پیارے بچو ! رسول اللہ نے فرمایا کہ :

أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلًا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ ، سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارٍ ، فَقَالَ : ائْتِنِي بِالشُّهَدَاءِ أُشْهِدُهُمْ ، فَقَالَ : كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا ، قَالَ : فَأْتِنِي بِالْكَفِيلِ ، قَالَ : كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا ، قَالَ : صَدَقْتَ ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ، فَخَرَجَ فِي الْبَحْرِ فَقَضَى حَاجَتَهُ ، ثُمَّ الْتَمَسَ مَرْكَبًا يَرْكَبُهَا يَقْدَمُ عَلَيْهِ لِلْأَجَلِ الَّذِي أَجَّلَهُ ، فَلَمْ يَجِدْ مَرْكَبًا فَأَخَذَ خَشَبَةً ، فَنَقَرَهَا فَأَدْخَلَ فِيهَا أَلْفَ دِينَارٍ وَصَحِيفَةً مِنْهُ إِلَى صَاحِبِهِ ، ثُمَّ زَجَّجَ مَوْضِعَهَا ، ثُمَّ أَتَى بِهَا إِلَى الْبَحْرِ ، فَقَالَ : اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنِّي كُنْتُ تَسَلَّفْتُ فُلَانًا أَلْفَ دِينَارٍ فَسَأَلَنِي كَفِيلَا ، فَقُلْتُ : كَفَى بِاللَّهِ كَفِيلًا ، فَرَضِيَ بِكَ وَسَأَلَنِي شَهِيدًا ، فَقُلْتُ : كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا فَرَضِيَ بِكَ ، وَأَنِّي جَهَدْتُ أَنْ أَجِدَ مَرْكَبًا أَبْعَثُ إِلَيْهِ الَّذِي لَهُ فَلَمْ أَقْدِرْ ، وَإِنِّي أَسْتَوْدِعُكَهَا فَرَمَى بِهَا فِي الْبَحْرِ ، حَتَّى وَلَجَتْ فِيهِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَهُوَ فِي ذَلِكَ يَلْتَمِسُ مَرْكَبًا يَخْرُجُ إِلَى بَلَدِهِ ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ يَنْظُرُ ، لَعَلَّ مَرْكَبًا قَدْ جَاءَ بِمَالِهِ ، فَإِذَا بِالْخَشَبَةِ الَّتِي فِيهَا الْمَالُ فَأَخَذَهَا لِأَهْلِهِ حَطَبًا ، فَلَمَّا نَشَرَهَا وَجَدَ الْمَالَ وَالصَّحِيفَةَ ، ثُمَّ قَدِمَ الَّذِي كَانَ أَسْلَفَهُ فَأَتَى بِالْأَلْفِ دِينَارٍ ، فَقَالَ : وَاللَّهِ مَا زِلْتُ جَاهِدًا فِي طَلَبِ مَرْكَبٍ لِآتِيَكَ بِمَالِكَ ، فَمَا وَجَدْتُ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي أَتَيْتُ فِيهِ ، قَالَ : هَلْ كُنْتَ بَعَثْتَ إِلَيَّ بِشَيْءٍ ؟ قَالَ : أُخْبِرُكَ أَنِّي لَمْ أَجِدْ مَرْكَبًا قَبْلَ الَّذِي جِئْتُ فِيهِ ، قَالَ : فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ أَدَّى عَنْكَ الَّذِي بَعَثْتَ فِي الْخَشَبَةِ ، فَانْصَرِفْ بِالْأَلْفِ الدِّينَارِ رَاشِدًا 

بنی اسرائیل کے ایک آدمی نے دوسرے سے ایک ہزار دینار قرض کا مطالبہ کیا وہ کہنے لگا: گواہ لاؤ ! جنہیں میں گواہ بنا سکوں، وہ کہنے لگا : اللہ ہی گواہی کے لئے کافی ہے ، وہ کہنے لگا : پھر کوئی ضامن ہی لے آؤ، اس نے کہا : اللہ ہی ضمانت کے لئے کافی ہے۔ اس آدمی نے کہا: تم سچ بولتے ہو، اور اسے ایک مقررہ مدت تک ایک ہزار دینار دے دیئے۔ وہ سمندر میں نکلا، اپنی ضرورت پوری کی، جب مقررہ مدت آگئی تو اس نے سواری تلاش کی لیکن سواری نہیں ملی، اس نے ایک لکڑی لی، اسے کھرچ کر اس میں سوراخ کیا، اور ہزار دینار اس میں رکھ دیئے۔ اور اس کے مالک کی طرف ایک خط رکھ دیا پھر اس خالی جگہ کو بھر دیا اور اسے سمندر پر لے آیا کہنے لگا: اے اللہ! تجھے معلوم ہے کہ میں نے فلاں سے ایک ہزار دینار قرض لیا تھا، اس نے مجھ سے گواہوں اور ضامن کا مطالبہ کیا تھا تو میں نے کہا تھا کہ اللہ ہی ضمانت کے لئے کافی ہے وہ تیری ضمانت پر راضی ہوگیا، میں نے سواری تلاش کرنے کی بہت کوشش کی، تاکہ اس کا حق اسے ادا کر دوں، لیکن مجھے سواری نہیں ملی، میں اسے تیری امان میں دیتا ہوں ،پھر اس لکڑی کو سمندر میں پھینک دیا۔ وہ آدمی بھی دیکھنے نکلا جس نے قرض دیا تھا کہ شاید کوئی سواری اس کا مال لے آئے۔ کیا دیکھتا ہے کہ وہ لکڑی ہے جس میں اس کا مال تھا، وہ اسے جلانے کے لئے پکڑلیتا ہے ،جب اسے پھاڑ تا ہے تو اس میں مال اورخط دیکھتا ہے وہ اسے لے لیتا ہے جب وہ آدمی آتا ہے تو اس سے کہتا ہے مجھے کوئی سواری نہیں ملی تھی۔ اس قرض دار نے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف سے وہ مال ادا کر دیا ہے جو تم نے لکڑی میں بھیجا تھا۔ تب وہ شخص ہزار دینار لے کر واپس پلٹ گیا۔( صحیح بخاری : 2291 )

ایک روایت کے مطابق اس نے خط میں لکھا کہ یہ خط فلاں کی طرف سے فلاں کی جانب ہے،میں نے تیرا مال اس ضامن کے حوالے کردیا ہے جس نے میری ضمانت دی تھی۔واقعی اس اسرائیلی مومن نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے ایک ہزار دینار کی خطیر رقم اللہ کے حوالے کردی۔ اللہ تعالیٰ نے اس بندے کے گمان کو صحیح کر دکھایا۔اگرچہ یہ دنیا دارالاسباب ہے اور یہاں ہر چیز کسی نہ کسی سبب سے وابستہ ہے مگر کچھ چیزیں استثنائی طور پر وقوع پذیر ہوجاتی ہے جیسا کہ یہ واقعہ ہےمزید براں یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے شخصی کفالت کو ثابت کیا ہے کیونکہ رسول اللہ نے اس واقعے کو بطور مدح وتعریف ذکر کیا ہے،اگر اس میں کوئی چیز خلاف شریعت ہوتی تو رسول اللہ اسے ضروربیان فرماتے۔اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ قرض کی ادائیگی کے لیے وقت مقرر کیا جاسکتا ہے اور پھر اس مقررہ وقت پر اس کی ادائیگی واجب ہے،نیز قرض کے متعلق گواہی اور ضمانت لی جاسکتی ہے۔(اختصار من: فتح الباری: 4/595)

پیارے بچو ! مذکورہ اسرائیلی قصے سے ہمیں چند نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں ۔

1 قرض لینا اور دینا دونوں جائز عمل ہیں بلکہ ثواب بھی ہے ۔

2  قرض واپس کرنے کی کوشش کرنے والے کے ساتھ  اللہ تعالی کی نصرت ہوتی ہے ۔

3  قرض دیتے وقت ضامن کا مطالبہ بھی جائز ہے ۔

4  قرضہ وقت پر لوٹانا لازم ہے وگرنہ وعدہ خلافی ہوگی اور ایسا فعل صفت مذمومہ میں شمار ہوتاہے۔

5  اللہ تعالی پر پختہ یقین ہونا چاہیے ۔

6  اللہ تعالیٰ پر توکل کامیابی کا ذریعہ ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے