19جنوری 2019ء جو کہ دل دہلا دینے والادن تھا ، جس میں لاہور سے بورے والا جانے والے ایک ہنستے بستے خاندان کو دہشت گرد ہونے کے شبہ میںانسدادِ دہشت گردی(سی ٹی ڈی)کے اہل کاروں نے چار افراد کو جن میں لاہور کا کریانہ فروش 42سالہ خلیل ، 38سالہ بیوی نبیلہ اور 13سالہ بیٹی ا ریبہ اور خلیل کا دوست جو گاڑی چلا رہا تھا کو انتہائی بے دردی سے خون میں نہلا دیا ۔ جبکہ مقتول خلیل کا 10برس کابیٹا عمیر او ر اس کی سات سالہ بہن منیبہ گولیاں لگنے سےزخمی ہوئے، تاہم پانچ سالہ بچی ہادیہ معجزانہ طور پر محفوظ رہی۔وزیر اعظم صاحب نے وزارتِ عظمیٰ کا تاج پہننے سے پہلے کراچی میں ایک جلسے سے خطاب کر تے ہوئے کہا تھا: ’’ملک میں جنگل کا قانون ہے، اصل قانون ہم لائیں گے۔تعلیم، پولیس اور عدلیہ کو مثالی بنائیں گے،غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر عوام کو آزادی دلائیں گے، موروثی سیاست اور جاگیر داری نظام کا خاتمہ کریں گے۔ قوم اب جاگ گئی ہے، وہ ’’نیا پاکستان‘‘ دیکھنا چاہتی ہے۔‘‘ باتیں بہت دلنشیں اور دعوے بہت خوبصورت ہیں اور عوام کے دلوں کے ترجمان بھی۔لیکن ہوا کیا؟ پولیس بے قابو ہے، رشوت ستانی عام ہے، پانی پر اب بھی مافیا اپنا قبضہ جمائے بیٹھی ہے۔لینڈ مافیا اب بھی اپنی جگہوں پر براجمان ہے۔غیر قانونی تجاوزات گرادی جاتی ہیں ، پولیس موٹی موٹی رقمیں لے کرقبضے سے محروم ہوئے لوگوں کو پھر وہیں بٹھا دیتی ہے۔یہ آنکھ مچولی کراچی میں جگہ جگہ ہورہی ہے۔فٹ پاتھوں پر آج بھی ہوٹلوں اور فاسٹ فوڈ والوں کے تخت اور کرسیاں پیدل چلنے والوں کا راستہ روک رہی ہیں۔غلامی کی زنجیریں آج بھی حکمرانوں کے پیروں میں پڑی ہوئی ہیں۔ملک سے جنگل کا قانون ختم کرنے والوں کے دور حکومت میں چار انسانوں کو گولیوں سے چھید دیا گیا۔اور معصوم بچوں کو زخمی کر کے چھوڑ دیا۔ اس دہشت گردی کا کارنامہ بھی خود دہشت گردی ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والوں کے ہاتھوں ہی انجام پایا ہے۔آج کی معاشرتی زندگی میں جو چیز سب سے زیادہ زوال پذیر ہے وہ انسانیت ہے۔انسان نے درندگی کا روپ دھار لیا ہے۔سفاکیت، بے رحمی اورظلم کایہ عالم ہے کہ معصوم بچوں کو بھی بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنانے میں ان پتھر دل لوگوں کا ہاتھ نہیں کانپتا۔یہ انسان نما جانور معاشرے کا رستا ہوا ناسور ہیں جو نسل انسانی کا لہو چاٹ رہے ہیں۔قانون کے ہاتھ مصلحت پرستی کے تحت مفلوج ہوچکے ہیں، منصف انصاف کے تقاضو ں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے مجرم کی سماجی حیثیت اور اس مقام و مرتبے کے مطابق فیصلے کر نے پر مجبور ہیںجیسا کہ فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ

جس دیس کی کورٹ کچہری میں

انصاف ٹکوں پر بکتا ہو

جس دیس کا منشی قاضی بھی

مجرم سے پوچھ چکے لکھتا ہو

قانون کے رکھوالے ہی اس دور میں اپنے کر توتوں سے قانون کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں۔جب با غباں ہی چمن اجاڑنا شروع کر دے ، جب راہبر ہی راہزن بن جائیں ، جب محافظ ہی قاتل بن جائیں تو اس قوم کو ذلت و رسوائی اور درماندگی کی دلدل میں گرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اور نہ مظلوموں اور کمزوروں کو ان کی دہشت گردی سے کوئی بچا سکتا ہے، سوائے اس کے جسے اللہ بچانا چاہے۔ ان سفاک قاتلوں کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ ایک تو ان بے گناہوں کے بارے میں کسی قسم کی چھان بین یا تصدیق کیے بغیر ان کو گولیوں سے بھون دیا ، پھر اپنا جرم چھپانے کے لیے سانحہ کے حوالے سے سات مرتبہ اپنا موقف تبدیل کیا ، دہشت گرد ہونے کے جس شک کی بنا پر ان درندوں نے خون کی ہولی کھیلی تھی اگر اس میں کوئی بھی حقیقت ہوتی تو بار بار اپنے بیانات تبدیل نہ کرتے۔ قتل و غارت کا یہ عمل دانستہ کیا گیا ہے اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ  صاحب نے ہلاک ہونے والے ا فراد کے ورثاکے لیے دو کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کر دیا۔ کیا پہلے کبھی ایسا ہوا ہے کہ دہشت گردوں کو مارنے کے بعد ان کے وارثوں کو مالی امداد فراہم کی گئی ہو۔کیا دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسا  ہوتا ہے؟وزیر اعلیٰ کے اس اقدام سے یہ صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔اور اب ایک تازہ خبر یہ بھی پڑھنے میں آئی ہے کہ سانحہ ساہیوال کے مظلوموں کے گواہوں اور عینی شاہدین کو مختلف طریقوں سے دھمکایا جا رہا ہے کہ تاکہ اصل مجرم قانون کی گرفت میں نہ آسکیں۔ ویسے تو سچائی یہ ہے کہ اس ملک میں مجرموں کے ہاتھ قانون کے ہاتھوں سے کہیں زیادہ لمبے ہیں ہمیشہ قانون کے ہاتھ ان قاتلوں، لٹیروں ، غاصبوں اور مافیاؤں کی گرفت کے لیے چھوٹے پڑ جاتے ہیں۔

اور دوسری طرف ایک ماں بار بار یہ دھائی دے رہی ہے کہ ’’میں دہشت گرد کی ماں نہیں ہوں‘‘، ’’اگر میرا بیٹا دہشت گرد تھا تو مارا کیوں؟ اسے زندہ گرفتار کیوں نہیں کیا؟ انڈیا کے جاسوس کو زندہ گرفتار کر لیا، تو کیا میرے بیٹے کو زندہ نہیں پکڑ سکتے تھے؟‘‘، ’’میرے گھر جا کر دیکھیں ہمارا حال کیا ہوا ہے؟‘‘، ’’ہم کھاتے ہیں، پیتے ہیں ،روتے ہیں، ہماری ایک بچی ہے، اُسے لوگ کیا کہیں گے کہ تم دہشت گرد کی بیٹی ہو؟ مجھے کہیں گے کہ تم دہشت گرد کی ماں ہو، برائے مہربانی آپ نے ہم پہ جو یہ (دہشت گرد کا) لیبل لگایا ہے، اسے ہٹا دیں، ہمیں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں، میں رات کو سوتی ہوں تو مجھے ڈر لگتا ہے‘‘، یہ دہائی ساہیوال پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے ذیشان جاوید کی ضعیف اور معذور والدہ نے گزشتہ منگل کو اسلام آباد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے سامنے دی تو وہاں مکمل خاموشی چھا گئی۔ قارئین غور کریں تو یہ ماں اپنے بیٹے کے قتل کیے جانے پر کچھ اور نہیں مانگ رہی، وہ یہ بھی شکایت نہیں کر رہی کہ اُس کے بیٹے کو کیوں مارا گیا وہ تو رو رو کر بس اس بات کا تقاضا کر رہی ہے کہ اُس کے مارے جانے والے بیٹے کو کم از کم دہشت گرد تو نہ کہیں۔ جو سوال اس ماں نے اٹھایا، وہ ہر دوسرا شخص پوچھتا ہے کہ اگر ذیشان دہشت گرد تھا تو زندہ کیوں نہ پکڑا؟ اگر کلبھوشن کو زندہ پکڑا جا سکتا تھا تو اس کے بیٹے کو دہشت گرد قرار دے کر‘ بغیر کسی عدالتی فیصلے کے کیوں دن دہاڑے قتل کر دیا گیا؟ اِس ماں کو، اس کی بیوہ بہو اور پوتی کو ذیشان کے مرنے پر صبر تو آ ہی جائے گا لیکن ایک دہشت گرد کی ماں، ایک دہشت گرد کی بیوہ اور ایک دہشت گرد کی بیٹی کے لیبل کے ساتھ وہ معاشرے میں کیسے زندہ رہ سکتی ہیں؟ نہ سینیٹ کی کمیٹی کے پاس اس ماں کے سوالات کے جواب تھے اور نہ ہی حکومت ان سوالات کا ابھی تک کوئی جواب دے پائی ہے۔ یہ کیسا دہشت گرد تھا جو لاہور کے ایک محلے میں گزشتہ تین دہائیوں سے رہائش پذیر تھا جس کے ہمسائے اور رشتہ دار اُس کے اچھے کردار کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ کیسا آپریشن تھا جس میں ذیشان کو دہشت گرد قرار دے کر سب سے پہلے اُسے مارنے کا حکم دیا گیا اور اس حکم کی تکمیل میں تین معصوم جانوں کو بھی اس لیے بے دردی سے قتل کر دیا گیا کہ وہ اُس گاڑی میں سوار تھیں جسے ذیشان چلا رہا ویسے تو پاکستان کے حکمرانوں کی تاریخ عوام پر ظلم و زیادتی کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔پاکستان کی72سالہ تاریخ میں کوئی ایسا حکمران نہیں آیا ، جس نے ریاست اور اس میں بسنے والے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کوئی ایسا کام کیا ہو  جس سے عوام کو سکھ کا سانس لینا نصیب ہو ۔ کسی نے اپنے حکومت کے پائے مضبوط کرنے کے لیے کشت و خون کا بازار گرم رکھا اور کسی نے ملک و قوم کی دولت لوٹ کر اپنے لیے بیرون ملک محلات خریدے اور اپنے کاروبار ملکوں ملکوں پھیلا دئیے ۔اور عوام کو بے روزگاری، مہنگائی اور بنیادی ضرورتوں سے محرومی کے سوا کچھ بھی نہ دیا،جو بھی آیا اس نے عوام کو خوشنما اور دلفریب نعروں کا لولی پوپ دے کر اپنا مطلب نکالا، ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی مثال اس طوائف کی طرح ہے جو سب کی ہوتی ہے مگر کسی کی بھی نہیں ہوتی۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نفس میں خواہشوں، تمناؤں اور آرزؤوں کا ایک ایسا تاریک اور گھنا جنگل ہے جس میں حرص و ہوس ، انا پرستی اور چنگیزیت کے خونخوار درندے دندناتے پھرتے ہیں ۔اگر ہم اپنی فکری رفعتوں اور روحانی قوتوں کے ذریعے سے ان پر قابو پالیں توتو ہم انسانیت کے عظیم مرتبے کو چھو لیتے ہیں، لیکن جب حبّ جاہ، حبّ مال اور نفسِ امارہ کی منہ زور آندھیاں ہمارے قدموں میں لرزشیں پیدا کرتی ہیں اور ہمارے فکر و عمل میں شیطنیت غلبہ حاصل کر لیتی ہے۔اور پھر رحم کی جگہ سنگدلی، شفقت کی جگہ سفاکیت اور انصاف کی جگہ نا انصافی لے لیتی ہے۔حکمران اپنی ذاتی مصلحتوں کی آڑ میں اپنے ہی کار پردازوں کو عوام پر ظلم و بربریت کرتے ہوئے دیکھتے ہیں، اور ہر دلخراش واقعہ پر مگر مچھ کے آنسوں بہاکر سمجھتے ہیں کہ حکمرانی کا حق ادا ہوگیا۔ ہمارے وزیر اعظم پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی مملکت بنانے کے خواہشمند ہیں، لیکن شاید یہ نہیں جانتے کہ خواہش اور ارادے میں بہت فرق ہوتاہے۔اور پھر صرف ان کے چاہنے سے ان کا یہ خواب پورا نہیں ہوسکتا جب تک ان کی کابینہ کے لوگ بھی ان کے ہم خیال و ہم نوا نہ ہوں۔ اس لیے کہ اب تک وزیر اعظم صاحب کے وزراء کی کا رکردگی سے یہی صورت حال سامنے آئی ہے کہ وہ ان کی ریاست مدینہ کی خواہش کو اپنے وزیر اعظم کا ایک بچکانہ خیال ہی سمجھ رہے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ان کے وزیر اعظم ’’ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند ‘‘ والی خواہش دل میں رکھے بیٹھے ہیں۔ان کارندوںکی فکری گمراہیوںکے کئی ثبوت پیش کیے جا سکتے ہیں۔ مثلاً چند روز قبل ایک غیر مسلم ایم این اے نے حرمت ِ شراب کا بل ایوان میں پیش کیا تو خلافِ توقع حکومتی ارکان نے ہی اس کو تنقید کا نشانہ بنایا، حکومت کے مسلمان اہل کاروں کا یہ رد عمل ناقابل فہم بھی ہے اور افسوسناک اور شرم ناک بھی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ خود وزیر اعظم آگے آتے اور اپنے وزیر قانون کو حکم دیتے کہ وہ وزیر مذہبی امور کی مشاورت سے حرمت شراب کا ایک جامع بل اسلامی احکام کی روشنی میں تیار کریں اور پارلیمنٹ میں پیش کرکے منظور کرائیں تاکہ ریاست مدینہ کے نعرے کی عملی صداقت بھی نظر آئے۔اور جو مسلمان اس حکم کی تنفیذ کے خلاف ووٹ دے اسے دستورِ پاکستان کے تحت نا اہل قرار دلوا کر پارلیمنٹ سے باہر کیا جائے۔اور دوسری مثال ہے، بیرونی دباؤ میں آکر ملعونہ آسیہ کی رہائی جو ریاست مدینہ کے نعرے کو مشکوک بنا تی ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق22 جنوری2018کو یورپین یونین کا ترجمان جان فیجل پاکستان آیا تھا ، اس نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی تھی اور دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ میری آمد کا صرف ایک مقصد ہے کہ اگرآپ جی ایس پلس(GS+  ) کارینیول چاہتے ہیں تو اس کے سوا آپ کے پاس کوئی چارہ نہیں کہ آپ آسیہ کو رہا کریں۔ہمیں جواب میں یہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ ہماری عدالت کا معاملہ ہے جو ہمارا قانون فیصلہ کرے گا وہی ہوگا۔ لیکن اس ایشو پر سابقہ اور موجودہ حکمرانوں نے بالکل ایک جیسا رویہ اختیارکیا کیونکہ مغربی آقاؤں کی غلامی اور ان کے ہر حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دینا ہمارے حکمرانوں میں قدرِ مشترک ہے۔جب تک ہمارے حکمران اپنی سیاسی مصلحتوں کو چھوڑ کر ، اپنی عیش پرست زندگی کو خیر باد کہہ کر، اس دنیا کو عارضی ٹھکانا سمجھتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرکے اور اللہ کے سامنے اپنی مسئولیت کا خوف دل میں پیدا کرکے خود کو عوام کی فلاح، ان کی جان و مال کی حفاظت کا محافظ سمجھ کر اپنی روش نہیں بدلیں گے اس وقت تک ان کی حکومت میں خودغرض اور حرص و ہوس کے دیوانے لوگ اسی طرح دن دہاڑے اور سر راہ معصوم انسانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگتے رہیں گے۔لوٹ کھسوٹ کا بازار اسی طرح گرم رہے گا۔ اور یہ ارضِ پاک لہو لہو ہوتی رہے گی۔ اور ان تما م ظلم و زیادتیوں کی جواب دہی ان حکمرانوں کو اللہ کے سامنے کرنا ہوگی جو سب کچھ دیکھتے ہوئے مجرمانہ خا موشی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے ۔ عمران خان بڑے بڑے دعوے کر کے بر سر اقتدار آئے ہیں ، پاکستان کے عوام ان سے بہت سی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں ، اگر ان کے دور حکومت میں بھی وہی کچھ ہوتا رہا جو سابقہ حکومتوںکا انداز حکمرانی تھا تو وہ یہ نوشتۂ دیوار پڑھ لیں کہ ان کی حکومت کے دن بھی زیادہ لمبے نہیں ہوں گے۔اور پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی آرزو ان کے دل میں ہی رہ جائے گی۔ انھیں امیر المؤمنین سیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ قول یاد رکھنا چاہئے کہ ’’ اگر نہر فرات کے کنارے ایک کتے کا بچہ بھی بھوکا پیاسا مر گیا تو عمر سے پوچھا جائے گا‘‘۔    

جس  دیس   میں جاں کے   رکھوالے

 

 

خود   جانیں    لیں   معصوموں   کی

جس   دیس   میں  حاکم   ظالم   ہوں

 

سسکی   نہ   سنیں  مجبوروں   کی

جس   دیس   کے   عادل  بہرے  ہوں

 

  آہیں  نہ    سنیں    معصوموں   کی

تو وہاں انہیں اسلامی تاریخ کی بھی ورق گردانی کرلینی چاہیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

:إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ (البروج:10)

’’بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے‘‘ ہشام بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا کہ اﷲ ایسے لوگوں کو دردناک عذاب دے گا جو اس کی مخلوق کو اذیت دیتے ہیں۔ ارشاد نبوی ہے

:إِنَّ اللہَ يُعَذِّبُ الَّذِينَ يُعَذِّبُونَ النَّاسَ فِي الدُّنْيَا.(مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب الوعيد الشديد لمن عذب الناس بغير حق ،4/2018 ، رقم: 2613)

’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں لوگوں کو اذیت و تکلیف دیتے ہیں۔‘‘ جملہ اَئمہ تفسیر نے اس آیت کے تحت یہی موقف اختیار کیا ہے کہ مسلمانوں کو ظلم وجبر اور فتنہ و فساد کا نشانہ بنانے والوں کی سزا جہنم اور آگ ہے۔ امام فخر الدین رازی مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

کل من فعل ذلک وهذا أولی لأن اللفظ عام والحکم عام، فالتخصيص ترک للظاهر من غير دليل

’جو بھی مسلمانوں کو اذیت ناک تکلیف میں مبتلا کرے (خواہ ایسا کرنے والا خود اصلاً مسلمان ہو یا غیر مسلم، اس کے لیے عذاب جہنم ہے) یہ معنی زیادہ مناسب ہے کیونکہ لفظ عام ہے اور اس کا حکم بھی عام ہے اور اگر خاص کیا جائے تو یہ بغیر دلیل کے عام حکم کو خاص کرنا ہو گا۔‘‘(التفسير الکبيراز رازي، 31/ 111) اس لحاظ سے حکم الآیت کا اِطلاق زمانہ قدیم کے اَصْحَابُ الْاُخْدُوْد وغیرہ کی طرح کلمہ گو دہشت گردوں پر بھی یکساں ہوگا۔

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ بُرَيْدَةَ عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی الله عليه وآله وسلم : قَتْلُ الْمُوْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللہِ مِنْ زَوَالِ الدُّنْيَا.

’’سیدنا عبد اﷲ بن بریدہ رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم نے فرمایا: مومن کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کے برباد ہونے سے بڑا ہے۔‘‘(نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب تعظيم الدم، 7: 82، 83، رقم: 39883990 ۔طبراني، المعجم الصغير، 1: 355، رقم: 594 بيهقي، السنن الکبری، 8: 22، رقم: 15647امام طبرانی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔) ایک روایت میں کسی بھی شخص کے قتلِ نا حق کو دنیا کے مٹ جانے سے بڑا حادثہ قرار دیا گیا ہے۔

سکھوں کا مکہ مدینہ

وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان نے گزشتہ دنوں اپنے خطاب کے دوران کہا کہ سکھوں کا مکہ مدینہ پاکستان میں ہے ۔ ویسے تو جناب وزیراعظم کو جو دل میں آئے وہ کہنے کا پورا پورا حق ہے کیونکہ وہ حکمران ہیں اور باقی سب رعایا۔ وہ تاریخ بدل سکتے ہیں ۔ سیدناعیسیٰ علیہ السلام کو غیر معروف کہہ سکتے ہیں ۔ اپنے ہر اقدام کو ریاست مدینہ کا اصول قرار دے سکتے ہیں۔ انہیں سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں ایسے حامی میسر ہیں جو ان کے ہر اقدام اور ہر لفظ کو ہر صورت درست قرار دیتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود ان سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ اگر وہ خالص اسلامی دینی اصطلاحات کو یوں بے توقیر نہ کریں تو عین نوازش ہو گی ۔ مکہ مدینہ صرف شہروں کے نام نہیں بلکہ حرمین الشریفین کا مقام رکھتے ہیں ان کیساتھ بہت سے اسلامی احکامات منسلک ہیں ۔ عبادت اور ثواب کا مقام حاصل ہے ۔ آپ سکھوں کو ضرور سہولیات دیں ۔ ان کو خوش کریں لیکن یہ سب اسلامی و دینی اصطلاحات کے بغیر بھی کیا جا سکتا ہے ۔ وہ زیادہ خوش ہوں گے ۔ ان کےلئے مکہ و مدینہ کے الفاظ شاید اتنے اہمیت کے حامل بھی نہ ہو ۔ آپ ان کی ہی اصطلاحات استعمال کر سکتے ہیں۔ ہر مذہب میں عبادات ۔ اصطلاحات کا الگ الگ مقام ہوتا ہے ۔ آپ بھجن گانے کو عین نماز پڑھنا نہیں کہہ سکتے ۔ کمبھ میلے کو حج کے مترادف کہنا مناسب نہیں ۔ اسی طرح اللہ تعالی اور بھگوان کے ناموں سے ایک ہی تصور نہیں ابھرتا ۔یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے آجکل وزیر اعظم کو خلیفۃ المسلمین کہہ دیا جائے ۔ یا پھر صدر کو بادشاہ سلامت اور عوام کو غلام ۔ یقینا یہ مناسب نہیں لگے گا کیونکہ ان عہدوں کا تصور ہی ایسا نہیں ہے ۔ اسی طرح سکھوں کے مقدس مقامات کو مکہ مدینہ کہنا بھی مناسب نہیں ۔ جنم بھومی و جنم استھان کے الفاظ ہی مناسب ہیں ۔

وزارت عظمیٰ کے منصب کا تقاضہ ہے کہ ان کے الفاظ بھی انتہائی سنجیدہ اور جچے تلے ہوں ۔ مانا کہ اب ملک کا دینی طبقہ اس قدر سہم چکا ہے اور شاید بے حس تک ہو چکا ہے کہ وہ ایسی باتوں کا نوٹس تک نہیں لیتا ۔ آپ کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں لیکن پھر بھی ہم گزارش کرنے کی جسارت ضرور کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے