معزز قارئین! قرآن کریم ایک عظیم ترین کتاب ہے یہ وہ کتاب ہے جو وفا کرنے والی ہے قرآن مجید اپنے پڑھنے والوں کو دنیا میں کس قدر عزت و رفعت سے نوازتا ہے اور پریشانیوں سے بچاکر رکھتا ہے لیکن یہ قرآن مجید بندے کو عذاب قبر سے بھی بچاکر رکھے گا حتی کہ روز حشر کوئی کچھ کام نہیں آئے گا وہاں قرآن کریم وفا کرکے دکھائے گا یہ روز حشر پڑھنے والے ،حفظ کرنے والے اور عمل کرنے والے لوگوں کے لیے سفارشی بن کر آئے گا اور بندے کے لیے ہر حوالے سے باعث نجات بنے گا۔ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللّه نے فرمایا:

يُؤتَی الرَّجُلُ فِی قَبرِهِ فَإِذَا أُتِیَ مِن قِبَلِ رَأسِهِ دَفَعَتهُ تِلَاوَةُ القُرآن وَإذَا أُتِيَ مِن قِبَلِ يَدَيهِ دَفَعَتهُ الصَّدَقَةُ وَ إِذَا أُتِیَ مِن قِبَلِ رِجلَيهِ دَفَعهُ مَشيُهُ إِلَي المَسَاجِدِ

آدمی کو قبر میں دفن کردینے کے بعد جب اس کے سر کی طرف سے (عذاب ) آتا ہے تو تلاوت قرآن اسے دور کر دیتی ہے جب سامنے سے آتا ہے تو صدقہ و خیرات دور کردیتے ہیں اور جب اس کے پاؤں کی طرف سے آتا ہے تو مسجد کی طرف چل کر جانا اسے دور کر دیتا ہے (یعنی عذاب دینے والے فرشتوں کو دور کر دیا جاتا ہے )

(الطبرانی فی الاوسط : 199/10  :  200 و الترغیب و الترھیب: 5225)

ایک روایت میں سیدنا عبدالله بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ

يُؤتَی الرَّجُلُ فِی قَبرِهِ فَتُؤتَی رِجلَاهُ فَتَقُولُ رِجلَاهُ : لَيسَ لَکُم عَلَي مَا قِبَلِی سَبِيلُہٗ کَانَ يَقُومُ يَقرُأُ بِی سُورَةَ المُلکِ ثُمَّ يُؤتَی مِن قِبَلِ صَدرِهِ او قَالَ بَطنِهِ فَيَقُولُ : لَيسَ لَکُم عَليَ مَا قِبَلِي سَبِيلُہُ کَانَ يَقرَأ بِی سُورَةَ المُلکِ ثُمَّ يُؤتي رَاسُهُ فَيَقُولُ : لَيسَ لَکُم عَلَي مَا قِبَلِی سَبِيلُہٗ کَانَ يَقرَأ بِی سُورَةَ المُلکِ قَالَ : فَهِیَ المَانِعَةُ تَمنَعُ مِن عَذَابِ القَبرِ وهی فِی التَّورَاةِ سُورَةُ المُلکِ وَ مَن قَرَأهَا فِی لَيلَةٍ فَقَد اَکثَرَ وَ اَطنَبَ

جب بندہ قبر میں لایا جاتا ہے تو اگر عذاب اس کی ٹانگوں کی طرف سے آتا ہے تو وہ پکار اٹھتی ہیں اس طرح سے تمہارے آنے کے لیے کوئی راستہ نہیں کیونکہ یہ شخص سورة ملک کی تلاوت کیا کرتا تھا عذاب اس کے سینے یا پیٹ کی طرف سے آنا چاہتا ہے تو وہ کہتے ہیں ادھر سے بھی آنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ یہ آدمی سورة ملک تلاوت کرتا تھا اور اگر عذاب سر کی جانب سے آنا چاہتا ہے تو سر کہتا ہے کہ میری طرف سے بھی کوئی راستہ نہیں ! کیونکہ یہ سورة ملک کی تلاوت کیا کرتا تھا آپ نے فرمایا : یہ تومانعہیعنی عذاب سے محفوظ رکھنے والی سورت ہے ۔ اور تورات میں اس کا نام سورة الملک تھا جس نے اسے رات کے وقت پڑھا اس نے بہت زیادہ اور عمدہ کام کیا ۔ (المستدرک للحاکم ، باب تفسیر سورت الملک : 3892)

جیسا کہ قرآن کریم نے اپنے پڑھنے والوں کو عذاب قبر سے بچا کے رکھا بالکل اسی طرح قرآن قیامت کے دن شفیع بن کر آئے گا اور اپنے پڑھنے والے کے حق میں شفاعت کرے گا جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم نے فرمایا:

الصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَقُولُ الصِّیَامُ: أَیْ رَبِّ مَنَعْتُہُ الطَّعَامَ وَالشَّہَوَاتِ بِالنَّہَارِ فَشَفِّعْنِی فِیہِ وَیَقُولُالْقُرْآنُ: مَنَعْتُہُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِی فِیہِ قَالَ: فَیُشَفَّعَانِ (مسند احمد: 8324)

روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کے لئے شفاعت کریں گے روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس کو کھانے پینے اور دوسری خواہشات سے روکے رکھا پس تو اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما اُدھر قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کو نہ سونے دیا پس تو اس کے حق میں  میری سفارش قبول فرما سو ان کی سفارش قبول کر لی جائے گی۔

قرآن مجید قیامت کے دن حاضر ہو گا اللہ تعالی سے عرض کرے گا : اے میرے رب! صاحب قرآن کو جوڑا پہنا اے میرے رب! اس سے راضی ہو جا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا:

يَجِيئُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ: يَا رَبِّ حَلِّهِ فَيُلْبَسُ تَاجَ الْكَرَامَةِ، ثُمَّ يَقُولُ: يَا رَبِّ زِدْهُ فَيُلْبَسُ حُلَّةَ الْكَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ: يَا رَبِّ ارْضَ عَنْهُ فَيَرْضَى عَنْهُ فَيُقَالُ لَهُ: اقْرَأْ وَارْقَ وَتُزَادُ بِكُلِّ آيَةٍ حَسَنَةً

قرآن قیامت کے دن پیش ہو گا پس کہے گا: اے میرے رب! اسے (یعنی صاحب قرآن کو) جوڑا پہنا تو اسے کرامت (عزت و شرافت) کا تاج پہنایا جائے گا پھر وہ کہے گا: اے میرے رب! اسے اور دے تو اسے کرامت کا جوڑا پہنایا جائے گا وہ پھر کہے گا: اے میرے رب! اس سے راضی و خوش ہو جا تو وہ اس سے راضی و خوش ہو جائے گا اس سے کہا جائے گا پڑھتا جا اور چڑھتا جا تیرے لیے ہر آیت کے ساتھ ایک نیکی کا اضافہ کیا جاتا رہے گا۔(جامع ترمذی:2915)

اور اسی طرح سیدناعبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِنْدَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا

صاحب قرآن(حافظ قرآن یا ناظرہ خواں)سے کہا جائے گا: پڑھتے جاؤ اور چڑھتے جاؤ اور عمدگی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ تم دنیا میں عمدگی سے پڑھتے تھے تمہاری منزل وہاں ہے جہاں تم آخری آیت پڑھ کر قراءت ختم کرو گے ۔ (سنن ابو داؤد:1464)

امام خطابی رحمہ الله نے کہا ہے کہ قرآن کریم کی آیات کی تعداد جنت کی سیڑھیوں کی تعداد کے برابر ہے چنانچہ قرآن پڑھنے والے سے کہہ دیا جائے گا کہ جتنی آیتیں پڑھو گے اتنی سیڑھیاں چڑھو گے چنانچہ جو پورا قرآن پڑھ لے گا وہ آخری سیڑھی چڑھ جائے گا اور جو اس کا کوئی حصہ پڑھے گا وہ اسی تعداد میں سیڑھیاں چڑھے گا اور اس کا ثواب قرآن پڑھنے کے اختتام پر ختم ہوگا۔ (صحیح ترغیب و ترہیب: 1426)

اور روز قیامت قرآن ایک انسانی صورت میں حاضر ہوگا اور صاحب قرآن سے ہمکلام ہوگا۔صاحب قرآن کو دائیں ہاتھ میں بادشاہت اور بائیں ہاتھ میں دوام عطا کر دیا جائے گا اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا اس کے والدین کو ایسے بہترین دو جبے پہنائے جائیں گے کہ دنیا و ما فیہا اس کے برابر نہیں ہوگا جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے کہ:

يَجِيءُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَالرَّجُلِ الشَّاحِبِ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ: هَل تَعْرِفُنِي؟ أَنا الَّذِي كُنْتُ أُسْهِرُ لَيْلَك وأُظمئ هَوَاجِرَك وإِن كُل تَاجِر من وَرَاء تِجَارَتِه وأَنا لَك الْيَوْم من وَرَاء كُل تَاجِر فَيُعْطَى الْملك بِيَمِينِه والْخُلْد بِشِمَالِه ويُوضَع عَلَى رَأسِه تَاج الْوَقَار ويُكْسَى وَالِدَاه حُلَّتَيْن لَا تَقُوم لَهم الدُّنْيَا و ما فِيهَا فَيَقُولَان: يَا رَبّ! أَنَّى لَنا هذا ؟ فَيُقَال: بتعليم وَلَدِكُمَا الْقُرْآن و إِن صَاحَب الْقُرْآن يُقَال لَه يَوْمَ الْقِيَامَة : اقْرَأ وارْقَ في الدَّرَجَات ورَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّل في الدُّنْيَا فَإِن مَنْزِلك عَنْد آخِرِ آيَةٍ معك.

قیامت کے دن قرآن ایک رنگ اور جسم کی تبدیلی کی صورت میں آئے گا اور صاحب قرآن سے کہے گا: کیا تم مجھے جانتے ہو؟ میں وہ ہوں جو تمہیں راتوں کو بیدار اور دوپہر کو پیاسا رکھتا تھا ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے تھا اور آج میں ہر تاجر کے علاوہ آپ کے ساتھ ہوں تب صاحب قرآن کو دائیں ہاتھ میں بادشاہت اور بائیں ہاتھ میں دوام عطا کر دیا جائے گا اس کے سر پر وقار کا تاج رکھا جائے گا اس کے والدین کوایسے دو جبے پہنائے جائیں گے دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس کے برابر نہیں ہوگا وہ کہیں گے: اے ہمارے رب! یہ ہمارے لئے کس وجہ سے؟ تو کہا جائے گا: تم دونوں نے اپنے بچے کو قرآن کی تعلیم دی تھی اور قیامت کے دن صاحب قرآن سے کہا جائے گا پڑھو اور درجات چڑھتے جاؤ اور اس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جس طرح دنیا میں پڑھتے تھے تمہاری منزل تمہاری آخری آیت پر ہے۔ (سلسلہ صحیحہ:3002)

ایک روایت میں ہے کہ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:

يَجِيءُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَالرَّجُلِ الشَّاحِبِ فَيَقُولُ:‏‏‏‏ أَنَا الَّذِي أَسْهَرْتُ لَيْلَكَ‏‏‏‏ وَأَظْمَأْتُ نَهَارَكَ

قیامت کے دن قرآن ایک تھکے ماندے شخص کی صورت میں آئے گا اور حافظ قرآن سے کہے گا کہ میں نے ہی تجھے رات کو جگائے رکھا اور دن کو پیاسا رکھا ۔ (سنن ابن ماجہ: 3781)

اور سورہ البقرہ اور سورہ آل عمران قیامت کے دن اپنی صحبت میں پڑھنے اور عمل کرنے والوں کی طرف سے دفاع کریں گی جیسا کہ سیدنا ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کویہ فرماتے ہوئے سنا:

اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لِأَصْحَابِهِ اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَسُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ تُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ

قرآن پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اصحاب قرآن (حفظ وقراءت اور عمل کرنے والوں) کا شفاعتی بن کر آئےگا دو روشن چمکتی ہوئی سورتیں : البقرہ اور آل عمران پڑھا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جیسے وہ دو بادل یا دو سائبان ہوں یا جیسے وہ ایک سیدھ میں اڑتے پرندوں کی وہ ڈاریں ہوں وہ اپنی صحبت میں (پڑھنے اور عمل کرنے) والوں کی طرف سے دفاع کریں گی سورہ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اسے حاصل کرنا باعث برکت اور اسے ترک کرناباعث حسرت ہے اور باطل پرست اس کی طاقت نہیں رکھتے ۔ (صحیح مسلم:1874)

اور اسی طرح سورة الملک اپنے پڑھنے والے کی شفاعت کرے گی یہاں تک کہ اس کی بخشش ہو جائے جیسا کہ سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا:

سُورَةٌ مِنَ الْقُرْآنِ ثَلَاثُونَ آيَةً تَشْفَعُ لِصَاحِبِهَا حَتَّى يُغْفَرَ لَهُ:‏‏‏‏ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ (سنن ابو داؤد:1400)

قرآن کی ایک سورۃ جو تیس آیات پر محیط ہے اپنے پڑھنے والے کی سفارش کرے گی یہاں تک کہ اس کی مغفرت ہو جائے اور وہ “تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ” ہے ۔

قرآن کریم آپ کے حق میں یا آپ کے خلاف حجت ہے جیسا کہ سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:

الْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْك (صحیح  مسلم: 534)

قرآن تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف حجت ہے۔

تمہارے حق میں حجت سے مراد ہے کہ قرآن مجید روز قیامت اپنے پڑھنے والے کی نجات کےلیے اللہ عزوجل سے التجائيں کرتا رہے گا حتی کہ بندے کی نجات ہوجائے اور وہ جنت میں داخل ہوجائے ۔جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی نے فرمایا:

اَلْقُرْآنُ شَافِعٌ مُشَفَّعٌ، مَنْ جَعَلَهُ أَمَامَهُ قَادَهُ إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَنْ جَعَلَهُ خَلْفَ ظَهرِه سَاقَهُ إِلَى النَّارِ.

قرآن شفاعت کرنے والا ہے اور اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے۔ جو شخص اسے اپنے سامنے رکھے گا اسے جنت کی طرف لے جائے گا اور جو اسے اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک دے گا اسے جہنم کی طرف ہانک کر لے جائے گا ۔( الصحيحۃ للالبانی : 2019 )

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہمیں قرآن مجید سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین ۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے