فتاوی: آپ کے مسائل کا حل قرآن وسنت سے
سوال : جنسی تعلق قائم کرنے کے دوران میاں اور بیوی کا ایک دوسرے کی شرمگاہ کو منہ لگانا کیسا ہے ؟

جواب : شریعت مطہرہ انسانیت کی تکریم اور اس کی حفاظت کے لیے آئی ہے اور اسلام انسان کو ہر اس کام سے منع کرتاہے جس کی وجہ سے اس کی صحت،عقل یا عزت میں کوئی نقص واقع ہو اگر انسان شریعت کی حدود اور قیود کو اپنے اوپر لاگو کرے تو وہ اشرف المخلوقات کہلائے گا اور اگر وہ اسلام سے دوری اختیار کرے تو پستی اور ہلاکت کا مستحق ٹھہرے گا۔ نبی کریم کی بعثت کا مقصد یہ ہے کہ آپ  انسانیت کو اخلاق کی معراج پر پہنچائیں۔ فرمان نبوی  ہے :

إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِمَ الْأَخْلَاقِ (سنن الکبری للبیہقی:20782)

میری بعثت کا مقصد یہی ہے کہ میں انسانوں کو اخلاق کے اعلیٰ ترین مقام پر پہنچاؤ۔

بحیثیت مسلمان ہم سب پر لازم ہے کہ ہم خوشی وغمی الغرض ہر حالت میں ان امور کی پابندی کریں جس کی طرف شریعت ہمیں راہنمائی کرتی ہے کیونکہ وہی اعلیٰ ترین اخلاق ہے جس کی طرف رسول اللہ  نے ہمیں دعوت دی ، اب بیوی  سے جنسی تعلق قائم کرنا ایک فطری عمل ہے جس کا کوئی صاحب عقل انکار نہیں کرسکتا ۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے کہ وہ انسان کو اس کی زندگی کے ہر پہلو میں حیوانیت اور بے راہ روی سے دور رکھتا ہے تاکہ اس کی شہوت پوری ہو اور اس کی صحت،عقل اور عزت پر بھی کوئی اثر نہ پڑے اور یہ کہ مرد کی عضو تناسل یا عورت کی شرمگاہ کو منہ لگاناکو منہ میں لینا شرعاً بھی جائز نہیں اور اخلاقی لحاظ سے بھی شریعت کے منافی ہے،ایک بات یاد رکھیں کہ شریعت نے تو مسلمان کو اس ہاتھ سے بھی شرمگاہ کو چھونے سے منع کیا جس ہاتھ سے وہ کھانا کھاتاہے یعنی جو ہاتھ منہ میں جاتاہے اس ہاتھ سے شرمگاہ کو چھونا شرعاً درست نہیں تو شریعت مطہرہ ایک انسان کو اشرف المخلوقات ہونے کی حیثیت سےمنه میں شرمگاہ لينے کی اجازت کیسے دے سکتی ہے ایک تو یہ عمل اخلاقاً درست نہیں اور دوسرا انسانیت کی حیا کے خلاف ہےرسول اللہ  کا فرما ن ہے  :

إِذَا شَرِبَ أَحَدُكُمْ فَلاَ يَتَنَفَّسْ فِي الإِنَاءِ، وَإِذَا أَتَى الخَلاَءَ فَلاَ يَمَسَّ ذَكَرَهُ بِيَمِينِهِ، وَلاَ يَتَمَسَّحْ بِيَمِينِهِ (صحیح البخاری:153)

’’جب تم میں سے کوئی شخص کوئی چیز نوش کرے تو برتن میں سانس نہ لے، نیز جب بیت الخلا آئے تو دائیں ہاتھ سے اپنی شرمگاہ کو نہ چھوئے اور نہ اس سے استنجا کرے۔‘‘

یعنی جس دائیں ہاتھ سے کھانا کھایا جاتاہے اس ہاتھ سے استنجاء کرنا شرعاً درست نہیں ایک اور حدیث اس سے زیادہ واضح الفاظ موجود ہے۔

عَنْ حَفْصَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ:أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْعَلُ يَمِينَهُ لِطَعَامِهِ وَشَرَابِهِ وَثِيَابِهِ، وَيَجْعَلُ شِمَالَهُ لِمَا سِوَى ذَلِكَ(سنن ابي داود،كتاب الطهارة ،باب كراهية مس الذكر باليمين في الاستبراء، الحديث:32)

’’ام المؤمنین سیدہ حفصہ زوجہ نبی کریم بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم اپنا دایاں ہاتھ کھانے پینے اور پہننے ( جیسے کاموں ) میں استعمال کیا کرتے تھے اور بایاں ہاتھ اس کے علاوہ دوسرے کاموں میں ۔‘‘

اور اسی طرح اللہ کے رسول کا فرمان گرامی ہے

مَنْ مَسَّ ذَكَرَهُ فَلَا يُصَلِّ حَتَّى يَتَوَضَّأَ(سنن الترمذی:82)

’’جواپنی شرمگاہ چھوئے توجب تک وضونہ کرلے اس وقت تک نماز نہ پڑھے۔‘‘

ان احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ شریعت نے باقاعدہ اس عمل کا سدباب کیا اور اس کے قریب لے جانے والے کاموں سے بھی دور رکھا یعنی جو ہاتھ منہ میں جاتاہے اس ہاتھ سے شرمگاہ کو چھونے اور جو ہاتھ شرمگاہ کے لیے استعمال ہوتاہے اس ہاتھ سے منہ کا تعلق ختم رکھا یعنی بائیں ہاتھ سے کھانا کھانا شرعاً درست نہیں۔

اور اسی طرح رسول اللہ  نے فرمایا :

السِّوَاكُ مَطْهَرَةٌ لِلْفَمِ مَرْضَاةٌ لِلرَّبِّ(سنن النسائی:5۔ ابن ماجہ :289)

’’مسواک منہ کو پاک کرنے والی ہے اور رب کی رضا کا سبب ہے۔‘‘

یعنی منہ پاک وصاف رکھنے سے رب کی رضا کا حصول ہوتاہے اور شرمگاہ کو منہ میں لینا منہ کی طہارت کے منافی ہے کیونکہ شرمگاہ فاضل اور ناپاک مادوں کے اخراج کے لیے ہے اس کو منہ میں لینے(جس منہ سے بندہ اپنے خالق سے مخاطب ہوتاہے یا آپس میں رابطہ قائم کرتاہے) سے منع فرمايا اور اس بات کو سامنے رکھنا کہ منی پاک ہے کہ ناپاک تو اس میں پہلی بات یہ ہے کہ منی کے پاک ہونے پر کوئی اجماع نہیں ہے اور منی کے پاک ہونے کی صورت میں بھی اس کو کھانا یا منہ میں ڈالنا جائز نہیں کیونکہ ہر پاک چیز نہ منہ میں ڈالی جاتی اور نہ کھائی جاتی ہے جیسے مٹی یا تھوک وغیرہ ۔اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ شرمگاہ سے صرف منی خارج نہیں ہوتی بلکہ شرمگاہ سے مذی،ودی اور پیشاب بھی خارج ہوتاہے اور ان تینوں کا ناپاک ہونے پر اتفاق ہے اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ ہر ناپاک چیز حرام ہے اور اس کو منہ میں رکھنا بھی حرام ہے ورنہ گٹکا، پانی، تمباکو اور اس کے علاوہ کئی ایسی نشہ آور چیزیں ہیں جن کو صرف منہ میں رکھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود کوئی بھی صاحب عقل اس بات کا قائل نہیں کہ ان کو منہ میں رکھنا حلال ہے اور جبکہ ایسی نشہ آور اشیاء کی حرمت پر فتاویٰ موجود ہیں اس سے معلوم ہوا کہ حرام چیز کو منہ میں رکھنا بھی حرام ہے ۔

اور مذی شہوت کے وقت خارج ہوتی ہے یعنی منی کے اخراج سے پہلے ایک ایسا مادہ خارج ہوتاہے جس کی ناپاک ہونے میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں۔

ان تمام دلائل کو سامنے رکھنے کے بعد کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ شرمگاہ منہ میں لینے کو درست سمجھے یا اس فعل کے ارتکاب کا سبب بنیں۔ یہ عمل حرام ہے اور سراسر شریعت کے منافی ہے ۔اور ایسے ہی کسی کی منی کا چاٹنا یا کھانا فطرتی طور پردرست نہیں۔واللہ اعلم بالصواب

 

کتبہ:عبد الرحمن شاکر(متعلم جامعہ ہذا)

صححہ: محمد شریف بن علی (نائب مفتی جامعہ ہٰذا)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے