میاں محمد جمیل

عربی ڈکشنری  کے لحاظ سے لفظِ شرک کا مصدر (روٹ) ’’شرکۃ‘‘ اور اشراک سے بنا ہے جس کا معنٰی ہے ۔دو ملکوں یا دو چیزوں کا اکٹھا ہونا۔ برصغیر میں دینِ اسلام کے عظیم سکالر اور محدث شاہ ولی اللہa نے شرک کا مفہوم ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔

1ایک سے زیادہ خدائوں کا عقیدہ رکھنا۔

2 اللہ تعالیٰ کے اسمائے گرامی جیسے نام رکھنا جیسے داتا،گنج بخش وغیرہ۔

3 ذاتِ کبریاء کی صفات جیسی کسی میں صفات سمجھنا اور اسے لجپال، عزت دینے والاجاننا۔یہ اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک شرک ہے جو سب سے بڑا جرم اور گناہ ہے۔

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِيْدًا (النساء:116)

’’یقیناً اللہ تعالیٰ ہرگز نہیں معاف کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے، شرک کے علاوہ جس کے چاہے گا گناہ معاف فرما دے گا، جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ دور کی گمراہی میں مبتلا ہو چکا۔‘‘

عَنْ عَبْدِ اللہِ t قَالَ سَأَلْتُ أَوْ سُئِلَ رَسُولُ اللہِeأَیُّ الذَّنْبِ عِنْدَ اللّٰہِ أَکْبَرُ قَالَ  أَنْ تَجْعَلَ لِلّٰہِ نِدًّا وَھُوَ خَلَقَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ  ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَکَ خَشْیَۃَ أَنْ یَطْعَمَ مَعَکَ قُلْتُ ثُمَّ أَیٌّ قَالَ  أَنْ تُزَانِیَ بِحَلِیلَۃِ جَارِکَ (رواہ البخاری: کتاب التفسیر، باب قولہ الذین لایدعون مع اللہ …)

’’سیدناعبداللہ(ابن مسعود) tبیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول e سے سوال کیا گیا کہ کونسا گنا ہ اللہ کے ہاں سب سے بڑا ہے ؟آپ نے فرمایا:  تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے حالانکہ اس نے تجھے پید اکیا ہے۔ میں نے پھر سوال کیا۔ اس کے بعد ؟آپe نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی ۔میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی کے ساتھ زنا کرے ۔‘‘

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ tعَنِ النَّبِیِّ e قَالَ  یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَھْوَنِ أَھْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَھْوَنَ مِنْ ھَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ (رواہ مسلم: کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار)

’’نبی eسے سیدنا انس بن مالک tبیان کرتے ہیں، آپe فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب پانے والوں سے متعلق پوچھےگا اگر دنیا اور جو کچھ اس میں ہے تیرے پاس ہو ۔کیا اسے فدیہ کے طور پردینے کے لیے تیار ہے ؟وہ کہے گا۔ جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ جب تو آدم کی پُشت میں تھا۔ میں نے تجھ سے اس سے چھوٹی بات کا مطالبہ کیا تھا وہ یہ کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ حدیث بیان کرنے والا سمجھتا ہے کہ آپ eنے یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں تجھے جہنم میں نہ ڈالتا لیکن تو شرک سے باز نہ آیا ۔ ‘‘

قرآن مجید اور حدیث رسولeسے ثابت ہوتا ہے کہ شرک کی ابتدا سیدنا نوحu کی قوم سے ہوئی۔ انہوں نےسیدنا آدمu کے پانچ بزرگوںکے نام پر بت بنائے اور ان کی پوجا شروع کر دی۔ علامہ ابن کثیر نے تاریخ ابن عساکر کے حوالے سے لکھا ہے کہ سیدنا آدمu کے بیس بیٹے اور بیس بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں میں سے ایک بیٹے کا نام ودّ تھا۔ مورخین نے ان کا نام شیث بھی بتلایا ہے۔ ان کے بھائیوں نے اُسے اپنا سردار تسلیم کیا اور یہ اپنے وقت کے نبی تھے۔ ان کے صاحبزادےسواع، یغوث، یعوق اور نسر تھے۔ (تفسیر ابن کثیر: سورۃ آیت ولا تذرن وداً…)

فَلَمَّا مَاتُوا قَالَ أَصْحَابُهُمُ الَّذِينَ كَانُوا يَقْتَدُونَ بِهِمْ: لَوْ صَوَّرْنَاهُمْ كَانَ أَشْوَقَ لَنَا إِلَى الْعِبَادَةِ إِذَا ذَكَرْنَاهُمْ، فَصَوَّرُوهُمْ، فَلَمَّا مَاتُوا، وَجَاءَ آخَرُونَ دَبَّ إِلَيْهِمْ إِبْلِيسُ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانُوا يَعْبُدُونَهُمْ، وَبِهِمْ يُسْقَوْنَ الْمَطَرَ فَعَبَدُوهُمْ (تفسیر ابن جریر آیت ولا تذرن ودّاً…)

’’یہ بزرگ جب وفات پا گئے تو ان کے عقیدت مندوں نے کہا ہم ان کی تصویریں بنا لیں، تاکہ ہم ان کی صورتیں دیکھ کر ان کی یاد تازہ کریں۔ جس سے اللہ کی عبادت میں لذت اور شوق پیدا ہو گا، اس بنا پر انہوں نے ان کے مجسمے بنا لیے ۔ اس طرح عبادت کرنے اور مجسمے بنانے والے جب فوت ہو گئے تو ان کی اولاد کو شیطان نے سمجھایا کہ تمہارے بڑے ان کی عبادت کیا کرتے اور انہی کے صدقے بارش سے سیراب ہواکرتے  تھے، چنانچہ انہوں نے ان بتوں کی پوجا شروع کر دی۔‘‘

وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ عُزَيْرُ ا۟بْنُ اللّٰهِ وَقَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِيْحُ ابْنُ اللّٰهِ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِـُٔوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ (التوبۃ:30)

’’اوریہودیوں نے کہاعزیراللہ کا بیٹا ہے اور نصاریٰ نے کہامسیح اللہ کابیٹا ہے یہ ان کی اپنی باتیں ہیں۔ وہ ان لوگوں جیسی بات کر رہے ہیں جنہوں نے ان سے پہلے کفر کیا۔اللہ انہیںغارت کرے، کدھربہکائے جارہے ہیں۔‘‘

یہودیوں نے اپنی جہالت کی بناء پر یہ عقیدۃ بنایا کہ عزیرu اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔ جس کے دو سبب مفسرین بیان کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ جب موسیٰu کی وفات کے بعد یہودیوں پر بختِ نصر نے حملہ کیا تو اس نے کلی طور پر تورات ختم کرنے کا حکم دیا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ دنیا میں تورات بالکل ناپید ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے دینِ موسوسی کی تجدید کے لیے عزیرu کو مبعوث فرمایا۔ جنہوں نے وحی الٰہی کی روشنی میں تورات کو دوبارہ لکھوایا۔ دوسری وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ عزیرu سو سال تک فوت رہے اللہ تعالیٰ نے انہیں پھر زندہ فرمایا جب وہ اٹھے تو ان کے سامنے ان کے گدھے کو زندہ کیا اور جو کھانا سیدناعزیر کے ساتھ تھا وہ سو سال گزرنے کے باوجود پہلے کی طرح تروتازہ رہا۔ اس کی تفصیل سورۃ البقرۃ آیت ۲۶۰ میں بیان کی گئی ہے ان معجزات کی بناء پر یہودیوں نے سيدنا عزیر u کو اللہ کا بیٹا قرار دیا۔

یہودیوں نے عقیدت میں آ کرسیدناعزیرuکو اللہ تعالیٰ کا بیٹا قرار دیا، ان کی دیکھا دیکھی عیسائیوں نے سیدناعیسیٰuکو اللہ کا بیٹا اور سیدہ مریم کو اللہ تعالیٰ کی بیوی قرار دیتے ہیں۔ ان میں بے شمار عیسائی ایسے ہیں جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ سیدنا عیسیٰu ہی ’’اللہ‘‘ ہیں۔  ان کے بقول ’’اللہ‘‘ عیسیٰu بن کر اُتر آئے ہیں۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ وَقَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِيْ اِسْرَآءِيْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَرَبَّكُمْ اِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْا اِنَّ اللّٰهَ ثَالِثُ ثَلٰثَةٍ وَمَا مِنْ اِلٰهٍ اِلَّا اِلٰهٌ وَّاحِدٌ وَاِنْ لَّمْ يَنْتَهُوْا عَمَّا يَقُوْلُوْنَ لَيَمَسَّنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ اَفَلَا يَتُوْبُوْنَ اِلَى اللّٰهِ وَيَسْتَغْفِرُوْنَهٗ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَاُمُّهٗ صِدِّيْقَةٌ كَانَا يَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ اُنْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْاٰيٰتِ ثُمَّ انْظُرْ اَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ (المائدۃ:72 تا75)

’’بلاشبہ وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہاکہ ’’اللہ‘‘ مسیح ہی تو ہے جومریم کابیٹا ہے، حالانکہ مسیح نے کہا۔ اے بنی اسرائیل! اللہ کی عبادت کرو جو میرا رب اور تمہارا رب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے گا بلاشبہ اس پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے اور ظالموں کے لیے کوئی مدد کرنے والا نہیںہو گا۔ ’’یقیناً  وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ ’’اللہ‘‘ تین میں سے ایک ہے، حالانکہ ایک معبود کے سواکوئی معبودِ برحق نہیں ۔ اگر اس سے باز نہ آئے تو ان میں سے جن لوگوں نے کفرکیاانہیں ضرور دردناک عذاب ہو گا۔ وہ ’’اللہ‘‘ کے حضور توبہ اور اس سے بخشش کیوں نہیں مانگتے ، اللہ بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔مسیح ابن مریم ایک رسول ہیں ۔ ان سے پہلے بہت سے رسول گزر چکے ہیں اور ان کی والدہ صدیقہ ہے، دونوں کھانا کھایا کرتے تھے دیکھیں ہم ان کے لیے کس طرح آیات کھول کر بیان کرتے ہیں پھروہ کیسے بہکائے جاتے ہیں۔ ‘‘

یہود و نصاریٰ نے صرف اس پر اکتفا نہیںکیا کہ عزیرu اور عیسیٰu ’’اللہ‘‘ کے بیٹے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے بڑھ کر اپنے آپ کو ’’اللہ‘‘ کے بیٹے قرار دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم ’’اللہ‘‘ کے محبوب اور لاڈلے ہیں ۔

وَقَالَتِ الْيَهُوْدُ وَ النَّصٰرٰى نَحْنُ اَبْنٰٓؤُا اللّٰهِ وَ اَحِبَّآؤُهٗ قُلْ فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ يَغْفِرُ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ يُعَذِّبُ مَنْ يَّشَآءُ وَلِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ (المائدۃ:18)

’’اوریہود ونصاریٰ نے کہا ہم ’’اللہ‘‘ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں ان سے پوچھیں کہ پھروہ تمہارے گناہوں کی وجہ سے تمہیںکیوں سزا دیتا ہے؟ بلکہ تم انسان ہو جو اس نے پیدا کیے ہیں وہ جسے چاہتا ہے معاف کرتاہے اورجسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے، آسمانوں ، زمینوں اوران کے درمیان جو کچھ ہے اس کی بادشاہی ’’اللہ‘‘ ہی کے لیے ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘

یہود، نصاریٰ کی طرح ایرانیوں نے قبل از اسلام کسی کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا تو نہیں بنایا لیکن انہوں نے دو خدا بنا لیے ایک کا نام یزدان اور دوسرے کا نام اہرمن رکھا بقول ان کے یزدان خیر اور نفع دینے کا اور اہرمن سزا دینے اور نقصان سے دوچار کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ جس کی اللہ تعالیٰ نے یوں تردید فرمائی ہے:

وَقَالَ اللّٰهُ لَا تَتَّخِذُوْا اِلٰهَيْنِ اثْنَيْنِ اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ فَاِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ وَلَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَهُ الدِّيْنُ وَاصِبًا اَفَغَيْرَ اللّٰهِ تَتَّقُوْنَ  (النحل: 51۔52)

’’اور اللہ نے فرمایادومعبود نہ بنائو وہ صرف ایک ہی معبود ہے بس صرف مجھ ہی سے ڈرو،اسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے۔ عبادت ہمیشہ اسی کی کرنی ہے۔ کیا ’’اللہ ‘‘کے سوا دوسروں سے ڈرتے ہو۔‘‘

اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اے لوگو! دو الٰہ نہ بناؤ۔ یاد رہے کہ اسلام سے قبل ایرانیوں نے دو الٰہ بنا رکھے تھے حالانکہ اس حقیقت میں رائی کے دانے کے برابر بھی شبہ نہیں کہ کائنات کاخالق اورمالک ایک ہی اِلٰہ ہے۔ اس کا حکم ہے کہ صرف مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔ کیونکہ زمین و آسمان اور جو کچھ ان میں ہے۔ ’’اللہ‘‘ ہی ان کا دائمی مالک اور حقیقی خالق ہے، لہٰذا اسی سے ڈرنا ہے اور اس کے ساتھ شرک کرنے سے بچنا چاہئے۔ کیونکہ زمین وآسمان اور ہر چیز اسی کی مِلک ہے اور ہر چیز اسی کی عبادت اور اطاعت کر رہی ہے۔لہٰذا انسان پر لازم ہے کہ وہ کسی دوسرے کی عبادت کرنے کی بجائے صرف ایک رب کی عبادت کرے۔ یہ تبھی ہو سکتا ہے جب انسان اپنے نفع و نقصان اور ہر چیز کا مالک صرف اللہ تعالیٰ کو سمجھے۔ لیکن مشرک کا یہ ذہن ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے بھی فائدہ دینے اور و نقصان پہنچانے کا اختیار رکھتے ہیں ۔اسی لیے کوئی مزاروں کے سامنے جھکتا ہے اور کوئی بتوں، جنات اوردوسری چیزوں سے ڈرتاہے۔ایسے لوگوں کو تنبیہ کی جا رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے ڈرتے ہو حالانکہ زمین و آسمان اور ان کے درمیان ہر چیز اللہ تعالیٰ کی نہ صرف مِلک ہے بلکہ اس کی اطاعت اور بندگی میں لگی ہوئی ہے۔

اہل مکہ شرک کرنے میں سب سے آگے بڑھ گئے یہ ہر قسم کا شرک کرنے کے ساتھ ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔

وَيَجْعَلُوْنَ لِلّٰهِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَهٗ وَلَهُمْ مَّا يَشْتَهُوْنَ وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِالْاُنْثٰى ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّهُوَ كَظِيْمٌ يَتَوَارٰى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓءِ مَا بُشِّرَ بِهٖ اَيُمْسِكُهٗ عَلٰى هُوْنٍ اَمْ يَدُسُّهٗ فِي التُّرَابِ اَلَا سَآءَ مَا يَحْكُمُوْنَ (النحل: 57تا59 )

’’اور وہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیا ں تجویز کرتے ہیں ، حالانکہ وہ پاک ہے اور ان کے لیے وہ ہے یعنی بیٹے ہیں جو وہ چاہتے ہیں، جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبر ی دی جاتی ہے تو اس کا منہ کالا ہوتا ہے اور وہ پریشان ہوجاتا ہے اور اس خوشخبری کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کیا اس ذلت کو برداشت کر لے یا اسے زمین میں گاڑدے، خبردار ! برا فیصلہ ہے جو وہ کرتے ہیں ۔‘‘

اَمِ اتَّخَذَ مِمَّا يَخْلُقُ بَنٰتٍ وَّ اَصْفٰىكُمْ بِالْبَنِيْنَ  وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُهُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمٰنِ مَثَلًا ظَلَّ وَجْهُهٗ مُسْوَدًّا وَّهُوَ كَظِيْمٌ اَوَ مَنْ يُّنَشَّؤُا فِي الْحِلْيَةِ وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِيْنٍ وَجَعَلُوا الْمَلٰٓىِٕكَةَ الَّذِيْنَ هُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا اَشَهِدُوْا خَلْقَهُمْ سَتُكْتَبُ شَهَادَتُهُمْ وَيُسْـَٔلُوْنَ (زخرف: 16تا19)

’’کیا اللہ نے اپنی مخلوق سے اپنے لیے بیٹیاں اور تمہارے لیے بیٹے پسند کیے ہیں ؟حالانکہ جن کو یہ لوگ الرّحمان کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کی پیدائش کی خبر ان میں سے کسی کو دی جاتی ہے تو اس کے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم زدہ ہو جاتا ہے۔ کیا ’’اللہ‘‘ کی اولادوہ ہے جو زیور میں پرورش پاتی ہے اور بحث وتکرار میں پوری طرح اپنا مدعا واضح نہیں کر سکتی اور انہوں نے فرشتوں کو جو رحمٰن کے عبادت گزار ہیں عورتیں قرار دے لیا۔ کیا ان کی پیدائش کے موقع پر یہ موجود تھے؟ ان کی یہ گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے (اس چیز کی) باز پرس کی جائے گی ۔‘‘

اہل مکہ کی طرح بے شمار لوگوں کا عقیدہ تھا اور ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیںجو اس کے نور سے پیدا ہوئی ہیں۔ جس کی قرآن مجید نے عقلی اور فطری حوالے سے یہ کہہ کر تردید کی ہے کہ یہ لوگ کس قدر ناعاقبت اندیش ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں مقرر کرتے ہیں اور اپنے لیے بیٹے ۔حالانکہ ’’اللہ ‘‘کو اولاد کی حاجت نہیں اور وہ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے ۔ان کی اپنی حالت یہ ہے کہ ان کے ہاں بیٹی پیدا ہوتو انہیں خوشخبری اور مبارک دی جائے تو ان کے چہرے سیاہ اور غمزدہ ہو جاتے ہیں اور اس خوشخبری کو اپنے لیے ذلت اور عار سمجھتے ہیں ۔ اس ذلت کی وجہ سے سوچتے ہیں کہ بیٹی کود زندہ رہنے دیں یا زمین میں گاڑ دیں۔ غور کریں کہ یہ کس قدر بُرا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہاں پہلی بات یہ سمجھائی گئی ہے کہ بیٹی کو اس لیے ذلت کا باعث سمجھنا کہ وہ کمانے کی بجائے کھانے کے لیے پیدا ہوتی ہے یا اس کی وجہ سے دوسرا شخص اس کا داماد بن جاتا ہے۔ اس سوچ کی بنا پر بیٹی کو برا جاننا اور اسے زندہ درگور کر دینا بدترین فیصلہ ہے ۔ اس کے ساتھ یہ حقیقت بھی بتلا دی کہ مشرک اپنے لیے بیٹے پسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے بیٹیاں تجویز کرتا ہے یہ سوچ اخلاقی اور اعتقادی طور پر بدترین ہے۔

مشرکین کی مردہ فطرت کو بیدار کرنے کے لیے ان کی نفسانی کیفیت اور فطری خواہش کا ذکر فرما کر سوال کیا ہے کہ کیااللہ تعالیٰ نے اپنے لیے بیٹیاں پسند کی ہیں جو زیور کو پسند کرتی ہیں یعنی نرم ونازک اور کمزور ہوتی ہیں اور بحث و تکرار کے دوران اپنا مؤقف کھول کربیان نہیں کر سکتیںکسی کے ساتھ جھگڑا ہو جائے تو حیا اور جذبات سے مغلوب ہو کر رو پڑتی ہیں۔کیا انہیں ’’الرحمٰن‘‘ کے لیے پسندکرتے ہو اوراپنے لیے اُسے عار سمجھتے ہو ۔ غور کروکہ یہ کیسی سوچ اور فیصلہ ہے ؟ جس بنا پر تم نے ملائکہ کو ’’الرحمٰن‘‘ کی بیٹیاں قرار دے رکھا ہے حالانکہ ملائکہ اس کے غلام ہیں کیا یہ بات کہنے والے اس وقت موجود تھے ؟ جب اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کو اپنی بیٹیاں قرار دیا تھا کہ ان کی گواہی لکھ لی جائے ایسی بات ہرگز نہیں۔ یہ عقیدہ رکھنے اور ہرزہ سرائی کرنے والوں کو قیامت کے دن ضرور جواب دینا ہوگا۔

وَجَعَلُوْا لَهٗ مِنْ عِبَادِهٖ جُزْءًااِنَّ الْاِنْسَانَ لَكَفُوْرٌ مُّبِيْنٌ (الزخرف: 15)

’’لوگوں نے اللہ کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا لیا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انسان واضح طور پر ناشکرا ہے۔‘‘

 مشرکین اللہ تعالیٰ کی خالقیّت کا اعتراف کرنے اوراس کی نعمتوں سے مستفید ہونے کے باوجود ’’اللہ‘‘ کے بندوں میں سے کچھ بندوں اور فرشتوں کو اس کا حصہ بناتے ہیں۔جوکفر اور اس کی ناشکری کی واضح نشانی ہے قومِ نوحuنے پانچ فوت شدگا ن کواللہ تعالیٰ کا جز بنایا، ابراہیمuکی قوم نے اپنے بادشاہ کو رب تسلیم کیا ،فرعون نے اپنے آپ کو ’’رب الاعلیٰ‘‘ کے طورپر منوایا ،یہودیوں نے عزیرuکو اللہ کا بیٹا قرار دیا، عیسائیوں نے عیسیٰ u اوران کی والدہ مریمiکو رب کا جز بنایا۔ امتِ مسلمہ اس حد تک گراوٹ کا شکار ہوئی کہ اس میںایک فرقہ پنچتن پاک کی محبت میں شرک کا ارتکاب کرتا ہے اورکثیر تعداد نبیu کو’’ نور من نوراللہ ‘‘کے طور پر مانتی اوریارسول اللہ کہہ کر آپ سے مدد مانگتی ہے۔

مذکورہ بالا آیت میں شرک کوپرلے درجے کی ناشکری قراردیا گیاہے شرک کرنے والا اس لیے ناشکرا ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی عزت و عظمت کی خاطر صرف اپنے سامنے جھکنے اور دردر کی ٹھوکروں سے بچنے کا حکم دیالیکن مشرک اس بات پرراضی اوراس نعمت پر شکر گزارہونے کی بجائے دردر کی ٹھوکروں کوپسند کرتاہے۔ اس سے بڑھ کرانسا ن کی ناشکری کیا ہوسکتی ہے ؟

وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ وَخَرَقُوْا لَهٗ بَنِيْنَ وَبَنٰتٍ بِغَيْرِ عِلْمٍ سُبْحٰنَهٗ وَتَعٰلٰى عَمَّا يَصِفُوْنَ  بَدِيْعُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اَنّٰى يَكُوْنُ لَهٗ وَلَدٌ وَّلَمْ تَكُنْ لَّهٗ صَاحِبَةٌ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ  ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْهُ وَهُوَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ(الانعام: 100تا102)

’’اورانہوں نے جنوں کو اللہ کا شریک بنادیا، حالانکہ اللہ ہی نے انہیں پیداکیا ہے یہ لوگ بغیرعلم کے اللہ کے لیے بیٹے اوربیٹیاں بناتے ہیں ، وہ پاک ہے اور اس شرک سے بہت بلند و بالا ہے وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اس کی اولاد کیسے ہوگی کیونکہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے ہرچیز پیدا کی اور وہ ہرچیز کو خوب جاننے والا ہے۔ یہی ’’اللہ‘‘ تمہار ا رب ہے اس کے سوا کوئی سچا معبود نہیں ، ہرچیز کوپیداکرنے والا ہے سو تم اسی کی عبادت کرو اور وہ ہرچیز پرنگہبان ہے۔‘‘

 کائنات کی تخلیق کے لیے بدیع کا لفظ استعمال فرما کر واضح کیا کہ جس ’’اللہ‘‘ نے بغیر کسی پہلے سے موجود نقشے اور میٹریل کے اوپر نیچے سات آسمان اور تہ بہ تہ سات زمینیں پیدا کی ہیں اسے اولاد کی کیا ضرورت ہے ؟اولاد انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور قلبی سکون کا باعث ، اس کی زندگی کا سہارا، معاملات میں اس کی معاون اور اس کے سلسلۂ نسب قائم رہنے کا ذریعہ ہے ۔ کسی کی اولاد ہونے کا منطقی نتیجہ ہے کہ اس کی بیوی ہو کیونکہ بیوی کے بغیر اولاد کا تصور محال ہے جبکہ فرشتوں اور جنات کو خدا کی بیٹیاں ، بعض انبیاءo کو خدا کا بیٹا قرار دینے سے اللہ تعالیٰ کی بیوی ثابت کرنا لازم ہو جاتا ہے، اولاد کسی نہ کسی طرح باپ کے مشابہ اور اس کی ہم جنس اور ہم نسل ہوتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ایسی کمزوریوں اور تمثیلات سے پاک ہے۔ اس کا ارشاد ہے ’’لَیْسَ کَمِثْلِہِ شَیْئ‘‘ مشرک بتائیں کہ زمین و آسمانوں میں کون سی چیز اللہ تعالیٰ کے مشابہ اور ہم جنس ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز پر حالات و واقعات کے منفی اور مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہمیشہ ایک ہی حالت پر قائم ودائم ہے وہ ضعف و کمزوری اور نقص و نقصان سے پاک ہے۔ نہ اس کی ذات سے کوئی چیز پیدا ہوئی اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا ہے، وہ ہر چیز کا خالق و مالک اور ذمہ دار ہے ۔ کسی کو اللہ تعالیٰ کی اولاد یا جُز قرار دینا اس قدر سنگین گناہ اور جرم ہے کہ اس سے زمین و آسمان پھٹ سکتے ہیں۔

وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا لَقَدْ جِئْتُمْ شَيْـًٔا اِدًّا تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرْنَ مِنْهُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبَالُ هَدًّا اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًا وَمَا يَنْبَغِيْ لِلرَّحْمٰنِ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اِلَّا اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا  (مریم: 88تا 93)

’’کہتے ہیں کہ الرحمان کی اولاد ہے ۔تم لوگ بہت ہی بیہودہ بات کہہ رہے ہو۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ پڑیں اور زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں ۔ یہ کہ انہو ں نے الرّحمان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے ۔ رحمان کی شان نہیں کہ وہ کسی کو اولاد بنائے ۔زمین اورآسمانوں میں جو ہے سب کے سب اس کے حضور غلام کی حیثیت سے پیش ہونے والے ہیں ۔‘‘

 اللہ تعالیٰ کے لائق ہی نہیں اور نہ اس کی ضرورت ہے کہ وہ کسی کو اپنی اولاد بنائے ،کیونکہ نہ اس کی بیوی ہے نہ وہ محبت کرنے یا کسی سے خدمت کروانے کا محتاج ہے اور نہ اُسے سلسلہ نسب کی حاجت ہے، زمین و آسمانوں میں جو کچھ ہے وہ اس کا تابع فرمان اور اس کے سامنے عاجز غلام ہے ۔ اس کے خلاف عقیدہ رکھنااللہ کے ہاں سنگین جرم اور بڑا گناہ ہے اس کے بارے میں فرمایا ہے کہ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائیں ، زمین شق ہو جائے اور پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر پڑیں ۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے