راحیل گوہر ایم ۔اے

انسان ابتدائے آفرینش سے ہی اپنی ذات کی تلاش میں سرگرداں ہے، لیکن برسوں کی پیہم جدوجہد کی باوجود اپنے مقصد میںکامیاب نہیں ہوسکا، بلکہ وہ تواب تک یہ بھی نہ جان سکا ہے کہ اسے اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا ہے، اس عالم رنگ و بو میں اس کا مقام کیا ہے؟ اس کی زندگی کا اصل ہدف کیا ہے؟ اور اس خالق کائنات کے ساتھ اس کے رشتے اور تعلق کی نو عیت اور غرض و غایت کیا ہے؟ ریب و تشکیک کی گہری دھند اس کی بصارت پر چھائی ہوئی ہے۔ہر دور کے دانشور اور معا شرے کے ذہین و فطین افراد اس حقیقت کی کھوج میں لگے ہوئے ہیں ،مگر’’ ہنوز دلّی دور است‘‘ کے مصداق وہ آج بھی اس ترقی یافتہ اور محیر العقول ایجادات و اختراعات کے دور میں بھی تجس و تفکر کے دائروں میں سفر کر رہے ہیں ،ان کے عقل و قیاس کی پروازیں انھیں مختلف وادیوں اور بھول بھلیوں میں بھٹکا کر لے جاتی ہیں ۔ بقول شاعر     ؎

قافلے  ریت  ہوئے  دشتِ  جنوں  میں  کتنے

پھر  بھی  آوارہ  مزاجوں  کا   سفر  جاری  ہے!

 ہم انسانی عقل کے بارے میں ایک بہت بڑے فریب کا شکار ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جس عقل نے ہوائی جہاز اور راکٹ ایجاد کئے ہیں، ذرے کو توڑ کر ایٹم بنایا ہے اور قوانین طبیعی کی معرفت حاصل کر لی ہے، وہی عقل اس بات  کے لیے بھی موزوں تر ہے کہ ہم حیات انسانی کے نظام کو وضع کرنے کی ذمہ داری بھی اس کے سپرد کر دیں، تاکہ وہی تصورات و اعتقادات کے قواعد اور اخلاق و کر دار کی بنیا دیں وضع کرے۔ لیکن عقل جب مادی دنیا میں کام کر تی ہے تو وہ ایک ایسی دنیا میں کام کر تی ہے جس کے قوانین کو وہ سمجھ سکتی ہے۔ جب وہ انسانی دنیا میں کام کر تی ہے تو وہ ظنّ و تخمین سے کام لیتی ہے، کیونکہ وہ اس د نیا کی پیچیدہ حقیقتوں کے ادراک سے عاری ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ کوئی شخص مجرد عقل کی بنیاد پر تراشے ہوئے افکار و نظریات کے بل پر اپنی ذات میں پوشیدہ عالمِ اصغر کی صداقتوں کو نہیں پا سکتا۔ البتہ اس گردِ سفر میں گم ہو کر اس(عقل) نے کئی فلسفوں اور مکاتب ِ فکر کی عمارتیں کھڑی کر دیں اور اس کے فکری خلجان نے خود کو ان غلام گردشوں میں لا پٹخا جو انسانیت کے لیے مزید اضطراب ، بے چینی اور روحانی صعوبتوں کا باعث ثابت ہوا۔

 تاریخِ انسانی کے آئینہ سے گرد صاف کریں تو سترہویں اور اٹھارویں صدی کی وہ تصویر عیاں ہوکر سامنے آتی ہے، جس میں کلیساکے تنگ نظر اور متعصّب پوپ کا چہرہ نمایاں ہوتا ہے۔یہ دور ان کے ظلم اور استبداد کا زمانہ تھا۔بادشاہ اور کلیسا کے گٹھ جوڑ (Alliance) نے عوام کی سوچ ، رائے زنی اور سائنسی حقائق سے استفادہ پر قدغنیں عائد کی ہوئی تھیں اور کلیسا کے اصول و قوانین کے خلاف کسی عقلی اور سائنسی انکشاف کو پیش کرنا ناقبل معافی جرم تھا۔کلیسا کے ا س فرسودہ اور ظالمانہ رویّہ کے خلاف جس نے بھی آواز اٹھائی اسے بزورِ طاقت دبا دیا گیا۔گلیلیو ، برونو اور کتنے ہی اور کلیسا کی تعذیب کا شکار ہوئے۔

1480 سے 1488کے دوران کلیسا نے 8800افراد کو کھمبوں سے باندھ کر زندہ جلا دیا اور 96400افراد کو درد ناک سزائیں دیں۔ 1480سے 1808تک مکمل عہد کا اندازہ لگایا جائے تو یہ تعداد 32000 درد ناک اموات اور 291000افراد کو تعذیب و تشدد اور قید کی سزاؤں تک پہنچ جاتی ہے۔مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ تشدد سے تشدد جنم لیتا ہے اور دباؤ حد سے زیادہ بڑھ جائے تو

دھماکہ نا گزیر ہوجاتا ہے۔چنانچہ وہی ہوا، دباؤ اور حبس

(Suffocation) ناقابل برداشت ہوگیا تو انسان کے فکر و عمل میں ایک زبردست دھماکہ ہوا اور اس کے تابکاری اثرات نے بادشاہ اور کلیسا کے ظالمانہ اور بہیمانہ نظام کو جلا کر خا کستر کر دیا، اور اس کی راکھ تلے دبی چنگاری نے بھڑک کر شعلہ کی صورت اختیارکرلی اور اس شعلۂ جوّالہ سے مظلوم انسانوں کے فکری افق پر ’’ پروٹسٹنٹ‘‘ کے نام سے ایک نیا فرقہ وجود میں آیا جو دراصل ’’ جدیدیت‘‘ کی بنیاد ہے۔ اس نئے فرقہ کا بانی مارٹن لوتھر مانا جاتا ہے۔اس نے پاپائیت کے خلاف بغاوت کی ، اور پوپ کی اتھارٹی ماننے سے انکار کردیا۔ لوتھر کی پروٹسٹنٹ تحریک کی پشت پناہی جرمنی کے چھوٹے چھوٹے بادشاہ کر رہے تھے ، ان میں ان کا سیاسی مفاد یہ تھا کہ روم کے کلیسا کا دینی اقتدار ختم ہوجائے تو وہ مطلق بادشاہ بن جائیں،چنانچہ سولہویں صدی سے رومن کیتھولک کلیسا کی مرکزیت ختم ہونے لگی اور پرو ٹسٹنٹ ملکوں میں قومی کلیسا قائم ہونے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین سیاست کے تابع ہو گیا۔اور یوں عقلیت پرستی کی شروعات ہوئی جو سترہویں صدی کے وسط سے شروع ہو کر اٹھار ویں صدی کے وسط تک یعنی 1775 ء تک چلتی رہی ۔ عقلیت پرستی یا روشن خیالی کا یہ دور ایک دوسری انتہا بن کر دنیا کے کینوس پر نمودار ہوا ۔توازن و اعتدال نہ کلیسا اور حکومت کے طرز عمل میں تھا اور نہ ان کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر نے والے سودائیوں کے قلوب و اذہان ہی میں جگہ پاسکا۔ جدیدیت کی فکری اور عملی آبیاری کرنے میں جن مفکرین کے نام قابل ذکر ہیں، وہ فرانسس بیکن، تھامس ہابز اور رینے ڈیکارٹ ہیں۔ان مفکرین کا نقطہ نظر یہ تھا کہ کائنات کے وہ حقائق جو سائنس اور تجربات و مشاہدات کے ذریعے سے ثابت ہوجائیں بس وہی قابل اعتبار ہیں، اور اس در یافت میںکسی ماوراء ہستی کے دخیل ہونے کاکوئی جواز نہیں۔جب عقل و فہم اور سائنس کے مروجہ اصول ایک حقیقت کو ثابت کر رہے ہیں تو پھر کسی قادر مطلق ہستی کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔گویا وجودِ باریٔ تعالیٰ کو خارج از بحث سمجھا جائے۔ یا یوں سمجھ لیں کہ خود شعوری کا عمل اپنے میلانِ طبع کا اطمینان، سچائی اور حقائق کی کُنہ تک پہنچنے کا واحد اور یقینی راستہ ہے۔

جدیدیت کا اصل اصول مروّجہ اقدار سے انحراف ہے۔اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ مذہب سے اخلاقیات، معاشیات،سیاسیات اور ان کے مروّجہ علوم صحیحہ تک بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی اقدار کو غلط اور ناکارہ ثابت کیا جائے۔جدیدیت کا خاصّا یہ ہے کہ جو شے مشاہدے ، محسوسات اور عقل و فہم سے ماورا ء ہے وہ ناقابل بھروسہ ہے۔۔اس لیے مذ ہب کی تعلیم کا اس میں کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔

چنانچہ ’’ لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی!‘‘ کے مصداق ان عقلی سحر آمیزیوں کے تناور درخت سے جو برگ و بار پھوٹے اس سے حیاتِ انسانی کے ہر گوشے میں ایک بے خدا تہذیب لوگوں کے فکر و عمل میں سرایت کر گئی۔اور پھر سماجی افق پر آزادی اور روشن خیالی (Freedom & Enlightment)کا تصور نمایاں ہوا۔والٹئر نے مذہب سے مکمل طور پربے زاری کا اظہار کرتے ہوئے فرد کی ایسی حریت کا تصور دیا جو ہر طرح کے قید و بند سے آزادی کا تصور تھا۔ سیاسی امور میں قوم پرستی، قومی ریاست اور دور ِ جدید کی ’’جمہوریت ‘‘کا نظریہ سامنے آیا ۔ پھر اسی جمہوریت کی کو کھ سے مارکسی فلسفہ پیدا ہوا،جو ایک ایسے معاشرے کا نقشہ پیش کر تا ہے جس میں برتری اور تفوق ایک محنت کش کو ہی حاصل ہو۔ گویاآجر اور مستأجر کے مابین ایک علت نزاع کا راستہ کھل گیا۔یہ وہی مارکس ہے جس نے کہا تھا کہ مذہب قوموں کی افیون ہے اور چند کہانیوں کا مجموعہ ہے۔اور یہی مارکس نظریہ ٔ اشتراکیت کا علم بردار بھی ہے۔اس نے صنعتی میدان میں سرمایہ دار اور مزدورکی روز افزوں کشمکش کے مطالعہ کے بعد ’’ سرمایہ‘‘ (Das Kapital) کے نام سے تین جلدوں میں ایک ضخیم کتا ب لکھی جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ترقی پذیر تمدن اور مشینی دور نے پیداوار کے ارزاں میکانی طریقوں سے ایک طرف سرمایہ کے ارتکاز کو تقویت بخشی تو دوسری طرف گھریلو صنعتوں کو تباہ کر کے بے روزگار کاریگروں کی جمیعت کو اس بات پر مجبور کر دیا گیا ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے کارخانوں میں روزانہ اجرت پر مزدوری کیا کریں جہاں ان کو پوری اجرت نہیں ملتی ۔سرمایہ دار ان کی حق الخدمت کا بڑا حصہ خود دبا لیتے ہیں جو دن بدن پھلتے پھولتے جا رہے ہیں اور مزدور اپنی بنیادی ضروریات کو بھی پورا نہیں کر پاتے۔لہٰذا اس غیر منصفانہ طبقاتی تقسیم کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے کہ مزدور متحد ہو کر سرمایہ داری کا تختہ الٹ دیں۔

اس ذہنی انقلاب کا دوسرا دانشور چارلس ڈارون (Charles Darwin) نے نبا تات و حیوانات کا برسوں عمیق مطالعہ کیا اور اپنے وسیع مطالعہ کے بعد اس نے 1859ء میں مبداء و انواعِ حیوانات (Origen of Species) کے نام سے ایک کتا ب شائع کی جس میں اس نے اپنا’’ نظریہ ارتقا ئِ حیات ‘‘ (Theory of Evolution) پیش کیا۔ ڈارون نے اس میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا۔ ’’ حیوانوں کے انواع و اقسام کی اکثر کڑیاں اس طرح مربوط اور مسلسل نظر آتی ہیں کہ ایک نوع دوسری نوع کی ارتقائی شکل معلوم ہوتی ہے۔اور یہ تسلسل اس بات کی عکاسی کر تا ہے انسان بن مانس اوربندر کی ارتقائی شکل ہے اور اس پورے ارتقائی عمل میں کوئی واحد خلیہ (Cell) والا خورد بینی کِرم حقیر (Vile Worm)۔ گویا کرشمۂ حیات ایک ارتقائی عمل ہے جو کرمَکِ حقیر (Glow-Worm)سے شروع ہو کر انسان تک جا پہنچتاہے اور اس ارتقائی عمل کے اسباب تمام تر حیاتی کیمیا اور میکانی اصول ہیں۔عناصر کے کسی ابتدائی اور اتفاقی جوڑ توڑ نے صرف ایک خورد بینی خلیہ (Life Cell) پیدا کیا جس میں حیات کی صلاحیتیں نمودار ہوئیں۔ حوادثِ زما نہ سے نبرد آزمائی اور کروڑوں سالوں کے مسلسل قدرتی انتخاب (Natural Selection) اور ارتقائی رجحان (Evolutionary Trend )کِر مَکِ (ننھا، حقیرکیڑا) ذی حیات کو انسانی شکل تک ترقی دی۔ارتقاء کی مختلف منزلوں کے دوران جانوروں کی مختلف شکلیں وجود میں آئیں جن میں سے کچھ موجود ہیں اور کچھ ناپید ہیں۔ اور یہ سار ا خود ساختہ عمل ہے ، اس کے لیے کسی پس پشت ذی اقتدار خالق کی قدرت اور ارادہ کے مفروضہ کے بغیر ہی کائنات کا وجود اور اس کا ارتقاء اس طرح ثابت ہو جاتا ہے اور اس لیے کسی قدرت، ارادہ اور مقصد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔قرآنِ حکیم میں اسی نظریہ کا حامل لوگوں کی ترجمانی ان الفاظ میں کی گئی ہے:

وَقَالُوا مَا ہِیَ إِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوتُ وَنَحْیَا وَمَا یُہْلِکُنَا إِلَّا الدَّہْرُ وَمَا لَہُم بِذَلِکَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ ہُمْ إِلَّا یَظُنُّونَ (24)

اور کہتے ہیں ہماری زندگی تو دنیا ہی کی ہے کہ (یہیں) مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں تو زمانہ مار دیتا ہےاور ان کو اس کا کچھ علم نہیں، صرف ظن(گمان) سے کام لیتے ہیں۔‘‘

جدیدیت کا تیسرا علمبردار سگمنڈ فرا ئیڈ (Sigmund Freud) ہے۔ فرائیڈ ویانا میں انیسویں صدی کے ربع آخر میں نفسیاتی بیماریوں کا ایک مشہور معالج تھا۔ اس نے نفسیاتی بیماریوں کا ایک جدید طریقہ دریافت کیا جسے نفسیاتی تجزیہ (Psycho Analysis) کہا جاتاہے۔فرائیڈ کی فکری اٹھان کا حاصل یہ ہے کہ ’’ انسانی نفس جبلّی جذبات ( Instinctive Emotion) کے دباؤ کے تحت ایک مجبور محض ہے۔حیوانی اور سفلی تقاضے اپنی تکمیل کے لیے آزادی چاہتے ہیں لیکن معاشرے کی اخلاقی اور تہذیبی مصلحتیں ان پر حدود و قیود عائد کرنا چایتی ہیں۔ان غیر فطری پابندیوں کے باعث دبے ہوئے جذبات ذہن ِ انسانی میں گھٹن اور اضطراب محسوس کر تے ہیں اور بغاوت پر اکساتے ہیں، لیکن تمدن کی کڑی بندشوں کی وجہ سے بغاوت نہیں کر سکتے۔ لہٰذا انسان نفسیاتی کشمکش اور احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتا ہے۔انسان کے تحت الشعور (Pre-conscious) میں یہی غیر صحت مند تناؤ نفسیاتی بیماریوں اور الجھنوں کا باعث بنتا ہے۔فرائیڈ انسانی نفسیات کو تین درجے(Levels) میں تقسیم کرتا ہے۔ لاشعور (Unconcious) ، تحت الشعور (Pre-conscious) اور شعور (Conscious)  ان کی شرح کرتے ہوئے فرائیڈ کہتا ہے کہ انسان کا لاشعور ذہن کا سب سے بڑا شعبہ ہے جو تمام خواہشات نفسانی کا مر جع ہے۔تمام آرزوؤں کا سر چشمہ اور تمام شہوات کا مصدر۔انسانی نفس (Libido) عیش و عشرت کی رنگینیوں میں مست رہتا ہے، ہر خوشی کا اصول اس کا واحد مقصد حیات ہے۔شعور کے تحت ہم حواسِ خمسہ کے تمام تاثرات وصول کرتے ہیں اور تحت الشعور کے ذریعے سے ، لاشعور کی طرف منتقل کر دیتے ہیں۔یہ تمام جذبات ، خیالات، مشاہدات اور یادیں لاشعور میں مدفون ہیں اور تحت الشعور کے جھروکے میں سے گزر کر شعور کی سطح تک ابھر آتی ہیں۔

فرائیڈ کے نظریہ میں صرف ایک بات ایسی ہے جو روحِ قرآن کے خلاف ہے۔اور وہ یہ کہ وہ سمجھتا ہے کہ انسان کے لاشعوری جذبہ کی نوعیت جنسی محبت ہے اور وہ جنسی خواہشات کی غیرمحدود آسودگی سے مطمئن ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ فرائیڈ جذبہ لاشعور کو انسان کے تمام اعمال کا محرک قرار دیتا ہے، لہٰذا قرآن کے نقطہ نظر سے یہ جذبہ وہی ہے جسے انسان کی خود شعوری کا جذبہ حسن قرار دیا گیا ہے اور آدرش (Ideal) کی محبت میں اپنا اظہار پاتا ہے، اور صرف اللہ کی محبت سے مکمل اور مستقل طور پر مطمئن ہوتا ہے۔فرائیڈ نے اس جذبہ کی نوعیت سمجھنے میں غلطی کی ہے اور اپنی اس غلطی کی وجہ سے اپنے استدلال میں بار بار ٹھوکریں کھانے اور حقائق کو مسخ کرنے پر مجبور ہوا ہے، جس سے اس کا نقطہ نظر معقولیت کے معیار سے گر گیا ہے۔

بحر حال فرائیڈ کی اس نا معقول سوچ اور اس کی تعلیمات کی وجہ سے اخلاقی سطح پر جنسی آزادی اور آزادیٔ نسواں کا پر چار ہوا۔ سماج میں عریانت اور بدکاری سے لے کر ہم جنس پرستی کے مظاہر اسی بیج سے پھوٹے ہیں۔ سائنس سے قطع نظر ، ارتقاء اور تاریخ کی جدلیاتی مادی تعبیر (Dialectic Materialism) اسی کا نتیجہ ہے۔ فرائیڈ کا کہنا ہے کہ مذہب انسان کی محرومی اور ناکامی کی پیداوار ہے۔ یہ انسان کی ذہنی کج روی اور غلط سمت میں گامزن زندگی کا سفر ہے، جس نے انسانی تاریخ میں گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔

موجودہ دور میں بھی یہی گمرا ہ کن نظریات انسانی قلوب و اذہان کو مسخ کرکے ان کی حیات دنیوی میں زہر گھول رہے ہیں۔اس لیے کہ مرعوبیت اور مغلوبیت تقلید کی راہیں ہموار کرتی ہیں۔ اور عقیدت میںغلو انسان پر حق و صداقت کے دروازے بند کر دیتا ہے۔ نتیجتاً اسی بے خدا تہذیب سے پھیلی ہوئی فسوں گری نے علم ِ انسانیت کو بد حواس کیا ہو اہے، کیونکہ انسانی حسّیات کے ذریعہ دریافت کی ہوئی معلومات اکثر و بیشتر خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہوتیں۔ ’’ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘‘  یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ انسانی عقل کو اگر وحی الٰہی کے تابع کرکے اسے صحیح سمت میں استعمال کیا جائے تو انسان پر اس کائنات کے بیشتر سربستہ رازہی آشکار نہیں ہوتے بلکہ اس دنیا کی زندگی کی مقصدیت بھی واضح ہو جاتی ہے،واہمے اور ضعیف الاعتقادیوں کی دھند صاف ہونے لگتی ہے۔قرآن حکیم نے کئی مقامات پر اپنی آیات ِ بینات میں بار بار عقل کو استعمال کرنے کی ترغیب دی ہے کہ زندگی کے تمام معاملا ت کو عقل کی کسوٹی پر پر کھو اور معقول اور معتدل روش اختیار کرو۔ ارشاد ربانی ہے:

إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ (آل عمران:190)

’’ بلا شبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری آنے جانے میںاہلِ عقل کے لیے بہت سی نشا نیاں ہیں۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

وَفِیْ الأَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْرُ صِنْوَانٍ یُسْقَی بِمَاء  وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلَی بَعْضٍ فِیْ الأُکُلِ إِنَّ فِیْ ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ

’’ اور زمین میں کئی قطعات ہیں جو باہم ملے ہوئے ہیں،اور انگور کے باغات، کھیتی اور کھجوریں ہیں، جن میں سے کچھ جڑ سے ملی ہوتی ہیں اور کچھ نہیں ملی ہوتیں (ان کو) ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہےمگر ذائقہ میں ہم کسی ایک کو دوسرے سے بہتر بنا دیتے ہیں۔ ان چیزوں میں بھی عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘ ( الرعد 4)

انسانی عقل کی اہمیت کو مزید واضح کر تے ہوئے کچھ یوں فرمایا:

قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَاب (الزمر 9)

’’ ان سے پوچھئے کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ مگر ان باتوں سے سبق تو وہی حاصل کرتے ہیں ہو عقل رکھتے ہیں۔‘‘

حکمت کا حصول بھی عقل صحیح کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے۔ اسی بات کو واضح کر تے ہوئے ارشاد الٰہی ہوا:

یُؤتِیْ الْحِکْمَۃَ مَن یَشَاءُ وَمَن یُؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ أُوتِیَ .6خَیْراً کَثِیْراً وَمَا یَذَّکَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الأَلْبَابِ (البقرة269)

’’ اور وہ جسے چاہتا ہے حکمت عطا کر تا ہے، اوور جسے حکمت مل گئی اسے تو گویا بہت بڑی دولت مل گئی، اور ان باتوں سے صرف عقلمند لوگ ہی سبق حاصل کرتے ہیں۔‘‘

اسلام دنیا کا واحد دین ہے جس کی دعوت سراسر عقلی بنیادوں پرقائم ہے اور انسانی مزاج کو اپیل کرتی ہے۔یہ کوئی فلسفیانہ دین نہیں ہے اور نہ ہی کسی شخصیت اور کردار کا حوالہ ہے، بلکہ اسلام تو ایک ٹھوس اور جامع فکر اور طرز حیات کا نام ہے۔اسلام انسان کو عقل استعمال کر نے کی پر زور دعوت دیتا ہے اور ہر معاملے کو تنقید پر پرکھنے کی تر غیب دیتا ہے۔یہ اس کائنات کا مسلمہ اصول ہے کہ ہر شے کا ایک مخصوص اور محدود دائرہ اختیار ہے۔جس طرح انسانی علم کے متعلق ارشاد ِ ربانی ہے:

.6وَلاَ یُحِیْطُونَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہِ إِلاَّ بِمَا شَاء (البقرۃ 255)

’’ اور وہ اللہ کے علم سے کسی چیز کا ادراک نہیں کر سکتے ،مگر اتنا ہی جتنا وہ خود چاہے۔‘‘

اسی طرح عقل انسانی کا بھی ایک معین دائرہ کار ہے اور اس دائرے سے نکلنا انسانی بساط سے باہر ہے۔ انسان کے فکر و عمل میں فساد اور بگاڑ جب ہی پیدا ہوتا ہے جب وہ محض اپنی عقل کو زندگی کے اجتماعی اور انفرادی معاملات اور پیچیدگیوں کے مکمل حل کے لیے کسوٹی سمجھ لیتا ہے اور کسی ما ورائی ہستی کا وجود اس کے لیے بے معنی اور بے وقعت ہوکر رہ جاتا ہے۔وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اس کی مثال اس گھوڑے کی مانند ہے جو ایک ایسے کھونٹے سے بندھا ہوتا ہے جس کے ساتھ بندھی رسی اس کو ایک محدود دائرے ہی میں گھومنے کی اجازت دیتی ہے۔ ثابت یہ ہوا کہ عقل کی حد بھی ایک خاص مقام تک پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے، اور پھر یہ وہی نقطہ آغاز (Starting Point) ہے جہاں سے وحی ربانی اپنے کام شروع کر تی ہے۔اس مقام پر عقل انسانی کا عاجز ہوجانا اس امرکی روشن دلیل ہے کہ یہاں اسے کسی ایسی بلند و بال ہستی کی تائید و نصرت درکار ہے جو ہر شئے پرپوری قدرت رکھتا ہو اور جس کی حکومت و سلطنت کی کوئی حد و انتہاء نہ ہو۔جس کی باشاہت اور جس کا اقتدار زمان و مکاں کی قید سے وراء الوراء ہو۔اس ہستی کے لیے وقت اور فاصلہ بے معنی ہو۔اور وہ ذاتِ یکتا اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ہے جوا پنی ہدایت کے ذریعہ سے انسانوں کی رہنمائی کرتی ہے اور انھیں انتشار و افتراق اور تذبذب و بے یقینی کی کیفیت سے بچا کر یقین کامل عطا کرتی ہے۔اپنی اس ہدایت کاملہ کو اپنے بندوں تک پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان ہی کے معاشرے میں سے کچھ لوگوں کو منتخب کیا تاکہ لسانی، ذہنی اور معاشرتی ہم آہنگی ہدایت کی ترسیل کو آسان بنادے۔ارشاد ہوا:

ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِیْ الْأُمِّیِّیْنَ رَسُولاً مِّنْہُمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ (2)

’’ وہی تو ہے جس نے اَن پڑھوں میں، انہی میں سے (محمد کو) پیغمبر (بنا کر) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور (اللہ کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور اس سے پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے‘‘

وحی وہ خورشید ہدایت ہے جس کی روشنی منزل بہ منزل اپنے دائرہ فکر کو وسیع کرتی جاتی ہے تاکہ انسان کی حیات دنیوی کا ہر گوشہ اس کے فکر و نظر کے سامنے روشن و تاباں اور ہر پہلو سے واضح ہوتا چلا جائے، اوروہ اللہ کامطلوب بندہ بن جائے۔انسان کی بدنصیبی یہ ہے کہ اس نے وحی جیسی الہامی ہدایات کو اپنی عقل و فہم کا مخالف سمجھا ہے، جب کہ وحی پر ایمان و ایقان ہی وہ واحد ذریعہ ہے جس میں ردّ اور بے یقینی کا ذرّہ برابر بھی امکان نہیں۔ قرآنِ حکیم میں وحی پر یقینِ کامل کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ سیدناموسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو اللہ نے وحی کی اور موسیٰ علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:

إِذْ أَوْحَیْنَا إِلَی أُمِّکَ مَا یُوحَی أَنِ اقْذِفِیْہِ فِیْ التَّابُوتِ فَاقْذِفِیْہِ فِی الْیَمِّ فَلْیُلْقِہِ الْیَمُّ  بِالسَّاحِلِ یَأْخُذْہُ عَدُوٌّ لِّیْ وَعَدُوٌّ لَّہُ وَأَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ وَلِتُصْنَعَ عَلَی عَیْنِیْ (طه:3839)

’’ اور یاد کرو (ہم نے تم پر یہ بھی احسان کیا) جب ہم نے تمھاری ماں کی طرف وحی کی (جو اس کے دل میں ڈال دی گئی)کہ اس بچے (موسیٰ) کو صندوق میں رکھو اور پھر اس کو دریا میں ڈال دو ، پھر دریا اس صندوق کو ساحل پر پھینک دے گا جسے میرا اور موسیٰ کادشمن اٹھا لے گا۔ پھر (اے موسیٰ ) میں نے تم پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی، اور یہاس لیے کہ میری نگرانی میں تمھاری تربیت ہو۔‘‘

موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا وحی کے مطابق عمل کرنا ان کے وحی پر ایمان کامل کی دلیل ہے کہ انھوں نے شیر خوار بچے کو دریا کے سپرد کر دیا اور  ان کے دل میں تذبذب کا شائبہ بھی نہیں پیدا ہوا۔اللہ تعالیٰ پر یقین کامل ہی وہ قوت اور طاقت ہے جو انسان کو بڑے بڑے مصائب اور امتحانات میں ثابت قدم رکھتی ہے ۔

عقلِ انسانی اور وحی الٰہی دونوں انسان کی دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر عقل انسانی کی کوئی حیثیت نہ ہوتی تو قرآن ہر گز اتنے شدّومد سے اسے استعمال کرنے کی تاکید نہ کرتا۔ عقل کے بغیر وحی کی صداقت کی شناخت نہیں ہوسکتی اور عقل کے بغیر حق و صداقت کا منّزل من اللہ ہونا تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔عقل اوروحی کے مابین جو چیز باعث نزاع ہے وہ عقل کو مطلق ایمان و یقین کا درجہ دینا ہے کہ زندگی کے تمام اسرار و رموز کو سمجھنا اور ان سے نمٹنا محض عقل کے ذریعے ممکن ہے اور جسے عقل تجربے اور مشاہدے سے ثابت کردے وہی اصل حقیقت ہے۔ اس نظریے یعنی اللہ تعالیٰ کے انکار، کائنات کا اتفا قاً عالَمِ وجود میں آ جانا، مرنے کے بعد مٹی میں رَل مِل جانے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر حیرت و تعجب کا اظہار اسی فکر ِ جدید کے تحفے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ عقل صحیح اور فکر ِ سلیم ہی زندگی کی گتھیوں کو سلجھا نے کا واحد طریقہ ہے۔اور جس مرحلے پر عقلِ انسانی مسائل میں ناکام ہوجائے وہاں وحی الٰہی کی روشنی میں الجھی ہوئی ڈور کو سلجھانے کی کوشش کرے،ورنہ عقل کی بساط پر پھیلی ہوئی فکری اور عملی گمراہیاں انسان کو کو صراطِ مستقیم سے بھٹکا تی رہیں گی اور رہی ہیں۔فکر انسانی کی تاریخ کے آئینے میں اس حقیقت کے خدو خال نمایاں طورپر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس لیے یہ قانون ِ فطرت ہے کہ کسی بھی شے کو اپنے لیے مفید اسی صورت بنایا جاسکتا ہے کہ اس کا استعمال قطعی درست اور اس شے کے مزاج کے عین مطابق ہو، ورنہ کبھی امرت بھی انسان کے لیے زہر بن جاتا ہے۔

اسلام ایک الہامی نظریے (Revealed Idiology) اور آفاقی قدروں کا دین ہے۔ اس وسیع و بسیط کائنات کی ظاہری اور مخفی صداقتوں پر مشتمل ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،جسے خا لق ِ کائنات نے اپنے رسولِ مکرم کے ذریعے سے ظلمت و گمراہی میں ڈوبی شعور و بصیرت میں بھٹکتے انسانوں کو صراطِ مستقیم کی روشنی عطا کی ۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

اَللَّہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ آمَنُواْ یُخْرِجُہُم مِّنَ الظُّلُمَاتِ إِلَی النُّوُرِ (البقرۃ 257)

’’اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے ، وہ انھیں (کفر و شرک کے)اندھیروں سے نکال کر (اسلام) کی روشنی کی طرف لے آتا ہے۔‘‘

لادینی مادہ پرستی کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ اس نے کائنات میں کارخانۂ قدرت کے معمار حقیقی اور خالق کُل کی خلاّقی کو بلا وجہ اور بلا کسی دلیل کے کائنات سے لاتعلق رکھا، جس کا گمراہ کن نتیجہ یہ نکلا کہ کائنات کسی طے شدہ مقصد اور نظم و ضبط سے عاری سمجھی جانے لگی۔دوسری غلطی یہ ہوئی کہ مفاد پرستی میں مبتلا خود پرستی میں ملوث انسان اپنی خامیوں و کوتاہیوں سے صرف نظر کر کے خود ہی مسند پر جا بیٹھا اور عدل و انصاف کے بجائے خود پرستی کا پرچار کرنے لگا ۔تحفظ امن عالم کی ضمانت کے لیے یہ ضروری ہے کہ عدل و انصاف کا دور دورہ ہو اوراس کا قیام ہی انسان کا مقصد حیات قرار پائے۔اور یہ اسی حالت میں ممکن ہے جبکہ علّت اولیٰ کے وجود اور اس کے مقصد و ارادہ کو سمجھ کر اس پرایمان لایا جائے ، کیونکہ اس کے بغیر امن عالم اور مظلوم کے حقوق کے تحفظ کی کوئی ضمانت نہیں۔

اسلام ہی وہ دین ہے جس نے انسانوں کو وحدہ لا شریک اللہ کے خوف میں مبتلا کر کے دنیا کے باقی تمام خوفوں سے بے نیاز کر دیا، اور یہ خوف بھی کوئی اندھی تخویف نہیں ، بلکہ یہ فہم و ادراک کی روشنی میں حاکم عادل کے نظم و ضبط کا خوف اور اسی کے ساتھ حسن عمل پر مالک حقیقی کی خوشنودی اور نصرت کی امید جو کمزور انسانوں کو جرأت و بیباکی عطا کرتی ہے۔اشاد ربانی ہے:

 فَإِمَّا یَأْتِیَنَّکُم مِّنِّیْ ہُدًی فَمَن تَبِعَ ہُدَایَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُونَ (البقرۃ38)

’’ جب تمھارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرناکہ) جنھوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے‘‘۔

مادہ پرست اپنی جہالت سے اس صحت مند خوف و رجاء کو اندھی عقیدت اور خود کو حقیر انسان کے خوف و رجاء میں مبتلا رکھنا پسند کرتے ہیں، لیکن یہ ان کی ناسمجھی ہے۔بنی نوع انساں پر رسول ِ مکرم کا یہ احسانِ عظیم ہے کہ انھوں نے انسانی جذبۂ خوف و رجاء کے حقیقی مرجع کی نشاندہی کر کے انسان کو انسان کے خوف و رجاء کا نشانہ بننے سے بچالیا۔ ارشاد گرامی ہے:

إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوْا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا  بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِیَاؤُکُمْ فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَفِیْ الْآخِرَۃِ وَلَکُمْ  فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْ أَنفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُونَ(حٰم السجدۃ30۔31)

’’ جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر وہ (اس پر) قائم رہے اُ ن پر فرشتے اتریں گے(اور کہیں گے) کہ نہ خوف کرو اور نہ غمناک ہو۔۔ اور بہشت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے خوشی مناؤ۔ہم دنیا کی زندگی میں بھی تمھارے دوست تھے اور آخرت میں بھی (تمھارے رفیق ہیں)اور وہاں جس (نعمت) کو تمھارا جی چاہے گا تم کو ملے گی اور جو چیز تم طلب کروگے تمھارےلیے موجود ہو گی۔‘‘

اسلام رنگ ونسل، ذات برادری، طبقاتی کشمکش اور سماجی رسم ورواج کی بندشوں سے ماوراء انسانی حریت و مساوات کا عالمگیر پیغام ہے۔ اور اس دین ہی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ خالقِ کون و مکاں نے اس کو قبولیت کی سند عطا کی ہے۔اللہ کا ارشاد ہے:

إِنَّ الدِّیْنَ عِندَ اللّہِ الإِسْلاَمُ ( آلِ عمران19)

’’ بے شک دین تو اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘

مصور کائنات نے اپنی تمام مخلوقات میں سے صرف انسان کو احسنِ تقویم کا اعزاز بخشا ہے جس کا مقصدِ تخلیق اپنے خالق و مالک کی عبادت و پرستش کرنا ہے۔ قرآن میں ارشاد پاک ہے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُونِ

’’ اور ہم نے جنّوں اور انسانوں کو اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے‘‘۔(الزاریات56)

اور اس پر ستش و اطاعت کے عوض پوری کائنات کو انسان کے لیے مسخر کر دیا۔ انسان میں تعقّل و تفکّر اور تجسّس و تحیّر کے میلانات پیدا کرکے قدرت نے خود کو حجاب کے دبیز پردوں میں مستور کر لیا۔ لیکن بقول اقبال:

’’ کیوں  خالق  و  مخلوق  میں  حائل  رہیں  پردے‘‘

کے مصداق ان پردوں کو اٹھا نے اور اپنی معرفت کے ادراک کے لیے قدرت نے انسانوں کی رہنمائی کی غرض سے انبیاء رسل کا سلسلہ جاری فرما دیا۔ان سعید روحوں نے گمراہی ، لا علمی اور بے بصیرتی کے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارتے انسانوں کو صراطِ مستقیم کی پہچان کروائی۔اگر انسان اس دنیا کے بکھیڑوں اور اس کی نیرنگیوں میں رہ کر ان راستوں پر چلنا چاہتا ہے جو انبیاء و رسل کا پیش کیا ہوا حق و صداقت کا راستہ ہے تو یہ انتہائی ضروری اور نا گزیر ہے کہ اپنی عقل کو وحی کے تابع فرمان بنادے۔ یہی اللہ کی معرفت اور اپنی ذات کی شناخت کا بہترین ذریعہ ہے، کیونکہ جس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا، اس نے اپنے آپ کو پہچان لیا۔

حقیقت اپنے آپ کو منوا کر رہتی ہے۔اسلام نہ صرف مغرب کی نظریۂ حیات کے مطابق اپنی ابدی تعلیمات کے ذریعے سے اپنی معقولیت پیش کرنے پر قادر ہے، بلکہ ان گمراہیوں کی بھی نشاندہی کر تا ہے جن میں مبتلا ہوکر آج مغرب خود اضطراب و انتشار کا شکار ہو چکا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مغرب کی اندھی نقالی کرنے کے بجائے اسلام کی آفاقی تعلیمات پر تفکر و تدبر کرکے ایک آسودہ حال زندگی کی نعمتوں سے فیضیاب ہوا جائے۔

ہماری سب سے بڑی بدنصیبی یہ ہے ہم نے ایک مربوط زاویۂ نگاہ کھو دیا ہے۔زندگی ہمارے لیے اس قدر پیچیدہ اور متحرک ہو گئی ہے کہ ہم اس کی وحدت اور اہمیت کی تھاہ نہیں لا سکتے ۔ہم ایسے مقاصد سے محروم ہیں جو ہمیں موت سے آگے کوئی بات سمجھا سکیں ۔آج ہمارا  تمدّن سطحی اور ہمارا علم خطرناک ہے۔ ہمارے پاس مشینیں تو بہت ہیں ، لیکن مقاصدِ جلیل کے معاملے میں ہم مفلس ہیں ۔مذہبی ایمان کی حرارت سے جو توازن ہمیں حاصل تھا ، مادہ پرستی کے جنون نے اسے قلوب و اذہان سے معدوم کر دیا ہے یا ہمیں یقین و بے یقینی کی کیفیت سے دوچار کیاہوا ہے۔سائنس نے اخلاق کی مافوق الفطرت بنیادوں پر تیشہ چلادیا ہے۔اور ساری دنیا ذاتیات کے انتشار میں الجھی ہوئی ہے اور ہماری شخصیتیں کئی حصوں میں بٹی ہوئی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی ذات کو ٹوٹ پھوٹ سے بچا کر جسدِ واحد میں سمیٹیں ، اور یہ وحی کے ازلی اور ابدی حقائق کو اپنی زندگیوں کا محور و مرکز بنائے بغیر ممکن نہیں، محض عقل کی ڈور تھام کر ہم حیاتِ دنیوی کی چڑھائیاں نہیں چڑھ سکتے۔کیونکہ ’’ عقل عیار ہے ، سو بھیس بنا لیتی ہے‘‘۔

کتابیات

٭قرآن حکیم

٭ قرآن اور علم ِ جدید  ڈاکٹر محمد رفیع الدین ؒ

٭ رسولِ عربی اور عصرِ جدید  سید محمد اسمٰعیل

٭ تعارفِ تہذیب مغرب اور فلسفہ جدید پروفیسر مفتی محمد احمد

٭ المستقبل لھٰذ الدین  سید قطب شہیدؒ

٭ جدیدیت  محمد حسن عسکریؒ

٭ نَشاطِ فلسفہ وِلیم ڈیورانٹ، مترجم: محمد اجمل

     The Story of Civilization    By  William Durant   ٭

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے