تذکرہ علماء اہل حدیث سندھ!

لمبا قد، پوری داڑھی، سفید اور اجلا لباس، سر پر سفید ٹوپی، کندھے پر رومال، مسکراتے ہوئے السلام علیکم کہنا، اصحاب علم و فضل کا احترام کرنا، توحید و سنت کو عام کرنے کیلئے تگ و دو کرنا، اپنی جیب خاص سے مسجد کے معاملات کو چلانا، یہ تھے ہمارے ممدوح مولانا محمد اسلم فانی صاحب رحمۃ اللہ علیہ

پیدائش :

مولانا محمد اسلم فانی صاحب حاجی محمد دین کے گھر یکم مارچ 1962 کو بستی اکری ضلع خیرپور میں پیدا ہوئے۔

تعلیم :

مولانا محمد اسلم صاحب نے پرائمری تک تعلیم اکری میں حاصل کی اور اس کے بعد دینی تعلیم کے حصول کیلئے مولانا حافظ محمد سلیمان مرحوم کی خدمت میں سکھر حاضر ہوئے جہاں حافظ محمد سلیمان نے مرکزی جامع مسجد اہلحدیث سکھر میں مدرسہ تعلیم القرآن والحدیث قائم کیا ہوا تھا 1983 بمطابق 15 شعبان 1409 ھ میں آپ نے سند فراغت حاصل کی۔

مساجد کی تعمیر

مولانا محمد اسلم فانی صاحب نے 1992 میں پنوں عاقل شہر میں مسجد اہلحدیث کی تعمیر کیلئے پلاٹ خریدا. محدث دیار سندھ علامہ سید ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا سنگ بنیاد رکھا اور جمعیۃ احیاءالتراث کویت کی طرف سے مسجد تعمیر کروا کر دی. 2008 میں مسجد کی خستہ حالی کو مدنظر رکھتے ہوئے مسجد کی دوبارہ تعمیر کا فیصلہ کیا گیا اور اس کیلئے خصوصی تعاون محسن جماعت ڈاکٹر حافظ عبدالکریم صاحب حفظہ اللہ ناظم اعلیٰ مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان نے راقم الحروف کے ذریعہ سے کیا اور مسجد ازسر نو تعمیر کی گئی. اس کے علاوہ آپ نے راقم

الحروف کے توسط سے گوٹھ سردار حاجی خان چاچڑ اور گوٹھ

فوجی عبدالرحمٰن نزد پنوں عاقل ضلع سکھر میں بھی مسجدیں تعمیر کروائیں۔

خاندان میں تبلیغ :

ایک وقت تھا جب مولانا محمد اسلم صاحب کا خاندان جہالت میں گھرا ہوا تھا جو کہ آج مذہبی اور دین پسند خاندان سمجھا جاتا ہے اس خاندان کو دین کی طرف راغب کرنے اور اس طرف متوجہ کرنے میں بلا شک و شبہ مولانا محمد اسلم فانی صاحب کی محنت ہے. آپ رات کو نماز عشاء کے بعد اپنے تمام بہن بھائیوں کو جمع کرلیتے انہیں نماز سکھاتے، ذکر و اذکار اور ادعیہ مسنونہ یاد کرواتے اور سنتے اور انہیں دینی احکام سمجھاتے. آپ نے اپنے گھرانے کو دینی گھرانہ بنانے کیلئے اپنا بیٹا اور تین بھتیجے عظیم تعلیمی ادارے ” جامعہ محمدیہ اہلحدیث ” خانپور میں داخل کروائے جو کہ وہاں سے دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر فارغ التحصیل ہوئے اسی طرح سے آپ نے اپنی ایک بیٹی کو بھی دینی تعلیم سے آراستہ کیا اور وہ بھی خانپور سے فارغ التحصیل ہوئی. آپ کا بیٹا حافظ محمد رضوان صاحب سلمہ اللہ آپ کا جانشین اور آپ کی جگہ مسجد کا امام و خطیب ہے۔

تنظیمی وابستگی :

مولانا محمد اسلم فانی صاحب مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے ساتھ وابستہ تھے اور آپ کو 2007 میں بطل حریت مولانا قاری عبدالوکیل صدیقی صاحب رحمہ اللہ اور محسن جماعت ڈاکٹر حافظ عبدالکریم صاحب حفظہ اللہ نے پنوں عاقل کے ایک پروگرام کے موقع پر باہمی مشاورت سے تحصیل پنوں عاقل کا امیر مقرر کیا تھا اور آپ تاحیات حین اس ذمہ داری کو نبھاتے رہے.

بیت اللہ کی زیارت :

مولانا محمد اسلم فانی صاحب نے اپنی حیات مستعار میں دو حج اور چار عمرے کیے تھے. 1982 میں آپ نے عمرے کا ارادہ کیا لیکن ویزہ نہ لگ سکا تو آپ نے اپنے استاذ مکرم حافظ محمد سلیمان مرحوم سے بات کی تو انہوں نے شہید ملت حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کرکے انہیں بتایا کہ ان کا عمرے کا ویزہ نہیں لگ رہا. علامہ شہید رحمہ اللہ نے فورا سعودی سفیر کے نام خط لکھ کر دیا. یہ خط سعودی سفیر کو ملتے ہی آپ کا ویزہ لگ گیا اور آپ عمرے کیلئے چلے گئے. سعودی عرب میں ہی آپ کی ملاقات حضرت علامہ شہید رحمہ اللہ سے ہوگئی علامہ صاحب نے دیکھتے ہی پوچھا کہ : حضرت!  تو پھر آگئے ہو؟ تو آپ نے جواب دیا کہ : آپ کی دعائیں ہوں تو کوئی کیسے اس سعادت سے محروم رہ سکتا ہے۔

کاروبار :

آپ اپنی زرعی زمین کے علاوہ کپڑے کا کاروبار بھی کیا کرتے تھے جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو برکت دی ہوئی تھی جس سے آپ اللہ کی راہ میں خرچ کیا کرتے تھے آپ کی زندگی کا ایک واقعہ ہے کہ آپ کی دوکان پر ایک درزی سلائی کا کام کیا کرتا تھا اور وہ انتہائی غریب تھا جب اس کی شادی کا وقت آیا تو آپ نے اس کو شادی کیلئے کچھ کپڑے اور نقد رقم تعاون کے طور پر دی اس درزی کو پھر اللہ تعالیٰ نے ترقی دی اس نے پہلے اپنے گاؤں میں جوتوں کی دوکان کھولی پھر کپڑے کی دوکان کرلی آج وہی شخص ٹریکٹر کے شوروم کا مالک اور کروڑوں میں کھیلتا ہے لیکن اپنی شادی پر تعاون کی وجہ سے آج تک مولانا محمد اسلم فانی صاحب کا احسان مند ہے اور بارہا اس کا اظہار کرتا ہے۔

شادی و اولاد :

مولانا محمد اسلم صاحب نے ایک شادی کی تھی جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹے اور دو بیٹیاں عطاء کیں بحمداللہ سب اولاد شادی شدہ اور صاحب اولاد ہے.

وفات :

مولانا محمد اسلم فانی صاحب نے تقریباً 57 سال عمر پائی اور قابل رشک زندگی گذاری آپ آخری ایام میں کچھ بیمار ہوئے اور آپ کو شیخ زید ہسپتال رحیم یار خان میں داخل کروایا گیا آخر کار وہ وقت آن پہنچا جس سے کسی کو بھی مفر نہیں ہے 26 نومبر 2018 کو بعد نماز مغرب اس دنیا فانی کو چھوڑ کر دارالبقا کی طرف روانہ ہوگئے. إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

اگلے روز آپ کی نماز جنازہ مولانا محمد عاصم شاہین صاحب شیخ الحدیث جامعہ محمدیہ اہلحدیث خانپور نے رقت آمیز لہجے میں پڑھائی اور آپ کو عزیز و اقارب اور دوست و احباب نے دعاؤں کے تحفے دے کر رخصت کیا اور پھر آپ کو شہر کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا

۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ….. اللھم ادخلہ الجنۃ الفردوس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے