قارئین کرام ! پانی انسان ذات کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے انسان کیا ہر جاندار پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اس لیے اسلام نے پانی پلانے کے عمل کی ترغیب دی ہے اور اس عمل میں بہت زیادہ اجر و ثواب رکھا ہے اس کے مزید کیا ثمرات ہیں آئیں ملاحظہ فرمائیں ۔

1 پانی پلانا افضل صدقہ ہے

سیدنا سعد بن ابی الوقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے سوال کیا :

فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْمَاءُ .

کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: پانی (پلانا ) ۔ (ملاحظہ ہو : سنن ابی داؤد : 1681)

2 پانی پلانے میں بہت زیادہ اجر ہے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

ليس صدقةٌ أعظمَ أجراً من ماءٍ .

پانی پلانے سے بڑھ کر ثواب والا صدقہ کوئی نہیں ہے ۔ (صحيح الترغيب والترهيب : 960)

3 پانی پلانا باعث مغفرت ہے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

غُفِرَ لِامْرَأَةٍ مُومِسَةٍ مَرَّتْ بِكَلْبٍ عَلَى رَأْسِ رَكِيٍّ يَلْهَثُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَادَ يَقْتُلُهُ الْعَطَشُ فَنَزَعَتْ خُفَّهَا فَأَوْثَقَتْهُ بِخِمَارِهَا فَنَزَعَتْ لَهُ مِنَ الْمَاءِ فَغُفِرَ لَهَا بِذَلِكَ .

ایک فاحشہ عورت صرف اس وجہ سے بخشی گئی کہ وہ ایک کتے کے قریب سے گزر رہی تھی، جو ایک کنویں کے قریب کھڑا پیاسا ہانپ رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ پیاس کی شدت سے ابھی مر جائے گا۔ اس عورت نے اپنا موزہ نکالا اور اس میں اپنا دوپٹہ باندھ کر پانی نکالا اور اس کتے کو پلا دیا، تو اس نیکی کی وجہ سے اس کی بخشش ہو گئی۔ (صحيح بخاري : 3321)

امام قرطبی رحمہ اللہ بعض تابعین عظام رحمہم اللہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :

من كثرت ذنوبه فعليه بسقي الماء وقد غفر الله ذنوب الذي سقي الكلب فكيف بمن سقي رجلا مؤمنا موحدا .

جس کے گناہ زیادہ ہوں وہ لوگوں کو پانی پلائے ۔ تحقیق اللہ تعالی نے اس شخص کو معاف کر دیا جس نے ایک کتے کو پانی پلایا تھا ! تو اللہ اس شخص کو کیسے معاف نہیں کرے گا جو ایک موحد مومن کو پانی پلائے ۔(تفسیر قرطبی : 215/7)

4 پانی پلانا صدقہ جاریہ ہے

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

سَبْعٌ يَجْرِي لِلْعَبْدِ أجرُهن وهو في قبره بَعْدَ مَوْتِهِ . مَنْ عَلَّم عِلْمًا أَوْ كرَى نَهْرًا أَوْ حَفَرَ بِئْرًا أَوْ غَرَسَ نَخْلًا أَوْ بَنَى مَسْجِدًا أَوْ وَرَّثَ مُصْحَفًا أَوْ تَرَكَ وَلَدًا يَسْتَغْفِرُ لَهُ بَعْدَ مَوْتِهِ .

سات چیزوں کا اجر و ثواب بندے کو مرنے کے بعد قبر

میں بھی پہنچتا رہتا ہے ۔ کسی کو علم سکھائے ، نہر کھودے ،

کنواں کھودے ، کھجور کا درخت لگائے ، مسجد تعمیر کرائے ، قرآن کریم کا نسخہ اپنے پیچھے چھوڑ کر جائے یا ایسی اولاد چھوڑے جو اس کے مرنے کے بعد اس کے لیے مغفرت کی دعا کرے ۔  (صحيح الترغيب : 73)

5 فوت شدہ کی طرف سے پانی کا صدقہ

سیدنا سعد بن ابی الوقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا :

يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ أُمَّ سَعْدٍ مَاتَتْ، ‏‏‏‏‏‏فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ الْمَاءُ  ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَحَفَرَ بِئْرًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ هَذِهِ لِأُمِّ سَعْدٍ .

اے اللہ کے رسول ! ام سعد ( میری ماں ) انتقال کر گئیں ہیں تو کون سا صدقہ افضل ہے؟ (جو میں ان کی طرف سے کروں ؟ ) آپنے فرمایا : پانی ۔

راوی کہتے ہیں : چنانچہ سعد نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا: یہ ام سعد کا ہے۔(سنن ابي داؤد : 1681)

6 اہلیہ کو پانی پلانے میں اجر ہے

سیدنا عرباض بن ساريه رضي الله عنہ سے روايت ہے کہ میں نےرسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا سَقَى امْرَأَتَهُ مِنَ الْمَاءِ أُجِرَ . قَالَ : فَأَتَيْتُهَا، فَسَقَيْتُهَا، وَحَدَّثْتُهَا بِمَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

جب بندہ اپنی بیوی کو پانی پلاتا ہے تو اس کو اجر ملتا ہے ۔ عرباض بن ساريه رضي الله عنہ بیان کرتے ہیں : پس میں اٹھا اور اپنی بیوی کو پانی پلایا اور اسے رسول اللہ کی یہ حدیث سنائی ۔(مسند احمد : 17155)

7 جانوروں کو پانی پلانے میں اجر ہے

سیدنا عبداللہ بن عمرو رضي الله عنہ سےروايت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کے پاس آیا اور کہا : میں اپنے تالاب میں پانی بھرتا ہوں تو جس وقت میں اسے اپنے اونٹوں کے لیے بھر دیتا ہوں تو اتنے میں کسی دوسرے کا اونٹ آ جاتا ہے اور میں اسے بھی پانی پلا دیتا ہوں تو کیا مجھے اس کا ثواب ملے گا ؟ تو آپ نے فرمایا : ہر پیاسے جاندار کو پانے پلانے سے ثواب ملتا ہے ۔(صحيح الترغيب : 956)

ایک روایت کے لفظ ہیں :

جو کھود کر پانی نکالے گا تو جو بھی جاندار اور پیاسا جن ، انسان یا پرندہ اس سے پئے گا تو اللہ قیامت کے دن اسے اس کا ثواب دے گا ۔ (صحيح الترغيب : 963)

8 پانی پلانے سے بیماری کا علاج

علي بن حسن بن شقيق رحمه اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے امام عبداللہ بن مبارک رحمه اللہ سے اپنے زخم کے متعلق سوال کیا جو سات سال سے اس کے گھٹنے میں تھا جس سے خون رس رہا تھا اس شخص نے کہا : میں کافی اطباء سے رجوع کیا لیکن افاقہ نہیں ہوا ۔ امام صاحب نے کہا :

إذهب ، فاحفر بئرا في مكان حاجة إلى الماء ، فإني أرجو أن ينبع هناك عين، ويمسك عنك الدم . ففعل الرجل ، فبرأ .

کسی ایسی جگہ پر کنواں کھدوا دے جہاں لوگوں کو پانی کی ضرورت ہے مجھے امید ہے کہ ادہر پانی کا چشمہ پھوٹ نکلے گا ادہر تیرا خون رک جائے گا ۔ پس اس شخص نے امام صاحب کے مشورے پر عمل کیا اور اس کا خون رک گیا ۔ (سير أعلام النبلاء : 407/8)

9 کسی سے پانی روکنا گناہ ہے

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

ثَلاَثَةٌ لاَ يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ، وَلاَ يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ:رَجُلٌ عَلَى فَضْلِ مَاءٍ بِطَرِيقٍ يَمْنَعُ مِنْهُ ابْنَ السَّبِيلِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ بَايَعَ رَجُلًا لَا يُبَايِعُهُ إِلَّا لِلدُّنْيَا فَإِنْ أَعْطَاهُ مَا يُرِيدُ وَفَى لَهُ وَإِلَّا لَمْ يَفِ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٌ سَاوَمَ رَجُلًا بِسِلْعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ فَحَلَفَ بِاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَى بِهَا كَذَا وَكَذَا فَأَخَذَهَا .

تین طرح کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ ان سے بات کرے گا نہ ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ انہیں سخت درد ناک عذاب ہو گا۔ ایک وہ شخص جو سفر میں ضرورت سے زیادہ پانی لے جا رہا ہے اور کسی مسافر کو ( جسے پانی کی ضرورت ہو ) نہ دے۔ دوسرا وہ شخص جو کسی ( خلیفۃ المسلمین ) سے بیعت کرے اور صرف دنیا کے لیے بیعت کرے کہ جس سے اس نے بیعت کی اگر وہ اس کا مقصد پورا کر دے تو یہ بھی وفاداری سے کام لے، ورنہ اس کے ساتھ بیعت و عہد کے خلاف کرے۔ تیسرا وہ شخص جو کسی سے عصر کے بعد کسی سامان کا بھاؤ کرے اور اللہ کی قسم کھا لے کہ اسے اس کا اتنا اتنا روپیہ مل رہا تھا اور خریدار اس سامان کو ( اس کی قسم کی وجہ سے ) لے لے حالانکہ وہ جھوٹا ہے۔ (صحيح بخاري : 2385)

ایک روایت کے لفظ ہیں :

ثَلَاثٌ لَا يُمْنَعْنَ :‏‏‏‏ الْمَاءُ وَالْكَلَأُ وَالنَّارُ .

تین چیزیں ایسی ہیں جن سے کسی کو روکا نہیں جا سکتا: پانی، گھاس اور آگ ۔ (سنن ابن ماجہ : 2473)

0 صحابہ کرام کا لوگوں کو پانی پلانے کا جذبہ

سيدنا عبدالله بن عمر رضي الله عنہماسے روایت ہے :

اسْتَأْذَنَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيتَ بمكة لَيَالِيَ مِنًى مِنْ أَجْلِ سِقَايَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَذِنَ لَهُ .

عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ سے ( حاجیوں کو زمزم  ) پلانے کے لیے منیٰ کے دن مکہ میں ٹھہرنے کی اجازت چاہی تو آپ نے ان کو اجازت دے دی۔ (صحيح بخاري : 1634)

! صحابہ کرام کا پانی پلانے میں ایثار

ابو الجہم بن حذیفہ عدوی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ یرموک کے دن میں اپنے چچا زاد بھائی کی تلاش میں نکلا ۔ پانی کا مشکیزہ اور پینے کا برتن میرے ساتھ تھا ۔ دل میں خیال تھا کہ اب تک وہ سانس لے رہے ہوں گے ، لہذا ان کو پانی پلاؤں ۔ جب میں ان کے قریب پہنچا تو وہ موت وحیات کی کشمکش میں سسکیاں لے رہا تھا میں نے کہا : پانی پئیں گے ؟ انہوں نے اشارہ کیا کہ ہاں! اسی اثناء میں دوسرے زخمی کی چیخ و پکار کی آواز سنائی دی تو مجھے اس کی طرف جانے کا اشارہ کیا کہ پہلے اسے پلاؤ ۔ میں اس کے پاس گیا وہ ہشام بن عاص بن عمرو کا بھائی تھا ۔ میں نے اسے پانی پینے کے لیے کہا تو اس دوران ایک تیسرے شخص کے کراہنے کی آواز آئی انہوں نے بھی مجھے اشارہ کیا کہ پہلے ان کو جاکر پانی پلائیں ۔ جب میں اس کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکے تھے ۔ میں ہشام کی طرف واپس پلٹا ، لیکن وہ بھی دم توڑ چکے تھے ۔ پھر اپنے چچا زاد بھائی کی طرف لپکا ، مگر وہ بھی داعی اجل کو لبیک کہہ چکے تھے ۔(الجهاد لابن مبارك : 116/97)

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے