Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

قصہ دو باپ بیٹوں کا

04 Mar,2018

پیارے بچو ! سیدنا ابراہیم علیہ السلام ازل سے ہی بے اولاد تھے اور انکی دعوت یہ تھی کہ جو تم سے تکلیف کو دور کرنے اور نفع پہنچانے کی ذرا برابر بھی طاقت نہیں رکھتے آخر تم کیوں انہیں پوجے چلے جا رہے ہو ؟ تمام باتوں کو سننے والا ، تمام چیزوں سے باخبر ، اللہ سے ہٹ کر بےسمع و بصر ، بےضرر و نفع و بےقدر اور قدرت ۔چیزوں کے پیچھے پڑ جانا یہ کون سی عقلمندی ہے؟
یہ تمام جھوٹے معبود کسی چیز پر کوئی قدرت نہیں رکھتے ہر چیز پر قدرت رکھنے والی ذات صرف اللہ تعالی کی ہے ۔
عزت ، ذلت ، حکومت ، دولت ہر چیز باری تعالی کے ہاتھ میں ہی ہے اس ہی کی طرف لوٹ آؤ اور اس ہی کی عبادت کرو ۔
لیکن تعجب کی بات یہ کہ خود سیدنا ابراہیم علیہ السلام بیٹے جیسی عظیم نعمت سے محروم تھے ۔
قوم والوں نے طعنے دینا شروع کیے کہ عجیب داعی ہے خود اولاد سے محروم ہے ہمیں یہ دعوت دیتا ہے کہ ہر چیز پر اللہ ہی قدرت رکھتا ہے۔
ایک بار دعا فرمائی کہ" اے میرے رب ! مجھے نیک صالح اولاد عطا فرما ۔ "
اللہ تعالی نے اپنے دوست نبی کی دعا قبول فرما لی اور فرمایا کہ ہم نے اسے ایک بردبار بچے کی بشارت دی ۔
یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو(وحیٔ الہی کے ذریعے) ایک ننھے منے پیارے بیٹے کی بشارت دی گئی۔
وہ دن جس کا برسوں سے انتظار تھا سیدناخلیل علیہ السلام آنکھوں دیکھ رہے ہیں اور اپنے ننھےمنے پیارے بیٹے کو انگلی سے پکڑ کر گھوماتے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں۔
اب خلیل کی محبت والفت کی آزمائش شروع ہوئی باری تعالی کی طرف سے تین دن مسلسل خواب میں دکھایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ہی بیٹے کو اپنے ہی ہاتھوں خود ذبح کر رہے ہیں۔
کیونکہ انبیاء کا خواب بھی وحی ہوتاہے وہ جان چکے کہ یہ اللہ عزوجل کا حکم ہی ہے ۔
سیدنا خلیل اللہ علیہ السلام اپنے ننھے منے بیٹے سیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کے ہاں آئے اور پورا واقعہ کھل کر سنایا پھر فرمایا کہ: میرے پیارے بیٹے ! تیری کیا رائے ہے ؟ بیٹے نے جواب دیا کہ : اباجان ! جو حکم ہوا ہے اسے بجا لائیں ان شاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔
ہوا بھی یوں ہی کہ سیدنا خلیل علیہ السلام انہیں پیشانی کے بل لیٹا کر چھری چلانے لگے لیکن بیٹے نے اف تک نہیں کہا
حتی کہ وحی الہی ان لفظوں میں نازل ہوئی کہ
قَد صَدَّقتَ الرُّؤْیَا اِنَّا کَذٰلِکَ نَجزِی المُحسِنِینَ
یقیناً تو نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہے بیشک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں ۔
پیارے بچو! ان دونوں باپ بیٹوں کے عظیم قصے سے ہمیں بہت سی باتیں سیکھنے کو ملتی ہیں جیسا کہ
1اللہ تعالی سے نیک اولاد ہی طلب کی جائے ۔
2اللہ عزوجل دعائیں قبول فرماتے ہیں اگرچہ ادائیگی میں (بحکمت) تاخیر ہی کیوں نہ ہو۔
3والدین کی فرمان برداری کرنی چاہیے ان کی باتیں سن کر نالاں نہ ہونا چاہیے ۔
4وحی الٰہی (یعنی قرآن وسنت) کے ہر حکم پر سرخم کرنا چاہیے ۔
5ہر نیکی کا اچھا بدلا رکھا گیا ہے ۔
6والدین کو اچھے ناموں سے پکارا جائے ۔
7اللہ تعالیٰ ہی نفع ونقصان کے مالک ہیں۔
8 اپنے نیک اعمال کے ذریعے اپنے آپ کو باری تعالیٰ کے محبوب(دوست) بناسکتے ہیں۔
9 اچھے خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے جبکہ برے خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں۔
0 نیک آدمی کا سچا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ تلك عشرة كاملة
۔۔۔

Read more...

سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام کا واقعہ ...!!

10 Jul,2019

پیارے بچو ! سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سےمروی ہے انہوں نے کہا کہ مجھے سیدناسلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اپنی آپ بیتی خود سنائی کہنے لگے : میں اصبہان کی ایک بستی ۔میں جسے ‘‘جئی’’ کہا جاتا تھا۔ کا رہنے والا ایک فارسی شخص تھا، میرے والد اپنی بستی کے کسان تھے ، میں انہیں سب سے زیادہ محبوب تھا، وہ مجھ سے اسی طرح محبت کرتے رہے حتی کہ انہوں نے مجھے اس طرح اپنے گھر میں روک لیا یعنی آگ کا رکھوالا بنا کر جس طرح لڑکی کو روکا جاتا ہے۔ میں نے مجوسیت میں بہت محنت کی حتی کہ میں آگ کا مستقل نگران بن گیا جو آگ کو ایک گھڑی بجھنے نہیں دیتا تھا، میرے والدکی بہت بڑی جاگیر تھی ایک دن وہ گھر کے کام کاج میں مصروف تھے، مجھ سے کہنے لگے بیٹے آج میں گھر کےکام میں مصروف ہوں آپ جاگیر کا چکر لگا آؤ اور کچھ باتوں کا کہا، میں ان کے کام سے نکلا ،میں عیسائیوں کے ایک کلیسے کے پاس سے گزرا میں نے ان کی آواز سنی وہ نماز پڑھ رہے تھے ۔ میں لوگوں کے معاملات کو نہیں جانتا تھا کیونکہ میرے والد نے مجھے گھر تک محدود رکھا تھا۔جب میں ان کے پاس سے گذرا اور ان کی آوازیں سنیں تو ان کے پاس چلا گیا، تاکہ دیکھوں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ جب میں نے انہیں دیکھا تو مجھے ان کی نماز اچھی لگی اور ان کے معاملےمیں دلچسپی ہونے لگی، میں کہنے لگا واللہ! یہ اس دین سے بہتر ہے جس پر ہم ہیں، واللہ! میں نے غروب آفتاب تک انہیں نہیں چھوڑا اور والد کے کہنے کے مطابق جاگیر پر بھی نہیں گیا۔ میں نے ان سے کہا: اس دین کی اصل کہاں ہے؟ وہ کہنے لگے شام میں ،پھر میں اپنے والد کے پاس آنے لگا جو میری تلاش میں چند لوگ بھیج چکے تھے۔ میں نے ان کو ان کے کام سے بھی مصروف کردیا تھا۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے پوچھا بیٹے کہاں تھے؟ کیا میں نے تمہیں کام سے نہیں بھیجا تھا ؟ میں نے کہا: ابا جان! میں کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا جو اپنے کلیسےمیں نماز پڑھ رہے تھے، میں نے ان کا طریقہ دیکھا تو مجھے بہت اچھا لگا ،میں سورج غروب ہونے تک انکے پاس ہی تھا۔ انہوں نے کہا: بیٹے ! اس دین میں کوئی خیر نہیں ،تمہارا اور تمہارے آباء کا دین اس سے بہتر ہے ، میں نے کہا : ہر گز نہیں اللہ کی قسم! وہ ہمارے دین سے بہتر ہے۔ وہ میرے بارے میں خوف زدہ ہو گیا (کہ کہیں میں ان کا دین نہ قبول کرلوں) اور میرے پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں پھر مجھے اپنے گھر میں قید کر دیا۔ عیسائیوں نے میرے پاس پیغام بھیجا تو میں نے کہا کہ جب تمہارے پاس شام کے عیسائی تاجروں کا قافلہ آئے تو مجھے اطلاع دینا۔ جب ان کے پاس شام کے عیسائی تاجروں کا قافلہ آیا تو انہوں نے مجھےاطلاع دی ،میں نے کہا جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر جانے لگیں تب مجھے خبر دینا پھر جب وہ واپس جانے لگے تو انہوں نے مجھے بتایا میں نے اپنے پاؤں سے بیڑیاں نکالیں اور ان کے ساتھ شام آگیا جب میں شام پہنچا تو میں نے کہا: اس دین کے ماننے والوں میں سب سے بہترین شخص کون ہے؟ لوگوں نے کہا کنیسا کا پادری۔ میں اس کے پاس آیا اور کہا: مجھے اس دین کا شوق ہوا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ کنیسا میں آپ کے ساتھ رہوں کنیسا میں آپ کی خدمت کروں۔ آپ سے تعلیم حاصل کروں اور آپ کے ساتھ نماز پڑھو ں اس نے کہا: آجاؤ، میں اس کے ساتھ اندر چلاگیا ، وہ ایک برا آدمی تھا۔ لوگوں کو صدقے کی ترغیب دیتا تھا جب لوگ صدقے کی چیزیں جمع کر کے اس کے پاس لاتے تو اپنے پاس محفوظ کر لیتا اور مسکینوں کو اس میں سے کوئی چیز نہ دیتا۔ حتی کہ اس نے سونے چاندی کے سات مٹکے بھر لئے ۔ اسے ایسا کرتے دیکھ کر مجھے اس پر سخت غصہ آیا۔ پھر وہ مرگیا ، عیسائی اسے دفنانے کے لئے جمع ہو ئے میں نے ان سے کہا: یہ ایک برا آدمی تھا، یہ تمہیں صدقے کا حکم اور ترغیب دیتا تھا جب تم صدقہ اس کے پاس لاتے تو اپنے لئے رکھ لیتا اور مساکین کو اس میں سے کوئی چیز نہ دیتا۔ لوگوں نے کہا: یہ بات تمہیں کس نے بتائی؟ میں نے کہا: میں تمہیں اس کے خزانے تک لے چلتا ہوں۔ لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے تم اس کا خزانہ ہمیں دکھاؤ، میں نے اس کے خزانے کی جگہ انہیں دکھائی انہوں نے وہاں سے سونے چاندی کے بھرے ہوئے سات مٹکے نکالے۔ جب انہوں نے وہ مٹکے دیکھے تو کہا: واللہ ہم تو اسے کبھی بھی دفن نہیں کریں گے۔ لوگوں نے اسے سولی پرچڑھا دیا۔ پھر اسے پتھروں سے رجم کر دیا۔ پھر ایک دوسرے آدمی کو لا کر اس کی جگہ مقرر کر دیا۔ میں نےپانچ نمازیں نہ پڑھنے والوں میں سے (یعنی مسلمانوں کے علاوہ) ایسا کوئی آدمی نہیں دیکھا، دنیا میں انتہائی بے رغبت ،آخرت کی طرف رغبت رکھنے والا، دن اوررات عبادت میں انتہائی محنت کرنے والا۔میں اس سے اتنی محبت کرنے لگا کہ اس سے پہلے کسی سے نہ کی تھی، میں کافی عرصہ اس کے ساتھ رہا، جب وہ فوت ہونے لگا تو میں نے اس سے کہا: اے فلاں! میں تمہارے ساتھ رہا اور تم سے اتنی محبت کی جتنی پہلے کسی سے نہ کی تھی۔ اور اب آپ کے لئے اللہ کا حکم آپہنچا ہے۔ اب کس شخص کی طرف جانے کا مجھے حکم دیتے ہیں؟ اور میرے لئے اب کیا حکم ہے؟ اس نے کہا: بیٹے ! واللہ آج کے دن میں کسی کو اس دین پر نہیں دیکھتا جس پر میں ہوں، لوگ ہلاک ہوگئے اور انہوں نے دین میں تبدیلیاں کرلیں اور ان اکثر چیزوں کو چھوڑ دیا جن پر اسلاف تھے، سوائے ایک شخص کے جو(موصل)میں ہے۔ اس کا خاص نام بتایا، وہ اسی دین پر ہے جس پر میں ہوں اس سے جا کر ملو جب وہ مر گیا اوراسے دفنا دیا گیا تو میں(موصل) والے شخص کے پاس پہنچ گیا۔ اور اس سے کہا: اے فلاں ،فلاں شخص نے اپنی موت کے وقت مجھے وصیت کی تھی کہ میں تم سے ملوں اور اس نے مجھے بتایا تھا کہ تم اس کے دین پر ہو۔ اس نے مجھے کہا: ٹھیک ہے میرے پاس قیام کرو، میں اس کے پاس ٹھہرا رہا میں نے اسے بھی اپنے ساتھی کے دین پر عمل کرنے والا بہترین آدمی پایا، ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اس کی موت کا وقت آگیا جب اس کی وفات کا وقت آیا تو میں نے اس سے کہا: اے فلاں! فلاں شخص نے مجھے تمہاری طرف بھیجا تھا اور اب تمہارے پاس بھی اللہ کا حکم آگیا ہے، آپ مجھے کس شخص کی طرف جانے کی وصیت کرتے ہیں اور مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ اس نے کہا: بیٹے ! واللہ میرے علم میں کوئی ایسا شخص نہیں جو اس دین پر ہو جس پر ہم تھے سوائے ایک شخص کے جو(نصیبین) میں ہے۔ فلاں نام ہے اس سے جا ملو۔ جب وہ مرگیا اور اسے دفنا دیا گیا تو میں(نصیبین ) والے سے جا ملا۔ میں اس کے پاس آیا اور اپنا واقعہ بتایا اور میرے ساتھی نے مجھے جو حکم دیا تھا۔ اس نے کہا: ٹھیک ہے میرے پاس ٹھہرو ۔ میں نے اس کے پاس قیام کیا اور اسے بھی اپنے دونوں ساتھیوں کے دین پر پایا۔ میں نے ایک بہتر شخص کے ساتھ قیام کیا واللہ ابھی تھوڑا ہی وقت گزرا تھا کہ اس کی موت کا وقت بھی آگیا ۔جب اس کی موت کا وقت آیا تو میں نے اس سے کہا: اے فلاں! فلاں شخص نے مجھے فلاں کی طرف وصیت کی، پھر اس نے مجھے تمہاری طرف وصیت کی تم کس شخص کی طرف جانے کی وصیت کرتے ہو؟ اور مجھے کیا حکم دیتے ہو؟ اس نے کہا: بیٹے ! واللہ میرے علم میں نہیں کہ ہمارے دین پر کوئی شخص باقی ہے جس کے بارے میں تمہیں کہوں کہ تم اس کے پاس جاؤ سوائے ایک آدمی کے جو عموریہ میں ہے، وہ شخص ہمارے دین پر ہے۔ اگر تمہیں پسند ہو تو اس کے پاس چلے جاؤ، کیونکہ وہ ہمارے دین پر ہے۔ جب وہ مر گیا اور اسے دفنا دیا گیا تو میں عموریہ والے کے پاس چلا گیا اور اپنا واقعہ بتلایا۔ اس نے کہا: میرے پاس قیام کر لو، میں اس شخص کے پاس ٹھہرا رہا جو اپنے ساتھیوں کے دین اور طریقے پر تھا۔ میں نے کمائی بھی کی حتی کہ میری کچھ گائیں اور مال ہو گیا۔ پھر اس پر بھی اللہ کا حکم نازل ہو گیا، جب اس کی موت کا وقت آگیا تو میں نے اس سے کہا: اے فلاں میں فلاں کے پاس تھا ،اس نے مجھے فلاں کے پاس جانے کی وصیت کی ،اس نے مجھے کسی اور کے پاس جانے کی وصیت کی، پھر اس نے مجھے تمہاری طرف جانے کی وصیت کی ۔تم مجھے کس کی طرف آنے کی وصیت کرتے ہو؟ اور مجھے کیا حکم دیتےہو؟ اس نے کہا: بیٹے! اب ایسا وقت آگیا ہے کہ میرے علم میں کوئی ایسا شخص نہیں جو ہمارے دین پر ہو جس کے بارے میں میں تمہیں کہوں کہ تم اس کے پاس جاؤ، لیکن اب ایک نبی کے مبعوث ہونے کا وقت قریب ہے، جو دین ابراہیم کے ساتھ مبعوث ہوگا، عرب کی سر زمین میں اس کا ظہور ہوگا، دو پہاڑوں کے درمیان والی جگہ کی طرف ہجرت کرے گا، جس میں کھجوریں ہیں، اس میں ایسی علامات ہیں جو مخفی نہیں،تحفہ قبول کرے گا، صدقہ نہیں کھائے گا، اس کے کاندھوں کے درمیان مہر نبوت ہو گی، اگر تم میں اتنی طاقت ہے کہ اس سے جا ملو تو ایسا کر گزرو۔ پھر وہ مر گیا اور اسے دفنا دیا گیا جب تک اللہ نے چاہا میں (عموریہ) میں ٹھہرا رہا، پھر بنو کلب کا ایک تجارتی قافلہ میرے پاس سے گزراتو میں نے ان سے کہا: تم مجھے سر زمین عرب تک لے چلو ، میں اپنی ساری گائیں اور بکریاں تمہیں دے دوں گا۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے میں نے انہیں ساری گائیں اور بکریاں دے دیں اور انہوں نے مجھے سوار کر لیا ،حتی کہ جب وادی قریٰ میں پہنچے تو مجھ پر ظلم کرتے ہوئے ایک یہودی شخص کے ہاتھ غلام بنا کر بیچ دیا ،میں اس کے پاس ٹھہرا رہا ، میں نے کھجوریں دیکھیں، مجھے امید تھی کہ یہ وہی شہر ہے جس کے بارے میں مجھے میرے ساتھی نے بتایا تھا ، لیکن ابھی مجھے پختہ یقین نہیں تھا، میں اس یہودی کے پاس ہی تھا کہ بنو قریظہ سے تعلق رکھنے والا اس کے چچا کا بیٹا مدینے سے اس کے پاس آیا اور اس سے مجھے خرید لیا ، اور مدینے لے آیا ۔ واللہ جب میں نے وہ علاقہ دیکھا تو اپنے ساتھی کے بتائے ہوئے وصف کی بنا پر اسے پہچان لیا۔ میں وہیں ٹھہرا رہا ، اللہ نے اپنے رسول کو مکہ میں مبعوث کر دیا ، اور وہ مکہ میں قیام پذیر رہا جب تک اللہ نے چاہا میں غلامی کی مصیبت میں ہونے کی وجہ سے اس کا تذکرہ نہیں سن سکا۔ پھر اس نے مدینے کی طرف ہجرت کی ۔ واللہ میں ایک کھجور کی چوٹی پر چڑھا کوئی کام کر رہا تھا، میرا مالک نیچے بیٹھا ہوا تھا، اچانک اس کے چچا کا بیٹا اس کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا: اللہ بنی قیلہ کو برباد کرے وہ اس وقت(قباء) میں اس شخص کے پاس جمع ہو رہے ہیں جو آج مکہ سے آیا ہے، ان کا خیال ہے کہ وہ نبی ہے۔جب میں نے یہ بات سنی تو مجھ پر کپکپی طاری ہوگئی ،حتی کہ ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں اپنے مالک کے اوپر گر جاؤں گا۔ میں نیچے اترا اور اس کے چچا کے بیٹے سے پوچھنے لگا: تم کیا کہہ رہے تھے؟ تم کیا کہہ رہےتھے؟ میرا مالک غصے ہوگیا اورایک شدید قسم کا گھونسہ رسید کردیا پھر کہنے لگا:تمہیں اس سے کیا سروکار؟ اپنے کا م پر توجہ دو، میں نے کہا: کچھ نہیں میں تو ویسے ہی یہ بات پوچھ رہا تھا۔ میرے پاس کچھ سامان تھا جو میں نے جمع کیا تھا ، شام ہوئی تو میں وہ سامان لے کر رسول اللہ ﷺکے پاس پہنچا آپ قبا میں تھے ، میں آپ کے پاس آیا تو کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ آپ نیک آدمی ہیں اور آپ کے ساتھ آپ کے غریب حاجتمند ساتھی ہیں، میرے پاس یہ کچھ سامان صدقہ کے لئے ہے، تو میرے خیال میں آپ اس کے زیادہ حقدار ہیں؟ میں نےوہ سامان آپ کی طرف بڑھا دیا۔ رسول اللہ ﷺنے اپنے صحابہ سے کہا: کھاؤاور اپنا ہاتھ روک لیا، آپ نے اس میں سے نہیں کھایا۔ میں نے اپنے دل میں کہا : یہ پہلی نشانی ہے۔ پھر میں واپس لوٹ آیا اور کچھ چیزیں جمع کیں رسول اللہ ﷺمدینے آگئے میں آپ کے پاس آیا اور کہا: میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ صدقہ نہیں کھاتے ، یہ آپ کے لئے تحفہ ہے، رسول اللہ ﷺنے اس میں سے کھا لیا اور اپنے ساتھیوں کو حکم دیا تو انہوں نے بھی اس میں سے کھا لیا، میں نے اپنے دل میں کہا: یہ دوسری نشانی ہے۔ پھر میں رسول اللہ ﷺکے پاس آیا آپ بقیع الغرقد میں تھے اور اپنے کسی صحابی کے جنازے میں شریک تھے ۔آپ کے اوپر دو چادریں تھیں اورآپ صحابہ میں بیٹھےتھے۔ میں نے آپ کو سلام کیا، پھر میں گھوما، آپ کی پشت کی طرف آکر دیکھا کہ کیا میں وہ مہر دیکھ سکتا ہوں جو میرے ساتھی نے مجھے بتائی تھی۔ جب رسول اللہ ﷺنے مجھے اس طرح گھومتے دیکھا تو جان گئے کہ میں ایسی چیز کا ثبوت تلاش کر رہا ہوں جو مجھے بیان کی گئی ہے۔ آپ نے اپنی کمر سے چادر گرادی میں نے اس مہر کی طرف دیکھا تو پہچان گیا، میں اس سے چمٹ گیا اسے بوسہ دینے لگا اور ساتھ ساتھ رونے لگا۔ رسول اللہ ﷺنے مجھ سے کہا کہ پیچھے ہو جاؤ۔ میں اس سے ہٹ گیا اور آپ کو اپنی داستان سنائی جس طرح اے ابن عباس: میں نے آپ کو سنائی ہے رسول اللہ ﷺکو یہ بات پسند آئی کہ میں اپنی داستان آپ کے صحابہ کو سناؤں، اس کے بعد سلمان غلام ہی رہے ،غلامی کی وجہ سے غزوہ بدر و احد میں شریک نہ ہو سکے ، پھر رسول اللہ ﷺنے مجھ سے کہا: سلمان ! مکاتبت کر لو۔ میں نے اپنے مالک سے پانی کے راستے پر تین سو کھجور کے درخت لگانے اور چالیس اوقیہ چاندی پر مکاتبت کر لی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے بھائی کی مدد کرو، لوگوں نے کھجور کے درختوں کے پنیری کے ساتھ میری مدد کی، کوئی آدمی تیس کھجوریں ، کوئی آدمی بیس، کوئی پندرہ ، کوئی دس لے آیا یعنی جس آدمی کی جتنی استطاعت تھی اس نے میری مدد کی ، حتی کہ میرے لئے تین سو کھجور کی پنیری گئی۔ جمع ہوگئیں، رسول اللہ ﷺنے مجھ سے کہا: سلمان جاؤ ان کے لئے گڑھے کھودو، جب گڑھے کھود کر فارغ ہو جاؤ تو میرے پاس آجانا ،میں انہیں اپنے ہاتھ سے رکھوں گا۔ میں نے ان کے لئے گڑھے کھودے، میرے ساتھیوں نے میری مدد کی ،جب میں ان سے فارغ ہو گیا تو آپ کے پاس آیا اور آپ کو بتایا تو رسول اللہ ﷺمیرے ساتھ نکل پڑے۔ ہم کھجور کے پودے آپ کے قریب کرنے لگے اور رسول اللہ ﷺانہیں اپنے ہاتھ سے رکھنے لگے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے، ان میں سے ایک پودا بھی نہیں مر جھایا، میں نے وہ کھویریں اسے دے دیں باقی مال میرے ذمے رہا۔ رسول اللہ ﷺکے پاس مرغی کے انڈے کے برابر سونے کی ڈلی کسی معرکے میں سے آئی تو آپ نے فرمایا: فارسی کا کیا حال ہے؟ مجھے بلایا گیا، آپ نے فرمایا: یہ پکڑو اور تم پر جو ہے اسے ادا کردو۔ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول !مجھ پر جو رقم ہے یہ اس کے برابر کہاں پہنچ سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا اسے لے لو اللہ عزوجل اس کے ذریعے تمہاری رقم ادا کردے گا۔ میں نے وہ ڈلی لے لی اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں سلمان کی جان ہے، اس ڈل سے میں نے ان کو چالیس اوقیے وزن کرکے دئیے۔ میں نے ان کا حق انہیں ادا کیا، مجھے آزاد کر دیا گیا پھر میں رسول اللہ ﷺکے ساتھ خندق میں حاضر ہوا اس کے بعد پھر کسی معرکہ میں بھی پیچھے نہیں رہا۔( الصحیحہ للالبانی : 263 )

Read more...

ایک کافر کی کہانی سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی زبانی

01 Feb,2020

 

پیارے بچو !

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَاتَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَارِبَ خَصَفَةَ بِنَخْلٍ، فَرَأَوْا مِنَ الْمُسْلِمِينَ غِرَّةً، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْهُمْ يُقَالَ لَهُ: غَوْرَثُ بْنُ الْحَارِثِ، حَتَّى قَامَ عَلَى رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالسَّيْفِ، فَقَالَ: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قَالَ: اللَّهُ ، فَسَقَطَ السَّيْفُ مِنْ يَدِهِ، فَأَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قَالَ: كُنْ كَخَيْرِ آخِذٍ، قَالَ: أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ ، قَالَ: لَا، وَلَكِنِّي أُعَاهِدُكَ أَنْ لَا أُقَاتِلَكَ، وَلَا أَكُونَ مَعَ قَوْمٍ يُقَاتِلُونَكَ، فَخَلَّى سَبِيلَهُ، قَالَ: فَذَهَبَ إِلَى أَصْحَابِهِ، قَالَ: قَدْ جِئْتُكُمْ مِنْ عِنْدِ خَيْرِ النَّاسِ، فَلَمَّا كَانَ الظُّهْرُ أَوِ الْعَصْرُ صَلَّى بِهِمْ صَلَاةَ الْخَوْفِ، فَكَانَ النَّاسُ طَائِفَتَيْنِ طَائِفَةً بِإِزَاءِ عَدُوِّهِمْ، وَطَائِفَةً صَلَّوْا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى بِالطَّائِفَةِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَهُ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ انْصَرَفُوا، فَكَانُوا مَكَانَ أُولَئِكَ الَّذِينَ كَانُوا بِإِزَاءِ عَدُوِّهِمْ، وَجَاءَ أُولَئِكَ، فَصَلَّى بِهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ، فَكَانَ لِلْقَوْمِ رَكْعَتَانِ رَكْعَتَانِ، وَلِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعُ رَكَعَاتٍ

سیّدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ وادی نخل میں محارب خصفہ کے لوگوں سے لڑائی کےلیے تشریف لے گئے۔ جب ان لوگوں نے مسلمانوں میں غفلت کا مشاہدہ کیا تو ایک دشمن غورث بن حارث موقعہ پا کر رسول اللہ ﷺ کے سر پر تلوار لیے آ پہنچا اور بولا: آپ کو مجھ سے کون بچائے گا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ۔ اتنے میں تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی، اب کی بار رسول اللہ ﷺ نے تلوار اٹھا لی اور فرمایا: اب تجھے مجھ سے کون بچائے گا ؟ وہ بولا: آپ اس تلوار کو پکڑنے والے بہترین آدمی بن جائیں (یعنی مجھ پر احسان کریں)۔ آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ البتہ میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ نہ میں آپ کے مقابلے میں آئوں گا اور نہ آپ کے ساتھ لڑنے والوں کا ساتھ دوں گا۔ آپ ﷺ نے اسے چھوڑ دیا۔ وہ اپنے ساتھیوں کے پاس واپس گیا اور جا کر کہا: میں بہترین آدمی کے پاس سے آیا ہوں۔ پھر جب ظہر یا عصر کا وقت ہوا تو آپ ﷺ نے لوگوں کو نمازِ خوف پڑھائی۔ لوگ دو گروہوں میں بٹ گئے، ایک گروہ دشمن کے مقابلے میں رہا اور دوسرا گروہ آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھنے لگا۔ آپ ﷺ نے اس گروہ کو دو رکعت نماز پڑھائی، پھر یہ لوگ چلے گئے اور دوسرے گروہ کی جگہ پر یعنی دشمن کے بالمقابل کھڑے ہو گئے اور وہ لوگ نماز کے لیے آ گئے،آپ ﷺ نے ان کو بھی دو رکعتیں پڑھائیں۔ اس طرح لوگوں کی دو دو رکعتیں ہوئیں اور آپ ﷺ کی چار۔ ( مسند احمد : 2964 )

پیارے بچو ! مذکورہ قصے سے ہم کو چند اہم نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں ۔

1 غفلت سے گریز کریں غفلت انتہائی نقصان دہ عمل ہے ۔

2 اللہ پر مکمل توکل اور بھروسہ کیا جائے ۔

3 دشمنوں سے اور مصیبتوں سے بچانے والا فقط اللہ ہی ہے ۔

4 اچھا اخلاق لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرتا ہے ۔

5 لوگوں پر احسان کیا کریں چاہے وہ تمہارا دشمن ہی کیوں نہ ہو ۔

6 نماز کسی صورت میں بھی معاف نہیں چاہے دشمنوں کا لشکر تمہارے سامنے ہی کیوں نہ ہو ۔

۔۔۔

Read more...

دعوتِ جابر رضي الله عنه کی کہانی سیدنا جابر رضي الله عنه کی زبانی

18 Feb,2020

پيارے بچو ! رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کے صحابي سيدنا جابر بن عبداللہ t رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کے ساتھ غزوات ميں شريک ہوتے تھے اور کفار کو للکارتے اسلام کي سربلندي کےليے اپنے آپ کو پيش فرماتے اور رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کے محافظ بن جاتے غزوہ خندق ميں بھي وہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  اور ديگر صحابہ کرامy کے ساتھ شريک تھے وہ کہتے ہيں کہ ہم غزوہ خندق کے موقع پر خندق کھود رہے تھے کہ ايک بہت سخت قسم کي چٹان نکلي ( جس پر کدال اور پھاوڑے کا کوئي اثر نہيں ہوتا تھا اس ليے خندق کي کھدائي ميں رکاوٹ پيدا ہو گئي ) صحابہ رضي اللہ عنہم رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کي خدمت ميں حاضر ہوئے اور آپ سے عرض کيا کہ خندق ميں ايک چٹان ظاہر ہو گئي ہے۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا کہ ميں اندر اترتا ہوں۔ چنانچہ آپ کھڑے ہوئے اور اس وقت ( بھوک کي شدت کي وجہ سے ) آپ کا پيٹ پتھر سے بندھا ہوا تھا۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے کدال اپنے ہاتھ ميں لي اور چٹان پر اس سے مارا۔ چٹان ( ايک ہي ضرب ميں ) بالو کے ڈھير کي طرح بہہ گئي۔ ميں نے عرض کيا: يا رسول اللہ! مجھے گھر جانے کي اجازت ديجيے۔ ( گھر آ کر ) ميں نے اپني بيوي سے کہا کہ آج ميں نے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  کو ( فاقوں کي وجہ سے ) اس حالت ميں ديکھا کہ صبر نہ ہو سکا۔ کيا تمہارے پاس (کھانے کي ) کوئي چيز ہے؟ انہوں نے بتايا کہ ہاں کچھ جَو ہيں اور ايک بکري کا بچہ۔ ميں نے بکري کے بچہ کو ذبح کيا اور ميري بيوي نے جَو پيسے ، پھر گوشت کو ہم نے چولہے پر ہانڈي ميں رکھا اور ميں رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کي خدمت ميں حاضر ہوا ، آٹا گوندھا جا چکا تھا اور گوشت چولہے پر پکنے کے قريب تھا۔ نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  سے ميں نے عرض کيا : گھر کھانے کے ليے مختصر کھانا تيار ہے ، يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم ! آپ اپنے ساتھ ايک دو آدميوں کو لے کر تشريف لے چليں۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے دريافت فرمايا کہ کتنا ہے؟ ميں نے آپ کو سب کچھ بتا ديا۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا : يہ تو بہت ہے اور نہايت عمدہ ہے۔ پھر آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا : اپني بيوي سے کہہ دو کہ چولہے سے ہانڈي نہ اتاريں اور نہ تنور سے روٹي نکاليں ميں ابھي آ رہا ہوں۔ پھر صحابہ رضي اللہ عنہم سے فرمايا کہ سب لوگ چليں۔ چنانچہ تمام انصار و مہاجرين تيار ہو گئے۔ جب جابر رضي اللہ عنہ گھر پہنچے تو اپني بيوي سے انہوں نے کہا اب کيا ہو گا؟ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  تو تمام مہاجرين و انصار کو ساتھ لے کر تشريف لا رہے ہيں۔ انہوں نے پوچھا، نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم  نے آپ سے کچھ پوچھا بھي تھا؟ جابر رضي اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے صحابہ سے فرمايا کہ اندر داخل ہو جاؤ ليکن اژدھام (بھيڑ)نہ ہونے پائے۔ اس کے بعد آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  روٹي کا چورا کرنے لگے اور گوشت اس پر ڈالنے لگے۔ ہانڈي اور تنور دونوں ڈھکے ہوئے تھے۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے اسے ليا اور صحابہ

کے قريب کر ديا۔ پھر آپ نے گوشت اور روٹي نکالي۔ اس طرح آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  برابر روٹي چورا کرتے جاتے اور گوشت اس ميں ڈالتے جاتے۔ يہاں تک کہ تمام صحابہ شکم سير ہو گئے اور کھانا بچ بھي گيا۔ آخر ميں آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  نے ( سيدناجابر رضي اللہ عنہ کي بيوي سے ) فرمايا کہ اب يہ کھانا تم خود کھاؤ اور لوگوں کے يہاں ہديہ ميں بھيجو کيونکہ لوگ آج کل فاقہ ميں مبتلا ہيں۔  ( صحيح بخاري : 4104 )

پيارے بچو ! مذکورہ واقعہ سے ہم کو چند انتہائي اہم نصحتيں حاصل ہوئي ہيں جن ميں سے بعض درج ذيل ہيں ۔

1 اللہ کےليے بھوک برداشت کرنے والے کو اللہ بہتر رزق عطا فرماتا ہے ۔

2  اللہ تعالي کے بعد دنيا کي ہر چيز سے زيادہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  محبت کے حقدار ہيں ۔

3 رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کي ذات بابرکت ہے ۔

4  رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم  کے تمام معجزات برحق ہيں ۔

5  کھانا پہلے مہمان کو کھلائيں بعد ميں خود کھائيں ۔

6  بچا ہوا کھانا ضائع کرنے کے بجائے پڑوس ميں ہديہ کريں يہ اجر ہے ۔

7  مہمان کو چاہيے کہ ميزبان کے ہاں ادب احترام ملاحظہ رکھے ۔

Read more...
  • Prev
  • 1
  • 2
  • Next
  • End

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
شمارہ جات 2018