قارئین کرام ! بعض روزے دار حضرات جانے ان جانے میں کچھ غلطیوں کے مرتکب ہوتے ہیں یا ان سے ایسے اعمال سرزد ہوتے ہیں جو ایک روزے دار کے لیے مناسب نہیں ہوتے ۔

بغرض تنبیہ ایسے بعض اعمال ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں ۔

تاکہ ہم سب ان سے احتیاط برتیں ۔

1 سحری پر بیدار کرنے کے لیے ڈھول پیٹنا

بعض لوگ سحری پر بیدار کرنے کے لیے ڈھول پیٹتے ہیں یا آلات موسیقی کا استعمال کرتے ہیں جو صحیح نہیں ۔ سحری پر اٹھانے کے لیے مسنون طریقہ آذان دینا ہے رسول اللہ ﷺ کے دورمیں سحری کی آذان ہوتی تھی ۔

آپ ﷺ کا فرمان ہے :

إِذَا أَذَّنَ بِلَالٌ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ  مَكْتُومٍ .

جب بلال اذان دیں تو کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں ۔ (سنن نسائی : 639)

2 بغیر نیت کے روزہ رکھنا

بعض لوگ بغیر نیت کے روزہ رکھتے ہیں جو صحیح نہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

مَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا صِيَامَ لَهُ .

جس نے فجر ہونے سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ۔ (سنن نسائی : 2454)

یاد رہے کہ نیت کا تعلق دل سے ہے نہ کہ زبان سے ۔

3 سحری نہ کرنا

بعض لوگ جان بوجھ کر سحری نہیں کرتے جو صحیح نہیں ، سحری کرنی چاہیے رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً

سحری کھاؤ کیونکہ سحری میں برکت ہوتی ہے۔ (صحیح بخاری : 1923)

4 سحری میں جلدی کرنا

بعض لوگ سحری میں جلدی کرتے ہیں جو صحیح نہیں ، بلکہ آرام و سکون کے ساتھ آذان فجر تک سحری کی جائے ۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

بَكِّرُوا الإِفْطَارَ، وَأَخِّرُوا السُّحُورَ .

افطار میں جلدی كرو جبکہسحری میں تاخیر ۔(سلسلة الاحاديث الصحيحة : 1773)

5 روزے کی حالت میں مسواک ترک کر دینا

بعض لوگ روزے کی حالت میں مسواک کرنا ترک کر دیتے ہیں اور مسواک کو مفاسد روزہ سمجھتے ہیں جو صحیح نہیں۔رسول اللہ ﷺ روزے کی حالت میں مسواک فرماتے تھے ۔سیدنا عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَاكُ وَهُوَ صَائِمٌ مَا لَا أُحْصِي أَوْ أَعُدُّ .

میں نے نبی کریم ﷺ کو روزے کی حالت میں اس

قدر مسواک کرتے دیکھا جو شمار بھی نہیں کر سکتا ۔(صحیح بخاری

: 1/ 928 )

6 سرمہ اور تیل وغیرہ لگانا ترک کرنا

بعض لوگ روزے کی حالت میں سرمہ لگانے یا سر پر تیل وغیرہ ڈالنے کو ترک کر دیتے ہیں اور اسے مفاسد روزہ سمجھتے ہیں جو صحیح نہیں ، بلکہ روزے کی حالت میں سرمہ اور تیل وغیرہ ڈالا جا سکتا ہے ۔سيده عائشہ رضي اللہ عنها سے مروی ہے کہ : اكْتَحَلَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ رسول اللہ ﷺ نے روزے کی حالت میں سرمہ لگایا ۔ (سنن ابن ماجہ : 1678 )

سيدنا ابن مسعود رضي اللہ عنه فرماتے ہیں :

إِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ فَلْيُصْبِح دهِينًا مُتَرَجِّلًا .

جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو اسے تیل کنگھی کر لینا چاہیے ۔(صحيح بخاري : 1/ 926)

7 ناک میں پانی ڈالتے مبالغہ کرنا

بعض لوگ روزے حالت میں وضو کرتے ہوئے ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرتے ہیںجو صحیح نہیں ،رسول اللہ ﷺ نے اس عمل سے منع فرمایا ہے ۔

آپ  ﷺ کا فرمان ہے :

بَالِغْ فِي الِاسْتِنْشَاقِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَائِمًا .

ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرو سوائے اس کے کہ تم روزے سے ہو ۔ (سنن ابي داؤد : 2366)

8 نمازوں کا خیال نہ رکھنا

بعض لوگ روزہ رکھ کر سو جاتے ہیں اور نمازوں سے غفلت کا شکار ہوتے ہیں جو صحیح نہیں بلکہ نمازوں کا خاص خیال رکھتے ہوئے انہیں اپنے وقت پر ادا کیا جائے ۔

9 روزے کی حالت میں تھوکتے رہنا

بعض لوگ روزے کی حالت میں فضول تھوکتے رہتے ہیں اور ان کا گمان ہے کہ اپنا تھوک نگلنے سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے جو درست نہیں اور ان کے اس عمل سے ساتھ بیٹھے ہوئے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے ۔

امام عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

يَبْتَلِعُ رِيقَهُ.

روزہ دار اپنی تھوک نگل سکتا ہے۔(صحيح بخاري 1/ 928)

0 روزے کی حالت میں گالی گلوچ کرنا

بعض لوگ روزے کی حالت میں معمولی معمولی سی باتوں پر گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں جو صحیح نہیں ۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

إِذَا أَصْبَحَ أَحَدُكُمْ يَوْمًا صَائِمًا، فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَجْهَلْ، فَإِنِ امْرُؤٌ شَاتَمَهُ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ: إِنِّي صَائِمٌ، إِنِّي صَائِمٌ .

جب تم میں سے کوئی شخص کسی دن روزے سے ہو تو وہ فحش گوئی نہ کرے، نہ جہالت والا کوئی کام کرے، اگر کوئی شخص اس سے گالی گلوچ یا لڑائی جھگڑا ( کرنا ) چاہے تو وہ کہے : میں روزے سے ہوں،میں روزے سے ہوں۔ (صحيح مسلم : 2703)

! آذان مغرب میں تاخیر کرنا

بعض لوگ غروب آفتاب پر اذان نہیں دیتے بلکہ اندھیرا پھیلنے کا انتظار کرتے ہیں اور اندھیرا پھیل جانے کے بعد اذان دیتے ہیں جو صحیح نہیں ۔

@ افطار میں تاخیر کرنا

بعض لوگ اذان شروع ہونے پر افطاری نہیں کرتے بلکہ اذان مکمل ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور اذان مکمل ہونے کے بعد افطار کرتے ہیں جو صحیح نہیں ۔

بَكِّرُوا الإِفْطَارَ، وَأَخِّرُوا السُّحُورَ .

افطار میں جلدی كرو اور سحری میں تاخیر ۔(سلسلة الاحاديث الصحيحة : 2233)

# افطاری میں مسکین پڑوسیوں کا خیال نہ کرنا

بعض لوگ افطاری و سحری میں خود تو پیٹ بھر کر کھاتے ہیں لیکن ان کا مسکین پڑوسی بھوکا رہتا ہے جو صحیح نہیں ۔

رسول الله ﷺکا فرمان ہے :

لَيْسَ الْمُؤْمِنُ الَّذِي يَشْبَعُ وَجَارُهُ جَائِعٌ إِلَى جَنْبِه.

وہ مومن نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔(سلسلة الاحاديث الصحيحة : 159)

$ سحری اور افطاری میں نشہ آور چیزیں استعمال کرنا

بعض لوگ سحری اور افطاری میں سگریٹ اور نسوار جیسی نشہ آور چیزیں استعمال کرتے ہیں جو صحیح نہیں ۔ نشہ آور چیزیں استعمال کرنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے ۔

% رمضان کی راتوں میں بیویوں سے دور رہنا

بعض لوگ رمضان کی راتوں میں بیویوں سے صحبت کو جائز نہیں سمجھتے جو صحیح نہیں ۔ اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :

أُحِلَّ لَكُم لَيلَةَ الصِّيامِ الرَّفَثُ إِلى نِسائِكُم .

روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لئے حلال کیا گیا ہے ۔ (البقرہ : 187)

^احتلام کو مفاسد روزہ سمجھنا

بعض لوگ احتلام کو مفاسد روزہ سمجھتے جو صحیح نہیں ۔ علامہ ابن باز رحمه الله فرماتے ہیں :

الاحتلام لا يبطل الصوم .

احتلام ہوجانے سے روزہ باطل نہیں ہوتا ۔(مجموع الفتاوي 275 /15)

& دعا سے غفلت اختیار کرنا

بعض لوگ روزے کی حالت میں اور افطاری کے وقت دعاؤں سے غفلت کا شکار ہوتے ہیں جو صحیح نہیں ۔ کیونکہ یہ دعاؤں کی قبولیت کی گھڑیاں ہوتی ہیں لہذا ان ساعتوں میں دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے ۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

ثَلَاثُ دَعَوَاتٍ لَا ترد: دَعْوَةُ الْوَالِدِ وَدَعْوَةُ الْصَائِم وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ .

تین دعائیں رد نہیں ہوتیں ،باپ کی دعا ، روزہ دار کی دعا اور مسافر کی دعا ۔(سلسلة الاحاديث الصحيحة : 2845)

* ایک رات میں قرآن پورا کرنا

بعض لوگ محفل شبینہ کا اہتمام کرتے ہیں جس میں ایک ہی رات کی تراویح میں قرآن پڑھ کر پورا کرتے ہیں جو صحیح نہیں بلکہ آرام و سکون کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر اچھے انداز میں قرآن مجید پڑھنا چاہیے ، نہ کہ جلد بازی اختیار کی جائے ۔

رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

لَا يَفْقَهُ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ

جو شخص قرآن کو تین دن سے کم میں پڑھتا ہے وہ اسے سمجھتا نہیں ہے ۔ (سنن ابي داؤد : 1390)

S اعتکاف کی پابندیوں کا خیال نہ کرنا

بعض لوگ اعتکاف میں ذکر واذکار اور عبادت کی طرف توجہ کرنے کی بجائے مسجد میں آنے والے نمازیوں کے ساتھ باتیں کرنا بیٹھ جاتے ہیں یا بلا عذر مسجد سے باہر نکل پڑتے ہیں جو صحیح نہیں بلکہ اعتکاف کی شرعی پابندیوں کا خیال رکھا جائے ۔

)نماز تراویح کو چھوڑ دینا

بعض لوگ ابتدائی راتوں میں تو بڑے شوق سے نماز تراویح ادا کرتے ہیں مگر کچھ راتوں کے بعد اسے ترک کر دیتے ہیں جو صحیح نہیں

رسول الله ﷺکا فرمان ہے :

أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى الله تَعَالَى أَدْوَمُهَا وَإِنْ قَلَّ .

اللہ کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جس پر ہمیشگی اختیار کی جائے چاہے وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔ (صحیح مسلم : 783)

aخواتین کا زینت اختیار کرکے گھر سے نکلنا

بعض خواتین زیب و زینت اختیار کرکے نماز تراویح ادا کرنے مسجد جاتی ہیں جو صحیح نہیں ، بلکہ مسجد جاتے ہوئے مکمل شرعی پردے کا اہتمام کیا جائے ۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ایک خاتون ملی جس سے آپ نے خوشبو پھوٹتے محسوس کیا، اور اس کے کپڑے ہوا سے اڑ رہے تھے تو آپ نے کہا : جبار کی بندی! تم مسجد سے آئی ہو؟ وہ بولی : ہاں، انہوں نے کہا : تم نے مسجد جانے کے لیے خوشبو لگا رکھی ہے؟ بولی : ہاں، آپ نے کہا :

إِنِّي سَمِعْتُ حِبِّي أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ لِامْرَأَةٍ تَطَيَّبَتْ لِهَذَا الْمَسْجِدِ حَتَّى تَرْجِعَ فَتَغْتَسِلَ غُسْلَهَا مِنَ الْجَنَابَةِ .

میں نے اپنے حبیب ابوالقاسم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اس عورت کی نماز قبول نہیں کی جاتی جو اس مسجد میں آنے کے لیے خوشبو لگائے، جب تک واپس لوٹ کر جنابت کا غسل نہ کر لے ۔(سنن ابی داؤد : 4174)

b آخری عشرے کی مقدس گھڑیاں ضائع کرنا

بعض لوگ عید کی خریداری کے لیے آخری عشرے کی بابرکت گھڑیاں بازاروں کے نذر کر دیتے ہیں جو صحیح نہیں ان بابرکت گھڑیوں کو اذکار و عبادت میں صرف کیا جائے اس رات کی  فضیلت کے متعلق اللہ تبارک کا فرمان ہے :

لَیۡلَۃُ الۡقَدۡرِ خَیۡرٌ  مِّنۡ اَلۡفِ شَہۡرٍ .

شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے ۔ (سورة القدر : 3)

cعورتوں کا عید کی خریداری کے لیے بے پردہ ہو کر نکلنا

بعض عورتيں عید کی خریداری کے لیے زیب و زینت اختیار کرکے بے پردہ بازاروں کا رخ کرتی ہیں جو صحیح نہیں ان کی طرف سے یہ خریداری ان کے مرد بھی کر سکتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے :

أَيُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ، فَمَرَّتْ عَلَى قَوْمٍ لِيَجِدُوا مِنْ رِيحِهَا فَهِيَ زَانِيَةٌ  (سنن النسائی : 5143)

جو عورت عطر لگائے اور پھر لوگوں کے سامنے سے گزرے تاکہ وہ اس کی خوشبو سونگھیں تو وہ زانیہ ہے ۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے