ائمہ لغت و غریب الحدیث کے نزدیک لفظ ”اعفاء“ کا معنی:

1– امام ابو نصر اسماعيل بن حماد الجوہری الفارابی (المتوفیٰ: 393ھ)نے کہا:

وعَفا الشَعر والنبتُ وغيرهما: كثُر. ومنه قوله تعالى: (حَتَّى عَفَوُا) أي كثروا. وعفَوْتُهُ أنا وأعْفَيْتُهُ أيضاً، لغتان، إذا فعلتَ ذلك به. وفى الحديث: أمر أن تحفى الشوارب وتعفى اللحى والعافي:الطويل الشعر

عفیٰ الشعر والنبت کا مطلب ہے بال اور بوُٹی کا بڑھ جانا،اللہ تعالیٰ کا فرمان ”حتیٰ عفوا“بھی اسی معنی میں ہے،یعنی وہ زیادہ ہو گئے،اور عفوتہ اور اعفیتہ یہ دولغات ہیں جب آپ اسے متعدی استعمال کریںاور حدیث میں ہے:امر ان تحفی الشوارب وتعفی اللحیٰ۔اور العافی لمبے بال کو کہتے ہیں۔(الصحاح تاج اللغۃ وصحاح العربیۃ:6/2433)

2-امام ابو سليمان حمد بن محمد بن إبراہيم بن الخطاب البستی المعروف بالخطابی (المتوفیٰ: 388ھ)نے کہا:

وأما إعفاء اللحية فهو إرسالها وتوفيرها كره لنا أن نقصها كفعل بعض الأعاجم وكان من زي آل كسرى قص اللحى وتوفير الشوارب فندب صلى الله عليه وسلم أمته إلى مخالفتهم في الزي والهيئة.ويقال عفا الشعر والنبات إذا وفا وقد عفوته وأعفيته لغتان قال تعالى {حتى عفوا} أي أكثروا.

اعفاء اللحیۃ کا مطلب ہے داڑھی کو چھوڑ دینا اور وافر کرنا،ہمارے لئے حرام ہے کہ ہم اسے کاٹیں جیسا کہ بعض عجمی کرتے ہیں ، اور آل کسریٰ کے ہاں داڑھی مونڈھنا اور مونچھیں بڑھانا زینت تھا،تو نبی کریم نے اپنی امت کے لئے زینت و ہیئت میںانکی مخالفت کو پسند کیا ، کہا جاتا ہے :عفا الشعر والنبات، بال اور نبات بڑھ گئی،جب وہ پوری ہوجائے،اور عفی اور اعفیٰ دو لغات ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:حتی عفوا،یعنی وہ زیادہ ہوگئے۔ (معالم السنن:1/31)

3– امام احمد بن فارس بن زکرياء القزوينی الرازی، ابو الحسين (المتوفیٰ: 395ھ)نے کہا:

وَقَالَ أَهْلُ اللُّغَةِ كُلُّهُمْ: يُقَالُ مِنَ الشَّعْرِ عَفَوْتُهُ وَعَفَيْتُهُ، مِثْلُ قَلَوْتُهُ وَقَلَيْتُهُ، وَعَفَا فَهُوَ عَافٍ، وَذَلِكَ إِذَا تَرَكْتَهُ حَتَّى يَكْثُرَ وَيَطُولَ. قَالَ اللَّهُ – تَعَالَى -: {حَتَّى عَفَوْا} ، أَيْ نَمَوْا وَكَثُرُوا. وَهَذَا يَدُلُّ عَلَى مَا قُلْنَاهُ، أَنَّ أَصْلَ الْبَابِ فِي هَذَا الْوَجْهِ التَّرْكُ.

سبھی اہل لغت نے کہا :بالوں کے لئے عفوتہ اور عفیتہ جیسے قلوتہ اور قلیتہ کہا جاتا ہے جب تم اسے چھوڑ دو حتی کہ وہ بہت زیادہ ہوجائیں اور لمبے ہوجائیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:حتی عفوا،یعنی وہ زیادہ ہوگئے،یہ ہماری بات کی دلیل ہے کہ اس مادے کا اصل معنی” ترک “ہے۔(معجم مقاييس اللغۃ:6/40)

4– امام محي السنۃ، ابو محمد الحسين بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (المتوفیٰ: 516ھ)نے کہا:

فَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ: تَوْفِيرُهَا وَإِرْسَالُهَا، يُقَالُ: عَفَا الشَّعَرُ وَالنَّبَاتُ: إِذَا وَفَى، قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى: {حَتَّى عَفَوْا} [الْأَعْرَاف: 95] ( شرح السنۃ:1/398 )

اعفاء اللحیۃ کا مطلب ہے داڑھی کو چھوڑ دینا اور وافر کرنا، کہا جاتا ہے :عفا الشعر والنبات ، بال اور نبات بڑھ گئی،جب وہ پوری ہوجائے،اور عفی اور اعفیٰ دو لغات ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:حتی عفوا،یعنی وہ زیادہ ہوگئے۔

نیز کہا:

وإعفاء اللحية توفيرها من قولك: عفا النبت: إذا طال, يعفوا عفواً , ويقال: عفا الشئ, بمعنى كثر … قال الله تعالى (حتى عفوا) أي كثروا.

اعفاء اللحیۃ کا مطلب ہے داڑھی کووافر کرنا،جب تم کہتے ہو :عفا النبات ،پودا بڑھ گیا،جب وہ لمبا ہوجائےاور کہا جاتا ہے:عفا الشیء یوںہی وہ زیادہ ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:حتی عفوا،یعنی وہ زیادہ ہوگئے۔(ایضاً:12/ 108)

5-امام مجد الدين ابو السعادات المبارک بن محمد بن محمد بن محمد ابن عبد الکريم الشيبانی الجزری ابن الاثير (المتوفیٰ: 606ھ) نے کہا:

وَفِيهِ أَنَّهُ أمَرَ بإِعْفَاء اللِّحَى هُوَ أَنْ يُوفِّر شَعَرُها وَلَا يُقَصّ كالشَّوارب.

اس بارے میں حدیث ہے کہ نبی کریم نے اعفاء اللحیٰ کا حکم دیا،یعنی داڑھی بڑھائے اور کاٹے نہیں جیسے مونچھ کاٹتے ہیں۔(النہايۃ في غريب الحديث والاثر:3/266)

6– امام ناصر بن عبد السيد ابی المکارم ابن علی، ابو الفتح، برہان الدين الخوارزمی المطرزی(المتوفیٰ: 610ھ) نے کہا:

(وَالْإِعْفَاءُ) عَلَى التَّرْكِ مُطْلَقًا (وَمِنْهُ) إعْفَاءُ اللِّحْيَةِ وَهُوَ تَرْكُ قَطْعِهَا وَتَوْفِيرُهَا(المغرب:321)

اعفاء کا معنی مطلقاً ترک کردینا ہے،اعفاء اللحیۃ اسی سے ہے،یعنی داڑھی کاٹنا ترک کردینا اور اسے وافر کرنا۔

7-امام محمد بن مکرم بن علی، ابو الفضل، جمال الدين ابن منظور الانصاری الافريقی (المتوفیٰ: 711ھ) نے کہا:

وَفِي التَّنْزِيلِ: حَتَّى عَفَوْا؛ أَي كَثُرُوا. وعَفا النَّبتُ والشَّعَرُ وغيرُه يَعْفُو فَهُوَ عافٍ: كثُرَ وطالَ. وَفِي الْحَدِيثِ:أَنه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَمَرَ بإعْفَاء اللِّحَى؛ هُوَ أَن يُوفَّر شَعَرُها ويُكَثَّر وَلَا يُقَصَ.

قرآن میں ہے،حتی عفوا یعنی وہ زیادہ ہوگئے،اور عفا النبت وغیرہ یعفو فھو عاف،یعنی زیادہ ہونا لمبا ہونا، حدیث میں ہے،نبی کریم نے اعفاء اللحیۃ کا حکم دیا یعنی داڑھی کے بال پورے کرے ، زیادہ کرے، اور انہیں کاٹے نہیں۔(لسان العرب:15/75)

8– امام احمد بن محمد بن علی الفيومی ثم الحموی، ابو العباس (المتوفیٰ: 770ھ)نے کہا:

وَقَالَ السَّرَقُسْطِيّ عَفَوْتُ الشَّعْرَ أَعْفُوهُ عَفْوًا وَعَفَيْتُهُ أَعْفِيهِ عَفْيًا تَرَكْتُهُ حَتَّى يَكْثُرَ وَيَطُولَ وَمِنْهُ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ وَاعْفُوا اللِّحَى يَجُوزُ اسْتِعْمَالُهُ ثُلَاثِيًّا وَرُبَاعِيًّا.

سرقسطی نے کہا: میں نے اسے ترک کردیاحتی کہ وہ زیادہ ہوگئے اور لمبےہوگئے،اسی سے ہے کہمونچھیں تراشو اور داڑھی چھوڑدو،اسے ثلاثی مجرد و مزید فیہ دونوں طرح استعمال کرتے ہیں۔ (المصباح المنير:2/ 419)

9-امام محمد بن محمد بن عبد الرزاق الحسينی، ابو الفيض، الملقب بمرتضیٰ، الزبيديی(المتوفیٰ: 1205ھ)نے کہا:

أَعْفَى (اللِّحْيَةَ: وَفَّرَها) حَتَّى كَثُرَتْ وطالَتْ؛ وَمِنْه الحديثُ: (أَمَرَ أنْ تُحْفَى الشَّوارِبُ وتُعْفَى اللِّحَى) .

اعفی اللحیۃ یعنی اسے پورا کیاحتی کہ وہ زیادہ ہوگئی اور لمبی ہوگئی،اسی طرح حدیث میںہے۔(تاج العروس من جواہر القاموس:39/72)

ان تمام تصریحات کے بعد جو لوگ لفظ ”اعفاء“سے داڑھی مونڈھنے کی دلیل لیتے ہیں انکا استدلال باطل ٹھہرا۔والحمد للہ

دعویٰ: آپ کی داڑھی کی رنگت گہری سیاہ تھی سوائے چند بالوں کے۔

ہمارے اس دعوے کی دلیل درج ذیل روایات ہیں:

پہلی دلیل:مکہ مکرمہ میں بعثت کا ابتدائی دور

امام احمد بن حنبل (المتوفیٰ:246ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ، قَالَ:حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ أَشْعَثَ قَالَ: حَدَّثَنِي شَيْخٌ مِنْ بَنِي مَالِكِ بْنِ كِنَانَةَ، قَالَ:

متن:

رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسُوقِ ذِي الْمَجَازِ يَتَخَلَّلُهَا يَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، قُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ تُفْلِحُوا، قَالَ: وَأَبُو جَهْلٍ يَحْثِي عَلَيْهِ التُّرَابَ وَيَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، لَا يَغُرَّنَّكُمْ هَذَا عَنْ دِينِكُمْ، فَإِنَّمَا يُرِيدُ لِتَتْرُكُوا آلِهَتَكُمْ، وَتَتْرُكُوا اللَّاتَ وَالْعُزَّى، قَالَ: وَمَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْنَا: انْعَتْ لَنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَيْنَ بُرْدَيْنِ أَحْمَرَيْنِ، مَرْبُوعٌ كَثِيرُ اللَّحْمِ، حَسَنُ الْوَجْهِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ، أَبْيَضُ شَدِيدُ الْبَيَاضِ، سَابِغُ الشَّعْرِ.

بنو مالک بن کنانہ کے ایک بزرگ صحابی رضی اللہ عنہ نے کہا:میں نے رسول اللہ کو ذی المجاذ کے بازار میں گھومتے دیکھا،آپ فرمارہے تھے:لوگو! لا الٰہ الا اللہ کہہ دو ،کامیاب ہوجاؤ گے،اور ابوجہل آپ پر مٹی پھینکتے ہوئے کہہ رہا تھا:لوگو! یہ تمہیں تمہارے دین سے دور نہ کرنے پائے،یہ چاہتا ہے کہ تم اپنے معبودوں کو چھوڑدو، لات و عزُیٰ کو چھوڑدواور رسول اللہ اسکی جانب ذرہ بھی توجہ نہ دیتے تھے۔”راوی“نے کہا:ہم نے ان بزرگ سے کہا: ہمیں رسول اللہ کا حلیہ بیان کیجیے:انہوں نے کہا:دو سرخ چادریں زیبِ تن کئے،بڑھتاہوامیانہ قد،بہت گوشت والے، خوبصورت، کالے سیاہ بال،گورا چٹا رنگ،گھنے بالوں والے۔(مسند احمد:16603،طبقات ابن سعد:1/333،صحیح السیرۃ النبویۃ،ص:143)

دوسری دلیل:مدینہ منورہ میں

امام محمد بن اسماعیل البخاری (المتوفیٰ:256ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ الْعَلَاءِ قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ قَالَ:حَدَّثَنِي عَبْدُ اللّٰہ بْنُ سَالِمٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَصِفُ رَسُولَ اللّٰہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

متن:

كَانَ رَبْعَةً، وَهُوَ إِلَى الطُّوَلِ أَقْرَبُ، شَدِيدُ الْبَيَاضِ، أَسْوَدُ شَعْرِ اللِّحْيَةِ، حَسَنُ الثَّغْرِ، أَهْدَبُ أَشْفَارِ الْعَيْنَيْنِ، بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، مُفَاضُ الْجَبِينِ، يَطَأُ بِقَدَمِهِ جَمِيعًا، لَيْسَ لَهَا أَخْمُصُ، يُقْبِلُ جَمِيعًا، وَيُدْبِرُ جَمِيعًا، لَمْ أَرَ مِثْلَهُ قَبْلُ وَلَا بَعْدُ.

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نےرسول اللہ کا حلیہ بیان کرتے ہوئے کہا:بڑھتا ہوا میانہ قد،گورے چٹے، سیاہ داڑھی والے،خوبصورت تھوڑی(داڑھی بچی،نچلے ہونٹ اور تھوڑی کے درمیان موجود نشیبی حصہ)والے ، گھنی و لمبی پلکوں والے،کندھوں کے درمیان فاصلے والے،کشادہ پیشانی والے،اپنا پورا قدم جماکر چلتے، تلوے میںگہرائی نہ تھی(یعنی ایڑھی سے پنجے تک برابر گوشت تھا)،مکمل سامنے آتے اور مکمل پشت پھیرتے، میں نے آپ سے پہلے نہ آپ کے بعد آپ جیسا کوئی دیکھا،۔(مسند البزار:7789،الادب المفرد:1155، دلائل النبوۃ للبیہقی:1/217،صححہ الالبانی:الصحیحۃ: 3195،صحیح الادب المفرد، ص: 448، الضعیفۃ: 4161)

فائدہ:

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم کی مدینہ کی جانب ہجرت سے پہلے ہی طفیل بن عمرو الدوسی رضی اللہ عنہ کی دعوت پر مسلمان ہوگئے تھے اور غزوہ خیبر (محرم7ہجری)کے سال ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تھے۔واللہ اعلم

تیسری دلیل:

امام احمد بن الحسین ابو بکر البیہقی(المتوفیٰ:458ھ)نے کہا:

سند:

أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدٍ الصَّفَّارُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ:أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ : سُئِلَ أَبُو هُرَيْرَةَ عَنْ صِفَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:

متن:

كَانَ أَحْسَنَ النَّاسِ صِفَةً وَأَجْمَلَهَا، كَانَ رَبْعَةً إِلَى الطُّولِ مَا هُوَ , بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ، أَسِيلَ الْجَبِينِ، شَدِيدَ سَوَادِ الشَّعْرِ، أَكْحَلَ الْعَيْنَيْنِ أَهْدَبَ، إِذَا وَطِئَ بِقَدَمِهِ وَطِئَ بِكُلِّهَا، لَيْسَ أَخْمَصَ، إِذَا وَضَعَ رِدَاءَهُ عَنْ مَنْكِبَيْهِ فَكَأَنَّهُ سَبِيكَةُ فِضَّةٍ، وَإِذَا ضَحِكَ يَتَلَأْلَأُ، لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ مِثْلَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا:آپ سب سے زیادہ حسین و جمیل تھے،بڑھتا ہوا میانہ قد،کندھوں کے درمیان سے چوڑے،کشادہ پیشانی،شدید سیاہ بال، سرمگیں آنکھیں،گھنی پلکوں والی،جب قدم رکھتے تو پورا رکھتے ،تلوے میں خلا نہ تھا،جب اپنے کاندھوں سے چادر سرکاتے تو گویا وہ چاندی کا ٹکڑا ہو،جب مسکراتے تو گویا موتی جھڑتے،میں نے آپ جیسا نہ آپ سے پہلے دیکھا نہ آپ کے بعد ۔(دلائل النبوۃ للبیہقی:1/247، صحیح الجامع الصغیر :4633، قال الحافظ ابن حجر: اسنادہ حسن. انظر فتح الباري:6/ 657)

چوتھی دلیل:

امام ابو عبد اللہ محمد بن عبداللہ الحاکم النیسابوری (المتوفیٰ:405ھ) نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ سَلْمَانَ الْفَقِيهُ بِبَغْدَادَ، ثنا هِلَالُ بْنُ الْعَلَاءِ الرَّقِّيُّ، ثنا حُسَيْنُ بْنُ عَيَّاشٍ الرَّقِّيُّ، ثنا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، ثنا عَبْدُ اللّٰہ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، قَالَ:

متن:

قَدِمَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ الْمَدِينَةَ وَعُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَالِيهَا فَبَعَثَ إِلَيْهِ عُمَرُ وَقَالَ لِلرَّسُولِ: سَلْهُ هَلْ خَضَبَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَإِنِّي رَأَيْتُ شَعْرًا مِنْ شَعْرِهِ قَدْ لُوِّنَ، فَقَالَ أَنَسٌ: إِنَّ رَسُولَ اللّٰہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ قَدْ مُتِّعَ بِالسَّوَادِ وَلَوْ عَدَدْتُ مَا أَقْبَلَ عَلَيَّ مِنْ شَيْبِهِ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ، مَا كُنْتُ أَزِيدُهُنَّ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ شَيْبَةً، وَإِنَّمَا هَذَا الَّذِي لُوِّنَ مِنَ الطِّيبِ الَّذِي كَانَ يُطَيِّبُ شَعْرَ رَسُولِ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

عبداللہ بن محمد بن عقیل رحمہ اللہ نے کہاكه سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ مدینہ تشریف لائے اور اس وقت وہاں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ گورنر تھے،عمر نے انکے پاس قاصد بھیجا اور اس سے کہا کہ:ان سے پوچھو :کیا رسول اللہ نےرنگ (خضاب)کا استعمال کیا ہے؟ میں نے آپ کا ایک رنگا ہوا بال دیکھا ہے؟تو انہوں نے جواب دیا:رسول اللہ کو سیاہی کا وافر حصہ عطا کیا گیا تھا،اور اگر میں آپ کے سر اور داڑھی کے سفید بال گنوں تو وہ گیارہ سے زیادہ نہ ہوں گے،اور یہ جو رنگدار بال ہے یہ اس خوشبو سے رنگین ہوگیا جو رسول اللہ اپنے بالوں میں لگاتے تھے۔(مستدرک حاکم:4201، دلائل النبوۃ للبیہقی:1/239،حسنہ الالبانی، الضعیفۃ:4161)

فائدہ:

اس روایت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ داڑھی کےبالوں میں خوشبو لگانا سنت ہے۔

فائدہ:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ پورے دور مدنی میں نبی کریم کے ساتھ رہے یعنی دس سال۔

پانچویں دلیل:

امام مسلم بن حجاج القشیری النیسابوری (المتوفی 261ھ) نے کہا:

سند:

وَحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، يَقُولُ:

متن:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ شَمِطَ مُقَدَّمُ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ، وَكَانَ إِذَا ادَّهَنَ لَمْ يَتَبَيَّنْ، وَإِذَا شَعِثَ رَأْسُهُ تَبَيَّنَ.

سیدنا جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ کا سر مبارک اورداڑھی مبارک سفیدی کی جانب مائل ہوگئے تھے،اور جب آپ تیل لگالیتے تو یہ واضح نہ ہوپاتا اور جب آپ کے سر کے بال بکھرے ہوتے تو سفیدی واضح ہوجاتی۔(صحیح مسلم،کتاب الفضائل ، باب شیبہ )

چھٹی دلیل:فتح مکہ(رمضان8ہجری) کے دن

امام ابو بکر بن ابی عاصم احمد بن عمرو بن الضحاک بن مخلد الشيبانی (المتوفیٰ: 287ھ) نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا أَبُوكُرَيْبٍ، نا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، نا شَيْبَانُ، نا جَابِرُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ رَضِيَ اللّٰه عَنْهُ قَالَ:

متن:

رَأَيْتُ رَسُولَ اللّٰہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، فَمَا أَنْسَى شِدَّةَ بَيَاضِ وَجْهِهِ مَعَ شِدَّةِ سَوَادِ شَعَرِهِ.

سیدناابو الطفیل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ نے کہامیں نے رسول اللہ کو فتح مکہ کے دن دیکھا ،پس میں آپ کے چہرے کا گورا پن اور آپ کے بالوں کا سیاہ پن بھول نہ پایا۔

حوالہ و تخریج:

الاحاد والمثانی لابن ابی عاصم:947،معرفۃ الصحابہ لابی نعیم:68777990،تاریخ دمشق لابن عساکر:3/304، الطبقات الکبریٰ: 1/321،مغازی الواقدی:2/867،اسد الغابۃ:7/346،انساب الاشراف للبلا ذری:1/393،حافظ ہيثمي نے کہا:رجالہ رجال الصحيح،اسکے رواۃ صحیح کے رواۃ ہیں( مجمع الزوائد:8/ 280) اس حدیث کی اصل صحیح مسلم میں ہے (کتاب الفضائل باب کان النبی ابیض ملیح الوجہ)

ساتویں دلیل:جس دن آپ فوت ہوئے

امام محمد بن اسماعیل البخاری(المتوفیٰ:256)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنِي ابْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَصِفُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:

متن:

كَانَ رَبْعَةً مِنَ القَوْمِ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلاَ بِالقَصِيرِ، أَزْهَرَ اللَّوْنِ لَيْسَ بِأَبْيَضَ، أَمْهَقَ وَلاَ آدَمَ، لَيْسَ بِجَعْدٍ قَطَطٍ، وَلاَ سَبْطٍ رَجِلٍ أُنْزِلَ عَلَيْهِ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعِينَ، فَلَبِثَ بِمَكَّةَ عَشْرَ سِنِينَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ، وَبِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ، وَقُبِضَ وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعَرَةً بَيْضَاءَ قَالَ رَبِيعَةُ:فَرَأَيْتُ شَعَرًا مِنْ شَعَرِهِ، فَإِذَا هُوَ أَحْمَرُ فَسَأَلْتُ فَقِيلَ احْمَرَّ مِنَ الطِّيبِ.

آپ میانہ قد تھے،نہ لمبے ،نہ ہی کوتاہ قد،صاف روشن رنگت والے ،بالکل سفید نہیں،گورے تھےنہ کہ سانولے،آپکے بال مکمل گھنگریالے نہ تھے نہ ہی بالکل سیدھے،آپ پر وحی کا نزول شروع ہوا جب آپ چالیس سال کے ہوئے ،مکہ میں تیرہ سال رہے،آپ پر وحی نازل ہوتی رہی،اور مدینہ میں دس سال ،اور آپ کی روح قبض کی گئی اس حال میں کہ آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفیدنہ تھے،راوی ربیعہ نے کہا:میں نے آپ کا ایک بال دیکھا جو سرخ تھا ،میں نے وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ:خوشبو کی وجہ سے سرخ ہوگیا۔ (صحیح بخاری:3547)

اہم فائدہ:

ہم نے بعض لوگوں کو سنا کہ وہ خواب میں نبی کریم کی زیارت کا دعویٰ کرتے ہیں ، اور جب آپ کا حلیہ مبارکہ بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ :سفید لمبی نورانی داڑھی…فالعیاذ باللہ

گذشتہ دلائل سے واضح ہے کہ نبی کریم کی داڑھی کو ہر گز سفید نہیں کہا جاسکتا،آپ کی داڑھی میں گنتی کے چند بال سفید تھے۔

دعویٰ:نبی کریم کے سر اور داڑھی میںکس جگہ سفید بال تھے؟

نبی کریم کی سر میں مانگ میں،کنپٹیوں میں، داڑھی بچہ(نچلے ہونٹ اورٹھوڑی کے درمیان کا نشیبی حصہ)میںاور داڑھی میں سفید بال تھے۔

ہمارے اس دعوے کے دلائل درج ذیل ہیں:

پہلی دلیل:

امام محمد بن اسماعیل البخاری (المتوفیٰ:256ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ،:

متن:

 أَنَّهُ سَأَلَ عَبْدَ اللّٰہ بْنَ بُسْرٍ صَاحِبَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَرَأَيْتَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ شَيْخًا؟ قَالَ: كَانَ فِي عَنْفَقَتِهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ.

حریز بن عثمان رحمہ اللہ نے سیدنا عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ سے پوچھا:کیا آپکے خیال میں رسول اللہ بوڑھے تھے؟انہوں نے کہا:آپ کی ٹھوڑی (داڑھی بچہ،نچلے ہونٹ اورٹھوڑی کے درمیان کانشیبی حصہ)میںکچھ سفید بال تھے۔(صحیح بخاری:3546)

فائدہ:

اس سے ملتے جلتے الفاظ سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہیں،ملاحظہ ہو،صحیح بخاری:3545۔

دوسری دلیل:

امام مسلم بن حجاج القشیری (المتوفیٰ:261ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ الرَّيَّانِ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ:

متن:

سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَضَبَ؟ فَقَالَ:لَمْ يَبْلُغِ الْخِضَابَ كَانَ فِي لِحْيَتِهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ…

محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے کہا کہ میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا:کیا رسول اللہ نے خضاب لگایا؟انہوں نے کہا:آپ کوخضاب لگانےکی حاجت نہ تھی،آپ کی داڑھی میں کچھ بال سفید تھے۔ (صحیح مسلم،کتاب الفضائل ،باب شیبہ )

تیسری دلیل:

امام احمد بن حنبل (المتوفیٰ:246ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا بَهْزٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ:

متن:

مَا كَانَ فِي رَأْسِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الشَّيْبِ إِلَّا شَعَرَاتٌ فِي مَفْرِقِ رَأْسِهِ، إِذَا ادَّهَنَ، وَارَاهُنَّ الدُّهْنُ.

رسول اللہ کے سر میں ،آپ کی مانگ میں،چند بال سفید تھے،جب آپ تیل لگاتے تو تیل کی چمک انہیں ڈھانپ لیتی۔(مسند احمد:20840،طبرانی کبیر:1921، شرح السنہ للبغوی:3654،علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا،مختصر الشمائل:32)

اہم فائدہ:

اس روایت میں مانگ میں سفید بالوں کا ذکر ہے،اور یہ بھی صراحت ہے کہ جب آپ تیل لگالیتے تو وہ محسوس نہ ہوتے تھے،اور یہ امر ثابت شدہ ہے کہ آپ اکثر اوقات تیل لگاتے تھےاور سر ڈھانپ کر رکھتے تھے خاص طور پر جب گھر سے باہر ہوتے۔

چوتھی دلیل:

امام مسلم بن حجاج القشیری (المتوفیٰ:261ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:

متن:

يُكْرَهُ أَنْ يَنْتِفَ الرَّجُلُ الشَّعْرَةَ الْبَيْضَاءَ مِنْ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ، قَالَ: وَلَمْ يَخْتَضِبْ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا كَانَ الْبَيَاضُ فِي عَنْفَقَتِهِ وَفِي الصُّدْغَيْنِ وَفِي الرَّأْسِ نَبْذٌ .

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہاآدمی اپنے سر یا داڑھی سے سفید بال نوچے یہ کام ناپسندیدہ ہے،کہا کہ:رسول اللہ نے خضاب نہیں لگایا،آپ کی ٹھوڑی(داڑھی بچہ) اور کنپٹیوں اور سر میں کچھ حصہ سفید تھا۔(صحیح مسلم ، کتاب الفضائل ، باب شیبہ )

فائدہ:

اس روایت میں کنپٹیوں اور سر کو الگ الگ بیان کیا ہے، اور سر سے مرادغالباً آپ کی مانگ ہے جیسا کہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں صراحت ہے۔

پانچویں دلیل:

امام احمد بن حنبل (المتوفیٰ:246ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ:

متن:

أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَخْضِبْ قَطُّ، إِنَّمَا كَانَ الْبَيَاضُ فِي مُقَدَّمِ لِحْيَتِهِ وَفِي الْعَنْفَقَةِ، وَفِي الرَّأْسِ، وَفِي الصُّدْغَيْنِ شَيْئًا لَا يَكَادُ يُرَى.

رسول اللہ نے کبھی خضاب کا استعمال نہیں کیا،دراصل سفیدی آپکی داڑھی کے سامنے والے حصے اور آپکی ٹھوڑی(داڑھی بچہ)،اور سر اور کنپٹیوں میں معمولی سی تھی جو دکھائی نہیں پڑتی تھی۔(مسند احمد :13263،مستخرج ابی عوانہ:10338)

فائدہ:

اس روایت میں بھی کنپٹیوں سے پہلے سر کو الگ سے بیان کیا ہے،غالباً اس سے مراد آپ کی مانگ ہے جیسا کہ جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں صراحت ہے۔

امام احمدبن حجر العسقلانی(المتوفیٰ:852ھ)نے کہا:

عرف من مجموع الروايات أن الذي شاب في عنفقته صلى الله عليه وسلم أكثر مما شاب في غيرها، وقول أنس لما سأله قتادة هل خضب؟:إنما كان شيء في صدغيه أراد أنه لم يكن في شعره ما يحتاج إلى الخضاب، وقد صرّح بذلك في رواية محمد بن سيرين التي مضت.

مجموعہ روایات سے معلوم ہوا کہ آپ کی ؐٹھوڑی(داڑھی بچہ) میں دیگر حصوں کی نسبت زیادہ سفیدبال تھے،اور سيدنا انس رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا کہ :آپکی کنپٹیوں میں معمولی سفیدی تھی“اس سے انکی مراد ہے کہ آپکے بالوں کورنگنے کی حاجت نہ تھی،اور ابن سیرین کی گذشتہ روایت میں یہ بات صراحتاً مذکور ہے۔(سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العبادلمحمد بن یوسف الصالحی الدمشقی:2/37)

۔۔۔جاری ہے ۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے