پندرہ مارچ جمعہ کے روز نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں آسٹریلوی دہشت گرد کے وحشیانہ حملے کے نتیجہ میں پچاس معصوم، مظلوم اور نہتے مسلمانوں کو شہید اور تقریباً چالیس کو زخمی کر دیا گیا، ان میں سے نو پاکستانی شہریوں سمیت دیگر ممالک کی مسلم خواتین، مرد، بچے اور جوان سب ہی شامل ہیں۔ مسلمان نیوزی لینڈ میں ایک صدی سے زیادہ عرصے سے رہ رہے ہیں۔ یہ مسلمان نیوزی لینڈ کی کل آبادی کا صرف ایک فی صد یعنی چالیس ہزار ہیں۔ یہ سب امن پسند اور قانون پسند شہری اور وہاں کی ترقی میں اپنا کردار باحسن و خوبی ادا کر رہے ہیں۔ ویسے بھی صرف ایک فی صد آبادی کی حیثیت ہی کیا ہوگی۔ یہ اندوہ ناک سانحہ اس دلیل کی کھلی نفی کرنے کے لیے کافی ہے، جس کا ترقی یافتہ مغربی ممالک کے ذرایع ابلاغ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ یہ واقعہ اس بات کی سچائی کا کھلا ثبوت ہے کہ دہشت گروں کا مذہب ان کی پہچان کبھی نہیں ہوتا، ان کی پہچان صرف دہشت گرد ہی ہوتی ہے۔ یہ اندوہ ناک سانحہ مسلمانوں کے خلاف  پروپیگنڈا کرنے والوں کے منہ پر انسانیت کی طرف سے ایک زوردار طمانچہ ہے۔

پوری دنیا کے انسانوں کی بنیادی ضرورت امن و بھائی چارہ ہے۔ اس لیے کہ اس کے بغیر کوئی قوم و ملک ترقی نہیں کرسکتا اور نہ ہی متحد رہ سکتا ہے۔ امن وسلامتی کائنات کی ضرورت ہے کہ اگر یہ نہ ہو تو انسانیت دم توڑ دیتی ہے۔ امن ساری انسانیت کا مشترکہ خواب ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس سے انسانیت کی بقا وابستہ ہے۔ امن عالم کو قائم رکھنے ہی کے لیے ملکی اور بین الاقوامی قوانین بنائے گئے ہیں اور یہ قوانین بلاکسی رعایت ملک و ملت، قبیلہ و زبان اور مسلک و مذہب کے تمام پر لوگو ہوتے ہیں اور ان کی پاس داری کرنا ہی امن عالم کے ثبات کے لیے ضروری ہیں۔

ہماری دنیا جو اب گلوبل ولیج کہلاتی ہے کہ اب دنیا میں کہیں بھی ہونے والا واقعہ صرف اس ملک کو متاثر نہیں کرتا بلکہ اس سے پوری دنیا متاثر ہوتی ہے۔ اس دنیا میں سب ہی اچھے اور پارسا نہیں بن سکتے اسی لیے قوانین کا اطلاق بھی کیا جاتا ہے کہ امن و امان کی فضا مسموم نہ ہونے پائے۔ کچھ شرپسند اور انسانیت کے دشمن اسے نابود کرنا چاہتے ہیں، ان لوگوں کا نظریہ صرف اور صرف دہشت گردی کا فروغ ہے۔ ان کا صرف ایک ہی نام ہے دہشت گرد انسانیت کے دشمن۔ نیوزی لینڈ میں ہونے والا اندوہ ناک سانحہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ دہشت گردوں کی کوئی مذہبی پہچان نہیں ہوتی وہ صرف امن عالم اور انسانیت کے دشمن ہوتے ہیں۔

اس واقعے کا افسوس ناک اور قابل غور پہلو یہ ہے کہ فیس بک پر لائیو اس وحشیانہ پن کو براہِ راست دکھایا جاتا رہا۔ اور یہ سوال پوچھنا کیا دہشت گردی ہوگا کہ اس وقت ساری دنیاکہاں تھی ؟ اس وحشت کا مظاہرہ کوئی مسلمان کرتا تو ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی۔ کیا یہ واقعہ اس بات کا متقاضی نہیں ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے خلاف اپنا مکرو ہ پروپیگنڈا بند کرے اور اپنے متعصبانہ رویے پر نظرثانی کرے۔ کچھ ایسی خبریں بھی گردش میں ہیں کہ ان انسانیت کے مجرموں کو نفسیاتی بیمار قرار دے کر اس واقعے پر پردہ ڈال دیا جائے گا، اور اگر ایسا ہوا تو یہ انتہائی افسوس ناک ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے ہر پہلو کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائے۔

 

اس اندوہ ناک سانحے نے جہاں مسلم دہشت گردی کےنظریے کو عوامی سطح پر مسترد کردیا، وہیں سفید فام برتری کے نعرے کو بھی کھوکھلا ثابت کردیا ہے۔ اس کا مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب پورپی ممالک کے امن و انصاف کے خواہاں ہزاروں شہریوں نے مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کے لیے شان دار مظاہرے کیے جو اب بھی جاری ہیں۔ ایسے مظاہرے نہ صرف نیوزی لینڈ میں ہوئے بل کہ آسٹریلیا اور کینیڈا اور دیگر ممالک میں بھی ہورہے ہی نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ واضح طور پر ایک دہشت گرد حملہ ہے۔ اور یہ ایک ناقابلِ قبول عمل ہے اور ایسے واقعات کی نیوزی لینڈ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ وزیرِ اعظم نے نیوزی لینڈ کے دارالحکومت ویلینگٹن کی کِلبِرنی مسجد میں نمازیوں سے تعزیت کی۔ اس موقع پر انہوں نے لواحقین کے ہجوم میں کھڑے ہر شخص کے گلے لگ کر ان سے ذاتی طور پر افسوس کیا۔تب ان کا غم پوری طرح سے عیاں تھا۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان ہم سے الگ نہیں۔ مقتولین کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے سادہ انداز میں لیکن سخت لہجے میں کہا کہ ’وہ ہم ہی ہیں‘۔آسٹریلوی قاتل کو مخاطب ہو کر بولیں کہ ’تم نے بھلے ہی ہمیں چنا ہو، مگر ہم تمہیں قطعاً مسترد کرتے ہیں اور مذمت کرتے ہیں۔قاتل اس ظلم وبربریت سے شہرت حاصل کرنا چاہتا تھأ جبکہ میں اس کا نام لینا بھی پسند کروں گی نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے جس خوبصورت انداز سے متأثرہ خاندانوں اور مجموعی طور مسلمانوں کی دلجوئی کی اس سے ان کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا اور نیوزی لینڈ سانحے کا رد عمل ویسا نہیں ہوا جیسا دہشت گرد چاہتے تھے ساری ہوا ہی الٹ سمت چل پڑی دہشت گرد کا خیال تھا کہ اس واقعہ کے بعد پوری دنیا کے سفید فام کے انگریز اس کے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے وہ ان کا ہیرو بن جائے گا اور مسلمانوں کے خلاف نائن الیون جیسی ایک نئی عالمی تحریک دہشت گرد تحریک شروع ہوجائے گی۔جبکہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے جو اپنا رد عمل دکھلایا اس سے پوری دنیا کے مسلم اور غیر مسلم ممالک کو سبق حاصل کرنا چاہیے کہ مظلوم ہمیشہ مظلوم ہوتاہے اس کا کسی مذہب یا قوم سے تعلق کی بنیاد پر ہمدردی نہیں جاتی بلکہ اس کے ساتھ ہر حال میں ہمدردی اور محبت کا اظہار کیا جاتاہے اور اس کے دکھ میں شریک ہونے سے کسی انسان کا عہدہ چھوٹا نہیں ہوتا بلکہ اس کی قدر ومنزلت میں کئی گنا اضافہ ہی ہوتاہے ۔ اس موقع پر نیوزی لینڈ میں مسجد النور کے امام جمال فودہ نے کہا کہ “نیوزی لینڈ کے شہریوں نے دہشت گردوں کے سامنے ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی کو بھی اپنا معاشرہ تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دیں گے”۔شہداء کی نماز جنازہ سے قبل جمعے کے خطبے کے سلسلے میں بیان میں فودہ نے نیوزی لینڈ اور دنیا کی تمام حکومتوں سے اپیل کی کہ وہ نفرت انگیز تقاریر اور خوف و دہشت کی پالیسی کو ختم کریں۔ انہوں نے کہا کہ “یقینا 50 بے قصور افراد کی شہادت راتوں رات نہیں ہوئی بلکہ یہ اسلام دشمنی اور نفرت اور بعض سیاسی قائدین کی جانب سے اسلام مخالف تقاریر کا نتیجہ ہے”۔ علاوہ ازیں امام صاحب نے اپنے خطاب میں کہا کہ شہداء کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ اس کے ذریعے اسلام کا جمال دنیا کے سامنے آئے گا۔ اور کہا کہ اسلام امن اور محبت کا مذہب ہے جو ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی تعلیمات دیتا ہے۔پیش امام کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ کے عوام نے محبت اور اتحاد کامظاہرہ کیا، کسی کواجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمیں تقسیم کرے، جولوگ شہید ہوئے ان کی تعداد معمولی نہیں لیکن نیوزی لینڈ کے عوام کا اظہار یکجہتی غیرمعمولی ہے۔خطبے میں کہا گیا کہ یہ سانحہ نیوزی لینڈ کے لیے نئی زندگی ثابت ہوا ہے کیونکہ نیوزی لینڈ کی سوچ کو شیطانی نظریے کے تحت نقصان پہنچانے کی کوشش ناکام بنادی گئی ہے۔نیوزی لینڈ کے عوام کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کی مہم کے سلسلے میں “اتحاد و اتفاق کی خاطر حجاب” کی کال کا بھرپور اور مثبت جواب دیا گیا۔ اس حوالے سے نیوزی لینڈ کی غیر مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد نے جمعے کے روز مسلمان خواتین کی طرح حجاب پہنا۔ اس اقدام کا مقصد کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں گزشتہ جمعے کو ہونے والے قتل و غارت کو مسترد کرنے سے متعلق جذبات کا اظہار تھا۔ اس موقع پر شہداء کی تدفین میں کیوی وزیرِ اعظم جیسنڈآرڈرن خود بھی سر پر حجاب کے ساتھ نمودار ہوئیں اس کے  بعد ا سکارف کی مانگ بڑھ گئی ہے۔ مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے عیسائی خواتین بھی دعا ئیہ تقریبات میں ا سکارف پہن کر شر یک ہو رہی ہیں نیوزی لینڈ میں خواتین پولیس اہلکاروں اور دیگر خواتین نے بھی اسکارف پہن کر مسلمانوں سے یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم اور وہاں کے عوام نے ہمارے آگے شائستگی، دردمندی اور دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہونے کے سنہری معیارات پیش کیے ہیں۔ ‘۔ نماز جمعہ سے قبل ہیگلے پارک پہنچنے پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے مختصر خطاب میں صاحبان ایمان کے ایک جسم کی طرح ہونے سے متعلق حدیث رسول بیان کی۔

عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى (صحيح البخاري:6011ومسلم:2586)

سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ () نے فرمایا :مومن بندوں کی مثال ان کی آپس میں محبت اور اتحاد اور شفقت میں جسم کی طرح ہے کہ جب جسم کے اعضاء میں سے کسی عضو کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اس کے سارے جسم کو نیند نہیں آئے اور بخار چڑھ جانے میں اس کا شریک ہو جاتا ہے۔

دہشت گرد سے ہتھیار چھیننے کی کوشش کرنے والے نعیم راشد کی اہلیہ کا انٹرویو پوری دنیا کو اپنے سحر میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ یہ محض ایک انٹرویو نہیں بلکہ صبر واستقامت اور ایمان کی پختگی کی ایسی داستان ہے جو مسلمان ممالک میں بھی کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ نعیم راشد کی اہلیہ کے چہرے پر پھیلا نور اور مسکراہٹ ایک واضح دلیل تھی کہ ایک مسلمان کیلئے شہادت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں۔ ان کا شوہر اور ان کا بیٹا ان سے چھن گیا لیکن انہوں نے اپنے انٹرویو میں ایک لفظ بھی ایسا نہیں بولا جس سے قدرت سے کوئی گلہ یا ناراضی ظاہر ہوتی ہو ۔ وہ گفتگو کے دوران مکمل طور پر مطمئن دکھائی دیں کیونکہ انہیں یقین ہے کہ ان کے پیارے اللہ کی راہ میں شہید ہوئے اور اللہ ایسے بندوں کا اجر کبھی ضائع نہیں کرتا۔ نعیم راشد کا بیٹا تو ایک اور بچے کے اوپر لیٹا خود گولیاں کھاتا رہا جس سے وہ خود شہید ہوگیا جبکہ وہ بچہ بچ گیا۔ ہمارے ہاں اگر کوئی رشتہ دار طبعی موت بھی فوت ہو جائے تو خواتین زور زور سے رونا اور بین كرناشروع کر دیتی ہیں ۔ کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک وہ آخرت پر ایمان نہ رکھے اور دل سے پختہ یقین نہ کرے کہ یہ دنیا فانی ہے۔ہر شخص آخرت كا راهي ہے اور وہاں اپنے کیئے کا حساب دینا ہے اور جو شخص ایسا ایمان رکھتاہے وہ کبھی بھی غم آنے پر اور اپنوں کے بچھڑنے پر بے صبری کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ ہر حال میں اللہ کے فیصلے پر راضی رہتاہے۔

النور مسجد کے خطیب صاحب نے خطبہ دیتے ہوئے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سے اظہار تشکر کیا اور کہا کہ ان کی محبت و ہمدردی کے لیے ہم شکرگزار ہیں، نیوزی وزیراعظم کی لیڈر شپ دنیا بھر کے لیے ایک سبق ہے۔

خطیب صاحب نے پولیس اور دیگر حکام سمیت لوگوں کو قاتل سے بچانے کے لیے گھروں کے دروازے کھولنے والوں کا بھی شکریہ ادا کیا۔ جس سےنیوزی لینڈ کی فضاؤاللہ اکبرکی صداؤں سے گونج اٹھی۔

    مولانا جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ پر قاتلانہ حملہ کی مذمت:

نیپا چورنگی کے قریب دارالعلوم کورنگی کے نائب مہتمم مفتی جسٹس محمد تقی عثمانی پر کراچی میں قاتلانہ حملہ کیا گیا لیکن اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ وہ فائرنگ میں محفوظ رہے. قافلے پر فائرنگ کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق اور 2 زخمی ہوگئے۔

ہم معروف عالم دین اور جید فقیہہ مفتی محمد تقی عثمانی پر فائرنگ کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے فائرنگ کے نیتجے میں مولانا کے سیکیورٹی گارڈ کے جاں بحق ہونے پر گہرے دکھ و افسوس کا اظہار کرتے ہے۔

حکومت وقت سے پُر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ علمائے کرام کی سکیورٹی کو یقینی بنائیں، مفتی تقی عثمانی جیسی قابل قدر ہستی پر حملہ گہری اور گھناؤنی سازش ہے جس کو بے نقاب کرنے کے لیے ہر ممکنہ کوشش برؤے کار لائی جائے۔، ملوث ملزمان کو قانون کی گرفت میں لایا جائے، حکومت سندھ صوبے میں امن و امان کے خلاف سازش کو آہنی ہاتھوں سے روکے۔

 اس افسوسناک واقعہ میں دوافراد کی ہلاکت پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔ کراچی میں عرصہ دراز سے مذہبی قائدین اور نامور علمائے دین کودہشت گردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کا مقصد ملک میں مختلف مسالک کے درمیان انتشار پھیلانا اور نفرت کی آگ بھڑکانا ہے۔ امن کے دشمن دہشت گرد ایسا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جس سے امن و امان کی صورتحال خراب هو۔ دہشت گردوں کی طرف سے اتنی بڑی کارروائی اور اس کے بعد وہاں سے فرار ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ ان دہشت گردوں کے یہاںسہولت کار اور محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پروگرام پر بھرپور عمل کرتے ہوئے ان دہشت گردوں اور انکے سہولت کاروں کو نشان عبرت بنایا جائے تاکہ انہیں ایسی کوئی کارروائی کرنے کا موقع نہ ملے جس سے ملک میں انتشار پیدا ہو۔اور اس کے ساتھ ساتھ حکومت اہم شخصیت کی سکیورٹی بھی سخت کرے۔وزیراعظم اور دیگر سیاسی و مذہبی قائدین نے بھی اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث عناصر کو بے نقاب کرنے اور انہیں کیفرکردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیاہے جو بجا ہے۔ ایسے عناصر کسی رعایت کے مستحق نہیں۔

جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کے مدیر فضیلۃ الشیخ ضیاء الرحمن المدنی حفظہ اللہ ،اساتذۂ کرام اور طلبہ مفتی محمد تقی عثمانی حفظہ اللہ کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہیں اور ان کے لیے دعاگو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو صبر واستقامت عطا فرمائے اور فوت شدگان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے