بے شک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم کی صحبت سے نوازا، انکے فضائل کیلئے قرآن کریم ، احادیث مبارکہ اور تاریخ اسلامی کے ساتھ ساتھ اپنے تومعترف ہیںہی ، ان گنت بیگانے بھی اس کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔جس شخص کے دل میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان وعظمت کے بارے میں شک آتا ہے، وہ شخص حقیقت میں اللہ کے دین میں شک کر رہا ہے، قرآن کریم، شریعتِ الہی ، سنتِ رسول پر اسے شک ہے!!ذرا سوچیں! وہ کون سی ہستیاں تھیں کہ جنہوں نے قرآن کریم کی تعلیمات عام کیں، ارکان دین لوگوں کو سیکھائے، شرعی احکامات کی تعلیم دی اور اسی کی خاطر اپنی جان مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دیا۔ فرامینِ الہی اور سنتِ نبوی کو عام کیا؟صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شان میں ارشاد گرامی ہے

وَلَكِنَّ اللَّهَ حَبَّبَ إِلَيْكُمُ الْإِيمَانَ وَزَيَّنَهُ فِي قُلُوبِكُمْ وَكَرَّهَ إِلَيْكُمُ الْكُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْيَانَ أُولَئِكَ هُمُ الرَّاشِدُونَ [الحجرات: 7]  

’’لیکن اللہ تعالیٰ نے ایمان کو تمہارے دلوں میں زینت دے رکھی ہے اور کفر کو اور گناہ کو اور نافرمانی کو تمہاری نگاہوں میں ناپسندیدہ بنا دیا ہے، یہی لوگ راہ یافتہ ہیں ۔‘‘ان تمام پیش بندیوں کے باوجود اگر اتفاق سے انسان ہونے کے ناطے مسلمانوں کی دو جماعتیں باہم لڑپڑیں تو وہ رہیں گی مومن ہی۔ ان کے اختلاف کا منشاء اجتہادی خطاتو ہوسکتا ہے لیکن بدنیتی نہیں، سوء اعتقاد نہیں، ایمان اپنی بنیادی اور حقیقی شان سے ان کے دلوں میں جگہ پاچکا ہے ان میں خون ریزی تک دیکھو تو بدگمانی کو راہ نہ دو۔ یہ سب بھائی بھائی ہیں بدگمانی سے انتہا تک بچو۔لوگوں نے نماز ، روزہ، حج، لین دین، نکاح ، طلاق، اور لڑائی جھگڑے میں فیصلے کا طریقہ کیسے سیکھا؟لوگوں کو جنت کی نعمتیں کس نے بتائی؟ جہنم کے عذاب کے بارے میں کس نے بتایا؟انہیں توحید کا کیسے پتہ چلا؟ درست عقیدہ انہیں کہاں سے ملا؟باری تعالی کے اسماء و صفات کا کیسے علم ہوا؟ درست اور غلط منہج میں کیسے تفریق کی؟ اور اہل بدعت کے طریقے سے کس نے روکا؟مکارمِ اخلاق اور فضائلِ اعمال لوگوں کو کس نے بتائے؟یہ کیسے ممکن ہے کہ تمام انبیاء ورسل سے افضل نبی رحمت کیلئے اللہ تعالی نے جھوٹے ساتھیوں کا چناؤ کیا؟ جو اللہ اور اسکے رسول پر تہمت لگاتے ہوں؟!!اگر ہم ان کے بارے میں یہ مان لیں کہ انہوں نےاپنے فضائل میں آیات اور احادیث گھڑ لیں تو ہم اس کے علاوہ تمام بیان شدہ شرعی احکام پر کیسے اعتماد کریں؟!کیا ان مذموم صفات کے حامل افراد کو دینِ الہی اور سنتِ نبوی کے بارے میں امانت دار سمجھا جا سکتا ہے؟!اگر ایسے ہی ہو تو دین سارے کا سارا ہی مٹ جائے گا، نہ اسلام، نہ ایمان ، نہ احسان، بس جھوٹ، بہتان، اور انانیت ہی باقی رہ جائے، یہ بات یقیناً بہت بڑا بہتان ہے!!اگر دین کو مٹا دینے والےاور اسلام سے خارج کر دینےوالےان وسوسوں کے پیچھے لگ جائیں تو بالکل احکامِ دین ثابت نہیں کئے جاسکتے، یہ بات بالقطع و الیقین حق ہے کہ صحابہ میں ایک بھی ایسا نہ تھا جو غیر ثقہ ہو یا جو دین میں کوئی غلط بات کہے۔ علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

لیس فی الصحابة من یکذب وغیر ثقة(عمدة القاري۲/۱۰۵)

  جب کوئی حدیث کسی صحابی سے مروی ہو اور اس کے نام کا پتہ نہ چلے تو وہ راوی کبھی مجہول الحال نہ سمجھا جائیگا، صحابی ہونے کے بعد کسی اور تعارف یا تعدیل کی حاجت نہیں۔‘‘ علامہ ابن عبدالبر مالکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں

:ان جمعیہم ثقات مامونون عدل رضی فواجب قبول ما نقل کل واحد منہم وشہدوا بہ علٰی نبیّہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم(التمہید، ۴/۲۶۳)

سب صحابہ ثقہ اور امانت دار ہیں عادل ہیں اللہ ان سے راضی ہوا ان میں سے ہر ایک نے جو بات اپنے نبی کریم سے نقل کی اور اس کے ساتھ اپنے نبی کے عمل کی شہادت دی (لفظاً ہو یا عملاً) وہ واجب القبول ہے۔صحبت میں سب صحابہ راشد اور مہدی تھے، مگر ان میں سے ایسے حضرات بھی ہوئے جو نظم اُمور سلطنت میں بھی راشد اور مہدی ہوئے اور رسول اکرم  نے اپنے بعد اپنی امت کو ان کے نقش پاپر چلنے کی دعوت دی۔جيسا كه ارشاد نبوي _ هے

:فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي، وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ(سنن ابن ماجه1/ 15)

یہ حضرات وہی نفوسِ قدسیہ ہیں جنہیں نبی مکرم  کے چار یار کہا جاتا ہے۔ حضرت مولانا شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ لکھتے ہیں:طالب کو چاہیے کہ اپنے تہ دل سے اعتقاد کرلے کہ انبیاء علیہم الصلوٰة والسلام کے بعد سرور کائنات کے چار بڑے یار رضی اللہ عنہم اجمعین تمام بنی آدم سے بہتر ہیں اور اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق ان کی آپس میں ایک دوسرے پر فضیلت خلافت کی ترتیب کے موافق ہے مسلمان کو چاہیے کہ اسی ترتیب پر افضلیت کا اعتقاد رکھے اور وجہ تفضیل کو نہ ڈھونڈے کیوں کہ وجہ تفضیل کو ڈھونڈنا دین کے واجبوں اور مستحبوںمیں سے بھی نہیں۔(دیکھئے صراط مستقیم، ص:۱۱۵)کل

فعل وقول لم یثبت عن الصحابة رضی اللّٰہ عنہم ھو بدعة (تفسیر ابن کثیر، ۴/۵۵۶  )

دین کے بارے میں کوئی قول اور کوئی فعل جو صحابہ سے ثابت نہ ہو بدعت ہے۔ صحابی رسول سیدنا حذیفہ بن

الیمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

کل عبادة لم یتعبدھا اصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فلا تعبدوھا(الاعتصام للشاطبی، ص:۵۴)

دین کا ہر وہ عمل جسے صحابہ نے دین نہیں سمجھا اسے تم بھی دین نہ سمجھنا۔اسی لئے اہل ایمان کا بنیادی عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام سے محبت کی جائے ، انکے ایمان و سچائی کی گواہی دی جائے، انہیں باعفت، امانتدار، نڈر ،بہادر اور ہمہ قسم کےشر سے محفوظ جانا جائے، اسی طرح فردِ واحد یا تمام صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنا تباہی و بربادی اور صراطِ مستقیم سے دور ہونے کا باعث ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ اپنی مسند میں سیدنا عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے بیان کردہ روایت نقل کےبعد فرماتے ہیں کہ: “اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں کی جانب دیکھا تو ان میں سب سے بہترین دل محمد کا پایا چنانچہ اللہ تعالی نے انہیں اپنےلئے خاص کرلیا اور اپنا پیغمبر بنایا، پھر آپکے بعد تمام لوگوں کے دلوں کو ایک بار پھر پرکھا تو اصحابِ محمد کا دل سب سے اچھا پایا اور انہیں آپ کے وزراء بنایا، جو دینِ محمد کی خاطر قتال کرتے ہیں”(مسند احمد ، حدیث نمبر :3589 سندہ جید)  ابو الحسن میمونی فرماتےہیں کہ: “مجھے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے کہا: ابو الحسن! جب تم کسی شخص کو صحابہ کرام کا تذکرہ برے انداز میں کرتے دیکھو تو اسکے مسلمان ہونے پر شک کرو۔(البدایہ والنھایہ8/148) امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : “جب تم کسی کو اصحاب رسول کی شان میں گستاخی کرتے دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ شخص زندیق ہے ؛ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن دونوں ہمارےہاں حق ہیں، اور ہمارے پاس قرآن اور سنت نبوی کو اصحاب رسول ہی نے پہنچایا ہے، اصل میں انکا ہدف صحابہ کرام پر جرح کرنے کے بعد کتاب وسنت کو معطل کرناہے، حالانکہ وہ خود جرح کے لائق ہیں، اور یہی لوگ زندیق ہیں۔(الکفایہ ازخطیب بغدادی ص :49) ابو نعیم الحافظ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “تم یہ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالی نےاپنے نبی کریم کو صحابہ کرام سے درگزر اور انکے لئے مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا، اور کہا کہ ان کے ساتھ نرمی سے برتاؤ کریں، چنانچہ جس نے انہیں گالی گلوچ کا نشانہ بنایا یا انکے داخلی معاملات کی اچھی توجیہ بیان نہیں کی تو وہ سمجھ لے کہ وہ صحابہ کے بارے میں اللہ کے کئے ہوئے حکم ، نصیحت اور آداب سے دور ہو رہا ہے، وہ اپنی زبان کا بے لگام استعمال نبی مکرم، صحابہ کرام، اسلام اور مسلمانوں کے بارے بد نیتی کی وجہ سے کر رہا ہے۔(تثبیت الامامۃ،ص:375) امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “اللہ تعالی بہتر جانتا ہے کہ اپنا پیغام بنیادی طور پر کسے دینا ہے اور اسکا بعد میں وارث کسے بناناہے، اسے معلوم ہے کہ اس پیغام کو اٹھانے کیلئے کون مناسب ہے؟ جو اسے لوگوں تک مکمل امانتداری ، خیر خواہی کیساتھ پہنچائے، اسے پیغام کی عظمت کا بھی احساس ہو، اسکے حقوق بھی ادا کرسکے، اور اسکے احکامات پر ڈٹ کر عمل بھی کرے اور پھر باری تعالی کی نعمتوں پر شکر کرتے ہوئے اسکا قرب بھی حاصل کرے،اور اللہ ان لوگوں کو بھی جانتا ہے جو اس کام کے لائق نہیں ہیں، بالکل ایسے ہی اللہ تعالی کو یہ بھی علم ہے کہ اپنے رسولوں کی وراثت کیلئے کون لوگ مناسب ہیں؟ اور کون انکے بعد اس پیغام کو آگے پہنچانے کیلئے خلیفہ بن سکتے ہیں۔(طریق الھجرتین ،ص:97)امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتےہیں: “جس شخص نے کسی ایک صحابی کی تنقیص کی یا انکی روایات کو طعن کا نشانہ بنایا اس نے اللہ رب العالمین کی تردید کی اور مسلمانوں کی شریعت کو معطل کردیا۔(تفسیر قرطبی16/297) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: “اس امت کے ابتدائی لوگوں نے ہی اقامتِ دین کا کام کیا، اس دین کی تصدیق کی، سیکھا، اور اس پر عمل کیا، پھر اسکی تبلیغ بھی کی ، اسکے بعد انکی شان میں طعن زنی کرنا دین میں طعن زنی ہے، یہی دین ِانبیاء سے اعراض کا موجب ۔(منہاج السنۃ 1/18) مولانا ابوالکلام آزادرحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ محبت ِایمان کی اس آزمائش میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جس طرح پورے اترے اس کی شہادت تاریخ نے محفوظ کرلی ہے اور وہ محتاجِ بیان نہیں دنیا میں انسانوں کے کسی گروہ نے کسی انسان کے ساتھ اپنے سارے دل اور اپنی ساری روح سے ایسی محبت نہیں کی ہوگی جیساکہ صحابہ کرام نے اللہ کے رسول سے راہِ حق میں کی۔ انھوں نے اس محبت کی راہ میں وہ سب کچھ قربان کردیا جو انسان کرسکتا ہے اور پھر اس راہ سے انہوں نے سب کچھ پایا جو انسانوں کی کوئی جماعت پاسکتی ہے۔اہل حق ہمیشہ سے صحابہ کی عظمتوں کے گرد پہرہ دیتے آئے ہیں جہاں کسی نے شک کا کوئی کانٹا لگایا، اہل حق نے ان کے تزکیہ کی کھلی شہادت دی، جہاں کہیں تبرّا کی آواز اٹھی اہل حق تولا کی دعوت سے آگے بڑھے اور نفاق کے بُت ایک ایک کرکے گرادئیے۔جب دین انہی سے ملتا ہے تو ان حضرات کی تعظیم اس امت میں حق کی اساس ہوگی۔ انہی سے قافلہٴ امت آگے بڑھاہے اور پوری امت جمعہ اور عید کے خطبات میں ان کی ثناخوانی کرتی آئی ہے۔ یہ حضرات رسول مکرم کے ایسے وفادار رہے کہ ان کی مثال نہیں ملتی۔

جیسا کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کو طریقہ اختیار کرنا ہو وہ گزرے ہوئے لوگوں کا طریقہ اختیار کرے کیونکہ زندہ کے بارے میں فتنےکا اندیشہ ہے وہ لوگ نبی کریم کے ساتھی تھے ۔ اس امت میں سب سے افضل ،نیک،گہرے علم کےمالک،بے تکلف اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نبی کی رفاقت اور اپنے دین کی اقامت کے لیے منتخب کیا لہٰذا ان کافضل پہچانو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو اور جس قدر ممکن ہو ان کے اخلاق اور سیرت سے تمسک کرو کیونکہ وہ لوگ ہدایت کے صراط مستقیم پر تھے۔(رزین،مشکاۃ ،حدیث نمبر:193 حکم الالبانی : ضعیف)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے