چوتھی دلیل:

رسول اللہ ﷺ نے مختلف ملوک و سلاطین کو خطوط لکھوائے اوراپنے صحابہ کو قاصد بناکر ان خطوط کے ہمراہ روانہ کیا،جن شاہان کی جانب قاصد روانہ کئے ان میں ایک کسریٰ بھی تھااور اس کے پاس آپ ﷺ کا پیغام لے کر جانے والے سیدنا عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ تھے،جب انہوں نے وہ خط اسے دیا اور اس نے پڑھا تو تکبر میں آکر نامۂ رسول ﷺ چاک کردیا،اور اپنے ایک گورنر کو نبی کریم ﷺ کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا تو اس گورنر نے دو آدمی مدینہ بھیجے ،جب وہ مدینہ پہنچے اور رسول اللہ ﷺ سے انکی ملاقات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں داڑھی منڈھا اور بڑی مونچھوں والاپایا،آپ نے ان سے انکے اس حلیے کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ :ہمیں ہمارے رب (بادشاہ)نے اس کا حکم دیا ہے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مجھے میرے رب نے میری داڑھی چھوڑدینے اور میری مونچھیں پست کرنے کا حکم دیا ہے۔

یہ واقعہ بہت ہی مشہور ہے اور بہت سے محدثین نے اسے روایت کیاہے،چنانچہ:امام ابو القاسم عبد الملک بن محمد بن عبد الله بن بشْران بن محمد بن بشْران بن مہران البغدادی (المتوفیٰ: 430ھ) نے کہا:

سند:

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ عَلِيِّ بْنِ مَرْوَانَ الْأَنْصَارِيُّ الْأَبْزَارِيُّ بِالْكُوفَةِ، قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ الْأُبَيْسِيُّ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْأَنْصَارِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، ثنا عِصْمَةُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:

متن:

دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَجُوسِيُّ قَدْ حَلَقَ لِحْيَتَهُ وَأَعْفَى شَارِبَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:وَيْحَكَ، مَنْ أَمَرَكَ بِهَذَا؟، قَالَ: أَمَرَنِي بِهِ كِسْرَى. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَكِنِّي أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ أُعْفِيَ لِحْيَتِي، وَأَنْ أُحْفِيَ شَارِبِي.

سیدناا بو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک مجوسی آیا جس نے اپنی داڑھی مونڈھ رکھی تھی اور مونچھیں بڑھا رکھی تھیں،پس رسول اللہ ﷺ نے اس سے کہا:تیری بربادی،تجھے ایسا کرنے کو کس نے کہا؟اس نے جواب دیا:مجھے کسریٰ نے اسکا حکم دیا،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:لیکن مجھے میرے رب عَزَّ و جَلَّ نے حکم دیا ہے کہ میں اپنی داڑھی کوچھوڑدوں اور اپنی مونچھوں کو پست رکھوں۔(امالی ابن بشران،ص:73،رقم:128)

تحقیق:

یہ روایت سند کے اعتبار سے اگرچہ ضعیف ہے لیکن معنیٰ کے اعتبار سے حسن درجے کی ہے،جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نےکہا،ملاحظہ ہو:دفاع عن الحدیث النبوی ﷺ، ص: 51، اوراسے حسن قرار دینے کی متعدد وجوہات ہیں:

1-یہی الفاظ امام ابن جریر الطبری (المتوفیٰ:310ھ)  نے تابعی یزید بن ابی حبیب (المتوفیٰ:128ھ) سے نقل کئے ہیں ،(تاریخ طبری: 2/656) اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے،(فقہ السیرۃ،ص:359)

2– یہی الفاظ امام ابونعیم الاصفہانی (المتوفی:430ھ) نے دلائل النبوۃ (رقم:241)میںاور امام عبدالرحمن الجوزی (المتوفیٰ:597ھ)نے المنتظم فی تاریخ الامم والملوک (3/281)میںتابعی محمد بن اسحاق بن یسار المدنی(المتوفیٰ:151ھ)سے روایت کئے ہیں۔

3-یہی الفاظ امام علی بن حرب الطائی الموصلی (المتوفیٰ:265ھ) نے الثانی من حدیث سفیان بن عیینہ (ص:125)میںاور امام ابو محمد الحسن بن علی بن عفان الکوفی العامری (المتوفیٰ: 270ھ) نے الامالی والقراءۃ (ص:41)میںاورابن عبدالبر النمری (المتوفیٰ:463ھ)  نے التمہید (20/55)میں ،اور امام محمد بن سعد الہاشمی(المتوفیٰ:230)نے الطبقات الکبریٰ(347/1) میںاور امام ابوبکربن ابی شیبہ (235ھ) نے المصنف (25502)میں تابعی کبیر عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود (المتوفیٰ:94 یا 98 ھ) جو کہ صحابی رسول عتبہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پوتے تھے سے نقل کئے ہیں،اور امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی انہی سے یہ روایت نقل کی ہے اور وہ اسے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کررہے ہیں،لیکن اس روایت میں داڑھی والا واقعہ نہیں ہے،مزید وضاحت آگے آجائے گی۔

4-نیزامام ابوبکر بن ابی شیبہ نے المصنف (36626) میںیہی واقعہ تابعی کبیر عبد اللہ بن شداد (المتوفیٰ:81ھ) جو کہ صحابی رسول شداد بن الھاد اللیثی رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھےسے بھی روایت کیا ہے ،اس میں الفاظ اس طرح ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان دو افراد سے پوچھا:

مَا يَحْمِلُكُمَا عَلَى هَذَا؟ قَالَ: فَقَالَا لَهُ: يَأْمُرُنَا بِهِ الَّذِي يَزْعُمُونَ أَنَّهُ رَبُّهُمْ , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  لَكِنَّا نُخَالِفُ سُنَّتَكُمْ , نَجُزُّ هَذَا وَنُرْسِلُ هَذَا.

تمہیں ایسا کرنے پر کس شے نے آمادہ کیا؟ان دونوں نے کہا:ہمیں اسکا حکم ہمارے رب (کسریٰ)نے دیا،تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:لیکن ہم تمہارے طریقے کی مخالفت کرتے ہیں،ہم اسے تراشتے ہیں اور اسے چھوڑ دیتے ہیں۔

فائدہ:

اس روایت میں لفظ ”نرسل“ہے ”ارسال“سے ،اور یہ دیگر متون میں موجود لفظ ”اعفاء“کے معنی کی تعیین کرتا ہے ،کہ اس سے مراد مطلقاً ترک کردینا ہے،یعنی داڑھی کو بالکل بھی نہ چھیڑنا ، نہ مونڈھنا (حلق)، نہ تراشنا (قص)، نہ نوچنا(نتف)۔

5-نیز غالباًیہی واقعہ امام ابو محمد الحارث بن محمد التمیمی البغدادی (282ھ) کی سند سے بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث (2/620)میں تابعی یحیی بن ابی کثیر (المتوفیٰ:132ھ) سے مروی ہے ،اس کے مطابق ایک عجمی مسجد میں آیا جس نے مونچھیں بڑھا رکھی تھیں جبکہ داڑھی مونڈھ رکھی تھی تو رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا:

مَا حَمَلَكَ عَلَى هَذَا؟ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَمَرَنَا بِهَذَا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أُوَفِّرَ لِحْيَتِي وَأُحْفِيَ شَارِبِي.

تجھے ایسا کرنے پر کس نے آمادہ کیا؟اس نے کہا:اللہ نے ہمیں اسکا حکم دیاتو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی داڑھی کو خوب بڑھاؤں اور اپنی مونچھوں کو پست کروں۔

6–  نیزامام محب الدين ابو عبد الله محمد بن محمود بن الحسن المعروف بابن النجار (المتوفیٰ: 643ھ) نے کہا:

سند:

أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مَحْمُودٍ الحافظ وعبد القادر بن خلف الْمُؤَذِّنُ قَالا: قُرِئَ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ الله بن نصر عن أبي منصور العكبري ونحن نسمع قال: أنبأنا أَبُو القاسم عُبَيْد الله بْن عَلِيّ بْن عمر، أنبأنا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ عَبْدِ العزيز المعدل، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي الرجال، حدثنا أَبُو يَعْقُوبَ الْخَطَّابِيُّ بِالْبَصْرَةِ قَالَ :كُنَّا بَيْنَ يَدَيِ الْمَهْدِيِّ فَقَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنِ آبَائِهِ قَالَ:

متن:

 قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفْدٌ مِنَ الْعَجَمِ قَدْ حَلَقُوا لِحَاهُمْ وَحَفُّوا شَوَارِبَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:خَالِفُوا عَلَيْهِمْ، فَحِفُّوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى.

رسول اللہ ﷺ کے پاس عجم کے ہاں سے ایک وفد آیا جنہوں نے اپنی داڑھیاں مونڈھ رکھی تھیں اور مونچھیں پست رکھی تھیںتو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:انکی مخالفت کرو،مونچھیں پست رکھو اور داڑھیاںچھوڑدو۔(ذیل تاریخ بغداد:17/61،رقم الترجمہ للراوی عبید اللہ بن علی بن عمر بن حقی ابو القاسم:336)

تنبیہ:

اس میں المھدی(الرشيدہارون، امير المومنين ابو جعفر بن محمد المہدی بن المنصور ابی جعفرعبداللہ بن محمد بن علی بن عبد الله بن عباس العبّاسی البغدادی(المتوفیٰ:191 یا 200ھ)کا یہ کہنا کہ : حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَنِ آبَائِهِ قَالَ اس سے مرادان کے جد امجد سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں ،جیسا کہ اہل علم کے ہاں معروف ہے ،اور ان کےنسب سے عیاں ہے۔(نیز ملاحظہ ہو:اللمع فی اسباب ورود الحدیث للسیوطی،ص:77)

تحقیق:

اس روایت کی سند متصل اور رواۃ ثقات ہیں،لہذا یہ روایت صحیح ہے۔

7-نیز اس واقعہ کی اصل صحیح بخاری (642939 44247264) میں عن عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہماکی سندسے مروی ہے ، لیکن اس روایت میں اختصار ہے،اور اس میں داڑھی والا واقعہ نہیں ہے۔

8-نیز اس معنیٰ کی قولی احادیث صحیح سندوں کے ساتھ مروی ہیں ، جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَى خَالِفُوا الْمَجُوسَ.

مونچھیں تراشو اور داڑھی لٹکاؤ ، مجوس کی مخالفت کرو۔(صحیح مسلم،کتاب الطہارۃ ، باب خصال الفطرۃ)

9-نیز سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ :

ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَجُوسُ، فَقَالَ:إِنَّهُمْ يُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ.

رسول اللہ ﷺ کے سامنے مجوس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا:وہ اپنی مونچھیں پست کرتے ہیں اور داڑھیاں مونڈھتے ہیں ، پس تم انکی مخالفت کرو۔

(طبرانی اوسط:1622،1051،طبرانی کبیر:14140،بیہقی کبری:696،صحیح ابن حبان:5476،بیہقی شعب الایمان:6027، الصحیحۃ:2834)

10– نیز سیدنا عبداللہ بن عمر نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

خَالِفُوا الْمَجُوسَ، أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى.

مجوس کی مخالفت کرو ،مونچھیں پست رکھو اور داڑھی چھوڑدو۔(مستخرج ابی عوانہ:468)

تلک عشرۃ کاملۃ

پس ان طرق و متابعات و شواہدکی بنیاد پر ہماری زیر بحث روایت(یعنی  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم کی روایت)حسن کے درجے کو پہنچ جاتی ہے،جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسی معنی کی ایک روایت کو مرسل ہونے کے باوجود حسن قرار دیا۔واللہ اعلم

استدلال:

اس روایت میں ہمارا استدلال لفظ ”اعفاء“سےہے،اور اسکا تعلق خود رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک سے ہے ،کیونکہ اس کے مطابق آپ ﷺنے اپنی داڑھی کے متعلق فرمایا کہ مجھے میرے رب نے ”اعفاء“یعنی داڑھی چھوڑدینے کا حکم دیا ہے۔

جب یہ لفظ بالوںکے لئے استعمال کیا جائے تو اسکا معنی ”مطلق ترک کردینا“ہوتاہے،یعنی بالکل چھوڑ دینا اور بالکل بھی نہ کاٹنا نہ تراشنا،نہ نوچنابلکہ اسے اسکے حال پر چھوڑ دینا،اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہے کہ داڑھی کے بال ساری زندگی بڑھتے ہیں ،لہذا اس اعتبار سے لفظ اعفاء داڑھی کی طوالت کو لازم ہے،یعنی داڑھی کے بال خواہ کتنے ہی طویل ہوجائیں انہیں کاٹا نہ جائے،جیسا کہ احادیث صحیحہ میں وارد شدہ الفاظ:

 1-”ار خوا اللحیٰ“داڑھی لٹکاؤ۔(صحیح مسلم)،بعض نے اسے ”خ“کے بجائے ”ج“کےساتھ پڑھا ہے یعنی ”ارجوا“اسکا معنی ہے :مؤخر کرو،یعنی داڑھی کو چھوڑے رکھو۔

2-” اعفوااللحیٰ “داڑھی کوچھوڑدو۔(صحیح بخاری: 5893 – مستخرج ابی عوانہ:468)

3-”وفروااللحیٰ“داڑھی وافر کرو۔(صحیح بخاری:5892)

4-”اوفوااللحیٰ“داڑھی پوری کرو۔(طبرانی کبیر:11724، شرح السنۃ للبغوی:3194)

5-”ارسل لحیتی“ میں داڑھی کو چھوڑدوں۔(مصنف ابن ابی شیبہ:36626)

6-”اوفر لحیتی“میں داڑھی کو وافر کروں۔( بغیۃ الباحث عن زوائد مسند الحارث :2/620) بھی اسی معنی پر دلالت کرتے ہیں۔

نیز داڑھی اور مونچھوںکی بابت رسول اللہ ﷺ نے اپنی امت کے افراد کو مختلف اقوام( مشرکین عجم ،مجوس، اہل کتاب )کی مخالفت کرنے کا حکم دیا ، جیسا کہ فرمایا:

خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ.

مشرکین کی مخالفت کرو ، داڑھی وافر کرو اور مونچھیں پست رکھو۔(صحیح بخاری:5892)

نوٹ: 

یہاں مشرکین سے مشرکین مکہ مرادنہیں ہیںکیونکہ مشرکین عرب خصوصاً مشرکین مکہ میں مکمل داڑھی رکھنے کا رواج تھا(ملاحظہ ہو:صحیح مسلم ، کتاب الجہاد والسیر ، باب قتل ابی جہل-مسند احمد:2066522283)بلکہ مشرکین عجم مراد ہیں(ملاحظہ ہو:ذیل تاریخ بغداد:17/61،رقم الترجمہ للراوی عبید اللہ بن علی بن عمر بن حقی ابو القاسم:336)،جن میں ہندو،بدھسٹ،وغیرہم شامل ہیں، جیسا کہ آتش پرست مجوس کے متعلق فرمایا:

خَالِفُوا الْمَجُوسَ، أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَأَعْفُوا اللِّحَى.

مجوس کی مخالفت کرو ،مونچھیں پست رکھو اور داڑھی چھوڑدو۔ (صحیح مسلم ،کتاب الطہارۃ ، باب خصال الفطرۃ-مستخرج ابی عوانہ:468)

نوٹ:

مشرکین عجم اور مجوس میں مونچھیں بڑھانے اورداڑھی مونڈھنے کا رواج تھا جو آج تک باقی ہے۔

نیز اس سلسلے میں اہل کتاب کی مخالفت کرنے کا بھی حکم دیا، چنانچہ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے کہا:

خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَشْيَخَةٍ مِنَ الْأَنْصَارٍ بِيضٌ لِحَاهُمْ فَقَالَ:  يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ حَمِّرُوا وَصَفِّرُوا، وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ . قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَتَسَرْوَلَونَ وَلْا يَأْتَزِرُونَ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَسَرْوَلُوا وَائْتَزِرُوا وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ . قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَتَخَفَّفُونَ وَلَا يَنْتَعِلُونَ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  فَتَخَفَّفُوا وَانْتَعِلُوا وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ . قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَقُصُّونَ عَثَانِينَهُمْ وَيُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:  قُصُّوا سِبَالَكُمْ وَوَفِّرُوا عَثَانِينَكُمْ وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ .

رسول اللہ ﷺ انصار کے کچھ بزرگوں کے پاس تشریف لائے جنکی داڑھیاں سفید تھیں،تو آپ نے فرمایا:اے انصار کی جماعت،سرخ یا زرد رنگ سے رنگ لو،اور اہل کتاب کی مخالفت کرو،ہم نے کہا:اللہ کے رسول:اہل کتاب پائجامہ پہنتے ہیں اور ازار نہیں باندھتے، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:پائجامہ پہنو اور ازار باندھو،اور اہل کتاب کی مخالفت کرو،ہم نے کہا:اللہ کے رسول،اہل کتاب موزہ(چمڑے سے بنا)پہنتے ہیں اور جوتی نہیں پہنتے،آپ نے فرمایا:موزہ پہنو اور جوتی پہنو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو،ہم نے پوچھا:اللہ کے رسول،اہل کتاب اپنی ٹھوڑیوں کے بال کاٹتے ہیں اور اپنی مونچھیں بڑھاتے ہیں،آپ نے فرمایا:تم اپنی مونچھیں کاٹو اور اپنی ٹھوڑیوں کے بال خوب بڑھاؤ،اور اہل کتاب کی مخالفت کرو۔(مسند احمد:22283،الصحیحۃ:1245)

فائدہ:

یہاں سے یہ بھی واضح ہوا کہ دین اسلام کا اپنا ایک کلچر ہے،اور وہ کلچر مشرکین ، مجوسیوں،بت پرستوں،یہود و نصاریٰ سے بالکل مختلف ہے،اور اس کلچر میں مکمل داڑھی  ہلکی مونچھیں بھی شامل ہیں۔

۔۔۔جاری ہے۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے