پہلی قسط

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا

یقینا تمہارے لئے اللہ کے رسول (محمد )میں بہترین نمونہ ہے،ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور روز آخر کی امید لگائے ہو،اور اللہ کو خوب یاد کرتا ہو۔ (الاحزاب:21)

ہمیشہ باقی رہنے والی جنت اور اس کی نعمتوں کاخود کو اہل ثابت نہ کرسکنے پراسے اس جنت سےنکال کراس کے لئے دنیا کا یہ عارضی و فانی سیٹ اپ اس کی آزمائش کے لئے لگایا گیا ،اور کچھ عرصے کے لئے اس میں انسان کو بھیج دیا گیا،اس میں سے کامیاب و کامران ہوکرہمیشہ باقی رہنے والی جنتوں کی طرف لوٹنے کی ایک ہی ترکیب ہے، وہ یہ کہ ہوش سنبھالنے کی عمر سےموت تک خالق و مالک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اطاعت میں لگے رہنا۔

اور یہ عمل ذرہ بھی مشکل نہیں،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے سامنے بہت سی عملی مثالیں رکھ دی ہیں،انبیاء و رسل علیھم الصلاۃ والسلام،اور انسانی تاریخ کے ہر دور میں آنے والے اہل ایمان،جن کے تذکروں سے قرآن پاک اور حدیث شریف بھرے پڑے ہیں۔

لیکن اس اخیر امت کے لئے جس ہستی کو آئیڈیل قرار دیا گیا اسکی صفات میں سے”رحمۃ للعالمین“ (الانبیاء:107) ہونا اور”عزیز علیہ ما عنتم“اور” حریص علیکم “ہونا اور” بالمومنین رؤوف رحیم“ (التوبۃ:128)ہونا نمایاں ہیں،یہ صفات ہی دلیل ہیں کہ اس ہستی کا طرز حیات کس قدر سھل اور رافت و رحمت بھرا ہوسکتا ہے،پس اس ہستی نامدار محمد رسول اللہ کی اتباع کامل ہی اس کامیابی و نجات کی سند ہےجس کے حصول کی خاطر انسان کو عدم سے وجود میں لایا گیا۔

رسول اللہ کی پیروی کرکے دنیاوی حیات نہ صرف اللہ کی مرضی کے مطابق ہوگی بلکہ شاندار اور باوقار بھی ہوگی،کہ ایک طرف وہ لوگ ہوں گے جوفانی دنیا کہ لئے مرے جارہے ہوں گے اور حصول دنیا کی دوڑ میں خود کو اس کے لئے ہلکان کررہے ہوں گے تو دوسری طرف یہ دنیا جمع کرنے کی دھن سے بے نیاز ہو کر شاداں و فرحاں دائمی جنتوں کی راہ پر بڑھتا جائے گا۔

لیکن اتباع کامل کنجی ہے اس کامیابی کی،اور کوئی کنجی بغیر دندانوں کے نہیں ہوتی،پس ان دندانوں میں سے ایک داڑھی بھی ہے،شاہراہ بہشت پر گامزن سبھی اہل ایمان کو دیگر امور کی طرح اپنی داڑھی کے سلسلے میںبھی مختلف شخصیات کو چھوڑ کراس راہ کے حقیقی اور واحد رہنما (گائیڈ)محمد رسول اللہ کی اتباع (نقش قدم پر چلنا،پیروی)کرنا ہوگی۔

داڑھی کی مختلف صفات و کیفیات کے مطابق اس کے مختلف نام:

اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے نبی آخر الزماں محمد رسول اللہ کو جزیرہ عرب میں خالص عربوں کے درمیان مبعوث کیا اور آپ پر جو وحی نازل کی وہ بھی عربی میں نازل کی ، لیکن آپ کی نبوت و رسالت صرف عربوں تک محدود نہیں بلکہ کرہ ارض پر بسنے والے اور قیامت تک آنے والے سبھی

انسانوں کے لئے ہے،لیکن عربوں میں مبعوث کرنے کی وجہ ان کا اُمّی ہونا،اور انکی لغت خالص عربی ہونا ہے۔

عربی لغت دیگر تمام لغات کے لئے ”اُم“کی حیثیت رکھتی ہے ،اسی لئے موت کے بعد کے تمام مراحل میں عربی

لغت ہی بولی جائے گی،اور سبھی انسان خواہ وہ عجمی ہوں یا

عربی ،جنتی ہوں یا جہنمی عربی زبان ہی بولیں گے،کیونکہ

یہ انسان کی فطری لغت ہے،اور انسان کے دیگر فطری کمالات کی طرح اسکی فطری لغت یعنی عربی بھی کمال کی لغت ہے،اس جیسی فصاحت و بلاغت اور کسی زبان میں متصور نہیں۔

اسکے کمال کا ایک نمونہ یہ ہے کہ اس میں ایک کلی کی ہر جوہری و عرضی جزئی کے لئے الگ لفظ ہے،چنانچہ انسان کی داڑھی کی مختلف صفات و کیفیات کے اعتبار سے اس کے لئے الگ الگ الفاظ ہیں،علامہ ابراہيم بن علی بن محمد، ابن فرحون، برہان الدين اليعمری(المتوفی: 799ھ) رحمہ اللہ نے کہا:

وَإِنْ كَانَ مُلْتَحِيًا قُلْت مُلْتَحٍ، وَإِنْ كَانَتْ لِحْيَتُهُ عَرِيضَةً طَوِيلَةً قُلْت مُسْبِلٌ، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ طَوِيلَةً قُلْت كَثُّ اللِّحْيَةِ، وَإِنْ كَانَ فِي عَارِضِيهِ خِفَّةٌ قُلْت خَفِيفُ الْعَارِضَيْنِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي عَارِضِيهِ شَيْءٌ قُلْت كَوْسَجٍ، وَإِنْ لَمْ يَطْلُعْ فِي وَجْهِهِ لِحْيَةٌ أَصْلًا قُلْت فِيهِ أَطْلَسُ.

داڑھی والا ہو تو اسے ”مُلتَحٍ“کہتے ہیں ، اگر اسکی داڑھی طویل و عریض ہو تو اسے ”مُسبِل“کہتے ہیں،اگر طویل نہ ہو تو”کث اللحیۃ“کہتے ہیں،اگر اس کے رخساروں میں ہلکے بال ہوں تو اسے ”خفیف العارضین“کہتے ہیں، اور اگر اسکے رخساروں میں بالکل بال نہ ہوں تو اسے ”کَوسَج“کہتے ہیں ، اور اگر اسکے چہرے پر بالکل داڑھی نہ ہو تو اسے ”اَطلَس“کہتے ہیں۔

(تبصرۃ الحکام في اصول الاقضيۃ ومنا ہج الاحکام:1/290،نیز ملاحظہ ہو:معين الحکام فيما يتردد بين الخصمين من الاحکام ص:81، از علامہ ابو الحسن، علاء الدين علی بن خليل الطرابلسی الحنفی (المتوفیٰ: 844ھ)

عرض مؤلف:

سطور مذیلہ میں ہم نے پیارے نبی محمد رسول اللہ سے محبت کے اظہار کے لئے آپ کے چہرہ پر انوار کی زینت ”ریش مبارک“ کی صفات و کیفیات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے،تاکہ آپ پر ایمان رکھنے اور آپ سے سچی محبت کرنے والا ہر شخص جان لے کہ اسکے عزیز از جان و مال پیغمبر کے چہرے پر داڑھی سجی تھی،اور اس داڑھی کے ساتھ ہی وہ دنیا کے سب سے خوب صورت و سیرت انسان ہیں،پس یہ جان کر وہ اس سنت رسول کو اپنانے کی مبارک سعی کرے۔

ہم اپنی اس کاوش میں کسقدر کامیاب رہے ہیں اس کا اندازہ آپ کو مکمل مضمون ملاحظہ کرنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے،اللہ پاک ہماری اور سبھی مسلمانوں کی نیک کاوشیں قبول فرماکر ان کی برائیوں و لغزشوں سے درگذر فرمائے ، آمین یا رب العالمین۔

دعویٰ:

آپ کی داڑھی مبارک گھنی تھی۔

ہمارے اس دعوے کی دلیل درج ذیل روایات ہیں۔

پہلی دلیل:سند:

امام محمد بن عیسیٰ الترمذی رحمہ اللہ نے کہا:

 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، عَنْ يَزِيدَ الْفَارِسِيِّ – وَكَانَ يَكْتُبُ الْمَصَاحِفَ – قَالَ:

متن:

رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَنَامِ زَمَنَ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: فَقُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: إِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ كَانَ يَقُولُ: إِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَتَشَبَّهَ بِي، فَمَنْ رَآنِي فِي النَّوْمِ فَقَدْ رَآنِي، هَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَنْعَتَ هَذَا الرَّجُلَ الَّذِي رَأَيْتَهُ فِي النَّوْمِ؟ قَالَ: نَعَمْ، أَنْعَتُ لَكَ رَجُلًا بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، جِسْمُهُ وَلَحْمُهُ أَسْمَرُ إِلَى الْبَيَاضِ، أَكْحَلُ الْعَيْنَيْنِ، حَسَنُ الضَّحِكِ، جَمِيلُ دَوَائِرِ الْوَجْهِ، مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ مَا بَيْنَ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ،(وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى صُدْغَيْهِ) قَدْ مَلَأَتْ نَحْرَهُ – قَالَ عَوْفٌ: وَلَا أَدْرِي مَا كَانَ مَعَ هَذَا النَّعْتِ – فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَوْ رَأَيْتَهُ فِي الْيَقَظَةِ مَا اسْتَطَعْتَ أَنْ تَنْعَتَهُ فَوْقَ هَذَا.

یزید الفارسی رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نےابن عباس رضی اللہ عنہما کی حیات میں رسول اللہ کو خواب میںدیکھا،میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہماسے کہا کہ:میں رسول اللہ کو خواب میں دیکھا ہے ، ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا:رسول اللہ فرماتے تھے:شیطان میری مشابہت اختیار نہیں کرسکتا،پس جس نے خواب میں مجھے دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا۔

کیا تم ہمیں اس شخص کا حلیہ بیان کرسکتے ہو جسے تم نے خواب میں دیکھا؟

میں نے کہا:جی ہاں،میں نے ایک شخص کو دو آدمیوں کے درمیان دیکھا، انکا جسم اور انکا گوشت سفیدی مائل سانولا تھا،سرمگیں آنکھوں،خوبصورت ہنسی ، چہرے کے خوبصورت نقوش والے،انکی ریش یہاں سے یہاں تک پر تھی(اوراپنے ہاتھ سے اپنی کنپٹیوں کی جانب اشارہ کیا(المصنف)،اس (داڑھی) نے انکے سینے کوبھردیا تھا،راوی عوف نے کہا:میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ اور کیا حلیہ بیان کیا،تو ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہا:اگر تم نے انہیں بیداری کی حالت میں دیکھا ہوتا تو بھی تم اس سے زیادہ حلیہ بیان نہ کرپاتے۔

حوالہ وتخریج وتحقیق:

شمائل ترمذی:393،مسند احمد:3410،مصنف ابن ابی شیبہ:31809، تاریخ المدینہ لابن شبہ:2/610،تاریخ دمشق:3/266،الطبقات لابن سعد:1/320،علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن کہا:مختصر الشمائل:347،حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے حسن کہا:انیس الساری تخریج احادیث فتح الباری:766،علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا:اسکے رواۃ ثقات ہیں،مجمع الزوائد:14019۔

فائدہ:

اس معنی کی ایک اور روایت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے،جو کہ درج ذیل ہے:

امام ابو جعفر محمد بن عمرو بن البختری بن مدرک بن سليمان البغدادی الرزاز (المتوفیٰ: 339ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا يَحْيَى (أبو بكر يحيى بن جعفر بن أبي طالب) قَالَ:أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ (الطویل) قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ:

متن:

مَا شَمَمْتُ رِيحَ مِسْكٍ وَلا عنبر أطيب من ريح رسول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلا مَسَسْتُ خَزًّا وَلا حَرِيرًا أَلْيَنَ مِنْ كَفِّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَتْ لَهُ جُمَّةٌ إِلَى شَحْمَةِ أُذُنَيْهِ، وَكَانَتْ لِحْيَتُهُ قَدْ مَلأَتْ مِنْ هَاهُنَا إِلَى هَاهُنَا – وَأَرَانَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ (وأمر بيديه على عارضيه) وَكَانَ إِذَا مَشَى كَأَنَّهُ يَتَكَفَّى، وَكَانَ رَبْعَةً لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلا بِالْقَصِيرِ، وَكَانَ أبيض، بياضه إلى السمرة.

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے مشک و عنبر کو رسول اللہ سے زیادہ عمدہ خوشبو والا نہ پایا،نہ ہی اون یا ریشم کو رسول اللہ کی ہتھیلی سے زیادہ ملائم پایا، آپکی زلفیں آپ کے کانوں کی لو تک دراز تھیں،اور آپکی ریش مبارک یہاں سے یہاں تک بھرپور تھی(یحیی نامی راوی نے کہا کہ علی بن عاصم نے ہمیں اشارہ کرکے بتایااور اپنے دونوں ہاتھ اپنے رخساروں پر پھیرے)اور جب آپ چلتے تو سامنے کی جانب متوجہ رہتے ،میانہ قد تھے ، نہ ہی بالکل لمبے ، نہ ہی ٹھگنے،اور گوری رنگت والے،آپکا گورا پن گندمی مائل تھا۔

حوالہ و تخریج:

 مجموع فيہ مصنفات ابی جعفر ابن البختری:271،دلائل النبوۃ للبیہقی1/ 204،تاریخ دمشق،لابن عساکر:3/278، رقم:676، اسے سیوطی نے صحیح کہا ہے،الشمائل الشریفۃ للسیوطی مع شرحہ للمناوی،رقم الحدیث:23، نیز ملاحظہ ہو:انیس الساری تخریج احادیث فتح الباری:888۔

شبہ:

یہ خواب کی بات ہے،اور خواب سے استدلال جائز نہیں۔

ازالہ:

یہ خواب دیکھنے والے یزید الفارسی رحمہ اللہ ہیں جو کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگردوں میں سے ہیں،جب انہوں نے یہ خواب دیکھا تو اسے اپنے استاذ اور صحابی رسول ،عم زاد رسول ابن عباس رضی اللہ عنہماکے سامنے پیش کیا،انہوں نے اس خواب کی تصدیق یا تکذیب کی خاطر یزید سے تفصیل پوچھی،یزید نے تفصیل بیان کی،تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس پر یہ تبصرہ کیا کہ اگر تم نے رسول اللہ کو بیداری کی حالت میں دیکھا ہوتا تو بھی تم اس سے زیادہ حلیہ بیان نہ کرپاتے جو خواب میں دیکھ کر نوٹ کرلیا اور بیان کردیا،باالفاظ دیگر ابن عباس نے یزید کے اس خواب کی اور ان کے بیان کردہ حلیے کی تصدیق کردی ، اس اعتبار سے یہ یزید کا بیان کردہ حلیہ ابن عباس کی تصدیق کے باعث حجت بن گیا۔

امام ابو العباس شہاب الدين احمد بن ادريس بن عبد الرحمن المالکی الشہير بالقرافی (المتوفیٰ: 684ھ)نے کہا:

قَالَ الْعُلَمَاءُ: إنَّمَا تَصِحُّ رُؤْيَةُ النَّبِيِّ – عَلَيْهِ السَّلَامُ – لِأَحَدِ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا صَحَابِيٌّ رَآهُ فَعَلِمَ صِفَتَهُ فَانْطَبَعَ فِي نَفْسِهِ مِثَالُهُ فَإِذَا رَآهُ جَزَمَ بِأَنَّهُ رَأَى مِثَالَهُ الْمَعْصُومَ مِنْ الشَّيْطَانِ فَيَنْتَفِي عِنْدَہ  اللُّبْسِ وَالشَّكِّ فِي رُؤْيَتِهِ – عَلَيْهِ السَّلَامُ -، وَثَانِيهِمَا: رَجُلٌ تَكَرَّرَ عَلَيْهِ سَمَاعُ صِفَاتِهِ الْمَنْقُولَةِ فِي الْكُتُبِ حَتَّى انْطَبَعَتْ فِي نَفْسِهِ صِفَتُهُ – عَلَيْهِ السَّلَامُ – وَمِثَالُهُ الْمَعْصُومُ كَمَا حَصَلَ ذَلِكَ لِمَنْ رَآهُ فَإِذَا رَآهُ جَزَمَ بِرُؤْيَةِ مِثَالِهِ – عَلَيْهِ السَّلَامُ – كَمَا يَجْزِمُ بِهِ مَنْ رَآهُ فَيَنْتَفِي عَنْهُ اللَّبْسُ وَالشَّكُّ فِي رُؤْيَتِهِ – عَلَيْهِ السَّلَامُ – وَأَمَّا غَيْرُ هَذَيْنِ فَلَا يَحْصُلُ لَهُ الْجَزْمُ بَلْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ رَآهُ – عَلَيْهِ السَّلَامُ – بِمِثَالِهِ، وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ مِنْ تَخْيِيلِ الشَّيْطَانِ، وَلَا يُفِيدُ قَوْلُ الْمَرْئِيِّ لِمَنْ يَرَاهُ: أَنَا رَسُولُ اللَّهِ، وَلَا قَوْلُ مَنْ يَحْضُرُ مَعَهُ هَذَا رَسُولُ اللَّهِ؛ لِأَنَّ الشَّيْطَانَ يَكْذِبُ لِنَفْسِهِ وَيَكْذِبُ لِغَيْرِهِ …

علماء نے کہا:خواب میں نبی اکرم کی زیارت دو آدمیوں کے لئے ممکن ہے،ایک آپکا صحابی جس نے آپکو (حالت بیداری میں)دیکھا ہو اور آپ کا حلیہ جانتا ہو اور اس کے دل میں آپکا حلیہ موجود ہو،جب وہ آپکو خواب میں دیکھے گا تو اسے یقین ہوگا کہ اس نے نبی معظم کو ہی دیکھا ،اور آپ کو دیکھنے میں جو التباس و شک ہوگا تو وہ زائل ہو جائے گا۔

دوسرا وہ جس نے نبی کریم کی صفات خلقیہ جو کہ کتب میں مروی ہیں بار بار سنا ہو ،حتی کہ اسکے دل میں آپ کا حلیہ و شبیہ نقش ہوگیا ہو،چنانچہ جب وہ آپ کو خواب میں دیکھے گا تو اسے یقین ہوگا کہ اس نے آپ کو ہی دیکھا اور آپ کو دیکھنے میں جو التباس و شک ہو گا وہ اس سے زائل ہوجائے گا۔

ان دو قسم کے افراد کے علاوہ کسی اور کے لئے یقین حاصل نہیں ہوسکتا کہ اس نے نبی رحمت کو ہی خواب میں دیکھا ہے،ممکن ہے اس نے آپ کو ہی دیکھا ہو اور ممکن ہے کہ وہ شیطان کی تخیلاتی شکل ہو،اور جسے خواب میں دیکھا اسکا یہ کہنا کہ میں اللہ کا رسول ہوں ،یا کسی دوسرے کا کہنا کہ یہ اللہ کے رسول ہیں اس سے کچھ فائدہ حاصل نہیں ،کیونکہ شیطان اپنی جانب سے بھی جھوٹ بول سکتا ہے اور دوسرے کی جانب سے بھی۔ (الفروق:4/244)

فائدہ:

یزید الفارسی رحمہ اللہ تابعی تھے ،انہوں نے جاگتی آنکھوں سے نبی کریم کی زیارت نہیں کی،لیکن صحابی رسول ابن عباس رضی اللہ عنہ کی صحبت میں رہتے تھے،نیز احادیث کا علم رکھتے تھے،جب انہوں نے خواب میں نبی کریم کی زیارت کی تو انہیں اپنے علم حدیث کی بنیاد پریقین تھا کہ انہوں نے نبی معظم کی ہی زیارت کی ہے،جیسا کہ اس روایت کا ابتدائی حصہ دلالت کرتا ہے ،لیکن مزید اطمینان کی خاطر انہوں نے اپنا یہ خواب صحابی رسول کے سامنے بیان کیا،جب انہوں نے بھی تصدیق کردی تو کوئی شک باقی نہ رہا۔

وضاحت:

اس حدیث میں راوی کے الفاظ کہ”انکی ریش یہاں سے یہاں تک پُر تھی(اوراپنے ہاتھ سے اپنی کنپٹیوں کی جانب اشارہ کیا(المصنف)،اس (داڑھی) نے انکے سینے کو بھر دیاتھا“۔

نبی کریم کی ریش مبارک کے گھنے پن کو پوری صراحت سے واضح کررہے ہیں کہ کنپٹیوں سے لے کر سینے تک آپکی داڑھی اسقدر گھنی تھی کے آپکے جبڑے کی پوری کھال ،آپکی ٹھوڑی ،آپکا حلق اور آپکا اوپری سینہ سارا کا سارا ریش مبارک کے بالوں کے پیچھے چھپ جاتا تھا،یعنی داڑھی کا گھنا پن شروع تا اخیر(کانوں کی لو سے سینے تک) برقرار تھا۔

علامہ علي بن سلطان محمد ابو الحسن نور الدين الملا الہروی القاری (المتوفیٰ : 1014ھ)نے ان الفاظ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:

(قَدْ مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ مَا بَيْنَ هَذِهِ) أَيِ: الْأُذُنِ (إِلَى هَذِهِ) أَيِ: الْأُذُنِ الْأُخْرَى إِشَارَةً إِلَى عَرْضِهَا (قَدْ مَلَأَتْ) أَيْ: لِحْيَتُهُ (نَحْرَهُ) أَيْ: عُنُقَهُ إِشَارَةً إِلَى طُولِهَا .

”انکی ریش یہاں سے یہاں تک پر تھی“ یعنی اس کان سے دوسرے کان تک،یہ اشارہ ہے ریش مبارک کی چوڑائی کی جانب،”اس نے بھر دیا تھا“یعنی داڑھی نے،”نحرہ“یعنی آپکی گردن کو،یہ اشارہ ہے ریش مبارک کی لمبائی کی جانب۔(جمع الوسائل فی شرح الشمائل:2/235)

علامہ زين الدين محمد المدعو بعبد الرؤوف بن تاج العارفين بن علی بن زين العابدين الحدادی ثم المناوی القاہری (المتوفیٰ: 1031ھ)نے کہا:

 قد ملأت لحيته ما بين هذه إلى هذه أي ما بين هذه الأذن وهذه الأذن أي لم تكن خفيفة وقد ملأت نحره أي كانت مسترسلة إلى صدره كثة.

”انکی ریش یہاں سے یہاں تک پر تھی“ اس کان سے دوسرے کان تک،یعنی ریش مبارک ہلکی نہ تھی،”اس (داڑھی) نے انکے سینے کو بھر دیاتھا“یعنی گھنے ہونے کے باعث سینے تک پہنچتی تھی۔(شرح الشمائل)

علامہ احمد بن محمد بن علی بن حجر الہيتمی السعدی الانصاری، شہاب الدين شيخ الاسلام،(المتوفی:974ھ) نے کہا:

(ما بين هذه إلى هذه): إشارة لعرضها،(ملأت نحره): إشارة لطولها.

”یہاں سے یہاں تک“یہ اشارہ ہے چوڑائی کی جانب،”اس نے سینے کو بھر دیا تھا“ یہ اشارہ ہے اسکی لمبائی کی جانب۔( اشرف الوسائل الیٰ فہم الشّمائل،ص:603)

دوسری دلیل:سند:

امام مسلم بن حجاج القشیری (المتوفیٰ:261ھ)نے کہا:

وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ:

متن:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ شَمِطَ مُقَدَّمُ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ، وَكَانَ إِذَا ادَّهَنَ لَمْ يَتَبَيَّنْ، وَإِذَا شَعِثَ رَأْسُهُ تَبَيَّنَ، وَكَانَ كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ، فَقَالَ: رَجُلٌ وَجْهُهُ مِثْلُ السَّيْفِ؟ قَالَ: لَا، بَلْ كَانَ مِثْلَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ، وَكَانَ مُسْتَدِيرًا وَرَأَيْتُ الْخَاتَمَ عِنْدَ كَتِفِهِ مِثْلَ بَيْضَةِ الْحَمَامَةِ يُشْبِهُ جَسَدَهُ .

سیدناجابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ کا سر مبارک اورداڑھی مبارک سفیدی کی جانب مائل ہوگئے تھے،اور جب آپ تیل لگالیتے تو یہ واضح نہ ہوپاتا،اور جب آپ کے سر کے بال بکھرے ہوتے تو سفیدی واضح ہوجاتی،اور آپ کی داڑھی کے بال بہت تھے،ایک آدمی نے پوچھا:کیا آپکا چہرہ تلوار کی مانند تھا؟(یعنی لمبا)تو جابر نے کہا:نہیں،بلکہ شمس و قمر کی مانند تھا،اور گول تھا،(یعنی گولائی کی جانب مائل تھا نہ کہ مکمل گولائی میں تھا)اور میں نے آپ کے کندھے کے پاس مہر نبوت کو دیکھا ،کبوتری کے انڈے کی مانند سفید تھی،اسکی رنگت آپ کے جسم کی رنگت کی مانند تھی۔

(صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب شیبہ ،شعب الایمان للبیہقی: 1353،مسند ابی یعلیٰ:7456،مصنف ابن ابی شیبہ:31808)

وضاحت:

علامہ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ نے کہا:

كَانَ كثير شعر اللِّحْيَة أَي غزيرها مستديرها زَاد فِي رِوَايَة قد مَلَأت مَا بَين كَتفيهِ.

”آپ کی داڑھی کےبال بہت زیادہ تھے“یعنی بھرپور تھے اور گولائی میں تھے،ایک روایت میں ہے کہ :آپ کے دونوں کندھوں کے درمیانے حصے کو بھردیا کرتے تھے۔(الشمائل الشريفہ،ص:44)

تنبیہ:

امام سیوطی رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ:”ایک روایت میں ہے کہ : آپ کے دونوں کندھوں کے درمیانے حصے کو بھردیا کرتے تھے“ غالباً درست نہیں،ہمیں ایسی کوئی روایت نہیں مل سکی،نیز یہ الفاظ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی داڑھی کے متعلق منقول ہیں،(ملاحظہ ہو:امام اسماعيل بن محمد بن الفضل بن علی القرشی الطليحی التيمی الاصبہانی،ابوالقاسم،الملقب بقوام السنۃ (المتوفیٰ: 535ھ) کی تصنیف ”سير السلف الصالحين،ص:199“)۔ واللہ اعلم

 حوالہ:

تیسری دلیل:

امام ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی الخراسانی النسائی (المتوفیٰ:303ھ) نے کہا:

سند:

أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ، عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَقَ، عَنْ الْبَرَاءِ قَالَ:

متن:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجِلًا مَرْبُوعًا عَرِيضَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ،كَثَّ اللِّحْيَةِ، تَعْلُوهُ حُمْرَةٌ جُمَّتُهُ إِلَى شَحْمَتَيْ أُذُنَيْهِ، لَقَدْ رَأَيْتُهُ فِي حُلَّةٍ حَمْرَاءَ مَا رَأَيْتُ أَحْسَنَ مِنْهُ.

سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ درمیانے قد والے ،دونوں کندھوں کے درمیان سے چوڑے ،گھنی داڑھی والے تھے،سرخی مائل گورے تھے(گلابی رنگت والے)،آپکی زلفیں آپ کے کانوں کی لوؤں تک تھیں،میں نے آپ کو سرخ لباس میں دیکھا،میں نے آپ سے حسین کوئی نہ دیکھا۔

حوالہ و تخریج و تحقیق:

سنن نسائی:5232،حديث شعبۃ بن الحجاج لمحمد بن المظفر البغدادی(المتوفی:379ھ):83،علامہ البانی نے اسے صحیح کہا:صحیح و ضعیف سنن النسائی:11/232،رقم:5232۔

فائدہ:

رسول اللہ کی صفت میں ”کث اللحیۃ“،”گھنی داڑھی والے“کے الفاظ ،براء بن عازب کے علاوہ درج ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں:

ام المومنین سیدتنا عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہا:دلائل النبوۃ للبیہقی:1/298،تاریخ دمشق:3/356۔

سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ:تاریخ المدینہ لابن شبۃ:2/606،مسند احمد:684۔

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ:طبرانی کبیر:10397۔

سیدنا ہند بن ابی ہالہ التمیمی رضی اللہ عنہ:الشریعۃ للآجری:1022،طبرانی کبیر:414،شعب الایمان للبیہقی:1362،شمائل ترمذی:8۔

سیدتنا عاتکہ بنت خالد ام معبد الخزاعیہ رضی اللہ عنہا:الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم:3485۔

امام محمد بن علی الشوکانی(المتوفیٰ:1250ھ)نے کہا:

وَأَمَّا أَنَّهُ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – كَانَ كَثَّ اللِّحْيَةِ فَقَدْ ذَكَرَ الْقَاضِي عِيَاضٌ، وُرُودَ ذَلِكَ فِي أَحَادِيثِ جَمَاعَةٍ مِنْ الصَّحَابَةِ بِأَسَانِيدَ صَحِيحَةٍ.

نبی (کث اللحیۃ)گھنی داڑھی والے تھے،یہ بات قاضی عیاض نے کہی ہے اور صحابہ کی ایک جماعت سے صحیح اسانید کے ساتھ یہ احادیث میں وارد ہے۔(نیل الاوطار:1/188،نیز ملاحظہ ہو:التلخیص الحبیر لابن حجر العسقلانی:1/220)

وضاحت:

 1-امام اللغۃ محمد بن احمد بن الازہری الہروی، ابو منصور (المتوفیٰ: 370ھ)نے کہا:

كث: فِي صفة النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم أَنَّه كَانَ كثَّ اللِّحْيَة،قَالَ شمر: أَراد كَثرة أُصولها وشعورها، وأَنها لَيست برقيقة.

”کث“،”گھنا ہونا“،نبی معظم کی صفات میں آیا ہے کہ آپ ”کث اللحیۃ“،”گھنی داڑھی والے تھے“،شمر نے کہا:اس سے مراد داڑھی کی جڑوں اور بالوں کی بہتات ہے،اور یہ کہ وہ ہلکی نہ تھی۔(تہذيب اللغۃ:9/326)

2-امام ابو محمد علی بن احمد بن سعيد بن حزم الاندلسی القرطبی الظاہری (المتوفیٰ: 456ھ)نے کہا:

كث اللحية واسعها

گھنی داڑھی والے ،پھیلی ہوئی۔(جوامع السيرۃ وخمس رسائل اخریٰ لابن حزم:22)

نیز کہا:

عَظِيم اللِّحْيَة قد ملئت صَدره.

بڑی داڑھی والے جو آپ کا سینہ ڈھانپ دیتی۔

(الفصل فی الملل والاہواء والنحل:4/140)

3-قاضی عياض بن موسیٰ بن عياض بن عمرون اليحصبی السبتی، ابو الفضل (المتوفیٰ: 544ھ) نے نبی کریم کی صفات احادیث کی روشنی میں بیان کرتے ہوئے آپ کی داڑھی کے متعلق کہا:

 كث اللحية تملأ صدره .

گھنی داڑھی والے ، جو آپ کا سینہ ڈھانپ لیتی۔

( الشفا  بتعريف حقوق المصطفیٰ :1/148)

4-ابو عبد الله محمد بن احمد بن ابی بکر بن فرح الانصاری الخزرجی شمس الدين القرطبی (المتوفیٰ: 671ھ)نے کہا:

كث اللِّحْيَة تملأ صَدره.

گھنی داڑھی والے ، جو آپ کا سینہ ڈھانپ لیتی۔

(الاعلام بما في دين النصاریٰ من الفساد والاوہام واظہار محاسن الاسلام:292)

5-علامہ تقی الدين علی بن عبد الکافی السبکی (المتوفی756ھ) نے کہا:

كث اللحية تملأ صدره .

گھنی داڑھی والے ، جو آپ کا سینہ ڈھانپ لیتی۔(السيف المسلول علیٰ من سب الرسول :456)

6-علامہ يحییٰ بن ابی بکر بن محمد بن يحییٰ العامری الحرضی (المتوفیٰ: 893ھ)نے کہا:

كث اللحية تملأ صدره .

گھنی داڑھی والے ، جو آپ کا سینہ ڈھانپ لیتی۔

( بہجۃ المحافل وبغيۃ الاماثل فی تلخيص المعجزات والسيروالشمائل:2/184)

7-علامہ شمس الدين محمد بن احمد الخطيب الشربينی الشافعی (المتوفیٰ:977ھ)کی فقہ شافعی میں تالیف ”الاقناع“ میں انکے الفاظ”وَكَانَتْ لِحْيَتُهُ الْكَرِيمَةُ كَثِيفَةً“ ”آپ کی داڑھی مبارک گھنی تھی“کی شرح کرتے ہوئے علامہ سليمان بن محمد بن عمر البُجَيْرَمِیّ المصری الشافعی (المتوفیٰ: 1221ھ) نے کہا:

أَيْ كَثِيرَةَ الشَّعْرِ بِحَيْثُ تَمْلَأُ صَدْرَهُ.

یعنی ریش مبارک بہت زیادہ بال والی تھی ،اتنے کہ سینہ بھر دیتے۔(تحفۃ الحبيب علیٰ شرح الخطيب:1/145)

8-علامہ محمد بن عفيفی الباجوری، المعروف بالشيخ الخضری (المتوفیٰ: 1345ھ)نے کہا:

كث اللحية تملأ صدره .

گھنی داڑھی والے ، جو آپ کا سینہ ڈھانپ لیتی۔( نور اليقين في سيرۃ سيد المرسلين:245)

9-علامہ محمد بن محمد بن سويلم ابو شُہبۃ (المتوفیٰ: 1403ھ) نے کہا:

كث اللحية تملأ صدره .

گھنی داڑھی والے ، جو آپ کا سینہ ڈھانپ لیتی۔

 (السيرۃ النبویۃ علیٰ ضوء القرآن والسنۃ:2/609)

10-امام ابو عبيد القاسم بن سلام(المتوفیٰ:224ھ) نے کہا:

وَقَوْلُهُ: كَثُّ اللِّحْيَةِ: الْكُثُوثَةُ أَنْ تَكُونَ اللِّحْيَةُ غَيْرَ دَقِيقَةٍ وَلَا طَوِيلَةٍ وَلَكِنْ فِيهَا كَثَافَةٌ مِنْ غَيْرِ عِظَمٍ وَلَا طُولٍ .

”کث اللحیۃ“گھنا پن یہ ہے کہ داڑھی نہ ہلکی ہو نہ ہی طویل ہو،لیکن گھنی ہو بڑی اور دراز ہوئے بغیر۔( المعجم الکبيرللطبرانی:22/160)

11-امام الزبير بن بکار بن عبد الله القرشی الاسدی المکی (المتوفیٰ: 256ھ)نے کہا:

كَثَّ اللِّحْيَةِ,الْكُثُوثَةُ أَنْ تَكُونَ اللِّحْيَةُ غَيْرَ دَقِيقَةٍ، وَلا طَوِيلَةٍ، وَلَكِنْ فِيهَا كَثَاثَةٌ مِنْ غَيْرِ عِظَمٍ وَلا طُولٍ.

”کث اللحیۃ“کثاثت یعنی گھنا پن یہ ہے کہ داڑھی ہلکی نہ ہو،نہ ہی دراز ہو،لیکن اس میں گھنا پن ہو ، عظامت و طوالت کے بغیر۔(الاخبار الموفقيات للزبير بن بکار:137)

12-امام  الحسين بن الحسن بن محمد بن حليم البخاری الجرجانی، ابو عبد الله الحَلِيمی (المتوفیٰ: 403 ھ)نے کہا:

كث اللحية، أي كثيفة من غير عظم ولا طول.

”کث اللحیۃ“یعنی کثیف ”گھنی و گنجان“ہونا ، بڑی اور دراز ہوئے بغیر۔(المنہاج في شعب الایمان:2/67)

13-امام مجد الدين ابو السعادات المبارک بن محمد بن محمد بن محمد ابن عبد الکريم الشيبانی الجزری ابن الاثير (المتوفیٰ: 606ھ)نے کہا:

فِي صِفَتِهِ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ كَثُّ اللِّحْيَة الكثاثَة فِي اللِّحْيَة: أن تكون غير رقيقة  وَلَا طَوِيلَةٍ، وَ لَكِنْ   فِيهَا كَثَافة.

نبی کی صفت میں ”کث اللحیۃ“،”گھنی داڑھی والے“کے لفظ آئے ہیں،داڑھی میں کثاثت یعنی گھنا پن یہ ہے کہ وہ ہلکی نہ ہو،نہ ہی دراز ہو،لیکن اس میں گھنا پن ہو۔(النہايۃ في غريب الحديث والاثر:4/152)

14-امام ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہيم القرطبی (المتوفیٰ: 656 ھـ) نے کہا:

 لا يفهم من هذا – يعني قوله ( كثير شعر اللحية )- أنه كان طويلها ، فإنَّه قد صحَّ أنه كان كثَّ اللحية ؛ أي : كثير شعرها غير طويلة ، وكان يخلل لحيته .

” آپ کی داڑھی کے بال بہت تھے“اس قول سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ریش مبارک دراز تھی،کیونکہ صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ آپ ”کث اللحیۃ“ ، ”گھنی داڑھی والے“تھے ،یعنی داڑھی کے بال بہت تھے،لیکن دراز نہ تھے،اور آپ اپنی داڑھی کا خلال کرتے تھے۔ (المفہم لما اشکل من تلخيص صحيح مسلم :6/135)

15-امام محمد بن مکرم بن علی، ابو الفضل، جمال الدين ابن منظور الانصاری الافريقی (المتوفیٰ:711ھ) نے کہا:

 وفي صفته صلّى الله عليه وسلّم: أنه كان كث اللحية: أراد كثرة أصولها وشعرها، وأنها ليست بدقيقة، ولا طويلة وفيها كثافة.( لسان العرب :2/ 179)

16-امام احمدبن حجر العسقلانی(المتوفیٰ:852ھ)نے کہا:

قَوْله كث اللِّحْيَة أَي فِيهَا كَثَافَة واستدارة وَلَيْسَت طَوِيلَة.

”کث اللحیۃ“گھنی داڑھی والے،یعنی اس میں گھنا پن اور گولائی تھی ،طویل نہ تھی۔(فتح الباری:1/178)

17-علی بن احمد بن محمد العزيزی البولاقی الشافعیّ (1070ھ) نے کہا:

(كث اللحية) بفتح الكاف وثاء مثلثة وكسر اللام أي كثير شعرها مع استدارة فلحيته صلى الله عليه وسلم كانت كثيرة الشعر مستديرة غير طويلة .

”کث اللحیۃ“یعنی بہت بال والی اور گول،پس نبی اکرم کی ریش مبارک بہت بالوں والی اور گول تھی ، دراز نہ تھی۔(السراج المنير شرح الجامع الصغير في حديث البشير النذير)

ازالہ:

مذکورہ ائمہ اعلام کا یہ کہنا کہ ریش مبارک درازیعنی طویل و عظیم نہ تھی:

یہ سب دراصل لفظ ”کث“کے لغوی معنی کے تناظر میں کہا گیا ہے،نہ کہ ریش مبارک کی تمام صفات کا احاطہ کرنے کے ضمن میں۔

 دیگر احادیث میں بیان کردہ دیگر صفات کو ملاحظہ کیا جائے تو اس حدیث میں بیان کردہ صفت ”کث اللحیۃ“کو سمجھنا ممکن ہوجاتا ہے کہ اس لفظ کے ذریعے ریش مبارک کی تمام صفات کا احاطہ مقصود نہیں بلکہ محض اسکے بہت زیادہ گھنے پن کو بیان کرنا مقصود ہے۔

نیز طویل نہ ہونے کی یہ تاویل ممکن ہے کہ اس سے مراد حد اعتدال سے زیادہ طوالت ہے،جو کہ پیٹ تک یا اس سے بھی نیچے ناف تک پہنچ جاتی ہے،جیسا کہ دیگر احادیث سے یہی ظاہرہوتا ہے،ہماری اس بات کی تائید ان تمام ائمہ کے اقوال سے بھی ہوتی ہے جنہوں نے ”کث اللحیۃ“کی تفسیر اس طرح کی کہ :گھنی داڑھی والے ، جو آپ کا سینہ ڈھانپ لیتی۔

جبکہ تمام دلائل کو مد نظر رکھا جائے تو یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ نبی کریم کی ریش مبارک بہت زیادہ گھنی تھی اور آپ کے مکمل سینے پر پھیلی ہوئی تھے ،جبکہ بالائی سینے کو تو ڈھانپ رکھا تھا،جیسا کہ یزید الفارسی کی روایت میں اس بات کی صراحت ہے،نیز مزید دلائل و اقوال سلَف صالحین بھی درج ذیل ہیں۔

نیزنبی کریم کی ریش مبارک کے متعلق احادیث میں ایک صفت ”عظیم“بھی بیان کی گئی ہے،جو کہ آگے آجائے گی۔

ساتھ ہی یہ بھی ذہن نشین رہے کہ آپ عالَم انسان کے سب سے خوبصورت انسان تھے،آپ کی داڑھی مبارک بھی تمام انسانوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھی،اور خوبصورت داڑھی وہی ہوتی ہے جو گھنی ہو، اور اسی اعتبار سے طویل و عریض بھی ہو،محض گھنی اور عریض ہو لیکن اعتدال کے ساتھ طویل نہ ہو تو اسے خوبصورت داڑھی نہیں کہا جاسکتا،ملا علی القاری الہروی رحمہ اللہ  نے کہا:

(كَثَّ اللِّحْيَةِ) : بِتَشْدِيدِ الْمُثَلَّثَةِ أَيْ غَلِيظُهَا، وَفِي رِوَايَةٍ كَانَ كَثِيفَ اللِّحْيَةِ، وَفِي أُخْرَى عَظِيمَ اللِّحْيَةِ ذَكَرَهُ مِيرَكُ(شاہ)، فَمَا فِي شَرْحِ ابْنِ حَجَرِ (المکی) وَغَيْرِهِ أَيْ غَيْرُ دَقِيقِهَا وَلَا طَوِيلِهَا يُنَافِي الرِّوَايَةَ وَالدِّرَايَةَ ; لِأَنَّ الطُّولَ مَسْكُوتٌ عَنْهُ مَعَ أَنَّ عِظَمِ اللِّحْيَةِ بِلَا طُولٍ غَيْرُ مُسْتَحْسَنٍ عُرْفًا،

”کث اللحیۃ“یعنی گھنی داڑھی،ایک روایت میں ہے: ”کثیف اللحیۃ“موٹی اور گھنی داڑھی،ایک اور روایت میں ہے:”عظیم اللحیۃ“بڑی داڑھی،یہ بات میرک شاہ نے ذکر کی ہے،پس ابن حجر المکی وغیرہ کی شرح میں جو ہے کہ وہ نہ ہلکی ہو نہ ہی دراز ہو،یہ روایت و درایت دونوں کے منافی ہے،کیونکہ اس میں طوالت کا تذکرہ نہیں،جبکہ طوالت کے بغیر داڑھی کا بڑا ہونا عرف میں غیر مستحسن ہے۔(ـجمع الوسائل فی شرح الشمائل:1/37)واللہ اعلم

وضاحت:

نبی کریم کا سینہ مبارک کشادہ تھا ، جیسا کہ سیدنابراء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا :

 عَرِيضَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ۔

دونوں کندھوں کے درمیان سے(یعنی سینے سے) چوڑے تھے۔

نیز یہ روایت صحیح بخاری میں بھی ہے ،وہاں یہ الفاظ ہیں :

بَعِيدَ مَا بَيْنَ المَنْكِبَيْنِ.

دونوں کندھوں کے درمیان(یعنی چوڑے سینے کے باعث) دوری تھی۔(صحیح بخاری:3551)

۔۔جاری ہے ۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے