کیا آپ نے داڑھی کاٹی یا خط بنایا؟

ہمارا دعویٰ ہے کہ رسول اللہ نے اپنی داڑھی کو نہ کبھی کاٹا ،نہ تراشا،نہ ہی خط بنایا،نہ ہی اسکا ایک بھی بال نوچا،سیاہ بال تو کجا سفید بال تک نہ چھیڑا،اور ایک مرسلاً صحیح روایت( جو ہم گذشتہ سطور میں ذکر کر آئے ہیں ) کےمطابق جب حجام نے آپکے سفید بال کاٹنے کی کوشش کی تو آپ نے اسے منع کردیا۔

(طبقات ابن سعد:1/133،جامع معمر بن راشد:20187،شعب الایمان للبیہقی:5973،مصنف ابن ابی شیبہ:25952،المغنی لابن قدامہ: 1/68،الوقوف والترجل من الجامع لمسائل الامام احمد بن حنبل لابی بکر الخلال:1/129،رقم:93،سلسلہ ضعیفہ:5455)

ہمارےاس دعوے کی کمال صحت کے ثبوت کے لئے اب تک پیش کردہ روایات ہی کافی ہیں،لیکن یہ ثبوت انتہاء کمال کو اسی وقت پہنچے گا جب اس عنوان سے متعلقہ روایات کی روایتاً و درایتاًتحقیق کرلی جائے، چنانچہ ذیل میں ہم وہ روایات مع تحقیق پیش کریں گے جودلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم نے خط بنایا ہے ،یا داڑھی میں کسی طرح کی تراش خراش کی ہے۔

تنبیہ:

یاد رہے داڑھی کی تراش خراش کے جواز میں پیش کی جانے والی روایات دو قسم کی ہیں ،ایک وہ جن کا تعلق خود رسول اللہ کی ریش مبارک سے ہے،دوسری وہ جنکا تعلق نبی کریم کے عمل سے نہیں بلکہ آپ کےفرامین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے افعال سے ہے۔

ہمارا موضوع بحث چونکہ نبی کریم کی داڑھی کی صفات و کیفیات ہے لہذا ذیل میں ہم صرف اسی موضوع سے متعلق روایات پیش کریں گے جبکہ داڑھی کی تراش خراش کے جواز میں پیش کی جانے والی احادیث قولیہ مرفوعہ اور موقوف روایات ”صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی داڑھیاں“ کے عنوان کے تحت پیش کی جائیگی ،ان شاء اللہ۔

پہلی روایت:

امام محمد بن عیسیٰ بن سورہ الترمذی(المتوفیٰ:279ھ) نے کہا:

سند:

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ،

متن:

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا.

سیدنا عبداللہ بن عمرو السہمی رضی اللہ عنہما نے کہاکہ نبی کریم اپنی داڑھی کی لمبائی و چوڑائی سے بال تراشا کرتے تھے۔(سنن ترمذی:2762)

تحقیق:

یہ روایت درج ذیل دو علتوں کی وجہ سے شدید ضعیف بلکہ من گھڑت ہے ۔

پہلی علت:

عمر بن ہارون البلخی ہے،جو کہ حدیث میں جھوٹ بولا کرتا تھا،چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اسکے متعلق مختلف ائمہ

جرح و تعدیل کے اقوال نقل کرتے ہوئے کہا:

امام عبدالرحمن بن مہدی اور امام احمد اور امام نسائی امام ابو علی النیسابوری نے اسے ”متروک الحدیث“کہا،یعنی محدثین نے جس سے روایت کرنا ترک کردیا ہو،امام یحییٰ بن معین اور امام صالح نے اسے کذّاب کہا،امام ابوداؤد نے اسے غیر ثقہ کہا،امام علی بن المدینی اور امام دارقطنی اور امام زکریا الساجی نے اسے نہایت ضعیف کہا،امام ابن حبان نے کہا کہ: یہ ثقہ رواۃ سے معضل روایات بیان کرتا ہے۔(ـمیزان الاعتدال:3/228)

دوسری علت:

یہ ان تمام روایات کے منافی ہے جنکے مطابق نبی کریم نے اپنی ریش مبارک کو اسکے حال پر چھوڑدیا تھا،اور اسی بات کا مختلف الفاظ میں حکم بھی دیا،اور ایسا کرنے والوں (مجوس و مشرکین عجم)کی مخالفت کا حکم دیا،اور یہ روایات سند کے اعتبار سے صحیح ترین،متن کے اعتبار سے صریح اور رواۃ صحابہ و غیر صحابہ کی تعداد کے اعتبار سے حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہیں،لہذا سنن ترمذی کی اس روایت کے ضعف کے لئے اسکا گذشتہ روایات سے معارض ہونا ہی کافی ثبوت ہے۔

دوسری روایت:

امام ابو عبد الله الحاکم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويہ بن نُعيم بن الحکم الضبی الطہمانی النيسابوری المعروف بابن البيع(المتوفیٰ: 405ھ)نے کہا:

سند:

أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ الْعَنَزِيُّ، ثَنَا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، ثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ الْعَلَاءِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ:

متن:

 أَنَّهُ أَخَذَ مِنْ لِحْيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، فَقَالَ: لَا يَكُنْ بِكَ السُّوءُ يَا أَبَا أَيُّوبَ.

سیدنا ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ نے کہاکہ انہوں نے رسول اللہ کی داڑھی سے کچھ لیا تو آپ نے فرمایا:ابو ایوب تجھے کبھی برائی نہ پہنچے۔

حوالہ و تخریج:

مستدرک حاکم:5943،شعب الایمان للبیہقی:6034،طبرانی کبیر: 3890،الاشراف لابن ابی الدنیا:6،الکامل في ضعفاء الرجال لابن عدی: 9/25، ترجمۃ يحیی بن العلاء الرازی،عمل الیوم لابن السنی: 281282،المجروحین لابن حبان:2/199، رقم: 851، الاشراف لابن ابی الدنیا: 6، تاریخ دمشق لابن عساکر:16/4748۔

تحقیق:

اس روایت کے تمام طرق میں شدید ضعف ہے ،لہذا یہ ضعیف ہے،نیز درایتاً بھی اس روایت کا داڑھی کی تراش خراش سے کوئی تعلق نہیںلہذااس سے استدلال جائز نہیں،اسکی اسانید کی تفصیل درج ذیل ہے:

اسےسیدنا ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے دوہیں،یعنی یہ دو طریق (سندیں)ہوئیں (پہلا )سعید بن المسیب کا طریق(دوسرا) حبیب بن ابی ثابت الکوفی کا طریق۔

پھر ان میں سے ہر ایک سے روایت کرنے والے پھر ان سے آگے روایت کرنے والے سب ہی کی تفصیل درج ذیل ہے:

پہلا طریق:سعید بن المسیب کی سند سے

پھر ابن المسیب سے اسےروایت کرنے والے تین ہیں(1)یحیی بن سعید(2)اسماعیل بن محمد(3)قتادۃ بن دعامہ،ان میں سے یحیی اور قتادۃ تو ثقہ ہیں لیکن ان سے روایت کرنے والے ضعیف ہیں ،جبکہ اسماعیل بن محمد مجہول ہے اور اس سے روایت کرنے والا بھی ضعیف ہے، تفصیل درج ذیل ہے:

1یحیی بن سعید بن قیس الانصاری:

پھر یحیی بن سعید سے اسےروایت کرنے والے بھی تین ہیں،1یحیی بن العلاء2المعلیٰ بن عبدالرحمن 3ابو عمرو عبیدہ بن عبدالرحمن، اور یہ تینوں ہی شدید ضعیف ہیں،تفصیل درج ذیل ہے :

پہلا:

یحیی بن العلاء ،یہ شدیدضعیف ہے،چنانچہ،امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:ابو حاتم نے کہا کہ یہ قوی نہیں،ابن معین اور علماء کی جماعت نے اسے ضعیف قرار دیا،دارقطنی نے کہا :متروک ہے،امام احمد نے کہا :کذّاب ،حدیثیں گڑھتا تھا۔(میزان الاعتدال:4/397)

 دوسرا:

المعلیٰ بن عبدالرحمن الواسطی یہ کذاب ہے،یعنی حدیث میں جھوٹ بولتا تھا۔(تہذیب الکمال:6100)

تیسرا:

ابو عمرو عبیدہ بن عبدالرحمن البجلی یہ بقول امام ابن حبان ثقہ رواۃ سے من گھڑت روایات بیان کرتا تھا۔(المجروحین لابن حبان:2/199،رقم:851)

 2اسماعیل بن محمد السہمی مولیٰ عبداللہ بن عمرو:

یہ مجہول ہے۔(دیوان الضعفاء:461)

اس سے روایت کرنے والا صرف ایک ہے،عثمان بن فائدجو کہ ضعیف ہے،بلکہ متہم بالکذب یعنی اس پر حدیث کی روایت میں جھوٹ بولنے کا الزام ہے۔(میزان الاعتدال:5552،تہذیب الکمال:3853،تہذیب التہذیب: 7/148)

3قتادۃبن دعامہ السدوسی:

اسکی ابن المسیب سے روایت مشہور و معروف ہے،قتادہ سے روایت کرنے والا صرف ایک ہے ،ابو ہلال محمد بن سلیم الراسبی البصری،اور بقول امام احمد اس کا حافظہ درست نہ تھا،لین الحدیث تھا،نیز قتادہ سے روایت کرنے میں مضطرب الحدیث تھا،اور یحیی بن معین نے کہا کہ اس میں ضعف ہے۔(الجامع لعلوم الامام احمد(الرجال):18/588،رقم:2293،الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم:7/273)

خلاصہ:

سعید بن المسیب عن ابی ایوب کے طریق سے کوئی ایک سند بھی ضعف سے خالی نہیں،اور ضعف بھی شدید نوعیت کا ہے،علاوہ ازیںان میں سے بعض ابن المسیب سے مرسلاً بھی مروی ہیں،لہذا یہ روایت ذرا بھی قابل التفات نہیں،چہ جائیکہ قابل استدلال ہو۔

دوسرا طریق:

حبیب بن ابی ثابت الکوفی کی سند سے،ملاحظہ ہو،طبرانی کبیر:4048۔

تحقیق:

یہ طریق بھی منقطع ہونے کی بنا پر ضعیف ہے،کیونکہ حبیب الکوفی کثیر التدلیس تھااور عن سے روایت کررہا ہے اور مدلس کا عنعنہ مقبول نہیں ۔ (تعریف اہل التقدیس..:69، المدلسین لابن العراقی:7،جامع التحصیل للعلائی:7، تحفۃ اللبيب بمن تکلم فيہم الحافظ ابن حجر من الرواۃ في غير التقريب:1/334)

نیز علامہ ہیثمی رحمہ اللہ نے کہا:

حَبِيبَ بْنَ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي أَيُّوبَ.

حبیب بن ابی ثابت نے ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہ کو نہیں سنا۔(مجمع الزوائد:15787)

متن کے اعتبار سے:

یہ تو تھی اس روایت کی تحقیق سند کے اعتبار سے،اگر متن کے اعتبار سے دیکھا جائے تواسکا داڑھی کی تراش خراش سے دور پرے کا بھی تعلق نہیں،بلکہ اسکا تعلق داڑھی پر لگی کسی شے کو ہٹانے سے ہے،جیسا کہ طبرانی کبیر(4048)،عمل الیوم لابن السنی(281)میں صراحت ہے۔

فائدہ:

اس روایت کی تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو:سلسلہ ضعیفہ:96،تخریج الکلم الطیب:240،العلل المتناہیہ لجمال الدین الجوزی:2/241، رقم: 1212،تذکرۃ الحفاظ لابن القیسرانی:33،علل الحدیث لابن ابی حاتم:6/282،رقم:2527،علل الدارقطنی:1015، و ضعفہ عبدالقادر الارناؤط فی تحقیق الاذکار للنووی:942۔

سرمبارک سےالگ ہوجانے والے بال جبکہ ریش مبارک سے خود سے الگ ہوجانے والے بال صحابہ کرام چن لیتے تھے

چند صفحات قبل ہم سیدنا عبداللہ بن زیدبن عبدربہ الانصاری الخزرجی رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کر آئے ہیں۔ (مسند احمد:16474)جس کے مطابق نبی کریم نے اپنے سر کے بال اور اپنے ناخن صحابہ کرام میں تقسیم فرمائے،اس سلسلے کی مزید روایات ملاحظہ ہوں:

دوسری روایت:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم نے سر کے بال منڈھوائے،پھر سیدنا ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلاکر انہیں اپنے بال دیئے اور کہا:

 اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ

انہیں لوگوں میں تقسیم کردو۔(صحیح مسلم،کتاب الحج،باب السنۃ یوم الحج ان یرمیٰ ثم ینحر ..)

تیسری روایت:

 اس طرح کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی حرص و رغبت بھی دیدنی ہوتی جیسا کہ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب بال کاٹنے والے نے آپکے بال کاٹے تو صحابہ آپکے ارد گرد منڈلانے لگے:

 فَمَا يُرِيدُونَ أَنْ تَقَعَ شَعْرَةٌ إِلاَّ فِي يَدِ رَجُلٍ .

صحابہ کی خواہش ہوتی کہ کوئی بال گرنے نہ پائے مگر کسی کے ہاتھ میں۔(صحیح مسلم،کتاب الفضائل،باب قرب النبی من الناس و تبرکھم بہ)

 فائدہ:

ان روایات کے مطابق صحابہ کرام جو بال چنتے تھےیا جو بال وغیرہ خود نبی کریم اپنے صحابہ میں تقسیم فرمایا کرتے تھے،اس سے ان کا مقصدانہیں سنبھال کر رکھنااور ان کے ذریعے خیر و برکت کے حصول کی امید رکھنا تھا،کیونکہ اللہ تعالیٰ اور پھر اس کے رسول نے جن امورواشیاء کو خیر و برکت کا ذریعہ قرار دیا ہے ، مثلاً:تسمیہ،آب زمزم،عجوہ کھجور،زیتون، انجیر، اثمد سرمہ وغیرہ ان میں سے ایک نبی کریم کے بال بھی ہیں،چنانچہ صحابہ کرام ان بالوں کو جمع کرتے تھے،اور ان کے ذریعے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سے برکت کے نزول کی امید رکھتے تھے،چنانچہ رسول اللہ کے بالوں کے ذریعے حصول برکت کی امید رکھنا۔

چوتھی روایت:

عثمان بن عبد اللہ بن موہب رحمہ اللہ نے کہا:

أَرْسَلَنِي أَهْلِي إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ – وَقَبَضَ إِسْرَائِيلُ ثَلاَثَ أَصَابِعَ مِنْ قُصَّةٍ – فِيهِ شَعَرٌ مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ إِذَا أَصَابَ الإِنْسَانَ عَيْنٌ أَوْ شَيْءٌ بَعَثَ إِلَيْهَا مِخْضَبَهُ، فَاطَّلَعْتُ فِي الجُلْجُلِ، فَرَأَيْتُ شَعَرَاتٍ حُمْرًا.

مجھے میرے گھر والوں نے چاندی کا ایک پیالہ دےکر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا،اس میں نبی کریم کے کچھ بال تھے،جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا کوئی تکلیف ہوتی تو وہ کوئی برتن ام سلمہ کے پاس بھیج دیتا،عثمان نے کہا:میں نے شیشی میں جھانکا تو اس میں سرخ بال تھے۔(صحیح بخاری:5896)

وضاحت:

نبی کریم کے یہ بال مہندی سے رنگے ہوئے تھے اس لئے سرخ رنگ کے تھے ، اورچاندی کی ایک چھوٹی سی(گھنگھرو جیسی ) ڈبیا میں محفوظ کئے گئے تھے ، جب کوئی بیمار ہوتا یا اسے نظر لگ جاتی تو وہ پانی سے بھر کر کوئی چھوٹا برتن یا بڑا ٹب سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے پاس بھیجتا،وہ اس ڈبیا کو اس میں گھماتیں ، پھر وہ پانی یا تو پی لیا جاتا یا اس میں بیٹھا جاتا،یا اس سے وضو کیا جاتا تاکہ اس میں نبی کریم کے بالوں کے ذریعے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی جانب سےجو برکت شامل ہوئی ہے اسے حاصل کیا جائے۔واللہ اعلم

پانچویں روایت:

تابعی کبیر ابن سیرین رحمہ اللہ نے کہا : 

قُلْتُ لِعَبِيدَةَ عِنْدَنَا مِنْ شَعَرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَبْنَاهُ مِنْ قِبَلِ أَنَسٍ أَوْ مِنْ قِبَلِ أَهْلِ أَنَسٍ فَقَالَ: لَأَنْ تَكُونَ عِنْدِي شَعَرَةٌ مِنْهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا.

میں نے عبیدہ رحمہ اللہ سے کہا،ہمارے پاس نبی کریم کا ایک بال ہے،جو ہم نے سیدناانس یا انکے گھر والوں سے لیا،تو عبیدہ نے کہا:میرے پاس آپ کا کوئی بال ہو تو وہ مجھے دنیا ومافیہا سے زیادہ عزیز ہو۔(صحیح بخاری:170)

چھٹی روایت:

سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا:

اعْتَمَرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عُمْرَةٍ اعْتَمَرَهَا، فَحَلَقَ شَعَرَهُ، فَاسْتَبَقَ النَّاسُ إِلَى شَعَرِهِ، فَسَبَقْتُ إِلَى النَّاصِيَةِ فَأَخَذْتُهَا، فَاتَّخَذْتُ قَلَنْسُوَةً فَجَعَلْتُهَا فِي مُقَدِّمَةِ الْقَلَنْسُوَةِ، فَمَا وُجِّهْتُ فِي وَجْهٍ إِلَّا فُتِحَ لِي.

ہم نے نبی کریم کے ساتھ عمرہ ادا کیا،جب آپ نے اپنے بال مونڈھے تو لوگ آپکے بالوں کی طرف لپکے، میں آپکی پیشانی کی طرف پہلے پہنچا،میں نے وہ بال ایک ٹوپی بنواکر اس میں رکھ دیئے،پھر جہاں بھی گیا مجھے فتح ملی۔

تخریج و تحقیق:

مسند ابی یعلی:7183،المستدرک:5299،طبرانی کبیر:3804، اسد الغابۃ لابن الاثیر:1/588،دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصبہانی: 367،دلائل النبوۃ للبیہقی:6/249۔

طبرانی اوردلائل النبوۃ للاصبہانی و البیہقی کی روایت کے مطابق ہشیم نے عبدالحمید سے سماع کی صراحت کی ہے،اور علامہ ہیثمی نےکہا:

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَأَبُو يَعْلَى بِنَحْوِهِ، وَرِجَالُهُمَا رِجَالُ الصَّحِيحِ، وَجَعْفَرٌ سَمِعَ مِنْ جَمَاعَةٍ مِنَ الصَّحَابَةِ فَلَا أَدْرِي سَمِعَ مِنْ خَالِدٍ أَمْ لَا.

اسے طبرانی اورابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے اور ان دونوں کے رواۃ وہی ہیں جو صحیح بخاری کے ہیں ،اور جعفر نے صحابہ کی جماعت سے سماع کیا ہے ، پس اس نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے سنا یا نہیں یہ میں نہیں جانتا۔( مجمع الزوائد: 15882)

اصلاح عقیدہ:

ہر مسلمان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ رسول اللہ کے ذاتی تبرکات بذات خود مبارک نہ تھے بلکہ ان میں برکت ڈالنے والا اور انہیں مبارک بنانے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہے،رسول اللہ اپنے صحابہ کرام کو اس بات کی خاص تاکید فرمایا کرتے تھے،چنانچہ فقیہ امت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ:

كُنَّا نَعُدُّ الآيَاتِ بَرَكَةً، وَأَنْتُمْ تَعُدُّونَهَا تَخْوِيفًا، كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَقَلَّ المَاءُ، فَقَالَ:اطْلُبُوا فَضْلَةً مِنْ مَاءٍ فَجَاءُوا بِإِنَاءٍ فِيهِ مَاءٌ قَلِيلٌ فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ، ثُمَّ قَالَ:حَيَّ عَلَى الطَّهُورِ المُبَارَكِ، وَالبَرَكَةُ مِنَ اللَّهِ فَلَقَدْ رَأَيْتُ المَاءَ يَنْبُعُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَقَدْ كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ.

ہم آیات (معجزات)کو برکت شمار کرتے تھے لیکن تم اسے ڈراوے سمجھتے ہو،ایک دن ہم رسول اللہ کے ساتھ سفر میں تھے،پانی کم پڑگیا،تو آپ نے کہا:بچا ہوا پانی لاؤ،پس لوگ ایک برتن میں تھوڑا سا پانی لے آئے،آپ نے اس میں اپنا ہاتھ ڈالا اور فرمایا:آجاؤ ، پاک مبارک پانی پر اور برکت اللہ کی جانب سے ہے۔

میں نے دیکھا کہ پانی رسول اللہ کی انگلیوں کے درمیان سے نکل رہا ہے،اور ہم کھانے کی تسبیح کی آواز سنتے تھے حالانکہ اسے کھایا جارہا ہوتا۔(صحیح بخاری:3579)

اہم فائدہ:

دور حاضر میں نبی کریم کی جانب منسوب بالوںیادیگراشیاءسے تبرک حاصل کرنا

دور حاضر میں نبی کریم کی جانب بہت سی اشیاء منسوب ہیں،جو مختلف قومی یا ذاتی میوزیم وغیرہ میں رکھی ہیں،یا مختلف شخصیات کے پاس موجود ہیں،اور وقتا فوقتا انکی زیارت کا اہتمام کیا جاتا ہے،ایسا ممکن ہے کہ نبی کریم کی استعمال شدہ کوئی شے آج بھی موجود ہو،لیکن دور حاضر میں جن اشیا کے متعلق دعوی کیا جاتا ہے کہ وہ نبی کریم کے زیر استعمال رہ چکی ہیں،فی الواقع انکا نبی کریم کا ہونا تاریخی طور پر ثابت نہیں ہوسکا،محض دعاوی ہیں ،جنکی کوئی ثقہ رواۃ پر مشتمل،موصول سند آج تک بیان نہیں کی جاسکی،اور محض دعوے کی بنیاد پر کسی شے کا نبی کریم کے زیر استعمال رہنا ثابت نہیں ہوتا،کیونکہ دین اسلام کا یہی طرۂ امتیاز ہے کہ اسکی ہر ہر بات سند کے ساتھ مروی ہے،اور کسی بھی بے سند بات کو دین کا حصہ نہیں سمجھا جاتا،بلکہ اسے نبی کریم پر بہتان اور جھوٹ کہا جاتا ہے ، جسکی شدید وعید بیان کی گئی ہے،جیسا کہ نبی کریم نے فرمایا:

لاَ تَكْذِبُوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ فَلْيَلِجِ النَّارَ

مجھ پر جھوٹ نہ باندھنا ،جس نے مجھ پر جھوٹ بولا،تو وہ جہنم میں داخل ہوجائے۔(صحیح بخاری:106)

تبرکات نبویہ کے متعلق علماء محققین کے اقوال:

ذیل میں چند مؤرخین و علماء کرام کی تصریحات ذکر کی جارہی ہیں،ملاحظہ ہو:

”الآثار النبویہ“کے مؤلف اور مشہور محقق و مؤرخ و سیاح،احمد تیمور پاشااستنبول میں رکھے نبی کریم کی جانب منسوب اشیاء کا ذکر کرنے کے بعد لکھا:

لا يخفى أن بعض هذه الآثار محتمل الصحة، غير أنا لم نر أحداً من الثقات ذكرها بإثبات أو نفي، فالله سبحانه أعلم بها، وبعضها لا يسعنا أن نكتم ما يخامر النفس فيها من الريب ويتنازعها من الشكوك.

بالکل واضح ہے کہ ان میں سے کچھ آثار صحت کا احتمال رکھتے ہیں،لیکن ہم نے کسی بھی ثقہ راوی کو نہیں دیکھا کہ وہ نفی یا اثبات کے ساتھ انکا تذکرہ کرتا ہو،اور ان میں سے کچھ تو بلا شبہ دل میں شکوک و شبہات پیدا کردیتے ہیں۔(الآثار النبویۃ:79)

عصر حاضر کے عظیم محقق امام ناصر الدین الالبانی نے کہا:

نحن نعلم أن آثاره من ثياب أو شعر أو فضلات قد فقدت وليس بإمكان أحد إثبات وجود شيء منها على وجه القطع واليقين.

ہمیں یقین ہے کہ نبی کریم کے آثار ، کپڑے، بال،فضلات وغیرہ کھوچکے ہیں،ان میں سے کسی ایک کے بھی موجود ہونے کاقطعا امکان نہیں۔ (التوسل،ص:145)

نیز کہا:

لا يمكن اليوم التبرك بآثاره صلى الله عليه و سلم لعدم وجودها ؟ وما يفعلونه اليوم في بعض البلاد من التبرك في بعض المناسبات بشعرة محفوظة في زجاجة فهو شيء لا أصل له في الشرع ولا يثبت ذلك بطرق صحيحة .

دور حاضر میں نبی کریم کے آثار سے تبرک حاصل کرنا ممکن نہیں،کیونکہ انکا وجود ہی نہیں،اور آجکل لوگ مختلف ممالک میں مختلف مواقع پر کسی شیشی میں محفوظ بالوں کے ذریعے جو تبرک حاصل کرتے ہیں،اسکی شریعت میںکوئی دلیل نہیںنہ ہی ایسا صحیح سندوں سے ثابت ہے۔(دفاع عن الحدیث النبوی،ص:76)

علامہ البانی کی اس بات کی تائید درج ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے ،سیدنا عمرو بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہا کہ:

مَا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ مَوْتِهِ دِرْهَمًا وَلاَ دِينَارًا وَلاَ عَبْدًا وَلاَ أَمَةً وَلاَ شَيْئًا، إِلَّا بَغْلَتَهُ البَيْضَاءَ، وَسِلاَحَهُ وَأَرْضًا جَعَلَهَا صَدَقَةً.

رسول اللہ نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی درہم چھوڑا نہ دینار نہ غلام نہ لونڈی نہ ہی کوئی اور شے،سوائے ایک سفید خچر،اسلحہ کے اور کچھ زمین چھوڑی جسے صدقہ کردیا تھا۔(صحیح بخاری:2739)

نیزآپ کے آثار میں سے جو تھوڑی سی اشیاء رہ گئی تھیں،وہ بھی مرور زمانہ کے ساتھ مختلف جنگوں اور حادثات میںگم ہوتی گئیں، مثلاً:

آپکی انگھوٹی کنویں میں گرگئی بعد میں تلاش کے باوجود نہ مل سکی۔(صحیح بخاری:5866)

ایسے ہی 656ھ میںسلطنت عباسیہ کے آخر میں جب تاتاریوں نے بغداد کو نذر آتش کیا تو آپ کی جانب منسوب چادر کو بھی جلاکر اسکی راکھ کو انہوں نے دجلہ میں بہادیا۔(الآثار النبویۃ،ص:16 ومابعدہا،تاریخ الخلفاء للسیوطی:21)

نیز دمشق میںنبی کریم کی جانب منسوب دو جوتیاں بھی 803ھ میں فتنہ تیمور لنگ کے دوران کہیں کھو گئیں۔(الآثار النبویۃ،ص:116117،فتح المعتال بوصف النعال للمقری،ص:363،خطط الشام از محمد علی کرد:2/155175)

اسی طرح منبر رسول 654 ھ میں جل گیا تھا ،اب اسکا کچھ بھی باقی نہیں۔(الآثار النبویۃ،ص:22)

ایسے ہی آپکی دیگر اشیاء بھی ایک ایک کرکے گم ہوتی گئیں،اور فی زمانہ کوئی بھی ایسی شے (فیما اعلم)موجود نہیں جو آپ کے زیر استعمال رہ چکی ہو،کوئی بھی شخص حتیم اور یقینی یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اسکے پاس موجود بال رسول اللہ کا ہی ہے،نہ ہی کوئی شخص اس بات کی کوئی سند پیش کرسکتا ہے،اگر ایسی کوئی اسناد ہوتی تو علماء و محدثین کے ہاں معروف ہوتی ،اسکی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس بالقطع ایسی کوئی شے موجود تھی تو اس نے اسکے متعلق وصیت کردی کہ اس شے کو اسکے ساتھ ہی دفنادیا جائے، اوراب بھی اگر کوئی ایسا دعویٰ کرتا ہے تو اس پر سند بیان کرنا لازم ہے۔واللہ اعلم بالصواب

فائدہ:

اس مسئلے میں مزید تحقیق کے لئے ملاحظہ ہو:دکتور ناصر بن عبدالرحمن الجديع کی تالیف: التبرک انواعہ واحکامہ، دکتور علی العلیانی کا رسالہ ”التبرک“کا اردو ترجمہ ”جائز اور ناجائز تبرک“عبد المحسن بن حمد بن عبد المحسن بن عبد الله بن حمد العباد البدرکی تحریر:التحذير من تعظيم الآثار غير المشروعۃ،علامہ البانی کی کتاب”التوسل“ احمد تیمور پاشا کہ کتاب ”الآثار النبویۃ“۔

رسول اللہ کے بالوں کو وسیلہ بنانا

نبی کریم کے آثار کو بطور وسیلہ بنانے کا مسئلہ بھی آجکل رائج ہوتا جارہا ہے،یہ موضوع مستقل تحریر کا متقاضی ہے،یہاں اس بارے میں علامہ البانی کا ایک اقتباس نقل کردینا کافی ہوگا،انہوں نے کہا:

وبعد إثبات الفرق بين التوسل والتبرك نعلم أن آثار النبي صلى الله عليه و سلم لا يتوسل بها إلى الله تعالى وإنما يتبرك بها فحسب أي يرجى بحيازتها حصول بعض الخير الدنيوي كما سبق بيانه  إننا نرى أن التوسل بآثار النبي صلى الله عليه و سلم غير مشروع البتة وأن من الافتراء على الصحابة رضوان الله تعالى عليهم الادعاء بأنهم كانوا يتوسلون بتلك الاثار ومن ادعى خلاف رأينا فعليه الدليل بأن يثبت أن الصحابة كان يقولون في دعائهم مثلا : اللهم ببصاق نبيك اشف مرضانا أو : اللهم ببول نبيك أو غائطه أجرنا من  النار إن أحدا من العقلاء لا يستسيغ رواية ذلك مجرد رواية فكيف باستعماله.

توسل اور تبرک کے مابین فرق ثابت کرنے کے بعد ہمیں یقین ہے کہ نبی کریم کے آثار کا وسیلہ نہیں بنایا جاسکتا،ان سے فقط تبرک لیا جاسکتا ہے،یعنی انکے ذریعے کچھ دنیاوی خیر و بھلائی کی امید کی جاسکتی ہے،جیسا کہ اسکی وضاحت گذر چکی،ہم سمجھتے ہیں کہ نبی کریم کے آثار کا وسیلہ بنانا یقینا غیر شرعی ہے،اور صحابہ کے متعلق یہ دعوی کرنا کہ وہ ان آثار کا وسیلہ بناتے تھے دراصل ان پر بہتان ہے،جو ہم سے اختلاف رائے رکھتا ہو اس پر دلیل پیش کرنالازم ہے کہ وہ ثابت کرے کہ صحابہ اپنی دعاؤں میں کہتے تھے،مثلا:یااللہ تیرے نبی کےتھوک کے واسطے ہمارے بیماروں کو شفا دے،یا اپنے نبی کے پیشاپ یا پاخانےکے طفیل ہمیں جہنم سے بچالے۔کوئی بھی عقل مند اس طرح کی بات کو محض روایت کرنا پسند نہیں کرے گا چہ جائیکہ اس پر عمل کرنا۔ (التوسل،ص:145)

بعض دیگر انبیاء و رسل علیہم الصلاۃ والسلام کی داڑھیاں:

اب تک جتنے انسان اس روئے زمین پر آچکے ہیں ، جتنے موجود ہیں،اور جتنے تا قیام ساعت آئیں گے،ان سب میں سب سے بہترین جماعت حضرات انبیاء و رسل علیھم الصلاۃ والسلام کی ہے،کیونکہ وہ معصوم تھے،ظاہر و باطن میں صفا(مُخلِص)تھے،اور خالق کُل و الٰہ العَالَمین کے چنیدہ (مُخلَص) تھے،اسکی پسند و ناپسند کو سب سے زیادہ جاننے والے اور اسکی بندگی کے تقاضوں کو سب سے زیادہ پورا کرنے والے تھے،سب سے بڑھ کر وہ اللہ احکم الحاکمین کی جانب سے اسکے بندوں کی طرف اسکے نمائندے اور پیغامبر تھے،اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کسوٹی تھے جن پر وہ اپنے بندوں کو جانچا کرتا ہے،مالک کائنات نے انہیں جن و انس کی اصلاح و ہدایت کا فریضہ سونپا تھا،جسکی بجاآوری میں وہ تاحیات مگن رہے تاآنکہ خالق حقیقی سے جاملے۔صلوات اللہ علیھم وسلامہ

عزیز قاری! اب تک آپ نے نبی آخر الزماں ،خاتم النبیین،امام المرسلین محمد رسول اللہ کی ریش مبارک کے پرنور تذکرے ملاحظہ کئے تھے،اب اسی زمرہ اصفیاء میں سے مزیدچند نفوس قدسیہ کی ریش مبارک کے تذکرے آپ کے سامنےذکر کر رہا ہوں،اس امید کے ساتھ کہ آپ ان کی اتباع کرتے ہوئے اپنے چہرے کو بھی ان کے چہروں کے مطابق سنوارنے کی کوشش کریں گے۔واللہ ولی التوفیق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے