قارئین کرام ! قربانی کے ایام ہیں لاکھوں فرزندان توحید سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں  اپنے جانور ذبح کریں گے ۔

لہذا اسی نسبت سے اس ماہ کے مضموں میں ذبح کے بعض احکام و آداب پیش خدمت ہیں ۔

1 ذبح كرنے سے قبل چھری کو تیز کرنا

جانور ذبح کرنے سے قبل چھری کو اچھی طرح سے تیز کرنا چاہیے تاکہ اسے تکلیف نہ پہنچے ۔

سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کے ساتھ سب سے اچھا طریقہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔

وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، فَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ

جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، تم میں سے کوئی ایک شخص ( جو ذبح کرنا چاہتا ہے ) وہ اپنی چھری کو تیز کرلے اور ذبح کیے جانے والے جانور کو اذیت سے بچائے۔  (صحیح مسلم : 5055)

2 جانور کے سامنے چھری تیز کرنا

جس جانور کو ذبح کیا جا رہا ہو اس کے سامنے چھری تیز نہ کیا جائے ، ایسا کرنے سے رسول اللہ نے منع فرمایا ہے ۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ایک آدمی کے پاس سے گذرے جو اپنی ٹانگ ایک بکری کے اوپر رکھے چھری تیز کر رہا تھا۔ بکری اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ جس پر آپ نے فرمایا :

أَفَلَا قَبْلَ هَذاَ ! تُرِيْدُ أَنْ تُمِيْتَهَا مَوْتَتَيْن؟

کیا اس سے پہلے چھری تیز نہیں کر سکتے تھے؟ کیا تو اسے دو موت مارنا چاہتا ہے ۔(سلسلة الصحيحة : 24)

3 دانت اور ناخن سے ذبح کرنے کی ممانعت

سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

مَا أَنْهَرَ الدَّمَ وَذُكِرَ اسْمُ اللہ عَلَيْهِ فَكُلْ لَيْسَ السِّنَّ وَالظُّفُرَ وَسَأُخْبِرُكُمْ عَنْهُ أَمَّا السِّنُّ فَعَظْمٌ وَأَمَّا الظُّفُرُ فَمُدَى الْحَبَشَةِ .

جو چیز خون بہا دے اور جس جانور پر ( ذبح کرتے وقت) اللہ کا نام لیا ہو تو اسے کھالو البتہ ( ذبح کرنے والا آلہ ) دانت اور ناخن نہ ہو ۔ دانت اس لیے نہیں کہ یہ ہڈی ہے ( اور ہڈی سے ذبح کرنا جائز نہیں ہے ) اور ناخن اس لیے نہیں کہ حبشی لوگ ان کو چھری کی جگہ استعمال

کرتے ہیں۔ (صحیح بخاری : 5498)

4 پتھر سے ذبح کرنے کا حکم

سیدنا صفوان بن محمد رضی اللہ  عنہ سے روایت ہے کہ :

اصَّدْتُ أَرْنَبَيْنِ فَذَبَحْتُهُمَا بِمَرْوَةٍ فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ عَنْهُمَا فَأَمَرَنِي بِأَكْلِهِمَا.

میں نے دو خرگوش شکار کئے اور انہیں ایک سفید ( دھار دار ) پتھر سے ذبح کیا، پھر ان کے متعلق رسول اللہ سے سوال کیا تو آپ نے مجھے ان کے کھانے کا حکم دیا۔ (سنن ابي داؤد : 2822)

تیز کنارے والا پتھر جس سے جانور کی کھال کاٹی جا سکے ، اس سے ذبح کرنا جائز ہے ۔(سنن ابن ماجة ط ، دارالسلام : 433/4)

5 کیا گونگا شخص جانور ذبح کر سکتا ہے ؟

گونگا شخص جانور ذبح کر سکتا ہے۔امام ابن منذر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ :

وأجمعوا علي إباحة ذبيحة الأخرس

اس پر اجماع ہے کہ گونگے کا ذبیحہ جائز ہے ۔ (کتاب الاجماع ص : 40)

6 کیا عورت قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے؟

اگر عورت ذبح کرنے میں مہارت رکھتی ہو تو قربانی کا جانور ذبح کر سکتے ہے کوئی حرج نہیں ۔

امام بخاری تعلیقاً نقل کرتے ہیں :

أَمَرَ أَبُو مُوسَى بَنَاتِهِ أَنْ يُضَحِّينَ بِأَيْدِيهِنَّ .

ابوموسی رضی اللہ عنہ اپنے بیٹیوں کو حکم کیا کرتے تھے کہ وہ اپنے قربانیاں اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں ۔ (بخاری ، قبل الحدیث : 5559)

علامہ عینی اس اثر کے تحت بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :

وفیه: أن ذبح النساء نسائكهن يجوز إذا كن يحسن الذبح (عمدة القاري : 155/21)

اس اثر میں دلیل ہے کہ عورتیں اپنی قربانیاں خود ذبح کر سکتی ہیں بشرطیکہ وہ ذبح کرنے میں مہارت رکھتی ہوں ۔

سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

أَنَّ امْرَأَةً ذَبَحَتْ شَاةً بِحَجَرٍ فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَأَمَرَ بِأَكْلِهَا .

ایک عورت نے پتھر سے بکری ذبح کر لی تھی پھر نبی سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے اس کے کھانے کا حکم دیا ۔ (صحیح بخاری : 5504)

اس سے معلوم ہوا کہ قربانی ہو یا عام ذبیحہ عورت کی ذبح کرنے میں کوئی کراہت نہیں ۔

7 کیا رات کو قربانی کا جانور ذبح کیا جا سکتا ہے ؟

قربانی کی راتوں میں جانور ذبح کیا جا سکتا ہے ،

امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

أن القول بعدم الإجزاء وبالكراهة يحتاج إلي دليل

قربانی کی راتوں میں جانور ذبح کرنے کی ممانعت اور کراہت کا دعوی دلیل کا محتاج ہے ۔ (نیل الاوطار : 149/5)

یعنی رات کو جانور ذبح کرنے کی کراہت و ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ، لہذا رات کو قربانی کا جانور (یا عام) ذبح کیا جا سکتا ہے ۔

8 ذبیحے کو قبلہ رخ کرنا

جانور کو ذبح کرتے وقت قبلہ رخ کرنا چاہیے ۔

نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ :

أَنَّ ابْنَ عُمَرَ : كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَأْكُلَ ذَبِيحَةً ذَبَحَهُ لِغَيْرِ الْقِبْلَةِ

سيدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایس ذبیحے کا گوشت کھانا مکروہ سمجھتے تھے جسے قبلہ رخ کیے بغیر ذبح کیا تھا ۔(مصنف عبدالرزاق : 8585)

 9 ذبح کرنے کی دعا

رسول اللہ جانور ذبح کرتے وقت بسم اللہ ، اللہ اکبر پڑھتے تھے ۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :

ضَحَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَبْشَيْنِ يُسَمِّي وَيُكَبِّرُ

نبی نے دو مینڈھوں کی قربانی کی اور ذبح کرتے وقت بسم اللہ اللہ اکبر پڑھا۔ (صحيح بخاري : 7399)

اس کے علاوہ آپ اللہ نے دیگر دعائیں بھی پڑھیں ہیں ، جن کے لیے مراجع و مصادر کی طرف رجوع کیا جائے ۔

0 ذبح کرتے وقت جانور کو لٹانا

ذبح کرتے وقت جانور کو لٹانا مستحب ہے ، رسول اللہ جانور کو لٹا کر ذبح کرتے تھے ۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیںکہ رسول اللہ نے ایک سینگوں والا مینڈھا لانے کا حکم دیا .

أَخَذَ الْكَبْشَ فَأَضْجَعَهُ ثُمَّ ذَبَحَهُ

پھر آپ نے چھری لی، مینڈھے کو پکڑا، اس کو لٹایا، پھر اسے ذبح کیا ۔ (صحيح مسلم : 5091)

امام نووی فرماتے ہیں :

وَفِيهِ اسْتِحْبَابُ إِضْجَاعِ الْغَنَمِ فِي الذبح وأنها لاتذبح قائمة ولاباركة بَلْ مُضْجَعَةً لِأَنَّهُ أَرْفَقُ بِهَا

یہ حدیث دلیل ہے کہ ذبح کے وقت (بھیڑ اور) بکری کو لٹانا مستحب فعل ہے اور (انہیں ) کھڑے یا بٹھا کر ذبح نہ کیا جائے بلکہ لٹا کر ذبح کرنا چاہیے کیونکہ ذبح کا یہ طریقہ ( ان ) کے لیے راحت بخش ہے ۔

(شرح النووي : 122/13)

! اونٹ کو کھڑا کرکے نحر کرنا

باقی جانوروں کو لٹاکر ذبح کیا جائے گا سوائے اونٹ کے ، اونٹ کو کھڑا کرکے نحر کرنا مسنون ہے ۔

زیاد بن جبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :

رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ الله عَنْهُمَا أَتَى عَلَى رَجُلٍ قَدْ أَنَاخَ بَدَنَتَهُ يَنْحَرُهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ :‏‏‏‏ ابْعَثْهَا قِيَامًا مُقَيَّدَةً سُنَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (صحیح بخاری : 1713)

میں نے دیکھا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ایک شخص کے پاس آئے جو اپنا اونٹ بٹھا کر نحر کر رہا تھا، عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اسے کھڑا کر اور باندھ دے، پھر نحر کر کہ یہی رسول اللہ کی سنت ہے۔

@ذبح کرتے وقت اپنا پاؤں جانور پر رکھنا

جانور کو ذبح کرتے وقت اس کے پہلو پر اپنا پاؤں رکھنا مستحب فعل ہے یہ عمل جانور کو قابو رکھنے اور اچھے طریقے سے ذبح کرنے میں معاون ہے ۔

رسول اللہ ذبح کرتے وقت اپنا پاؤں جانور کے اوپر رکھتے تھے ۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

ضَحَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏بِكَبْشَيْنِ أَمْلَحَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَيْتُهُ وَاضِعًا قَدَمَهُ عَلَى صِفَاحِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏يُسَمِّي وَيُكَبِّرُ، ‏‏‏‏‏‏فَذَبَحَهُمَا بِيَدِهِ .

نبی کریم نے دو چتکبرے مینڈھوں کی قربانی کی۔ میں نے دیکھا کہ نبی اپنے پاؤں جانور کے اوپر رکھے ہوئے ہیں اور بسم اللہ واللہ اکبر پڑھ رہے ہیں۔ اس طرح آپ نے دونوں مینڈھوں کو اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ۔ (صحیح بخاری : 5558)

#جنین کے ذبح کا کیا حکم ہے

اگر حاملہ جانور کے پیٹ سے مردہ بچہ نکلتا ہے تو وہ حلال ہے اس کی ماں کا ذبح ہونا اس کا ذبح ہونا ہے ۔

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے اس بچے کے متعلق سوال کیا جو ماں کے پیٹ سے ذبح کرنے کے بعد نکلتا ہے، آپ نے فرمایا : اگر چاہو تو اسے کھا لو ۔ مسدد کی روایت میں ہے : ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہم اونٹنی کو نحر کرتے ہیں، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے پیٹ میں مردہ بچہ پاتے ہیں تو کیا ہم اس کو پھینک دیں یا اس کو بھی کھا لیں؟ آپ نے فرمایا :

كُلُوهُ إِنْ شِئْتُمْ فَإِنَّ ذَكَاتَهُ ذَكَاةُ أُمِّهِ

اگر چاہو تو اسے کھا لو، اس کی ماں کا ذبح کرنا اس کا بھی ذبح کرنا ہے ۔(سنن ابی داؤد : 2827)

واضح ہو کہ اگر بچہ زندہ نکلتا ہے تو اسے ذبح کیا جائے گا کیوں کہ وہ ایک الگ جان ہے ۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

إن خرج حيا ، فلا بد من زكاته لأنه نفس أخري

اگر وہ زندہ نکلے تو اس کا ذبح کرنا ضروری ہے ، کیوں کہ وہ ایک الگ جان ہے ۔(المغنی : 401/9)

$بھاگے ہوئے جانور کو ذبح کرنے کا طریقہ

سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :

كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَنَدَّ بَعِيرٌ فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏  إِنَّ لَهَا أَوَابِدَ أَحْسَبُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَا غَلَبَكُمْ مِنْهَا فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا (سنن ابن ماجہ : 3183)

ایک سفر میں ہم نبی اکرم کے ساتھ تھے کہ ایک اونٹ بھاگ نکلا، ایک شخص نے اس کو تیر مارا تو نبی کریم نے فرمایا: ان ( مویشیوں) میں کچھ بھاگ نکلنے والے ہوتے ہیں ، جس طرح جنگلی جانور (انسان سے دور) بھاگتے ہیں ۔ لہذا ان میں سے جو تم پر غالب آ جائے  (قابو میں نہ آئے) اس کی ساتھ اسی طرح کیا کرو ۔

بھاگے ہوئے بے قابو جانور کو دور سے تیر یا نیزہ وغیرہ (تکبیر کہہ کر) مارا جائے تو اس کا حکم شکار کا ہو جاتا ہے یعنی اس تک لوگوں کے پہنچنے سے پہلے اس کی جان نکل جائے تو وہ ذبیحہ کے حکم میں ہے ۔

اور اگر لوگوں کے پہنچنے تک زندہ ہو تو باقاعدہ تکبیر پڑھ کر ذبح یا نحر کیا جائے ۔(سنن ابن ماجہ ط ، دارالسلام : 437/4)

%زندہ جانور سے گوشت کاٹنا

اگر زندہ جانور کے جسم سے گوشت کا کچھ حصہ کاٹا جائے تو وہ حرام ہے ۔

سیدنا ابو واقد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

مَا قُطِعَ مِنَ الْبَهِيمَةِ وَهِيَ حَيَّةٌ فَهِيَ مَيْتَةٌ

زندہ جانور کے بدن سے جو چیز کاٹی جائے وہ مردار ہے۔ (سنن ابی داؤد : 2858)

^کچا گوشت چھونے یا کھال اتارنے سے وضو

سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کا ایک لڑکے سے گذر ہوا، جو ایک بکری کی کھال اتار رہا تھا تو رسول اللہ نے اس سے فرمایا :

تَنَحَّ حَتَّى أُرِيَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْخَلَ يَدَهُ بَيْنَ الْجِلْدِ وَاللَّحْمِ فَدَحَسَ بِهَا حَتَّى تَوَارَتْ إِلَى الْإِبْطِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ مَضَى فَصَلَّى لِلنَّاسِ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ .

تم ہٹ جاؤ، میں تمہیں ( عملی طور پر کھال اتار کر ) دکھاتا ہوں ، چنانچہ آپ نے اپنا ہاتھ کھال اور گوشت کے درمیان داخل کیا، اور اسے دبایا یہاں تک کہ آپ کا ہاتھ بغل تک چھپ گیا، پھر آپ تشریف لے گئے، اور لوگوں کو نماز پڑھائی اور ( پھر سے ) وضو نہیں کیا۔ (سنن ابی داؤد : 185)

اس حدیث سے معلوم ہوا گوشت بنانے یا کھال اتارنے سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔

۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے