٍ فَبَكَتْ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ دَعَاهَا فَسَارَّهَا بِشَيْءٍ فَضَحِكَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلْنَا عَنْ ذَلِكَ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَتْ:‏‏‏‏ سَارَّنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يُقْبَضُ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ فَبَكَيْتُ ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ سَارَّنِي فَأَخْبَرَنِي أَنِّي أَوَّلُ أَهْلِهِ يَتْبَعُهُ فَضَحِكْتُ .

مرض الموت میں رسول اللہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور آہستہ سے کوئی بات ان سے کہی جس پر وہ رونے لگیں ، پھر دوبارہ آہستہ سے کوئی بات کہی جس پر وہ ہنسنے لگیں پھر ہم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا : نبی کریم نے مجھ سے فرمایا تھا : آپ کی وفات اسی مرض میں ہو جائے گی میں یہ سن کر رونے لگی دوسری مرتبہ آپ نے مجھ سے جب سرگوشی کی تو یہ فرمایا : آپ کے گھر کے آدمیوں میں سب سے پہلے میں آپ سے جا ملوں گی تو میں ہنسی تھی۔

 ( صحیح بخاری : 4433 )

جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو نبی کریم ﷺکی جدائی کی خبر ملی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہر طرف تاریکی پھیل گئی جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :

أَنَّ أَبَا بَكْرٍ خَرَجَ وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يُكَلِّمُ النَّاسَ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ اجْلِسْ يَا عُمَرُ ‏‏‏‏‏‏فَأَبَى عُمَرُ أَنْ يَجْلِسَ ‏‏‏‏‏‏فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَيْهِ وَتَرَكُوا عُمَرَ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ أَمَّا بَعْدُ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللَّهَ ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ ‏‏‏‏‏‏قَالَ اللَّهُ:‏‏‏‏ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ إِلَى قَوْلِهِ:‏‏‏‏ الشَّاكِرِينَ ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ لَكَأَنَّ النَّاسَ لَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ هَذِهِ الْآيَةَ حَتَّى تَلَاهَا أَبُو بَكْرٍ فَتَلَقَّاهَا مِنْهُ النَّاسُ كُلُّهُمْ ‏‏‏‏فَمَا أَسْمَعُ بَشَرًا مِنَ النَّاسِ إِلَّا يَتْلُوهَا ‏‏‏‏‏‏فَأَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ أَنَّ عُمَرَ ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ أَبَا بَكْرٍ تَلَاهَا فَعَقِرْتُ حَتَّى مَا تُقِلُّنِي رِجْلَايَ وَحَتَّى أَهْوَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ حِينَ سَمِعْتُهُ تَلَاهَا ‏‏‏‏‏‏عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَاتَ.

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ لوگوں سے کچھ کہہ رہے تھے ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : عمر ! بیٹھ جاؤ ! لیکن عمر رضی اللہ عنہ نے بیٹھنے سے انکار کیا اتنے میں لوگ عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آ گئے اور آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا : امابعد ! تم میں جو بھی محمد کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ آپ اس دنیا فانی سے رخصت ہوچکے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا تو (اس کا معبود) اللہ ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے اور اس کو کبھی موت نہیں آئے گی اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ کہ محمد صرف رسول ہیں ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں ارشاد “الشَّاكِرِينَ ‏” تک ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا : اللہ کی قسم ! ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پہلے سے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ہے اور جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کی تلاوت کی تو سب نے ان سے یہ آیت سیکھی اب یہ حال تھا کہ جو بھی سنتا تھا وہی اس کی تلاوت کرنے لگ جاتا تھا (زہری نے بیان کیا کہ) پھر مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم ! مجھے اس وقت ہوش آیا جب میں نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس آیت کی تلاوت کرتے سنا جس وقت میں نے انہیں تلاوت کرتے سنا کہ نبی کریم ﷺاس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں تو میں سکتے میں آگیا اور ایسا محسوس ہوا کہ میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے اور میں زمین پر گر جاؤں گا۔ (صحیح بخاری : 44)

اور سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

مَرَّ أَبُو بَكْرٍ وَالْعَبَّاسُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بِمَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ وَهُمْ يَبْكُونَ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ مَا يُبْكِيكُمْ ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ ذَكَرْنَا مَجْلِسَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَّا فَدَخَلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ عَصَبَ عَلَى رَأْسِهِ حَاشِيَةَ بُرْدٍ ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ وَلَمْ يَصْعَدْهُ بَعْدَ ذَلِكَ الْيَوْمِ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ أُوصِيكُمْ بِالْأَنْصَارِ فَإِنَّهُمْ كَرِشِي وَعَيْبَتِي وَقَدْ قَضَوْا الَّذِي عَلَيْهِمْ وَبَقِيَ الَّذِي لَهُمْ‏‏‏‏ فَاقْبَلُوا مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَتَجَاوَزُوا عَنْ مُسِيئِهِمْ .

سیدنا ابوبکر اور عباس رضی اللہ عنہما انصار کی ایک مجلس سے گزرے دیکھا کہ تمام اہل مجلس رو رہے ہیں پوچھا آپ لوگ کیوں رو رہے ہیں؟ مجلس والوں نے کہا : ابھی ہم رسول اللہ کی مجلس کو یاد کر رہے تھے جس میں ہم بیٹھا کرتے تھے (یہ آپ کے مرض الوفات کا واقعہ ہے) اس کے بعد یہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو واقعہ کی اطلاع دی بیان کیا کہ اس پر آپ باہر تشریف لائے سر مبارک پر کپڑے کی پٹی بندھی ہوئی تھی راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ منبر پر تشریف لائے اور اس کے بعد پھر کبھی منبر پر آپ تشریف نہ لا سکے آپ نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ میرے جسم و جان ہیں انہوں نے اپنی تمام ذمہ داریاں پوری کی ہیں لیکن اس کا بدلہ جو انہیں ملنا چاہیے تھا وہ ملنا ابھی باقی ہے اس لیے تم لوگ بھی ان کے نیک لوگوں کی نیکیوں کی قدر کرنا اور ان کے خطا کاروں سے درگزر کرتے رہنا۔ (صحیح بخاری : 3799 )

 اور اسی طرح سیدنا انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے

قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعُمَرَ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى أُمِّ أَيْمَنَ نَزُورُهَا كَمَا كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا فَلَمَّا انْتَهَيْنَا إِلَيْهَا بَكَتْ فَقَالَا لَهَا: مَا يُبْكِيكِ؟ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: مَا أَبْكِي أَنْ لَا أَكُونَ أَعْلَمُ أَنَّ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَكِنْ أَبْكِي أَنَّ الْوَحْيَ قَدِ انْقَطَعَ مِنَ السَّمَاءِ فَهَيَّجَتْهُمَا عَلَى الْبُكَاءِ. فَجَعَلَا يَبْكِيَانِ مَعَهَا   ( صحیح مسلم : 6318 )

سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ کے انتقال کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے ساتھ ام ایمن کی ملاقات کے لئے چلو ہم اس سے ملیں گے جیسے رسول اللہ ان سے ملنے کو جایا کرتے تھے جب ہم ان کے پاس پہنچے تو وہ رونے لگیں دونوں ساتھیوں نے کہا : تم کیوں روتی ہو؟ اللہ جل جلالہ کے پاس اپنے رسول کے لئے جو سامان ہے وہ رسول اللہ کے لئے بہتر ہے ام ایمن رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اس لئے نہیں روتی کہ یہ بات نہیں جانتی بلکہ اس وجہ سے روتی ہوں کہ اب آسمان سے وحی کا آنا بند ہو گیا ام ایمن کے اس کہنے سے سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھی رونا آیا پس وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے ۔

نبی كريم ﷺکی جدائی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو انتہائی غمگین کردیا تھا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہیں گئے ہوئے تھے لیکن رحمة العالمین کے انتقال کی خبر ملنے کے فورا واپس مدینہ آئے آتے ہوئے ہی سیدنا رسول اللہ کے حجرہ مبارک میں داخل ہوئے سیدہ عائشہ ‌رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :

أَنَّ أَبَا بَکْرٍ دَخَلَ عَلَی النَّبِیِّ ‌صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم بَعْدَ وَفَاتِہِ فَوَضَعَ فَمَہُ بَیْنَ عَیْنَیْہِ، وَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلَی صُدْغَیْہِ وَقَالَ وَا نَبِیَّاہْ وَا خَلِیلَاہْ وَا صَفِیَّاہْ

نبی کریم ﷺکی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ آپﷺ کے پاس آئے اور اپنا منہ آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان اور اپنے ہاتھ آپ ‌ﷺکی کنپٹیوں پر رکھے اور کہا: ہائے میرے نبی ! ہائے میرے خلیل ! ہائے اللہ کے منتخب نبی۔ ( مسند احمد : 11041 )

اوسط بن عمرو رحمہ اللہ سے مروی ہے :

قَدِمْتُ الْمَدِینَۃَ بَعْدَ وَفَاۃِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِسَنَۃٍ، فَأَلْفَیْتُ أَبَا بَکْرٍ یَخْطُبُ النَّاسَ، فَقَالَ: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَامَ الْأَوَّلِ فَخَنَقَتْہُ الْعَبْرَۃُ ثَلَاثَ مِرَارٍ ثُمَّ قَالَ: یَا أَیُّہَا النَّاسُ! سَلُوا اللّٰہَ الْمُعَافَاۃَ فَإِنَّہُ لَمْ یُؤْتَ أَحَدٌ مِثْلَ یَقِینٍ بَعْدَ مُعَافَاۃٍ وَلَا أَشَدَّ مِنْ رِیبَۃٍ بَعْدَ کُفْرٍ وَعَلَیْکُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّہُ یَہْدِی إِلَی الْبِرِّ وَہُمَا فِی الْجَنَّۃِ وَإِیَّاکُمْ وَالْکَذِبَ فَإِنَّہُ یَہْدِی إِلَی الْفُجُورِ وَھمَا فِی النَّارِ

وہ کہتے ہیں : رسول اللہ ﷺکی وفات سے ایک سال بعد میں مدینہ منورہ آیا میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ لوگوں سے خطاب کر رہے تھے انہوں نے کہا : رسول اللہ ﷺگزشتہ سال ہمارے درمیان کھڑے ہوئے یہ کہہ کر ان کی آواز آنسوؤں کی وجہ سے بند ہو گئی تین بار ایسے ہی ہوا بالآخر کہا لوگو ! اللہ سے عافیت کا سوال کرو عافیت کے بعد ایمان و ایقان جیسی کوئی نعمت نہیں جو بندے کو دی گئی ہو اور نہ کفر کے بعد شک و شبہ سے بڑھ کر کوئی سخت گناہ ہے تم صدق اور سچائی کو لازم پکڑو یہ انسان کو نیکی کی طرف لے جاتا ہے اور صدق اور نیکی کا انجام جنت ہے اور تم جھوٹ سے بچ کر رہو یہ گناہوں کی طرف لے جاتا ہے اور جھوٹ اور گناہ کا انجام جہنم ہے۔ ( مسند احمد : 12180 )

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :

قَالَتْ لِي فَاطِمَةُ :‏‏‏‏ يَا أَنَسُ كَيْفَ سَخَتْ أَنْفُسُكُمْ أَنْ تَحْثُوا التُّرَابَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ (حديث موقوف) (حديث موقوف) وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا ثَابِتٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ ‏‏‏‏‏‏أَنَّ فَاطِمَةَ ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ حِينَ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَا أَبَتَاهُ إِلَى جِبْرَائِيلَ أَنْعَاهُ ‏‏‏‏‏‏وَا أَبَتَاهُ مِنْ رَبِّهِ مَا أَدْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَا أَبَتَاهُ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ ‏‏‏‏‏‏قَالَ حَمَّادٌ:‏‏‏‏ فَرَأَيْتُ ثَابِتًا حِينَ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ بَكَى حَتَّى رَأَيْتُ أَضْلَاعَهُ تَخْتَلِفُ.

مجھ سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا : اے انس ! تمہارے دل کو کیسے گوارا ہوا کہ تم رسول اللہ پر مٹی ڈالو؟ انس رضی اللہ عنہ نے کہا : جب نبی اکرم کی وفات ہوئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہائے میرے والد، میں جبرائیل کو ان کے رخصت ہونے کی خبر دیتی ہوں ہائے میرے والد اپنے رب کے کتنے نزدیک ہو گئے ہائے میرے والد جنت الفردوس میں ان کا ٹھکانہ ہے ہائے میرے والد اپنے رب کا بلانا قبول کیا۔ حماد نے کہا: میں نے ثابت کو دیکھا کہ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد روئے یہاں تک کہ ان کی پسلیاں اوپر نیچے ہونے لگیں۔ ( سنن ابن ماجہ : 1630 )

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺکی وفات کا کس قدر غم اور دکھ تھا امام زہری رحمہ اللہ کہتے ہیں:

دَخَلْتُ عَلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ بِدِمَشْقَ وَهُوَ يَبْكِي ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ مَا يُبْكِيكَ؟ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا أَعْرِفُ شَيْئًا مِمَّا أَدْرَكْتُ إِلَّا هَذِهِ الصَّلَاةَ ‏‏‏‏‏‏وَهَذِهِ الصَّلَاةُ قَدْ ضُيِّعَتْ

میں دمشق میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا آپ اس وقت رو رہے تھے میں نے عرض کیا : آپ کیوں رو رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا : نبی کریم کے عہد کی کوئی چیز اس نماز کے علاوہ اب میں نہیں پاتا اور اب اس کو بھی ضائع کر دیا گیا ہے ۔(صحیح بخاری : 530)

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ جو نبی علیہ السلام کے یاران یار تھے کو نبی کریم کی جدائی کا اتنا دکھ وغم ہوا کرتا کہ آپ کسی کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا کرتے تھے حتی کہ لوگوں کہ سلام کا جواب دینا بھی آپ کےلیے مشکل ہوگیا تھا جیسا کہ مسند احمد کی روایت میں سیدنا عثمان بن عفان ‌رضی ‌اللہ ‌عنہ سے مروی ہے کہ:

أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَزِنُوا عَلَيْهِ، حَتَّى كَادَ بَعْضُهُمْ يُوَسْوِسُ، قَالَ عُثْمَانُ: وَكُنْتُ مِنْهُمْ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي ظِلِّ أُطُمٍ مِنَ الْآطَامِ مَرَّ عَلَيَّ عُمَرُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَسَلَّمَ عَلَيَّ، فَلَمْ أَشْعُرْ أَنَّهُ مَرَّ وَلا سَلَّمَ، فَانْطَلَقَ عُمَرُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى أَبِي بَكْرٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ: مَا يُعْجِبُكَ أَنِّي مَرَرْتُ عَلَى عُثْمَانَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ السَّلامَ؟ وَأَقْبَلَ هُوَ وَأَبُو بَكْرٍ فِي وِلايَةِ أَبِي بَكْرٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، حَتَّى سَلَّمَا عَلَيَّ جَمِيعًا، ثُمَّ قَالَ أَبُو بَكْرٍ: جَاءَنِي أَخُوكَ عُمَرُ، فَذَكَرَ أَنَّهُ مَرَّ عَلَيْكَ، فَسَلَّمَ فَلَمْ تَرُدَّ عَلَيْهِ السَّلامَ، فَمَا الَّذِي حَمَلَكَ عَلَى ذَلِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: مَا فَعَلْتُ، فَقَالَ عُمَرُ: بَلَى وَاللَّهِ لَقَدْ فَعَلْتَ، وَلَكِنَّهَا عُبِّيَّتُكُمْ يَا بَنِي أُمَيَّةَ، قَالَ: قُلْتُ: وَاللَّهِ مَا شَعَرْتُ أَنَّكَ مَرَرْتَ بِي، وَلا سَلَّمْتَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: صَدَقَ عُثْمَانُ، وَقَدْ شَغَلَكَ عَنْ ذَلِكَ أَمْرٌ؟ فَقُلْتُ: أَجَلْ، قَالَ: مَا هُوَ؟ فَقَالَ عُثْمَانُ: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: تَوَفَّى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِيَّهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهُ عَنْ نَجَاةِ هَذَا الْأَمْرِ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ سَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ لَهُ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَنْتَ أَحَقُّ بِهَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نَجَاةُ هَذَا الْأَمْرِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَبِلَ مِنِّي الْكَلِمَةَ الَّتِي عَرَضْتُ عَلَى عَمِّي، فَرَدَّهَا عَلَيَّ، فَهِيَ لَهُ نَجَاةٌ

جب نبی کریم ﷺکا انتقال ہوا تو بعض صحابہ پر اس کا شدید اثر ہوا اور قریب تھا کہ ان میں سے بعض کی حالت غیر ہو جاتی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں بھی ایسے ہی لوگوں میں سے تھا میں ایک مکان کے سائے میں بیٹھا تھا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس سے گزرے انہوں نے مجھے سلام کہا لیکن مجھے ان سے گزرنے اور سلام کہنے کا علم ہی نہیں ہوا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جا کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے شکایت کی اور کہا: کیایہ بات آپ کے لیے تعجب انگیز نہیں کہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا میں نے انہیں سلام کہا لیکن انہوں نے سلام کا جواب تک نہیں دیا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہو چکے تھے وہ دونوں میرے پاس آئے دونوں نے مجھے سلام کہا اور پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا تمہارے بھائی عمر رضی اللہ عنہ نے میرے پاس آکر شکایت کی ہے کہ وہ تمہارے پاس سے گزرے اور سلام کہا مگر آپ نے انہیں سلام کا جواب نہیں دیا اس کی کیا وجہ تھی؟ میں نے عرض کیا : میں نے تو ایسا کیا ہی نہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیوں نہیں؟ اللہ کی قسم! میں نے سلام کہا ہے اور آپ نے جواب نہیں دیا اے بنو امیہ! یہ تمہاری متکبرانہ عادت ہے میں نے عرض کیا اللہ کی قسم! مجھے تو پتہ ہی نہیں کہ آپ میرے پاس سے گزرے ہوں یا سلام کہا ہو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا عثمان رضی اللہ عنہ درست کہتے ہیں آپ کو رسول اللہ ﷺکی جدائی کا غم تھا اس لیے آپ ادھر توجہ نہیں دے سکے میں نے بھی کہا جی ہاں ایسے ہی ہے انہوں نے کہا کیا؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو موت دے دی اور ہم آپ سے یہ تو دریافت ہی نہیں کر سکے کہ قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے نجات کیسے ہو گی؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں آپ ﷺسے اس بارے میں دریافت کر چکا ہوں پس میں اٹھ کر ان کی طرف گیا اور کہا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! واقعی آپ ہی اس بات کو دریافت کرنے کے زیادہ حق دار تھے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں نے دریافت کیا تھا کہ اے اللہ کے رسول! قیامت کے دن اللہ کے عذاب سے نجات کیونکر ہوگی؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا تھا: میں نے جو کلمۂ اسلام اپنے چچا کے سامنے پیش کیا تھا مگر اس نے اسے قبول نہیں کیا تھا جو آدمی بھی میری طرف سے اس کلمہ کو قبول کر لے یعنی اس کا دلی طور پر اقرار کر لے تو یہی کلمہ(توحید) اس کی نجات کا ذریعہ ہو گا۔ ( مسند احمد : 11037 )

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمانبی کریم کی جدائی کے دن یاد کرتے ہوئے بار بار رو پڑتے اور آنسو بہاتے رہتے سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا :

يَقُولُ وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثُمَّ بَكَى حَتَّى بَلَّ دَمْعُهُ الْحَصَى:‏‏‏‏ يَوْمُ الْخَمِيسِ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا أَبَا عَبَّاسٍ مَا يَوْمُ الْخَمِيسِ؟ قَالَ:‏‏‏‏ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ ائْتُونِي بِكَتِفٍ أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا فَتَنَازَعُوا وَلَا يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ مَا لَهُ أَهَجَرَ اسْتَفْهِمُوهُ ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ذَرُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ فَأَمَرَهُمْ بِثَلَاثٍ ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ وَالثَّالِثَةُ خَيْرٌ إِمَّا أَنْ سَكَتَ عَنْهَا وَإِمَّا أَنْ قَالَهَا فَنَسِيتُهَا ‏‏‏‏‏‏قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ هَذَا مِنْ قَوْلِ سُلَيْمَانَ.

 جمعرات کا دن، آہ جمعرات کا دن کیسا(ہیبت ناک )تھا پھرروپڑےیہاںتک کہ آپ نے آنسوؤں سے کنکریاں  ترکردیں۔ میں نے عرض کیا: ابن عباس رضی اللہ عنہما ! جمعرات کا دن کیساتھا؟فرمایا: رسول اللہ کی بیماری سنگین ہوگئی تو آپ نے فرمایا: میرے پاس شانے کی کوئی ہڈی لاؤمیں تمہارے لیے کچھ تحریر کردوں کہ اس کے بعد تم کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اس کے بعدلوگ باہم جھگڑنے لگے، حالانکہ نبی کریم کے پاس جھگڑنا نہیں چاہیے تھا۔ لوگوں نے کہا: آپ کو کیاہوگیا ہے؟کیا آپ دنیا سے ہجرت فرمارہے ہیں؟اچھی طرح آپ کی بات سمجھو۔ آپ نے فرمایا: تم مجھے چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں وہ اس حال سے اچھا ہے جس کی طرف تم مجھے بلارہے ہو۔ پھر آپ نے انھیں تین امور کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو۔ اور دوسرے ممالک سے آنے والے وفد کو عطایا دو، جیسے میں انھیں عطا یاد کیا کرتا تھا۔ تیسری بات سے آپ نے سکوت فرمایا یاآپ نے بیان کی لیکن میں بھول گیا۔ سفیان فرماتے ہیں کہ یہ آخری مقولہ سلیمان راوی کاہے۔(صحیح بخاری : 3168)

رسول اللہ کی جدائی میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کا جو عالم تھا وہ آپ قارئین پڑھ چکے ہیں اب ایک نظر ہمارے معاشرے پر بھی رکھیں کہ ان ایام میں ہم کیا سے کیا کیے جا رہے ہیں !!

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے