نبی کریم کے سر اور داڑھی میں سفید بالوں کی تعداد:

اس بارے میں مختلف روایات ہیں جن کا تعلق مختلف ازمان و اوقات سے ہے،بہر طور سفید بالوں کی کل تعداد تقریباًتیس(30) تھی۔واللہ اعلم

پہلی روایت:

امام احمد بن حنبل (المتوفیٰ:246ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا أَبُو يَعْقُوبَ يَعْنِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ ثَابِتًا الْبُنَانِيَّ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ: هَلْ سَأَلْتَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ؟ قَالَ ثَابِتٌ:

متن:

سَأَلْتُ أَنَسًا، هَلْ شُمِطَ رَسُول اللّٰه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَقَدْ قَبَضَ اللّٰه عَزَّ وَجَلَّ رَسُولَهُ، وَمَا فَضَحَهُ بِالشَّيْبِ، مَا كَانَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ يَوْمَ مَاتَ ثَلَاثُونَ شَعَرَةً بَيْضَاءَ فَقِيلَ لَهُ أَفَضِيحَةٌ هُوَ؟ قَالَ: أَمَّا أَنْتُمْ فَتَعُدُّونَهُ فَضِيحَةً، وَأَمَّا نَحْنُ فَكُنَّا نَعُدُّهُ زَيْنًا.

ثابت البنانی رحمہ اللہ نے کہا:میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا:کیا رسول اللہ بوڑھے ہوگئے تھے؟،انہوں نے جواب دیا: اللہ عز و جل نے اپنے رسول کی روح اس حال میں قبض کی کہ انہیں بڑھاپے کے عیب میں مبتلا نہ کیا،آپ کے سر اور داڑھی میں جس دن آپ فوت ہوئے تیس سفید بال نہ تھے۔

ان سے پوچھا گیا:کیا یہ (بڑھاپے کے باعث سفید بال)عیب کی بات ہے؟انہوں نے جواب دیا:تم اسے عیب ہی سمجھتے ہو،لیکن ہم تو اسے زینت شمارکرتے تھے۔

(مسند احمد:12474)

دوسری روایت:

امام محمد بن اسماعیل البخاری (المتوفیٰ:256ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنِي ابْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ:حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلاَلٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَصِفُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:

متن:

وَقُبِضَ وَلَيْسَ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ عِشْرُونَ شَعَرَةً بَيْضَاءَ.

 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہاآپ کی روح قبض کی گئی اس حال میں کہ آپ کے سر اور داڑھی میں بیس بال بھی سفیدنہ تھے۔(صحیح بخاری:3547)

تیسری روایت:

امام محمد بن عیسیٰ بن سورۃ الترمذی(المتوفیٰ:279ھ) نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْوَلِيدِ الْكِنْدِيُّ الْكُوفِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللّٰه بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللّٰه بْنِ عُمَرَ قَالَ:

متن:

إِنَّمَا كَانَ شَيْبُ رَسُولِ اللّٰه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوًا مِنْ عِشْرِينَ شَعْرَةً بَيْضَاءَ

رسول اللہ کے تقریباً بیس بال سفید تھے۔

(شمائل ترمذی:40،الصحیحۃ:2096)

چوتھی روایت:

امام ابو عبداللہ محمد بن یزید(ماجہ)القزوینی (المتوفیٰ: 273ھ) نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالَ:حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حُمَيْدٍ قَالَ:

متن:

 سُئِلَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَخَضَبَ رَسُولُ اللّٰه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ:إِنَّهُ لَمْ يُرَ مِنَ الشَّيْبِ إِلَّا نَحْوَ سَبْعَةَ عَشَرَ، أَوْ عِشْرِينَ شَعَرَةً فِي مُقَدَّمِ لِحْيَتِهِ.

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا:کیا رسول اللہ نے خضاب لگایا (بالوں کو رنگا)؟،تو انہوں نے جواب دیا:آپکی داڑھی کے سامنے والے حصے میں تقریباًسترہ یا بیس سے زائد سفید بال دیکھے نہیں گئے۔ (سنن ابن ماجہ:3629،سلسلہ صحیحہ:2096)

پانچویں روایت:

امام احمد بن حنبل (المتوفیٰ:246ھ)رحمہ اللہ نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ:

متن:

مَا عَدَدْتُ فِي رَأْسِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِحْيَتِهِ، إِلَّا أَرْبَعَ عَشْرَةَ شَعَرَةً بَيْضَاءَ.

سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا:میں رسول اللہ کے سر اور داڑھی میں 14 سفید بال ہی گن سکا۔(مسند احمد :12690،علامہ البانی نے اسے صحیح کہا:مختصر الشمائل:31)

امام احمدبن حجر العسقلانی(المتوفیٰ:852ھ)نے کہا:

واختلف في عدد الشعرات التي شابت في رأسه صلى الله عليه وسلم ولحيته على النحو الذي مرّ في مختلف الروايات السابقة، وقد جمع العلامة البلقيني بين هذه الروايات بأنها تدل على أن شعراته البيض لم تبلغ عشرين شعرة، والرواية الثانية توضح أن ما دون العشرين كان سبع عشرة، فتكون العشر في العنفقة، والزائد عليها يكون في بقية لحيته صلى الله عليه وسلم، ذلك أن اللحية تشمل العنفقة وغيرها.

سابقہ مختلف روایات کی بنا پر اختلاف ہے کہ رسول اللہ  کے سر اور داڑھی میں کتنے بال سفید تھے،علامہ بلقینی نے ان روایات میں یہ تطبیق دی ہے کہ ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپکے سفید بال بیس سے زیادہ نہ تھے،اور دوسری روایت میں صراحت ہے کہ بیس سے کم سترہ تھے،پس اس طرح دس بال تو تھوڑی (داڑھی بچہ)میں ہوئے اور اس سے زائد بال بقیہ داڑھی میں،کیونکہ لفظ ”اللحیۃ“،”داڑھی“تھوڑی وغیرہ کو شامل ہے۔(سبل الہدیٰ والرشاد فی سیرۃ خیر العبادلمحمد بن یوسف الصالحی الدمشقی:2/37)

علامہ عبدالرحمن بن ابی بکرجلال الدین السیوطی (المتوفیٰ:911ھ) نے کہا:

وَجمع بَينهمَا باخْتلَاف الْأَزْمَان وَبِأَن رِوَايَة ابْن سعد إِخْبَار عَن عده وَمَا عَداهَا إِخْبَار عَن الْوَاقِع فأنس لم يعد أَربع عشرَة وَهُوَ فِي الْوَاقِع سبع عشرَة أَو ثَمَان عشرَة أَو أَكثر وَذَلِكَ كُله نَحْو الْعشْرين.

 تمام روایات کے درمیان یہ تطبیق د ی گئی ہے کہ اسکا تعلق مختلف اوقات سے ہے،ابن سعد کی روایت بتاتی ہے کہ وہ کتنے سفید بال گن سکے،جبکہ دیگر روایت بتاتی ہیں کہ کتنے سفید بال تھے،پس انس رضی اللہ عنہ 14 سے زیادہ گن نہ سکے جبکہ حقیقت میں سفید بال 17 یا 18یا تقریباً 20 تھے۔(الشمائل الشریفہ،ص:34)

اہم فائدہ:

ہمیں تیس سفید بالوں والی روایت سب سے صحیح اور حقیقت سے قریب ترمعلوم ہوتی ہے،کیونکہ :

نبی کریم کے سفیدبالوں کی تعداد کے متعلق دو قسم کی روایات ہیں ،ایک وہ جن میں بالوں کی تعداد گننے کا ذکر ہے اور دوسری وہ جن میں اندازہ بتایا گیا ہے،اور اندازہ بھی گنے بغیر قائم کرنا مشکل ہے،لہذا یہ تمام روایات یا توظن و تخمین پر قائم ہیں،یا ان کا تعلق مختلف ازمان سے ہے،یہی وجہ ہے کہ روایات میں اختلاف ہے۔

نیز ان روایات میں سر اور داڑھی کے جن حصوں کے سفید بالوں کا ذکر ہے ان میں مانگ شامل نہیں ہے ،جیسا کہ ان روایات میں سر،داڑھی،تھوڑی اور کنپٹیوں کی صراحت ہے،اسی لئے زیادہ سے زیادہ تعداد بیس بیان کی گئی ہے،جبکہ آپ کی مانگ میں بھی سفید بال تھے،جیسا کہ سیدنا جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت میں صراحت ہے،نیز انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی بعض روایات میں اس طرف اشارہ ہےجو ہم ذکر کر آئے ہیں۔

مسند احمد(12474)کی ایک روایت میں سفید بالوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد 30 بیان کی گئی ہے،اور اسکا تعلق یوم وفات رسول سے ہے،جیسا کہ پہلی روایت میں ہے،جبکہ دوسری روایت (صحیح بخاری: 3547)بھی اسی دن سے متعلق ہے لیکن اس میں تعداد 20 بیان کی گئی ہے،اور دونوں روایات کے راوی بھی ایک ہی ہیں یعنی سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ،جبکہ بقیہ روایات کا تعلق خاص یوم وفات سے نہیں ہے۔

پہلی اور دوسری روایات کا تعلق ایک ہی دن سے ہے،سند کے اعتبار سے دونوں صحیح ہیں،دونوں میں راوی صحابی بھی ایک ہیں،پس ان میں تطبیق کی ایک ہی صورت ہے (فیما اعلم)کہ :20 والی روایت میں مانگ کے سفید بال شمار نہیں کئے گئے،جبکہ 30 والی روایت میں مانگ کے سفید بال بھی شمار کئے گئے ہیں،نیز تیس کا عدد بیس کے عدد کو شامل ہے۔واللہ اعلم

فائدہ:

زیر نظر مضمون میں زیادہ تر روایات سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، انہوں نے دس سال تک نبی کریم کی خدمت کی،اور آپکی وفات کے بعد بھی اکثر راتیں آپکے دیدار کی سعادت حاصل کرتے رہے،لہذا ان کے بیان کی اہمیت مسلّم ہے،اس بارے میں درج ذیل روایت ملحوظ رہے۔

امام احمد بن حنبل (المتوفیٰ:246ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّي، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ:

متن:

 قَلَّ لَيْلَةٌ تَأْتِي عَلَيَّ إِلَّا وَأَنَا أَرَى فِيهَا خَلِيلِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَسٌ يَقُولُ ذَلِكَ وَتَدْمَعُ عَيْنَاهُ .

مجھ پر ایسی راتیں کم ہی گذری ہیں کہ میں نے جن میں اپنے خلیل کو نہ دیکھا ہو،یہ بات کہتے ہوئے انس رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بہہ پڑیں۔(مسند احمد:،طبقات ابن سعد:7/15،تاریخ دمشق:9/358،علامہ ہیثمی نے اسے صحیح کہا)

دعویٰ:

آپ کے بال نہ تو بالکل سیدھے تھے نہ ہی مکمل گھنگھریالے تھے بلکہ لہر دار تھے ۔

پہلی دلیل:

امام محمد بن اسماعیل البخاری (المتوفیٰ:256ھ)رحمہ اللہ نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:

متن:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَخْمَ اليَدَيْنِ، لَمْ أَرَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَكَانَ شَعَرُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجِلًا، لاَ جَعْدَ وَلاَ سَبِطَ.

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا:

نبی بھرے ہاتھوں والے تھے،میں نے آپ کے بعد آپ جیسا نہیں دیکھا،اور نبی کے بال ہلکے گھنگھریالے تھے،نہ مکمل گھنگھریالے نہ مکمل سیدھے۔ (صحیح بخاری:5906)

دوسری دلیل:

امام محمد بن عیسیٰ بن سورہ الترمذی(المتوفیٰ:279ھ) نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْمَصَاحِفِيُّ سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي الْأَخْضَرِ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ:

متن:

كَانَ رَسُول اللّٰہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْيَضَ كَأَنَّمَا صِيغَ مِنْ فِضَّةٍ رَجْلَ الشَّعْرِ.

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہارسول اللہ گورے تھے گویا آپ چاندی سے ڈھلے ہوں،ہلکے گھنگھریالے بالوں والے۔(شمائل ترمذی:12،صحیحہ الالبانی :مختصر الشمائل:27)

دعویٰ:

آپ داڑھی میں کنگھی کرتے تھے اور تیل لگاتے تھے۔

ہمارے اس دعوے کی دلیل درج ذیل روایات ہیں:

پہلی دلیل:

امام مسلم بن حجاج القشیری (المتوفیٰ:261ھ)رحمہ اللہ نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَشْعَثَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:

متن:

إِنْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيُحِبُّ التَّيَمُّنَ فِي طُهُورِهِ إِذَا تَطَهَّرَ، وَفِي تَرَجُّلِهِ، إِذَا تَرَجَّلَ، وَفِي انْتِعَالِهِ إِذَا انْتَعَلَ.

سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہارسول اللہ دائیں جانب کو پسند کرتے تھے،پاکی حاصل کرنے میں ،جب وہ پاکی حاصل کرتے اور کنگھی کرنے میں جب وہ کنگھی کرتے،اور جوتی پہننے میں جب وہ جوتی پہنتے۔(صحیح مسلم:،کتاب الطہارۃ باب التیمن فی الطھور وغیرہ)

دوسری دلیل:

امام ابو یعلیٰ نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ (بن سلیمان)، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ سِمَاكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ:

متن:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ شَمِطَ مُقَدَّمُ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ، فَإِذَا ادَّهَنَ وَمَشَّطَهُ لَمْ يَتَبَيَّنْ، فَإِذَا شَعِثَ رَأَيْتَهُ.

سیدنا جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ کا سر مبارک اورداڑھی مبارک سفیدی کی جانب مائل ہوگئے تھے،اور جب آپ تیل لگالیتے اور کنگھی کرلیتےتو یہ واضح نہ ہوپاتا،اور جب آپ کے سر کے بال بکھرے ہوتے توتم اسے دیکھ لیتے۔(مسند ابی یعلیٰ:7456،مشیخۃ الآبنوسی لابی الحسین محمد بن احمد بن محمد بن علی الصیرفی ابن الآبنوسی البغدادی (المتوفیٰ:457ھ): 215، المستخرج لابی عوانۃ:10348،تاریخ دمشق:3/2944/165،صحیح مسلم، کتاب الفضائل،باب شیبہ ،شعب الایمان للبیہقی: 1353،مصنف ابن ابی شیبہ:31808،حسین سلیم اسد نے اسے حسن کہا)

مسئلہ:

سر اور داڑھی کے بالوں میں کنگھی کرنے کا شرعی ضابطہ:

پہلی روایت:

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث الازدی السجستانی (المتوفیٰ:275ھ)رحمہ اللہ نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ عَبْدِ اللّٰه، عَنْ حُمَيْدٍ الْحِمْيَرِيِّ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: لَقِيتُ رَجُلًا صَحِبَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا صَحِبَهُ أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ:

متن:

نَهیٰ رَسُولُ اللّٰه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَمْتَشِطَ أَحَدُنَا كُلَّ يَوْمٍ، أَوْ يَبُولَ فِي مُغْتَسَلِهِ.

صحابی رسول نے کہا رسول اللہ نے منع فرمایا کہ ہم میں سے کوئی ہر روز کنگھی کرے یا نہانے کہ جگہ میں بول و براز کرے۔(سنن ابی داؤد:28،صحیح ابی داؤد:22)

دوسری روایت:

امام محمد بن عیسیٰ بن سورہ الترمذی(المتوفیٰ:279ھ) نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ الحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ قَالَ:

متن:

 نَهىٰ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم عَنْ التَّرَجُّلِ إِلَّا غِبًّا.

سیدنا عبد اللہ بن مغفل المزنی رضی اللہ عنہ نے کہارسول اللہ نے کنگھی کرنے سے منع کیا مگرایک دن چھوڑ کر۔(سنن ترمذی:1756،الصحیحہ:501)

امام محمد بن عیسیٰ بن سورہ الترمذی(المتوفیٰ:279ھ) نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَاالْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ،(والصواب یزید بن خالد) عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ الْأَوْدِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:

متن:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَرَجَّلُ غِبًّا.

نبی ایک دن چھوڑ کر کنگھی کیا کرتے تھے۔

حوالہ و تحقیق:

شمائل ترمذی:36،اس روایت کو بہت سے علماء محققین نے حسن قرار دیا ہے،حسین سلیم اسد :موارد الظمآن بتحقیق حسین:5/22، ابن رسلان (المتوفیٰ:844ھ):شرح سنن ابی داؤد:1/390،محمد بن یوسف الصالحی الشامی(المتوفیٰ:942ھ):سبل الہدیٰ والرشادفی سیرۃ خیر العباد: 7/345،حافظ عراقی(المتوفیٰ:806ھ):تخریج احادیث الاحیاء،ص: 161 ، علامہ زبیدی:اتحاف سادۃ المتقین: 2/395،علامہ اسماعیل بن محمد العجلونی:کشف الخفاء:1/138۔

ایک دن میں دو مرتبہ کنگھی کرنا:

امام ابو بکر بن ابی شيبہ، عبد الله بن محمد بن ابراہيم بن عثمان بن خواستی العبسی (المتوفیٰ: 235ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ أَسْمَاءَ، عَنْ نَافِعٍ،:

متن:

أَنَّ ابْنَ عُمَركَانَ رُبَّمَا ادَّهَنَ فِي الْيَوْمِ مَرَّتَيْنِ.

امام نافع رحمہ اللہ نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بسا اوقات ایک دن میں دو مرتبہ(سر میں) تیل لگاتے تھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ:25558،الاحاد والمثانی لابن ابی عاصم:738)

وضاحت:

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ عمل بظاہر حدیث کے خلاف معلوم ہوتا ہے لیکن ہمارے خیال میں اس مسئلے میں وسعت ہے،اور اسکا تعلق حاجت سے ہے،بسا اوقات ،خاص طور پر سفر کی حالت میں دھول مٹی کے باعث ہر روز ہی تیل لگانے اورکنگھی کرنے کی حاجت ہوتی ہے،اور کبھی چند دنوں تک بھی حاجت نہیں پڑتی،اصل بالوں کا اکرام اور نظافت کا حصول ہے اور یہ دونوں امر شرعاً مطلوب ہیں،چنانچہ رسول اللہ نے اِکرام الشَعر کے متعلق ارشاد فرمایا:

مَنْ كَانَ لَهُ شَعْرٌ فَلْيُكْرِمْهُ.(سنن ابی داؤد:4163)

جسکے بال ہوں وہ انکا اکرام کرے۔

اورنظافت کی اہمیت کے متعلق یہ حدیث نہایت اہم ہے ،سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ:

أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَى رَجُلًا شَعِثًا قَدْ تَفَرَّقَ شَعْرُهُ فَقَالَ:أَمَا كَانَ يَجِدُ هَذَا مَا يُسَكِّنُ بِهِ شَعْرَهُ، وَرَأَى رَجُلًا آخَرَ وَعَلْيِهِ ثِيَابٌ وَسِخَةٌ، فَقَالَ أَمَا كَانَ هَذَا يَجِدُ مَاءً يَغْسِلُ بِهِ ثَوْبَهُ.

رسول اللہ ہمارے پاس تشریف لائےتو آپ نے ایک شخص کو دیکھا جسکے بال بکھرے ہوئے تھے تو آپ نے فرمایا:کیا اسکے پاس کچھ نہیں جسکے ذریعے یہ اپنے بال سنوار لے؟اور ایک اور شخص کو دیکھا جسکا لباس میلا تھا ،تو آپ نے فرمایا:کیا اسے پانی نہیں ملتا جس سے یہ اپنا لباس دھولے۔(سنن ابی داؤد:4062)

البتہ بننے سنورنے میں مبالغہ کرنا قابل مذمت ہے کیونکہ یہ مشرکین عجم کا طریقہ ہے،اور رسول اللہ نے انکی مخالفت کرنے کا حکم دیا ہے ،اور اپنے صحابہ کرام کی بھی اسی نہج پر تربیت کی ،خاص طور پر ظاہری وضع قطع اور حلیہ سازی میں،جیسا کہ (آپ کی داڑھی مبارک بڑی اوراعتدال کے ساتھ دراز تھی)کے عنوان کے تحت چوتھی دلیل کے ضمن میں ہم تفصیل سے بیان کر آئے ہیں۔

نیز تابعی عبداللہ بن شقیق(المتوفیٰ:108ھ)نے کہا:

كَانَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامِلًا بِمِصْرَ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَإِذَا هُوَ شَعِثُ الرَّأْسِ مُشْعَانٌّ. قَالَ: مَا لِي أَرَاكَ مُشْعَانًّا وَأَنْتَ أَمِيرٌ؟ قَالَ:كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا عَنِ الْإِرْفَاهِ. قُلْنَا: وَمَا الْإِرْفَاهُ؟ قَالَ:التَّرَجُّلُ كُلَّ يَوْمٍ.

نبی کریم کے ایک صحابی(سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ) جو مصر کے گورنر تھے ان کے پاس ایک دوسرے صحابی (غالباًانکا نام عبید تھا)آئے تو انہوں نے گورنر کودیکھا کہ انکا سر پراگندہ اور بال بکھرے ہیں،تو انہوں نے کہا:میں تمہیں اس حال میں کیوں دیکھتا ہوں حالانکہ تم گورنر ہو؟تو فضالہ نے جواب دیا:رسول اللہ ہمیں ”الارفاہ“سے منع کرتے تھے-ایک روایت (مسند احمد:23969) میں ہے-بہت زیادہ ارفاہ سے منع کیا۔راوی نے کہا:ہم نے پوچھا:الارفاہ”کیا ہے؟انہوں (غالباً عبداللہ بن بریدہ یا عبداللہ بن شقیق رحمھما اللہ)نے کہا:ہر روز کنگھی کرنا۔(سنن نسائی :5058،سلسلہ صحیحہ:502)

امام محی السنۃ، ابو محمد الحسين بن مسعود بن محمد بن الفراء البغوی الشافعی (المتوفیٰ: 516هھ) رحمہ اللہ نے کہا:

وَأَصْلُ الإِرْفَاهِ مِن الرَّفَهِ، وَهُوَ أَنْ تَرِدَ الإِبِلُ الْمَاءَ كُلَّ يَوْمٍ، وَمِنْهُ أُخِذَتِ الرَّفَاهِيَةُ، وَهِي الْخَفْضُ، وَالدَّعَةُ، فَكَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الإِفْرَاطَ فِي التَّنَعُّمِ مِنَ التَّدْهِينِ وَالتَّرْجِيلِ، وَفِي مَعْنَاهُ مُظَاهَرَةِ اللِّبَاسِ عَلَى اللِّبَاسِ، وَالطَّعَامِ عَلَى الطَّعَامِ عَلَى مَا هُوَ عَادَةِ الأَعَاجِمِ، وَأَمْرَ بِالْقَصْدِ فِي جَمِيعِ ذَلِكَ، وَلَيْسَ مَعْنَاهُ تَرْكُ الطَّهَارَةِ وَالتَّنَظُّفِ، فَإِنَّ النَّظَافَةَ مِنَ الدِّينِ.

الارفاہ“رفہ سے ہے،جسکا معنی ہے کہ اونٹ ہر روز پانی پر آئے،”الرفاھیۃ“،”خوشحالی و فارغ البالی“بھی اسی سے ماخوذ ہے،پس نبی نے تیل لگانے اور کنگھی کرنے سے بکثرت لطف اندوز ہونے کو ناپسند کیا،اور لباس پر لباس بدلنا،اور کھانے پر کھانےبدلنا جیسا کہ عجمیوں کا رواج ہےبھی اسی معنی میں ہے،اور آپ نے ان تمام امور میں اعتدال اختیار کرنے کا حکم دیا،یہ معنی نہیں کہ پاکیزگی و نظافت کو ترک کردیا جائے کیونکہ نظافت دین کا حصہ ہے۔(شرح السنۃ:12/83)

نیزسیدنا عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے عامل کو نصیحت کرتے ہوئے لکھا:

وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَعُّمَ، وَزِيَّ أَهْلِ الشِّرْكِ – وفی روایۃ – وَزِيَّ الْعَجَمِ…

عیش پسندی اور مشرکین کی سی زیب و زینت(ایک روایت،صحیح ابن حبان:5454، میں ہے)عجمیوں کی سی زیب و زینت اختیار کرنے سے بچو۔(صحیح مسلم،کتاب اللباس والزینۃ۔باب تحریم استعمال اناء الذہب والفضۃ علی الرجال والنساء)

کیا رسول اللہ نے خضاب لگایا ہے ؟

اس بارے میں مختلف روایات ہیں ،گذشتہ سطور میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی بعض روایات کے مطابق نبی کریم کے سر اور داڑھی میں اسقدر سفید بال نہ تھے کہ آپکو خضاب لگانے کی ضرورت پڑتی(صحیح مسلم،کتاب الفضائل ،باب شیبہ )،اورانس رضی اللہ عنہ کے مطابق نبی نے خضاب کا استعمال کیا بھی نہیں(ایضاً)،اور جن روایات میں آپکے خضاب شدہ بالوں کے ملنے کا ذکر ہے تو انس رضی اللہ عنہ کے مطابق وہ بعد میں رنگے گئے یا خوشبو کی وجہ سے انکا رنگ بدل گیا(مستدرک حاکم:4201،دلائل النبوۃ للبیہقی: 1/239)اس معنی کی بعض روایات سیدنا جابر بن عبداللہ ،سیدنا ابو الدرداء وغیرہ رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہیں۔

لیکن بعض دیگر صحابہ کرام سے مروی روایات کے مطابق نبی کریم نے خضاب کا استعمال کیا ہے۔

نفی والی روایات ہم ذکر کرچکے ہیں ،نیز ذہن نشین رہے کہ اثبات” نفی“ پر مقدم ہوتا ہے،کیونکہ نفی سے لاعلمی ثابت ہوتی ہے جبکہ اثبات ”علم“کی دلیل ہے ،امام ابو زکريا محی الدين يحییٰ بن شرف النووی (المتوفیٰ: 676ھ)نے ان دو قسم کی روایات کے درمیان درج ذیل تطبیق دی ہے:

وَالْمُخْتَارُ أَنَّهُ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَبَغَ فِي وَقْتٍ وَتَرَكَهُ فِي مُعْظَمِ الْأَوْقَاتِ فَأَخْبَرَ كُلٌّ بما رأى وهوصادق وهذا التأويل كالمتعين فحديث بن عُمَرَ فِي الصَّحِيحَيْنِ وَلَا يُمْكِنُ تَرْكُهُ وَلَا تَأْوِيلَ لَهُ وَاللّٰه أَعْلَمُ.

راجح یہ ہے کہ نبی کریم نے کبھی کبھار خضاب لگایا ہے اور زیادہ تر خضاب استعمال نہیں کیا،پس ہر ایک نے اپنے مشاہدے کے مطابق نقل کیا،اور اس نقل میں وہ سچا ہی ہے،یہ تاویل ہی متعین ہےکیونکہ ابن عمر رضی اللہ عنہماکی حدیث صحیحین میں ہے(جسکے مطابق نبی کریم نے خضاب لگایاہے)اسے ترک کرنا ممکن نہیں نہ ہی اسکی تاویل ممکن ہے۔(شرح مسلم: 15/95)

نیزامام احمدبن حجر العسقلانی(المتوفیٰ:852ھ)نے کہا:

وَالْجَمْعُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ حَدِيثِ أَنَسٍ أَنْ يُحْمَلَ نَفْيُ أَنَسٍ عَلَى غَلَبَةِ الشَّيْبِ حَتَّى يَحْتَاجَ إِلَى خِضَابِهِ وَلَمْ يَتَّفِقْ أَنَّهُ رَآهُ وَهُوَ مُخَضِّبٌ وَيُحْمَلُ حَدِيثُ مَنْ أَثْبَتَ الْخَضْبَ عَلَى أَنَّهُ فَعَلَهُ لِإِرَادَةِ بَيَانِ الْجَوَازِ وَلَمْ يُوَاظِبْ عَلَيْهِ.

ان دونوں احادیث میں توفیق یہ ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کی نفی کوسفید بالوں کی اسقدر کثرت کی نفی پر محمول کیا جائے گاکہ خضاب کی ضرورت پڑے،اور یہ کہ انہیں نبی کو خضاب لگا دیکھنے کا اتفاق نہ ہوا،اور خضاب کا اثبات کرنے والوں کی حدیث کواس بات پر حمل کیا جائے گا کہ آپ نے یہ عمل بیان جواز کے لئے کیا لیکن اس پر ہمیشگی نہیں کی۔(فتح الباری:6/572)

نیز علامہ احمد بن علی بن عبد القادر، ابو العباس الحسينی العبيدی، تقی الدين المقريزی (المتوفیٰ: 845ھ)نے اثبات و نفی والی سبھی روایات ذکر کرنے کے بعد کہا:

والّذي عندي أنه صلى اللَّه عليه وسلم لم يبلغ من الشيب ما يقتضي الخضاب كما أجمعوا عليه، ومع ذلك فكان يغير أحيانا ما شاب من شعره، وأحيانا يتركه بحاله، وبهذا أرجو- إن شاء اللَّه- أن يكون الصواب، واللَّه أعلم.

میرے نزدیک نبی اسقدر سفید بالوں والے نہ تھے کہ آپ کو خضاب کی حاجت ہوتی جیسا کہ اس پر اہل علم کا اجماع ہے،اسکے باوجود کبھی کبھار آپ اپنے سفید بالوں کا رنگ تبدیل کرلیا کرلیتے،اور کبھی انہیں انکے حال پر چھوڑدیتے،مجھے امید ہے کہ یہی درست ہے ان شاء اللہ۔(امتاع الاسماع:7/74)

اب اثبات والی روایات ملاحظہ ہوں:

پہلی روایت:

امام ابو عبداللہ محمد بن یزید(ماجہ)القزوینی (المتوفیٰ:273ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ مَوْهَبٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ قَالَ:

متن:

فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ شَعَرًا مِنْ شَعْرِ رَسُولِ اللّٰه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخْضُوبًا بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ.

عثمان بن موہب رحمہ اللہ نے کہامیںام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھاکے پاس گیا تو انہوں نے میرے سامنے رسول اللہ کا ایک بال نکالا جو حنَّاء اور کتم سے رنگا ہوا تھا۔(سنن ابن ماجہ:3623،صحیح بخاری:5897)

دوسری روایت:

امام محمد بن عیسیٰ الترمذی(المتوفیٰ:279ھ) نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰه بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ:

متن:

رَأَيْتُ شَعْرَ رَسُولِ اللّٰه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَخْضُوبًا، قَالَ حَمَّادٌ: وَأَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّٰه بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ قَالَ: رَأَيْتُ شَعْرَ رَسُولِ اللّٰه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ مَخْضُوبًا.

میں نے رسول اللہ کا رنگا ہوا بال دیکھا،عبداللہ بن محمد بن عقیل راوی نے کہا:میں نے رسول اللہ کا رنگا ہوا بال سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس دیکھا۔(شمائل ترمذی:48)

شبہ:

ان دوروایات پر ایک اشکال وارد ہوتا ہے،جیسا کہ امام احمد بن الحسین ابو بکر البیہقی(المتوفیٰ:458ھ)رحمہ اللہ نے کہا:

قَالَ أَبُو بَكْرٍ الْإِسْمَاعِيلِيُّ: هَذَا لَمْ يُبَيِّنْ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ الَّذِي خَضَبَ وَلَعَلَّهُ لُوِّنَ بَعْدَهُ أَوْ وُضِعَ فِي طِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ فَعَلِقَتْهُ.

امام ابوبکر الاسماعیلی رحمہ اللہ نے کہا:اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نبی نے خضاب لگایا ہو،کیونکہ ممکن ہے کہ اس بال کو بعد میں رنگا گیا ہو یا اسے ایسی خوشبو میں رکھا گیا ہوجس میں زردی ہو جو بال پر لگ گئی ہو۔(بیہقی شعب الایمان:5983)

ازالہ:

یہ اشکال احتمالی ہے جو درست بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی ، بہر طور اس سے حتمی طور پریہ بھی ثابت نہیں ہوتا کہ ان بالوں کو بعد میں ہی خضاب لگایا گیاہے نیز یہ احتمال درج ذیل صریح روایات کے مقابلے میں ٹھہر نہیں سکتا۔

تیسری روایت:

امام ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی الخراسانی النسائی (المتوفیٰ:303ھ)نے کہا:

سند:

أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ:

متن:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِيَّةَ، وَيُصَفِّرُ لِحْيَتَهُ بِالْوَرْسِ، وَالزَّعْفَرَانِ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُ ذَلِكَ – وفی روایۃ البخاری – وَأَمَّا الصُّفْرَةُ: فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللّٰه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْبُغُ بِهَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَصْبُغَ بِهَا.

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہانبی کریم دباغت شدہ چمڑے سے بنی جوتیاں پہنتے تھے،اور ورس اور زعفران بوٹی سے اپنی داڑھی کو زرد کیا کرتے تھے،(نافع نے کہا)اور ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے-بخاری کی روایت میں ہے-ابن عمر نے کہا:زرد خضاب اس لئے لگاتا ہوں کہ میں نے نبی کو اسکا خضاب لگاتے دیکھا،پس مجھے محبوب ہے کہ میں بھی یہی خضاب لگاؤں۔(سنن نسائی:5244،صحیح بخاری:1665851)

چوتھی روایت:

امام ابو عبدالرحمن احمد بن شعیب بن علی الخراسانی النسائی (المتوفیٰ:303ھ)نے کہا:

سند:

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ قَالَ:

متن:

أَتَيْتُ أَنَا وَأَبِي النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ قَدْ لَطَخَ لِحْيَتَهُ بِالْحِنَّاءِ.-وفی روایۃ-بالصفرۃ.

سیدنا ابو رمثہ رفاعہ بن یثربی التمیمی تیم الرباب رضی اللہ عنہما نے کہا میں اور میرے والد نبی کے پاس آئے اور آپ نے اپنی داڑھی کو حنَّاء(مہندی)-ایک روایت میں ہے-زرد رنگ سے مل رکھا تھا۔(سنن نسائی:50835084،سنن ابی داؤد:4208،صحیح نسائی:3/1044)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے