رسول اللہ کی داڑھی مبارک کی صفات و کیفیات

محمد مدثر لودھی

قسط 6

پانچویں روایت:

امام احمد بن حنبل (المتوفیٰ:246ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ السَّدُوسِيِّ،عَنْ أَبِي رِمْثَةَ التَّيْمِيِّ ، قَالَ:

متن:

خَرَجْتُ مَعَ أَبِي، حَتَّى أَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَأَيْتُ بِرَأْسِهِ رَدْعَ حِنَّاءٍ.

سیدنا ابو رمثہ رضی اللہ عنہ نے کہامیں اپنےوالد کے ساتھ سفر کرکے نبی کے پاس آیا تو میں نے آپکے سر پر حنَّاء کی تہہ دیکھی۔(مسند احمد:7104،سنن ابی داؤد: 4206، التعلیقات الحسان:5963)

امام احمد بن حنبل (المتوفیٰ:246ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ هُوَ الْعَطَّارُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ زَيْدٍ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ:

متن:

أَنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْمَنْحَرِ وَرَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ وَهُوَ يَقْسِمُ أَضَاحِيَّ فَلَمْ يُصِبْهُ مِنْهَا شَيْءٌ وَلَا صَاحِبَهُ، فَحَلَقَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ فِي ثَوْبِهِ فَأَعْطَاهُ، فَقَسَمَ مِنْهُ عَلَى رِجَالٍ، وَقَلَّمَ أَظْفَارَهُ، فَأَعْطَاهُ صَاحِبَهُ ، قَالَ: فَإِنَّهُ لَعِنْدَنَا مَخْضُوبٌ بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ، يَعْنِي: شَعْرَهُ.

سیدناعبداللہ بن زیدبن عبدربہ الانصاری الخزرجی (المتوفیٰ:32ھ) رضی اللہ عنہ نے کہا وہ منحر کے قریب نبی کریم کے پاس اور ایک قریشی آدمی کے پاس آئے،آپ قربانیوں کا گوشت تقسیم فرمارہے تھے،اس میں سے انہیں اور اس شخص کو کچھ نہ مل سکا،پھر رسول اللہ نےاپنا سر ایک کپڑے میںمونڈھوایا ، آپ نے وہ کپڑا اسے دیا تو اس (قریشی)نے وہ بال لوگوں میں تقسیم کئے،اور آپ نے اپنے ناخن تراشے اور اس کو دیئے۔عبداللہ بن زید نے کہا:پس وہ بال ہمارے پاس ہیں جو حنَّاء اور کتم سے رنگے ہوئے ہیں۔(مسند احمد:16474،صحیح ابن خزيمہ :2931،مستدرک حاکم:1744،اسے شیخ شعیب الارناؤط نے صحیح کہا)

امام احمد بن حنبل (المتوفیٰ:246ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ ،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ الْمُخَرِّمِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو سُفْيَانَ الْحِمْيَرِيُّ سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَ:حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ حَمْزَةَ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَامِعٍ، عَنْ إِيَادِ بْنِ لَقِيطٍ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ، قَالَ:

متن:

كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْضِبُ بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ، وَكَانَ شَعْرُهُ يَبْلُغُ كَتِفَيْهِ أَوْ مَنْكِبَيْهِ .

سیدنا ابو رمثہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم حنَّاء اور کتم کے ساتھ بال رنگا کرتے تھے،اور آپکے بال آپکے بازوؤں یا کندھوں تک پہنچتے تھے۔(مسند احمد:17497،اسے شیخ شعیب الارناؤط نے صحیح کہا)

فائدہ:

ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ نے اپنے سر اور داڑھی کے بالوں کو رنگا ہے۔

اس معنی کی روایات سیدنا بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ(طبرانی اوسط:7743،طبقات ابن سعد:1/337)اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما(طبرانی کبیر:11466)اور سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا(الکامل لابن عدی:6/42) اورسیدنا عامر بن واثلہ ابو الطفیل رضی اللہ عنہ(مسند البزار:2777) سے بھی مروی ہیں۔

رسول اللہ نے خضاب کے طور پر یہ چار چیزیں استعمال کی ہیں:

1زعفران:ایک خوشبودار مشہور پودا جس کے باریک زرد یا سرخ رییشے ہوتے ہیں۔

2ورس:ایک قسم کا پودا جو رنگائی کے کام میں لایا جاتا ہے اور ہندوستان و عرب اور حبشہ میں پیدا ہوتا ہے۔

3حنَّاء:مہندی کے پتے۔

4کتم:ایک پودا جسکے بیج سے قدیم زمانہ میں روشنائی بنائی جاتی تھی اور بالوں کو خضاب کیا جاتا تھا-واللہ اعلم

دعویٰ:

رسول اللہ اپنی داڑھی میں پانی لگاتے تھے۔

پہلی دلیل:

امام ابو سعيد بن الاعرابی احمد بن محمد بن زياد بن بشر بن درہم البصری الصوفی (المتوفیٰ: 340ھ)نے کہا:

سند:

نا مُحَمَّدٌ (بن ھارون)، نا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، نا مُبَشِّرُ بْنُ مُكْسِرٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ:

متن:

كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يُكْثِرُ دَهْنَ رَأسِهِ , وَيُسَرِّحُ لِحْيَتَهُ بِالْمَاءِ .

سیدنا سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے کہا:

رسول اللہ اپنے سر میں بہت تیل لگایا کرتے تھے اور اپنی داڑھی کو پانی کے ذریعے سنوارا کرتے تھے۔ (المعجم لابن الاعرابی:616،بیہقی شعب الایمان: 6046 ،الصحیحہ: 720)

دوسری دلیل:

امام ابو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الہاشمی بالولاء، البصری، البغدادی المعروف بابن سعد (المتوفیٰ: 230ھ) نے کہا:

سند:

أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ. أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ رَبِيعِ بْنِ صُبَيْحٍ عَنْ يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ:

متن:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – يُكْثِرُ دُهْنَ رَأْسِهِ وَيُسَرِّحُ لِحْيَتَهُ بِالْمَاءِ

سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ اپنے سر میں بہت تیل لگایا کرتے تھے اور اپنی داڑھی کو پانی کے ذریعے سنوارا کرتے تھے۔

(طبقات ابن سعد:1/375،شعب الایمان للبیہقی:6064،شرح السنۃ للبغوی:12/82،اخلاق النبی لابی الشیخ الاصبہانی: 3/99، رقم:534،شمائل ترمذی:33، تاریخ ابن معین،روایۃ الدوری:3/34،رقم:145،الانساب للبلاذری:850)

تنبیہ:

یہ روایت اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے لیکن گذشتہ روایت کے شاہد کے طور پر اسے پیش کیا جاسکتا ہے،نیز معنی کے اعتبار سے صحیح ہے۔(ملاحظہ ہو:سلسلہ صحیحہ:720) واللہ اعلم

تیسری دلیل:

خلال کا مسنون طریقہ

رسول اللہ جب بھی وضو کرتے تو اپنی داڑھی کا خلال بھی کرتے ،اور ایک کف پانی بھر کر اپنی داڑھی کو ، خاص طور پر تھوڑی کو (داڑھی کی جڑوںکو) تر کرتے تھے،چنانچہ امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث الازدی السجستانی (المتوفیٰ:275ھ) نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ يَعْنِي الرَّبِيعَ بْنَ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمَلِيحِ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ زَوْرَانَ، عَنْ أَنَسٍ يَعْنِي ابْنَ مَالِكٍ:

متن:

أَنَّ رَسُولَ اللّٰہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا تَوَضَّأَ، أَخَذَ كَفًّا مِنْ مَاءٍ فَأَدْخَلَهُ تَحْتَ حَنَكِهِ فَخَلَّلَ بِهِ لِحْيَتَهُ، وَقَالَ: هَكَذَا أَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ.

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہاکہ رسول اللہ جب وضو کرتے تو پانی کا ایک چلو لے کر اسے اپنی تھوڑی کے نیچے سے داخل کرتے اور اسکے ساتھ اپنی داڑھی کا خلال کرتے،اور فرماتے:مجھے میرے رب اللہ عَزَّ و جَلَّ نے اسی طرح حکم دیا ہے۔(سنن ابی داؤد:145، ارواء الغلیل:92)

فائدہ:

یہ حدیث داڑھی کے خلال کی اہمیت کو واضح کرتی ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے ،لیکن عوام الناس کی کثیر تعداد اس حکم ربانی سے غافل ہے۔

چوتھی دلیل:

نیز اس معنی کی ایک اور روایت ملاحظہ کریں ،اس میں یہ وضاحت بھی ہے کہ وضو کرنے کے بعد وضو کا پانی آپ کی داڑھی سے بہتا ہوا آپ کے سینے تک جاپہنچتا تھا،چنانچہ امام سليمان بن احمد بن ايوب بن اللخمی الشامی، ابو القاسم الطبرانی (المتوفیٰ: 360ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَالِدٍ الْمِصِّيصِيُّ، ثنا دَاوُدُ بْنُ مَنْصُورٍ الْقَاضِي، ثنا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، ح وَحَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ أَحْمَدُ بْنُ سَهْلٍ الْأَهْوَازِيُّ، ثنا الْجَرَّاحُ بْنُ مَخْلَدٍ، ثنا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، ثنا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ أَسْلَمَ، يُحَدِّثُ، أَنَّ خَوَّاتَ بْنَ جُبَيْرٍ، قَالَ:

متن:

نَزَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ الظَّهْرَانِ، قَالَ: فَخَرَجْتُ مِنْ خِبَائِي فَإِذَا أَنَا بِنِسْوَةٍ يَتَحَدَّثْنَ، فَأَعْجَبْنَنِي، فَرَجَعْتُ فَاسْتَخْرَجْتُ عَيْبَتِي، فَاسْتَخْرَجْتُ مِنْهَا حُلَّةً فَلَبِسْتُهَا وَجِئْتُ فَجَلَسْتُ مَعَهُنَّ، وَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قُبَّتِهِ فَقَالَ: أَبَا عَبْدِ اللهِ مَا يُجْلِسُكَ مَعَهُنَّ؟ ، فَلَمَّا رَأَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هِبْتُهُ واخْتَلَطْتُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ جَمَلٌ لِي شَرَدَ، فَأَنَا أَبْتَغِي لَهُ قَيْدًا فَمَضَى وَاتَّبَعْتُهُ، فَأَلْقَى إِلَيَّ رِدَاءَهُ وَدَخَلَ الْأَرَاكَ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ مَتْنِهِ فِي خَضِرَةِ الْأَرَاكِ، فَقَضَى حَاجَتَهُ وَتَوَضَّأَ، فَأَقْبَلَ وَالْمَاءُ يَسِيلُ مِنْ لِحْيَتِهِ عَلَى صَدْرِهِ – أَوْ قَالَ: يَقْطُرُ مِنْ لِحْيَتِهِ عَلَى صَدْرِهِ – فَقَالَ: أَبَا عَبْدِ اللهِ مَا فَعَلَ شِرَادُ جَمَلِكَ؟ ، ثُمَّ ارْتَحَلْنَا فَجَعَلَ لَا يَلْحَقُنِي فِي الْمَسِيرِ إِلَّا قَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا عَبْدِ اللهِ مَا فَعَلَ شِرَادُ ذَلِكَ الْجَمَلِ؟ ، فَلَمَّا رَأَيْتُ ذَلِكَ تَعَجَّلْتُ إِلَى الْمَدِينَةِ، واجْتَنَبْتُ الْمَسْجِدَ وَالْمُجَالَسَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا طَالَ ذَلِكَ تَحَيَّنْتُ سَاعَةَ خَلْوَةِ الْمَسْجِدِ، فَأَتَيْتُ الْمَسْجِدَ فَقُمْتُ أُصَلِّي، وَخَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَعْضِ حِجْرِهِ فَجْأَةً فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ وطَوَّلْتُ رَجَاءَ أَنْ يَذْهَبَ ويَدَعُنِي فَقَالَ: طَوِّلْ أَبَا عَبْدِ اللهِ مَا شِئْتَ أَنْ تُطَوِّلَ فَلَسْتُ قَائِمًا حَتَّى تَنْصَرِفَ ، فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: وَاللهِ لَأَعْتَذِرَنَّ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ولَأُبْرِئْنَ صَدْرَهُ، فَلَمَّا قَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَبَا عَبْدِ اللهِ مَا فَعَلَ شِرَادُ ذَلِكَ الْجَمَلِ؟ فَقُلْتُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا شَرَدَ ذَلِكَ الْجَمَلُ مُنْذُ أَسْلَمَ، فَقَالَ: رَحِمَكَ اللهُ ثَلَاثًا ثُمَّ لَمْ يُعِدْ لِشَيْءٍ مِمَّا كَانَ.

سیدنا خوات بن جبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ  کے ہمراہ مر الظہران نامی جگہ پر پڑاؤ ڈالا،پس میں اپنے خیمے سے نکلا تو کچھ خواتین باتیں کررہی تھیں،مجھے پسندآیا ،چنانچہ میں واپس خیمے گیا،اپنا تھیلا نکالا،اس سے اپنا چوغہ نکال کر اسے پہنا اور ان خواتین کے ساتھ جا بیٹھا،پھر رسول اللہ اپنے خیمے سے نکلے تو انہوں نے پوچھا:اے ابو عبداللہ تم ان خواتین کے ساتھ کیوں بیٹھے ہو؟جب میں نے رسول اللہ کو دیکھا تو میںگھبراگیا اور گڑبڑاگیا،میں نے کہا:اللہ کے رسول ،میرا اونٹ بھاگ گیاتھا تو میں اسکے لئے رسی ڈھونڈ رہا ہوں۔یہ سن کر آپ چل دیئے،میں بھی آپ کے پیچھے گیا،پھر آپ نے مجھے اپنی چادر دی،اور پیلو کی جھاڑیوں میں داخل ہوئے،گویا میں سبز جھاڑیوں میںآپکی پشت کا گورا پن دیکھ رہا ہوں،آپ نے قضاء حاجت کی،اور وضو کیا،پھر تشریف لائے تو پانی آپکی داڑھی سے آپکے سینے پر بہہ رہا تھا،یا کہا کہ:پانی آپکی داڑھی سے آپکے سینے پر ٹپک رہا تھا،پس آپ نے پوچھا:اے ابو عبد اللہ ،اونٹ کا بھاگنا کیا ہوا؟ پھر ہم وہاں سےروانہ ہوئے،پس راستے میں آپ جب بھی مجھے ملتے تو کہتے:اے ابو عبداللہ ۔تمہارے اونٹ کا بھاگنا کیا ہوا؟جب میں نے یہ صورتحال دیکھی تو میں جلدی سے مدینے پہنچا اور مسجداور نبی کریم کی مجلس سے الگ رہا،پھر جب کافی وقت گذرگیا تو میں نے مسجد کے خالی ہونے کے وقت کا انتظار کیا،پھر مسجد میں آکر نماز پڑھنے کھڑا ہوگیا۔اچانک رسول اللہ بھی اپنے کسی حجرے سے تشریف لائے،آپ نے دو ہلکی رکعات ادا کیں،لیکن میں نے نماز کو اس امید سے لمبا کردیا کہ آپ چلے جائیں گے اور مجھے چھوڑدیں گے،تو آپ نے کہا:او ابو عبداللہ،جتنا چاہے نماز کو لمبا کردے،میں بھی (نماز کے لئے)کھڑا نہیں ہونے والا حتی کہ تو سلام پھیر لے۔پس میں نے اپنے دل میں سوچا:اللہ کی قسم ،میں ضرور رسول اللہ سے معذرت کروں گا اور آپ کا دل صاف کردوں گا،پس جب آپ نے کہا:ابو عبد اللہ السلام علیکم ،اس اونٹ کا بھاگنا کیا ہوا؟تو میں نے کہا: جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا،وہ اونٹ کبھی نہیں بھاگا جب سے وہ مطیع ہوا،تو آپ نے فرمایا:اللہ تجھ پر رحم فرمائے،تین مرتبہ،اس کے بعد آپ نے دوبارہ کبھی اس کا تذکرہ نہیں کیا۔

حوالہ و تخریج و تحقیق:

(طبرانی کبیر:4146،منتہی رغبات السامعين في عوالی احاديث التابعين للاصبہانی:37،المنتظم في تاريخ الملوک والامم لجمال الدین ابی الفرج الجوزی:5/171172،مرآۃ الزمان فی تواریخ الاعیان لسبط ابن الجوزی:6/428،اسد الغابۃ لابن الاثیر: 1489,،مختصر تاریخ دمشق لابن منظور: 2/219،معجم الصحابہ للبغوی:2/277،معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم:2513،التنبيہ علی الالفاظ… لابی الفضل السلامی:246،نثر الدر فی المحاضرات لابی سعد الآبی:2/102،امام ابو الحسن نور الدين علی بن ابی بکر بن سليمان الہيثمی (المتوفیٰ: 807ھـ)نے اسے صحیح قرار دیا:مجمع الزوائد:16105)

فائدہ:

یہ طویل حدیث ہے ، ہمارا محل شاہد اس میں چند الفاظ پر مشتمل ہے لیکن تعمیم فائدہ کے لئے ہم نے یہ حدیث پوری نقل کردی۔

فائدہ:

ایک اور واقعہ کے ضمن میں اسی قسم کے الفاظ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہیں ،تعمیم فائدہ کے لئے یہ واقعہ بھی درج ذیل ہے:

امام احمد بن حنبل (المتوفیٰ:246ھ)نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ،حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي يَعْقُوبَ، يُحَدِّثُ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ:

متن:

رَكِبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَغْلَتَهُ، وَأَرْدَفَنِي خَلْفَهُ، وَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَبَرَّزَ كَانَ أَحَبَّ مَا تَبَرَّزَ فِيهِ هَدَفٌ يَسْتَتِرُ بِهِ، أَوْ حَائِشُ نَخْلٍ، فَدَخَلَ حَائِطًا لِرَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَإِذَا فِيهِ نَاضِحٌ لَهُ. فَلَمَّا رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَنَّ وَذَرَفَتْ عَيْنَاهُ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَسَحَ ذِفْرَاهُ وَسَرَاتَهُ، فَسَكَنَ فَقَالَ: مَنْ رَبُّ هَذَا الْجَمَلِ؟ فَجَاءَ شَابٌّ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ: أَنَا، فَقَالَ: أَلا تَتَّقِي اللهَ فِي هَذِهِ الْبَهِيمَةِ الَّتِي مَلَّكَكَ اللهُ إِيَّاهَا، فَإِنَّهُ شَكَاكَ إِلَيَّ وَزَعَمَ أَنَّكَ تُجِيعُهُ وَتُدْئِبُهُ ثُمَّ ذَهَبَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي الْحَائِطِ فَقَضَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاءَ وَالْمَاءُ يَقْطُرُ مِنْ لِحْيَتِهِ عَلَى صَدْرِهِ، فَأَسَرَّ إِلَيَّ شَيْئًا لَا أُحَدِّثُ بِهِ أَحَدًا، فَحَرَّجْنَا عَلَيْهِ أَنْ يُحَدِّثَنَا، فَقَالَ: لَا أُفْشِي عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِرَّهُ حَتَّى أَلْقَى اللهَ .

سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما نے کہاکہ رسول اللہ اپنے خچر پر سوار ہوئے اور مجھے اپنے پیچھے بٹھالیا،اور رسول اللہ کو جب حاجت درپیش ہوتی تو آپ قضاء حاجت کے لئے کوئی بلند ٹیلہ یا کھجور کے درختوں کا جھنڈ پسند فرماتے،پس آپ ایک انصاری کے باغ میں داخل ہوئے تو اس میں ایک اونٹ تھا،جب اس نے رسول اللہ  کو دیکھا تو اشتیاق میں وہ آواز کرنے لگا اور رونے لگا،رسول اللہ اس کے پاس آئے اسکے کان کے پیچھے اور کوہان پر ہاتھ پھیرنے لگے،پھر وہ پرسکون ہوگیا،تو آپ نے پوچھا:اس کا مالک کون ہے؟تو ایک انصاری جوان کہنے لگا ،میں،آپ نے فرمایا:کیا تو اس جانور کے سلسلے میں اللہ سے نہیں ڈرتاکہ جسکا تجھے اللہ نے مالک بنادیا؟تو اسے بھوکا رکھتا ہے اور مارتا ہے۔

پھر رسول اللہ باغ میں گئے،آپ نے قضاء حاجت کی،پھر وضو کیا پھر واپس آئے تو آپکی داڑھی سے پانی کے قطرے آپکے سینے پر ٹپک رہے تھے،پھر آپ نے مجھ سے راز کی کوئی بات کہی جو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا-راوی نے کہا-ہم نے ان پر زور ڈالا کہ وہ ہمیں وہ بات بتائیں تو انہوں نے کہا:میں رسول اللہ کا راز فاش نہیں کروں گا حتی کہ اللہ سے جاملوں۔

(مسند احمد:17541745،طبرانی کبیر:4146،الاحادیث المختارۃ لضیاء المقدسی:135،واصلہ فی صحیح المسلم،کتاب الحیض باب ما یستتر بہ لقضاء الحاجۃ،صحیح ابن حبان:14111412،سنن ابی داؤد:2549،سنن ابن ماجہ:340،سنن دارمی:690،صحیح ابن خزیمہ:53،،سلسلہ صحیحۃ:20)

مسئلہ:

داڑھی کے سفید بال نوچنا:

گذشتہ سطور میں آپ نے پڑھ لیا کہ رسول اللہ  کے سر اور داڑھی میں سفید بال موجود تھے،اور بہت سے لوگ اس قسم کی صورتحال میں سفید بال نوچ لیتے ہیں ، جبکہ ایسا کرنا جائز نہیں،اسکے دلائل درج ذیل ہیں:

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

لَا تَنْتِفُوا الشَّيْبَ، مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَشِيبُ شَيْبَةً فِي الْإِسْلَامِ – قَالَ عَنْ سُفْيَانَ: إِلَّا كَانَتْ لَهُ نُورًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَقَالَ فِي حَدِيثِ يَحْيَى – إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهَا حَسَنَةً، وَحَطَّ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةً ، – وفی روایۃ احمد – وَرَفَعَهُ بِهَا دَرَجَةً – ولہ -إِنَّهُ نُورُ الْإِسْلَامِ – ولہ ایضاً – هُوَ نُورُ الْمُؤْمِنِ – وفی روایۃ الترمذی – إِنَّهُ نُورُ المُسْلِمِ.

سفید بال مت نوچو،جو بھی مسلمان اسلام پر بوڑھا ہوا تو یہ بروز قیامت اسکے لئے نور کا باعث ہوگا،اور اس کے بدلے اللہ اسکی ایک نیکی لکھے گا، اور اسکا ایک گناہ مٹائے گا،اور اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا،یقینا یہ اسلام کا نور ہے،مومن کا نور ہے،مسلمان کا نور ہے۔

نیز سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہا کہ:

يُكْرَهُ أَنْ يَنْتِفَ الرَّجُلُ الشَّعْرَةَ الْبَيْضَاءَ مِنْ رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ

آدمی اپنے سر اور داڑھی سے سفید بال نوچے یہ کام ناپسندیدہ ہے۔(صحیح مسلم کتاب الفضائل باب شیبہ )

فائدہ:

ایک مرسلا ً صحیح روایت میں آتا ہے کہ ایک حجام نے رسول اللہ کی مونچھیں پست کیں پھر اس نے آپ کی داڑھی میں سفید بال دیکھے تو انہیں نوچنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو رسول اللہ نے اسے روک دیا اور فرمایا کہ :جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوا تو یہ سفیدی بروز قیامت اسکے لئے روشنی ثابت ہوگی۔

(طبقات ابن سعد:1/133،جامع معمر بن راشد:20187،شعب الایمان للبیہقی:5973،مصنف ابن ابی شیبہ:25952،المغنی لابن قدامہ: 1/68،الوقوف والترجل من الجامع لمسائل الامام احمد بن حنبل لابی بکر الخلال:1/129،رقم:93،سلسلہ ضعیفہ:5455)

فائدہ:

سب سے پہلے کس انسان کے بال سفید ہوئے؟

بعض روایات کے مطابق سب سے پہلے سیدنا خلیل الرحمٰن ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کے بال سفید ہونا شروع ہوئے،چنانچہ امام مالک رحمہ اللہ نے کہا:

سند:

عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ؛ أَنَّهُ قَالَ:

متن:

كَانَ إِبْرَاهِيمُ أَوَّلَ النَّاسِ ضَيَّفَ الضَّيْفَ. وَأَوَّلَ النَّاسِ اخْتَتَنَ. وَأَوَّلَ النَّاسِ قَصَّ شَارِبَهُ. وَأَوَّلَ النَّاسِ رَأَى الشَّيْبَ. فَقَالَ: يَا رَبِّ مَا هذَا؟فَقَالَ اللهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: وَقَارٌ يَا إِبْرَاهِيمُ.فَقَالَ: رَبِّ. زِدْنِي وَقَاراً.

سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے کہاکہ سب سے پہلے جس نے کسی کو مہمان بنایا ،اور سب سے پہلے جن کا ختنہ ہوا،اور سب سے پہلے جس نے اپنی مونچھیں پست کیں،اور سب سے پہلے جس نے سفید بال دیکھے،وہ ابراہیم خلیل الرحمٰن ہیں،انہوں نے پوچھا:یارب یہ سفید بال کیسے؟تو اللہ تعالی نے کہا:اے ابراہیم! یہ وقار کی علامت ہیں،تو انہوں نے کہا:یا رب مجھے اور باوقار بنا۔

(مؤطا امام مالک :3408،تاریخ دمشق لابن عساکر:6/199،جامع معمر بن راشد:20245،شرح السنہ للبغوی:3181،شعب الایمان للبیہقی: 8270،مستدرک حاکم:40214025،الادب المفرد: 1250، مصنف ابن ابی شیبہ : 35935،الاوائل لابن ابی عاصم:24، الاوائل للطبرانی:45،اعراب ثلاثین سورۃ للحسین بن عبداللہ بن خالویہ:112، المعجم لعبدالخالق بن اسد الدمشقی الاطرابلسی:212، تفسیر مؤطا لابی المطرف القنازعی:2/752،اخبار الزمان للمسعودی:78، اخبار و حکایات لابی الحسن الغسانی:12،سلسلہ ضعیفہ:2112)

اہم فائدہ:

گذشہ سطور میں آپ صحیح البخاری و دیگر کتب کے حوالے سے ملاحظہ کرچکے ہیں کہ رسول اللہ جب فوت ہوئے تو آپ کے سر اور داڑھی میں سفید بال موجود تھے،اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے سفید بال کبھی نہیں نوچے۔

دعویٰ:

رسول اللہ اپنی داڑھی کو اپنی مٹھی میں بھرلیتے تھے:

ہمارے اس دعوے کی دلیل درج ذیل روایات ہیں:

پہلی روایت:

امام ابو القاسم تمام بن محمد بن عبد الله بن جعفر بن عبد الله بن الجنيد البجلی الرازی (المتوفیٰ: 414ھ)نے کہا:

سند:

أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ هِشَامٍ الْكِنْدِيُّ ابْنُ بِنْتِ عَدَبَّسٍ، ثنا أَبُو زَيْدٍ الْحَوْطِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ مُصْعَبٍ، ثنا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ:

متن:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اهْتَمَّ قَبَضَ عَلَى لِحْيَتِهِ.

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہاکہ نبی کریم جب فکر مند ہوتے تو داڑھی کو اپنی مٹھی میں بھرلیتے۔

(فوائد تمام:666،مسند احمد:25097،صحیح ابن حبان:6439 7028، اخلاق النبی لابی الشیخ:155،الانوار فی شمائل النبی المختار للبغوی: 277، مفاتیح المعانی للکلاباذی:2/258،علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا:صحیح موارد الظمآن : 2/316،رقم: 1776، تراجعات الالبانی،سلسلہ ضعیفہ: 4237)

دوسری روایت:

امام ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق بن خلاد بن عبيد الله العتکی المعروف بالبزار (المتوفیٰ: 292ھ) نے کہا:

سند:

حَدَّثنا العباس بن أبي طالب، قَال: حَدَّثنا مُحَمد بن بكير، قَال: حَدَّثنا رشدين بن سَعْد عن عُقَيل، عَن الزُّهْرِيّ، عَن أَبِي سَلَمَة، عَن أَبِي هُرَيرة:

متن:

عَن النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيه وَسَلَّم؛ أَنَّه كان إذا اهتم أكثر من مس لحيته.

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ نبی کریم جب فکر مند ہوتے تو اپنی داڑھی کوبار بار چھوتے۔

(الطب النبوی لابی نعیم:123،مسند البزار:7914،الکامل لابن عدی:4/517بسند آخر،المجروحین لابن حبان:1/348،رقم: 448، الاسماءوالکنیٰ للحاکم الکبیر الکرابیسی النیسابوری)

تنبیہ:

یہ روایت اگرچہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہے لیکن گذشتہ روایت کے شاہد کے طور پر اسے پیش کیا جاسکتا ہے،نیز معنی کے اعتبار سے صحیح ہے۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو:تحقیق صحیح ابن حبان لشعیب الارناؤط:6439،مجمع الزوائد للہیثمی:730،سلسلہ ضعیفہ:4237،الروض البسام للدوسری:3/455)

آپ کی داڑھی کو کوئی چھوتا نہیں تھا اور اگر کسی نے کوشش کی تو صحابہ کرام نے اسے روک دیا:

عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب ایک شخص کو کسی سے اپنی بات منوانی ہوتی ہے تو وہ لجاجت کے انداز میں سامنے والی کی تھوڑی کو چھوتا ہے یا اسکی داڑھی کو اپنی انگلیوں کے درمیان لے کر انہیں داڑھی پر پھیرتا ہے،بسا اوقات غصے کی حالت میں وہ سامنے والی کی داڑھی کو زور سے پکڑ بھی لیتا ہے،یہ طریقہ عربوں میں بھی رائج تھا،اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ داڑھی کا حترام کرتے تھے، چنانچہ صحابہ کرام رسول اللہ کی ریش مبارک کا بے حد احترام کرتے تھے،اور کوئی آپکی داڑھی مبارک کو چھونے کی ہمت نہ کرتا تھا،اور اگر کوئی انجان یا غیر مسلم آپکی داڑھی کو چھونے کی کوشش کرتا تو صحابہ کرام اسے روک دیا کرتے تھے،اس کا اندازہ درج ذیل روایت سے لگائیں:

پہلی دلیل:

سیدنا مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما نے صلح حدیبیہ کے موقع پر سیدنا عروہ بن مسعود الثقفی (جو ابھی تک مسلمان نہ تھے)کی مذاکرات کے لئے آمد پر پیش آنے والی صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا:

وَجَعَلَ يُكَلِّمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكُلَّمَا تَكَلَّمَ أَخَذَ بِلِحْيَتِهِ، وَالمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَعَهُ السَّيْفُ وَعَلَيْهِ المِغْفَرُ، فَكُلَّمَا أَهْوَى عُرْوَةُ بِيَدِهِ إِلَى لِحْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ يَدَهُ بِنَعْلِ السَّيْفِ، وَقَالَ لَهُ: أَخِّرْ يَدَكَ عَنْ لِحْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَفَعَ عُرْوَةُ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: المُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ، فَقَالَ: أَيْ غُدَرُ، أَلَسْتُ أَسْعَى فِي غَدْرَتِكَ؟ وَكَانَ المُغِيرَةُ صَحِبَ قَوْمًا فِي الجَاهِلِيَّةِ فَقَتَلَهُمْ، وَأَخَذَ أَمْوَالَهُمْ، ثُمَّ جَاءَ فَأَسْلَمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا الإِسْلاَمَ فَأَقْبَلُ، وَأَمَّا المَالَ فَلَسْتُ مِنْهُ فِي شَيْءٍ، ثُمَّ إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَيْنَيْهِ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا تَنَخَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي كَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَكَ بِهَا وَجْهَهُ وَجِلْدَهُ، وَإِذَا أَمَرَهُمْ ابْتَدَرُوا أَمْرَهُ، وَإِذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ، وَإِذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أَصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وَمَا يُحِدُّونَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا لَهُ، فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: أَيْ قَوْمِ، وَاللَّهِ لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَى المُلُوكِ، وَوَفَدْتُ عَلَى قَيْصَرَ، وَكِسْرَى، وَالنَّجَاشِيِّ، وَاللَّهِ إِنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أَصْحَابُهُ مَا يُعَظِّمُ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَمَّدًا….وَإِنَّهُ قَدْ عَرَضَ عَلَيْكُمْ خُطَّةَ رُشْدٍ فَاقْبَلُوهَا…

عروہ بن مسعود نبی کریم سے بات کرنے لگے،وہ جب بھی بات کرتے آپکی داڑھی پکڑنے کی کوشش کرتے،مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم کے پہرے پر کھڑے تھے،اور ان کے پاس تلوار تھی اور سر پر خود پہن رکھا تھا،پس عروہ جب بھی اپنا ہاتھ نبی کی داڑھی کی طرف بڑھاتے تو مغیرہ اپنی تلوار کی میان میں لگا لوہا ان کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے:اپنے ہاتھ کو رسول اللہ کی داڑھی سے دور رکھ،عروہ نے سر اٹھا کر پوچھا:یہ کون ہے؟لوگوں نے کہا:مغیرہ بن شعبہ،تو عروہ نے کہا:او غدار! کیا میں نے تیری غداری میں دوڑدھوپ نہیں کی؟زمانہ جاہلیت میں مغیرہ نے اپنے بعض ساتھیوں کو قتل کرکے ان کا مال لوٹ لیا تھا اور پھر مسلمان ہونے آئے تو رسول اللہ نے فرمایا: اسلام تو قبول ہے لیکن مال سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ پھر عروہ نبی کریم کے صحابہ کا جائزہ لینے لگے،کہا کہ:اللہ کی قسم رسول اللہ جب تھوکتے تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے پکڑ کر اپنے چہرے اور جسم پر مل لیتا،اور جب آپ انہیں کوئی حکم دیتے، تو وہ آپکے حکم کی تعمیل میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کرتے،اور جب آپ وضو کرتے تو آپ کے وضو کے گرے پانی کے حصول کے لئے گویا وہ لڑ پڑتے،اور جب آپ بولنا شروع ہوتے تو وہ اپنی آوازیں پست کرلیتے،اور وہ آپکی تعظیم میں آپ کی جانب نگاہ اٹھاکر دیکھتے نہ تھے۔عروہ اپنے ساتھیوں کے پاس آکر کہنے لگے:اے میری قوم ! اللہ کی قسم میں بہت سے بادشاہوں کے ہاں گیا ہوں،قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے ہاں ٹھہرا ہوں،اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ بادشاہ کے ساتھی اسکی اسقدر تعظیم کرتے ہوں جو محمد کے ساتھی ان کی تعظیم کرتے ہیں،انہوں نے تمہیں خیر کی راہ (یعنی صلح)سجھائی ہے پس تم اسے قبول کرلو۔(صحیح بخاری:2731)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے