قارئین کرام! آج آپ کے سامنے ظُلم کے حوالے سے چند اہم اور ضروری باتوں کو پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

1سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم کو حرام قرار د یا ہے،اللہ تعالیٰ کا صحیح حدیثِ قدسی میں فرمانِ گرامی ہے کہ

يَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي، وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا، فَلَا تَظَالَمُوا(صحیح مُسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم الظلم حدیث نمبر6517)

اے میرے بندو! میں نے ظلم کو خود اپنے اوپر حرام کرلیا (میں اپنے بندوں پر ظلم نہیں کروں گا)اور میں نے ظلم کو تُمھارے درمیان بھی حرام ہی قرار دیا ہے تو تُم لوگ آپس میں ظلم نہ کرنا۔

2اور جو بھی شخص دوسروں پر ظلم کرے گا تو اللہ تعالیٰ سزا کے طور پر اُس پر اُس سے بھی زیادہ بڑا ظالم مُسلط کرديں گے۔جیساکہ اللہ کا فرمان ہے:

وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ(الأنعام:129)

اور اِسی طرح ہم کُچھ ظالموں کو کُچھ ظالموں پر مُسلط کردیتے ہیں۔

ایک عرب شاعر کہتاہے کہ

وما من ظالم اِلا سیُبلیٰ بأظلم

 کہ جو بھی ظالم ہے وہ اپنے سے بڑے ظالم سے آزمایا جائیگا ( یعنی اللہ اُس پر اُس سے بھی بڑا ظالم مُسلط کردینگے )

3اِسی طرح نبی کا صحیح حدیث میں فرمانِ گرامی ہے کہ:

المُسْلِمُ أَخُو المُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ (صحیح البُخاري کتاب الاِکراہ باب یمین الرجل لصاحبہ حدیث نمبر6951 )

مُسلمان مُسلمان کا بھائی ہے اُس پر ظُلم نہیں کرتا ہے ۔

4اِسی طرح اللہ تعالیٰ قُرآن میں فرمانِ گرامی ہے :

وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ (فاطر43)

اور بُری سازشیں محض اپنے کرنے والوں کو ہی گھیرتی ہیں یعنی: اللہ تعالیٰ بُری سازشوں کو اُنکے کرنے والو ں پر ہی لوٹا دیتے ہیں ۔

اور دوسروں کے لیے بُرا چاہنے والے خود اپنی ہی سازشوں کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیںلہذا ضروروی ہے کہ ہم کسی بھی مُسلمان کے خلاف ظُلم اور سازش نہ کریں کسی بھی مُسلمان کو نقصان پُہنچانے کے لیے کوئی بھی بُرا منصوبہ نہ بنائیں ورنہ اللہ اُس بُرے منصوبے کو اُسکے بنانے والوں پر ہی لوٹادینگے۔

5اِسی طرح صحیح حدیث میں نبی کا فرمانِ گرامی ہے :

انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا (صحیح البُخاري کتاب الاِکراہ باب یمین الرجل لصاحبہ حدیث نمبر6952)

تُم اپنے بھائی کی مدد کرو ، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم ہو۔

تو ایک صحابی نے عرض کیا کہ اللہ کے رسول اگر ہمارا بھائی مظلوم ہو اور ہم اُسکی مدد کریں تو با ت سمجھ میں آتی ہے مگر اگر ہما را بھائی ظالم ہو تو ہم اُسکی مدد کیسے کریں؟ تو نبی کریم نے فرمایا :

تَمْنَعُهُ عَنِ الظُّلْمِ

ظالم کی مدد یہ ہے کہ تُم اُسے ظلم کرنے سے منع کرو۔

تو ظالم کے ساتھ اُسکے ظلم میں تعاون نہیں کرنا ہے کیونکہ

گناہ اور ظلم وزیادتی کے کاموں میں تعاون کرنا قُرآن

کے فیصلے کے مُطابق حرام ہے:

وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ  ( المائدۃ3 )

 اور گناہ ا ور ظلم وزیادتی کے کاموں میں آپس میں تعاون نہ کرو۔ البتہ ظالم کے ساتھ صحیح اور بہتر تعاون یہ ہے کہ اُسے ظُلم کرنے سے روکا جائے اور اُسے ظُلم کرنے سے منع کیا جائے کہ یہی اُسکی صحیح مدد ہے

6  اِسی طرح صحیح حدیث میں نبی کا فرمانِ گرامی ہے : 

اتَّقِ دَعْوَةَ المَظْلُومِ، فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ (صحیح البُخاري کتاب الزکاۃ باب أخذ الصدقۃ من الاغنیاء حدیث نمبر1496)

نبی کریم نے جب معاذ بن جبل نامی عظیم صحابی رضی اللہ عنہ کو یمن کے علاقے کا نگر ان اور گورنر بنا کر بھیجا تو اُنھیں اِس موقع پر کئی قیمتی نصیحتیں کیں اُن ہی نصیحتوں میں سے ایک عظیم نصیحت یہ بھی تھی کہ : تُم مُظلوم کی بد دُعاء سے بچنا کیونکہ مُظلوم کی بد دُ عاء اور اللہ کے درمیان کوئی پر د ہ حائل نہیں ہوتا(صحیح مُسلم کتاب الایمان باب وعید من اِقتطع حق مُسلم حدیث نمبر351 )

 تشریح: ( i ) بلکہ اللہ مُظلوم کی بد دُ عاء کو ضرور قبول کرلیتے ہیں خواہ مظلوم فاسق وفاجر ہی کیوں نہ ہو اور ظالم نیک مُسلمان ہی کیوں نہ ہو ( ii ) مگر اگر کسی بھی شخص پر ظُلم ہوا ہے تو اللہ اُسکی بد دُ عاء کو ضرور ہی قبول فرمائیں گے (iii ) لہذا ہمارے لیے بے حد زیاد ہ ضروری ہے کہ ہم دوسروں پر ظُلم کرنے سے پوری طرح گُریز کریں تاکہ ہم مظلوم کی بد دعاء سے محفوظ رہ سکیں ( iv ) اور حقیقت میں مظلوم کی بد دُ عاء سے ظالم کی پوری زندگی بھی تباہ ہوسکتی ہے اور وہ ظالم نہایت ہی شدید اور سخت ترین جانی او رمالی مُصیبتوں کا شکار ہوسکتا ہے( v ) اور قبر اور دوزخ میں بھی ظالم شخص کو سخت ترین عذاب سے دوچار کیا جائیگا ( vi ) لہذا دوسروں پر ظلم کرنے سے پوری طرح گریز کرنا ہی شرافت اور سمجھداری بھی ہے اور خود اپنے نفس پر مہربانی بھی ہے ۔

7 اِسی طرح ظلم کی ایک شکل کے بارے میں صحیح مُسلم میں یہ عظیم حدیث آتی ہے کہ نبی معظم نے فرمایا کہ جس نے زمین کا ایک بالشت کے برابر حصہ بھی ظالمانہ طریقے سے لے لیا [ ایک بالشت کے برابر زمین پر بھی ناجائز قبضہ کرلیا] تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُسکے بدلے اُسکے گلے میں سات زمینوں کا طوق ڈالیں گے (صحیح مُسلم کتاب المُساقاۃ باب تحریم الظلم حدیث 4108:)

 ( i ) جس سے واضح ہوتا ہے کہ کسی بھی شخص کی زمین یا پلاٹ یا فلیٹ پر ناجائز قبضہ کرنا کس قدر خطرناک اور بدترین جُرم ہے ( ii ) اور اُس کا آخرت میں کتنا بھیا نک اَنجام ہے ( iii ) لہذا دوسروں کی زمینوں پر ناجائز طور پر قبضہ کرنے سے پوری طرح گُریز کرنا نہایت ضروری ہے( iv ) اور پھر یہ بھی سمجھ لیں کہ اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کی کوئی چیز بھی ناجائز طو ر پر لی ہے جیسے: چوری کی ہے یا ز ور زبردستی سے حاصل کی ہے تو اِس غلطی کی معافی کے لیے صرف زبانی طور پر توبہ اِستغفار کرنا ہی کافی نہیں ہے ( v ) بلکہ اللہ کے سامنے معافی کے لیے  اور اللہ کی سخت ترین سزا سے بچنے کے لیے ظالمانہ طریقے سے حاصل شُدہ چیز کا واپس لوٹانا بھی ضروری ہے ( vi ) ورنہ وہ شخص صر ف اکیلی زبانی توبہ اِستغفار سے اللہ کی پکڑ سے ہرگز نہیں بچ سکے گا ( vii) مثال کے طور پر کسی شخص نے کسی شخص کی موٹر سائیکل چوری کی ہے تو پھر دُنیا اور آخرت میں اللہ کی سزا اور پکڑ سے بچنے کے لیے صر ف زبانی طور پر تو بہ اِستغفار کا فی نہیں ہے ( viii ) بلکہ اُس چُرائی ہوئی چیز کا واپس لوٹانا بھی ضرور ی ہے ( ix ) اِسی طرح اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کا پلاٹ یا فلیٹ ناجائز طور پر حاصل کیا ہے تو نجات اور بخشش کے لیے اور اللہ کی سخت ترین پکڑ سے بچنے کے لیے صر ف زبانی طور پر تو بہ اِستغفار کافی نہیں ہے ( ix ) بلکہ اُس چُرائے ہوئے پلاٹ یا فلیٹ کا واپس لوٹانا بھی ضرور ی ہے ( xi ) ا ور چُرائی ہوئی چیز کو واپس کرنے سے اللہ اُس واپس کرنے والے شخص کی مغفرت بھی فرمادینگے ظلم سے دور رہیں اور اُسے اپنے غیب کے خزانوں میں سے خوشیاں اور اچھا رزق بھی عطا فرمائیں گے ۔

8 جہاں تک دوسروں کی چیزوں کو ناجائز طور پر حاصل کرنے کا تعلق ہے تو یہ بات اِسلام میں سخت حرام اور منع ہے کہ کسی بھی شخص کی کوئی بھی چیز اُسکی مرضی ، اِجازت اور مُکمل رضا مندی کے بغیر حاصل کی جائے اگرچہ کہ وہ تھوڑی اور معمولی چیز ہی کیوں نہ ہو اور خواہ ظالم شخص اُس چیز کو قسم اُٹھاکر حاصل کرے یا بغیر قسم کے حاصل کرے جیساکہ اِس بارے میں نبی کریم کا صحیح مُسلم میں فرمانِ گرامی ہے:

 جس کسی شخص نے (جھوٹی) قسم کے ذریعے کسی مُسلمان کا حق مارا اُسکی کوئی بھی چیز جھوٹی قسم کے ذریعے حاصل کرلی تو اللہ نے ایسے شخص کے لیے دوزخ کو واجب کردیا ہے ، لازمی قرار دے دیا ہے اور اُس پر جنت حرام کردی ہے تو کسی شخص نے کہا : اے اللہ کے رسول اگرچہ تھوڑی اور معمولی چیز ہی ہو تو نبی نے فرمایا کہ : جی ہاں! اگرچہ کہ مسواک کی ایک ڈنڈی ہی کیوں نہ ہو۔

( i ) غور فرمائیں جس شخص نے جھوٹی قسم کے ذریعے مسواک کی ایک ڈنڈی بھی حاصل کرلی تو اُسکی اِتنی سخت سزا ہے کہ اللہ نے اُس پر جنت حرام کر دی ہے اور اُسکے لیے دوزخ کو واجب قرار دے دیا ہے ( ii ) تو پھر اُس شخص کی سزا، ہلاکت ، بربادی اور بُرے اَنجام کا کیا کہنا جوکہ جھوٹی قسموں کے ذریعے ہزاروں یا لاکھوں روپے مالیت کی چیزوں یا پلاٹوں او ر فلیٹوں کو حاصل کرلے ؟؟ (iii ) لہذا ہر سمجھدار مُسلمان مرد اور خاتون کے لیے اللہ سے ڈرنا ضروری ہے اور ظُلم کی ہر شکل وصورت سے گریز کرنا نہایت ضروری ہے ( iv ) اور ہر مسلمان مرد اور خاتون کے لیے ضروری ہے کہ وہ دُنیا اور دولت کے حصول کے لیے صرف حلا ل اور جائز راستے اور طریقے ہی اپنائے اور حرام اور ناجائز راستوں اور ذریعوں سے پوری طرح گریز کرے ( v ) اِسی میں عزت ، نجات اور کامیابی ہے ( vi ) جبکہ حرام طریقوں اور راستوں سے عارضی کامیابیوں کو حاصل کرنے میں ڈر، خوف پریشانی ، ذلت و رسوائی اور اللہ کی پکڑ اور دوزخ کی شدید آگ کے علاوہ کُچھ نہیں ہے ( vii ) جس شدید آگ میں جلنے کے پہلے لمحے میں ہی دُنیا میں حاصل ہونے والے تمام ناجائز مزے پوری طرح ختم ہوکر رہ جائیں گے ( viii ) اور پھر نہ جانے دُنیا میں کیئے ہوئے ظُلم کی وجہ سے اُس شدید آگ میں کتنے مہینوں یا سالوں جلنا پڑے جو آ گ صحیح حدیث کے مُطابق دُنیا کی آگ سے اُنتھر [ 69 ] دفعہ زیادہ ہے( صحیح الجامع الصغیرحدیث نمبر: 6742)

 ( ix ) جب ہم سے دُنیا کی آگ اور گرمی ہی برداشت نہیں ہو پاتی ( x ) جلتے ہوئے چولہے پر ایک گھنٹہ تو کیا آدھا گھنٹہ اور دس منٹ بھی نہیں بیٹھ سکتے تو دوزخ کی سخت ترین آگ کیسے برداشت کرسکیں گے ؟؟( xi ) لہذا ضروری ہے کہ : دُنیا اور دولت کے حصول کے لیے صرف جائز اور حلال راستے ہی اِختیار کیئے جائیں ( xii ) اور دُنیا اور دولت کے حصول کے لیے تمام حرام اور ناجائز راستوں ، طریقوں اور ذریعوں سے پوری ہی طرح گُریز کیا جائے ( xiii ) اِسی میں دُنیا اور آخرت دونوں ہی جہانوں کی عزت، سکون اور خوشیاں اور کامیابیاں ہیں (xiv) ا ور یہ بات نہایت ضروری ہے کہ ہم کسی بھی مُسلمان کی جان پر بھی ظلم نہ کریں اُسکے مال پر بھی ظلم نہ کریں اور اُسکی عزت وآبرو پر بھی ظلم نہ کریں۔

 اللہ تعالیٰ ہمیں محض حلال راستوں کو ہی اِختیار کرنے اور تمام حرام راستوں سے بچنے اور ظلم سے پوری طرح گُریز کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں۔ آمین

والحمدُ للہ رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے