الحمد للہ وحدہ والصلاۃ والسلا م علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین وبعد:

محترم قارئین!

اسلام کی آمد سے قبل زمانہ جاہلیت میں لوگ مختلف قسم کے شرک وبدعات،باطل خیالات، رسم و رواج، نحوست وبدشگونی اور توہم پرستی وغیرہ میں مبتلا تھے،چنانچہ پرندوں کواڑاکرسفرکے جاری اورمنقطع کرنے کا فیصلہ کرتے تھے ۔اگرپرندہ دائیں سمت کی طرف جاتا تو اس کام یاسفرکو اچھا فال تصورکرکے جاری رکھتے اور اگر بائیں کو جاتا تو اس کا م یا سفرسے نحوست اور بدشگونی سمجھ کر ترک کردیتے ۔اسی طرح بعض ایا م اور مہینوں کو بھی نحوست وبد شگونی کی نظرسے دیکھتے تھے۔

رب العالمین نے اپنی رحمت سے محمد عربیﷺ کو مبعوث کرکے جاہلیت کے تما م شرکیہ اعتقادات،فاسد خیالات اورتوھمّات وخرافات وغیرہ کو ختم کرکے صحیح عقیدہ اوردرست منہج عطا کیا،اورآپ کے ذریعہ دین کی تکمیل کردی گئی اور یہ اعلان کردیا گیا کہ اب دین اسلام سارے غلط عقائد وافکار اورتوہمات وخرافات اورباطل پروپیگنڈوںسے پاک ا ورصاف ہوگیا ہے،کسی مہینے اور دن کے سلسلے میں کوئی بدشگونی اورنحوست لینا درست نہیں،اوراس دین میں قیامت تک کسی تبدیلی وزیادتی کی گنجائش باقی نہ رہی اورآپ نے صحابہ کرام سے فرمادیا کہ ’’لوگوں میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں جب تک تم انھیں مضبوطی سے پکڑے رہو گے گمراہ نہ ہوگے ایک کتاب اللہ،دوسری میری سنت‘‘۔

اور دوسری جگہ فرمایا کہ’’میں تمہیں ایسی روشن شاہراہ پرچھوڑے جارہا ہوں جسکی راتیں بھی دن کے مانند ہیں۔ اس سے وہی شخص انحراف وروگردانی کریگا جس کی مقدر میں ہلاکت وتباہی لکھ دی گئی ہو۔”

آپ کے انتقا ل کے بعد لوگ کچھ صدیوں تک دین اسلام پر صحیح طریقے سے قائم رہے یہان تک کہ خیر القرون کا زمانہ گزرگیا، پھر مختلف قسم کے باطل فرقے جنم لینا شروع ہوگئے۔اعداء اسلام خاص کریہود ونصاری نے اپنی ریشہ دوانیوں کا سلسلہ تیز کردیا،عہدرسالت سے دوری ہوتی گئی،دین سے بے توجہی اورجہالت عام ہوتی گئی،اور لوگوں میں شرک وبدعات،باطل اعتقادات، غیردینی رسم ورواج اور مختلف قسم کے اوہام وخرافات پیدا ہونے لگے اور وہ دین اسلام جس کو محمد عربیﷺ نے ہرطرح کی گند گیوں ا ور خرافات سے پاک وصاف کردیا تھا وہ مکدر اورگدلا ہوتا نظرآنے لگا چنانچہ انہی باطل اعتقادات، اوہام و خرافات اوربدعات میں سے ماہ صفر کی نحوست وبدعات ہیں جو موجودہ دورمیں بعض نام نہاد مسلمانوں میں دین سے جہالت اور اندھی تقلید کی وجہ سے در آئیںجبکہ اسلام نے دور جاہلیت کے اس عقیدہ کوباطل قراردیا تھا اوریہ فرمایا تھا کہ اسلام میں کوئی مہینہ نحوست وبدشگونی کانہیں،اورزمانے اورمہینے یہ اپنے اندرکوئی تاثیرنہیں رکھتے،نہ ہی تقدیرالہی میں انکا کچھ دخل ہے جیسا کہ آپ کا ارشاد ہے :

لاَ عَدْوَى وَلاَ طِيَرَةَ، وَلاَ هَامَةَ وَلاَ صَفَرَ اخرجاہ وزاد مسلم وَلَا نَوْءَ، وَلَا غُولَ (بخاری کتاب الطب 10/265مسلم باب لاعدوۃ007/471)

“ ایک کی بیماری د وسری کو نہیں لگتی،نہ بدفالی ونحوست کوئی چیز ہے،نہ ألّو کا بولنا کوئی أثر رکھتا ہے،نہ صفر کوئی چیز ہے، یہ بخاری ومسلم کی روایت ہے اورصحیح مسلم میںیہ بھی ہے کہ” نچھتر نہ بھوت کوئی چیز نہیں “۔

اس حدیث کے ذریعے نبی کریم ﷺنے اہل جاہلیت کے اس فاسد عقیدے کی تردید کی ہے جو وہ ان مذکورہ بالا چیزوں میں بذات خود تاثیر کا اعتقاد رکھتے تھے اور یہ ثابت کیا کہ مؤثر حقیقی تو صرف اللہ کی ذات ہے اوراسلام میں کسی دن اورمہینہ کو منحوس نہیں قراردیا گیا ہے اورنہ ہی کسی دن اورمہینے کا تقدیر الہی میں کوئی تاثیر ہے ۔

صفرکی وجہ تسمیہ اور مفہوم :

صفر کی وجہ تسمیہ میں مختلف أقوال ذکرکئے گئے ہیں ان میں سے چند مشہور یہ ہیں :

1صفر ایک بیماری ہے جس میں آدمی کھا تا چلا جاتا ہے مگراسکی بھوک ختم نہیں ہوتی جسے جوع البقرکہا جاتا ہے

2بعض لوگوں کا عقیدہ تھا کہ صفرپیٹ میں ایک کیڑہ یا سانپ ہوتا ہے،یا ایک خطرناک بیماری ہوتی ہے اور جس کو یہ بیماری لا حق ہوجاتی ہے وہ ہلاک ہوجاتا ہے،اوریہ بیماری خارش سے بھی زیادہ متعدی ہوتی ہے۔

اس عقیدہ کی آپ ﷺنے تردید کی اور فرمایا ’’ولاصفر‘‘ صفر کی کوئی حقیقت نہیں اوریہ بیماری بھی اللہ کے حکم کے بغیر متعدی نہیں ہوتی۔

3کہا جاتا ہے کہ اس ماہ میں عموما عربوں کے گھرخالی رہتے تھے مسلسل تین حرمت والے مہینوں کے بعد یہ مہینہ آتا تو جنگ وجدال کے یہ عادی عرب،لڑائی اور لوٹ مارکے لئے نکل پڑتے،اور اس طرح انکے مکان خالی ہوجاتے،اورجب مکان خالی ہوجائے تو کہا جاتا ہے کہ “صفر المکان”مکان خالی ہوگیا .

حافظ ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وصفر سمّی بذالك لخلوّ بیوتہم منہم حین یخرجون للقتال والأسفاریقال صفر المکان إذا خلا ویجمع علی اصفارکجمل وأجمال(تفسیر ابن کثیر2/345)

بعض لوگ کہتے ہیں کہ صفر کے معنی خالی ہونا (اور چونکہ یہ مہینہ رحمتوں اوربرکتوں سے خالی ہوتا ہے،اس واسطے اسے صفر کہتے ہیں حالانکہ یہ ان کے غلط اعتقاد پرمبنی توجیہ ہے جو درست نہیں ۔

4”ولاصفر”کا ایک معنی تو یہ ہے کہ عرب کبھی ماہ صفر کو ماہ محرم سے بدل لیتے تھے،یعنی ماہ محرم کے بجائے ماہ صفر کو حرمت والا مہینہ ما ن لیتے تھے،اوراسکے بدلے محرم میں لڑائی اورلوٹ مار،قتل وغارتگری وخوں ریزی کو حلال کرلیتے،اورکبھی ایسا نہ کرتے،بلکہ محرم ہی کو حرمت والا مہینہ مانتے۔ رسول اللہ ﷺنے اس عمل کو باطل قرار دیا اور”ولا صفر”سے اسکی تردید کی ۔

5”اورایک قول یہ بھی ہے کہ :”اس ماہ میں قبائل کے خلاف چڑھائی کی جاتی تھی اورجو بھی انھیںملتا اسے مال سے خالی کردیتے ( یعنی اسکا سارا سامان چھین لیتے تو وہ بغیر کسی سامان کے رہ جاتا )( لسان العرب 4/462)

6 عرب دور جاہلیت میں ما ہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے، کیونکہ ذی الحجہ اور محرم حرمت والے مہینے تھے جس میں وہ جھگڑا اور لڑائی حرام سمجھتے تھے،لیکن صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہی لوٹ مار اور قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا رسول اکرم ﷺنے اس کی تردید فرمائی، اوربتایا کہ ماہ صفر بذات خود منحوس نہیں ہے،اس میں جو کچھ بھی لوگوں کے لئے مصیبت اور پریشانی ہے وہ ان کے اعمال،قتل وخونریزی اورلوٹ مار کی وجہ سے ہے ۔ (فتح المجید ص؍308)

شیخ محمدبن صالح العثیمین رحمہ اللہ نے اسی قول کوراجح قرار دیا ہے۔(مجموع فتاوی الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ113)

ب) ماہ صفر کے بارے میں اہل جا ہلیت کا اعتقاد

1تقدیم وتاخیر(نسیء) 2 نحوست وبد شگونی

أ۔ ماہ صفر کو آگے پیچھے کرنا (نسیء)

ابتدائے آفرینش سے ہی اللہ تعالی نے سال کے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں جن میں چارحرمت والے ہیں جن کی حرمت وپاس اورشان وعظمت کی وجہ سے جنگ وجدال کی بالخصوص ممانعت ہے جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

إِنَّ عِدَّۃَ الشُّھُورِ عِنْدَ اللَّہِ اثْنَا عَشَرَ شَھْرًا فِی کِتَابِ اللَّہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْھَا أَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ ذَلِکَ الدِّینُ الْقَیِّمُ فَلَا تَظْلِمُوا فِیْھِنَّ أَنْفُسَکُمْ وَقَاتِلُوا الْمُشْرِکِینَ کَافَّۃً کَمَا یُقَاتِلُونَکُمْ کَافَّۃً وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ مَعَ الْمُتَّقِینَ

“بے شک مہینوں کی تعداداللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ ہیں،اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے ان میں سے چار حرمت وادب کے ہیں،یہی درست دین ہے تم ان مہینوں میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو،اورتم تما م مشرکوں سے جہاد کرو جیسے کہ وہ تم سب سے لڑتے ہیں،اور جان رکھو کہ اللہ تعالی متقیوں کے ساتھ ہے “۔ (التوبۃ:36)

اسی بات کو نبی کریمﷺ نے اس طرح فرمایا ہے کہ “زمانہ گھوم گھما کرپھر اسی حالت پے آگیا ہے جس حالت پر اسوقت تھا جب اللہ نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق فرمائی سال بارہ مہینوں کا ہے،جن میں چار حرمت والے ہیں،تین پے درپے ذوالقعدہ،ذوالحجہ،محرم اور چوتھا رجب مرجب،جو جمادی الاخری اورشعبان کے درمیان ہے “(بخاری کتاب التفسیرباب سورۃ توبہ، ومسلم کتاب القسامۃ باب تغلیظ تحریم الدماء )

اور”زمانہ اسی حالت پر آگیا ہے” اس سے مراد یہ ہے کہ “مشرکین عرب مہینوں میں جو تقدیم وتأخیر کرتے تھے جسے (نسیء) کہا جاتا ہے اللہ نے اسے باطل قراردے دیاہے اورمہینوں کی وہی صحیح ترتیب ہے جوکہ اللہ نے ابتدائے آفرینش سے رکھی ہے جیساکہ اللہ نے فرمایا کہ:

إِنَّمَا النَّسِیءُ زِیَادَۃٌ فِی الْکُفْرِ یُضَلُّ بِہِ الَّذِینَ کَفَرُوا یُحِلُّونَہُ عَامًا وَیُحَرِّمُونَہُ عَامًا لِیُوَاطِئُوا عِدَّۃَ مَا حَرَّمَ اللَّہُ فَیُحِلُّوا مَا حَرَّمَ اللَّہُ زُیِّنَ لَھُمْ سُوءُ أَعْمَالِھِمْ وَاللَّہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکَافِرِینَ(التوبۃ:37)

“مہینوں کا آگے پیچھے کر دینا کفرمیں زیادتی ہے اس سے وہ لوگ گمراہی میں ڈالے جاتے ہیں جو کا فر ہیں،ایک سال تو اسے حلال کرلیتے ہیں اورایک سال اسی کو حرمت والا کرلیتے ہیں،کہ اللہ نے جو حرمت رکھی ہے اس کے شمار میں تو موافقت کرلیں،پھر اسے حلال بنا لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے،انہیں ان کے برے کام بھلے دکھا دئیے گئے ہیں اور قوم کفارکی اللہ رہنمائی نہیں فرماتا۔ “

“نسیء “کے معنی پیچھے کرنے کے ہیں ۔عربوں میں بھی حرمت والے مہینوں میں قتال وجدال اورلوٹ مار کو سخت ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا،لیکن مسلسل تین مہینے ا ن کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے،قتل وغارتگری سے اجتناب کرنا،ان کے لئے بہت مشکل تھا- اس لئے اس کا حل انہوں نے یہ نکا ل رکھا تھا کہ جس حرمت والے مہینے میں وہ قتل وغارتگری کرنا چاہتے،اس میں وہ کرلیتے اوراعلان کردیتے کہ اسکی جگہ فلاں مہینہ حرمت والا ہوگا مثلا محرم کے مہینے کی حرمت توڑکر اس کی جگہ صفر کو حرمت والا مہینہ قرار دے دیتے،اس طرح حرمت والے مہینوں میں وہ تقدیم وتاخیر اور ادَل بدل کرتے رہتے تھے،اور انکا مقصد یہ ہوتا تھا کہ اللہ تعالی نے جو چار مہینے حرمت والے رکھے ہیں ان کی گنتی پوری رہے،یعنی گنتی پوری کرنے میں اللہ کی موافقت کرتے تھے لیکن اللہ نے جوقتال و جدال اور غارتگری سے منع کیا تھا، اس کی انہیں کوئی پرواہ نہ تھی،بلکہ انہیں ظالمانہ کارروائیوں کے لئے ہی وہ تقدیم وتاخیر اور أُدَل بد ل کرتے تھے، یعنی مشرکین ان چاروں مہینوں کی حرمت کو جانتے ہوئے اپنی من مانی خواہشات سے”نسیء “کا عمل کرتے تھے، اور ان کا یہ اعتقاد تھا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا سب سے بڑا فجورکا کا م ہے جیساکہ بخاری ومسلم میں ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنْ أَفْجَرِ الْفُجُورِ فِي الْأَرْضِ، وَيَجْعَلُونَ الْمُحَرَّمَ صَفَرًا، وَيَقُولُونَ: إِذَا بَرَأَ الدَّبَرْ، وَعَفَا الْأَثَرْ، وَانْسَلَخَ صَفَرْ، حَلَّتِ الْعُمْرَةُ، لِمَنِ اعْتَمَرْ (بخاری1489 و مسلم 1240)

“سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ (کفار) یہ سمجھتے تھے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا زمین میں بہت بڑا فجور کا کا م ہے اوروہ محرم کو صفر بنا لیتے اوریہ کہتے :جب اونٹوں کی پشت صحیح ہوجائے اوراسکے اثرات مٹ جائیں،اور صفر کا مہینہ ختم ہو جائے،تو عمرہ کرنے والے کیلئے عمرہ حلال ہوگیا “

اسی کو”نسیئی”کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے اس کی بابت فرمایا کہ:یہ کفر میں زیادتی ہے کیونکہ اس اُدَل بدل سے مقصود لڑائی اور دنیاوی مفادات کے حصول کے سوا کچھ نہیں اورنبی کریم ﷺنے بھی اس کے خاتمے کا اعلان یہ کہ کر فرمادیا کہ”زمانہ گھوم گھما کر اپنی اصلی حالت پے آگیا ہے “یعنی اب آئندہ مہینوں کی یہ ترتیب اسی طرح رہے گی جسطرح ابتدائے کائنات سے چلی آرہی ہے۔

اہل جاہلیت کے نزدیک ’’نسیء‘‘ کی کیفیت (تأخیر) ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جنادہ بن عوف بن امیہ کنانی ہر سال موسم (حج) میں آتا اوریہ اعلان کرتا کہ:”خبردار! أبوثمامہ کو نہ تو کوئی عیب لگایا جائیگا اورنہ ہی اسکی بات مانی جائیگی،خبردار! سال کے شروع میں صفر حلال ہے، توہم اسے ایک سال حرام قراردیتے ہیں،ا ورایک سال حلال،اور وہ (ان دنوں) ہوازن وعطفان اوربنوسلیم کے ساتھ تھے ۔

اورایک اثر میں اس طرح ہے کہ ’’ہم نے محرم کو پہلے اور صفر کو بعد میں کردیا ہے،پھر دوسرے سال آتا اورکہتا کہ ہم نے صفر کو حرام قراردیا ہے اورمحرم کو موخر کردیا ہے تووہ یہی تاخیر اور”نسیئی” ہے ۔

۲۔زیادتی:قتادہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ :’’گمراہ لوگوں میں سے ایک قوم نے صفر کو اشہر الحرام یعنی حرمت والے مہینوں میں شامل کردیا،ان لوگوں کا سردارموسم (حج) میں کھڑا ہو کریہ کہتا :خبردار!تمہارے معبودوں نے اس سال محرم کو حرام کردیا ہے،تو وہ اس سال محرم کو حرمت والا قراردیتے، پھر وہی شخص اگلے سال یہ اعلان کرتا کہ :تمہارے معبودوں نے صفر کو حرام کیا ہے تو وہ اس سال صفرکو حرمت والا قرار دیتے،اور یہ کہتے “صفران” یعنی دوصفر “.

اورابن وہب اور ابن القاسم نے امام مالک رحمہ اللہ سے ایسے ہی روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ “اہل جاہلیت دو صفر بنا لیتے تھے اسی لئے نبی ﷺ نے فرمایا “لا صفر “ اوراسی طرح اشہب نے بھی امام مالک سے ایسا ہی بیان کیا ہے ۔

۳۔حج کی تبدیلی : ایک دوسری سند کے ساتھ مجاہد رحمہ اللہ، اللہ کے اس قول ( إِنَّمَا النَّسِيءُ زِيَادَةٌ فِي الْكُفْرِ ) “کہ نسیء تو کفرمیں زیادتی ہے “ کی تفسیرمیں فرماتے ہیں :’’یعنی دوبرس وہ ذوالحجہ میں حج کرتے، پھر دوسال محرم میں حج کرتے،پھر دو سال صفر میں حج کرتے،تواسطرح وہ ہرسال ہر ما ہ میں دوسال حج کرتے تھے،حتی کہ ابو بکررضی اللہ عنہ کا حج ذوالقعدہ کے مہینہ کے موافق آیا، اور پھر نبی کریم نے ذوالحجہ میں حج کیا،تویہی نبی کریم ﷺکا فرمان ہے جسکو اپنے خطبہ میں بیان کیا تھا “بے شک زمانہ گھوم گھما کراسی حالت پے آگیا جس پر وہ زمین وآسمان کی خلقت کے وقت تھا “ جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ نے صحیح سند سے روایت کیاہے کہ آپ ﷺنے فرمایا کہ ’’لوگو !میری بات غورسے سنو، ہوسکتا ہے آئندہ آپ لوگوں سے ملاقات نہ کرسکوں، لوگو! بلاشبہ تمہارے خون اورمال تم پر قیامت تک حرام کردئے گئے ہیں جیسے اس دن،اس مہینے اوراس شہر کی حرمت ہے۔ بے شک تم سب عنقریب اپنے رب سے ملاقات کروگے تو وہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں سؤال کرے گا،بے شک میں نے رب کے پیغام کو پہنچا دیا،لہذا جس کسی کے پاس بھی کسی کی کوئی امانت ہووہ اسے لوٹا دے، اور بلا شبہ ہر قسم کے سود کو ختم کردیا گیا اورتمہارے اصل مال کو باقی رکھا گیا ہے،نہ تو تم کسی پر ظلم کرو نہ ہی تم پر کوئی ظلم کیا جائیگا، اللہ تعالی کا فیصلہ ہے کہ سود (جائز)نہیں اور ابن عباس بن عبد المطلب کا سارا سود ساقط اورختم کردیا گیا ہے اورجاہلیت کا ہرخون ختم کردیا گیا ہے۔

اور تمہارا سب سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ ابن ابی ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا ہے جو بنو لیث میں دودھ پیتا تھا تواسے بنو ہذیل قبیلہ نے قتل کردیا تھا، اوریہ جاہلیت کے خون میں سے پہلا خون ہے جسے میں ختم کرتا ہوں ۔

أما بعد:اے لوگو!بلاشبہ شیطان اس بات سے ناامید ہوچکا ہے کہ تمہاری سرزمین میں اسکی اب پوجا کی جائیگی، لیکن اسکے علاوہ جن کاموں کو تم حقیر سمجھتے ہو اگر اس میں اس کی اطاعت کی جائے تو وہ اس پر راضی ہوگا، لہٰذا تم اپنے دین کے سلسلے میں شیطان سے بچ کر رھو، اوریہ ’’نسیء‘‘ کفرمیں زیادتی ہے اس سے وہ لوگ گمراہی میں ڈالے جاتے ہیں جو کا فر ہیں،ایک سال تو اسے حلال کرلیتے ہیں اور ایک سال اسی کو حرمت والا قراردیتے ہیں کہ اللہ نے جو حرمت رکھی ہے اس کے شمار میں تو موافقت کرلیں،پھر اسے حلال بنا لیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے ’’اورزمانہ اسی حالت پر لوٹ گیا جس پر وہ زمین وآسمان کی تخلیق کے وقت تھا اوربے شک مہینے اللہ کے نزدیک بارہ ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں،تین پے درپے اوررجب المرجب جو جمادی اور شعبان کے درمیان ہے اسکے بعد ساری حدیث ذکرکی۔ (أحکام القرآن لابن العربی 2/503504)

ب) ماہ صفرسے نحوست وبدشگونی :

عرب د ور جاہلیت میں ما ہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے کیونکہ ذی الحجہ اور محرم حرمت والے مہینے تھے جس میں وہ جھگڑا اور لڑائی حرام سمجھتے تھے،لیکن صفر کا مہینہ شروع ہوتے ہی لوٹ ماراور قتل وغارت گری کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا رسول ﷺنے اپنے اس قول(ولاصفر) کے ذریعے اس کی تردید فرمائی،اور بتایا کہ ماہ صفر بذات خود منحوس نہیں ہے اس میں جو کچھ بھی لوگوں کے لئے مصیبت اور پریشانی ہے وہ ان کے اعمال قتل وخونریزی اورلوٹ مار کی وجہ سے ہے۔ (فتح ص؍308))

اوردنوں اور مہینوں کو گالی یا برا بھلا کہنے کو اللہ کو سب وشتم کرنے کے مترادف قراردیا جیسا کہ حدیث قدسی ہے :

قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يُؤْذِينِي ابْنُ آدَمَ يَسُبُّ الدَّهْرَ وَأَنَا الدَّهْرُ، بِيَدِي الأَمْرُ أُقَلِّبُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ(بخاری کتاب التفسیر8/738)

’’یعنی اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف دیتا ہے وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے حالانکہ زمانہ میں ہی ہوں میرے ہی ہاتھ میں سارے امورہیں میں ہی رات اوردن کوپھیرتا ہوں ۔‘‘

شیخ محمدبن صالح عثیمین رحمہ اللہ رسول اللہ ﷺ کے قول ’’ولاصفر‘‘کی توجیہ میں فرماتے ہیں ۔

“اوروقت اورزمانے کواللہ تعالی کی تقدیر پر کوئی تاثیر نہیں،لہذا یہ بھی باقی اوقات اورزمانوں کی طرح ہے جن میں خیر وشر مقدرکیا جاتا ہے اوراس میں “صفر” کے وجودکی نفی نہیں ہے بلکہ اسکی تاثیرکی نفی مراد ہے اسلئے کہ موثرحقیقی توصرف اللہ تعالی ہے، لہذا جوسبب معلوم ہو وہ سبب صحیح ہے اور جو سبب صرف وہم پر ہو وہ سبب باطل ہے اور بنفسہ اس کی سببیت اورتاثیر کی نفی ہو گئی۔ (مجموع فتاوی الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ/11311 )

ماہ صفر کی نحوست و بدعات اورموجودہ مسلمان:

قائین کرام!کتا ب وسنت کی روشنی میں کچھ مہینے ایام اور راتیں ایسی ہیں جن کو دوسرے مہینوں،ایام اور راتوں کے مقابلے میں زیادہ فضیلت حاصل ہیں،جیسے یوم عرفہ، شب قدراور یوم عاشوراء وغیرہ،مگرکسی ماہ یا دن یارات کے بارے میں صحیح أحادیث سے یہ ثابت نہیں ہے کہ وہ منحوس ہے اور اس سے بدشگونی لینی جائزہے ۔

لیکن افسوس کہ موجودہ دورکے بہت سے مسلمان ماہ صفر کے بارے میں بڑی بد عقیدگی کا شکار ہیں اوراہل جاہلیت کی روش پر ابھی بھی قائم ہیں، وہ اس مہینہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور ان کا عقیدہ یہ ہے کہ:

۱۔اس ماہ میں مصائب وآلام کی ہوائیں پوری تیزی کے ساتھ چلنے لگتی ہیںاور غم وتکلیف کے دریا تندی وروانی لاکھ اسّی ہزار بلائیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ان میں صرف ایک مہینہ (صفر) میں نولاکھ بیس ہزاربلائیں نازل ہوتی ہیں۔

۲۔بعض بد عقیدہ مسلم خواتین اس مہینے کو(طیرۃ طیری) یا(تیرۃ تیری)کے نام سے موسوم کرتی ہیں چنانچہ وہ اس مہینہ کو منحوس خیال کرتی ہوئیں چنے ابال کر اس مہینہ میں صدقہ کرتی ہیں تاکہ اس نحوست سے محفوظ رہیں ۔

۳۔ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ مہینہ رحمتوں اور برکتوںسے خالی رہتا ہےاسی لئےاس سےنحوست پکڑتے ہیں ۔

۴۔بعض لوگ جب صفرکی پچیس تاریخ کو اپنے کسی کام سے فارغ ہوتے ہیں تو اسکی تاریخ لکھتے ہوئے کہتے ہیں :”خیر کے مہینہ پچیس تاریخ کو یہ کا م ختم ہوا،(یہ بدعت کا علاج بدعت کیذریعے ہے،یہ مہینہ نہ تو خیرکا ہے اور نہ ہی شر کا) ۔

۵۔بعض لوگوں کے یہاں نئے شادی شدہ جوڑوں کو اس ماہ کے ابتدائی تیرہ دنوں میں ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا ہے، انھیں ایک دوسرے کی صورت تک نہیں دیکھنے دی جاتی ،حتی کہ عام شوہر اور بیوی کو بھی تین دن تک ایک دوسرے سے الگ رکھا جاتا ہے، تاکہ وہ نحوست کا شکار نہ ہوجائیں ۔

۶۔بعض مسلمان ماہ محرم میں اورصفر میں اس بنا پر شادی اورکوئی خوشی کا کا م نہیں کرتے کہ محرم میں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے اورصفر میں سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ ان دونوں واقعات کی بنا پر دونوں مہینوں کو شادی اورخوشی کیلئے غیر مناسب اورمنحوس سمجھتے ہیں، حالانکہ کسی کی وفات اور شہادت کا دنوں اور مہینوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا، ورنہ ما ہ ربیع الاول اس بنا پر منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں رسول کی وفات ہوئی جمادی الاول کو اس لئے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ اول، یار غاررسول ابو بکر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اور ذی الحجہ اس لئے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ ثانی سیدناعمر فاروق اور خلیفہ ثالث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہما کی شہادت ہوئی،اورماہ رمضان اس واسطے منحوس سمجھا جاتا کہ اس میں خلیفہ رابع سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اس طرح تما م انبیاء علیہم السلام،صحابہ کرام اورائمہ اسلام کی وفات اور شہادت کے ایام ومہینوں کو منحوس قراردیں، تو کوئی مہینہ، بلکہ کوئی دن نحوست سے خالی نہ رہے، اس واسطے سیدناحسین کی شہادت کی وجہ سے محرم کو اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے انتقال کی وجہ سے صفر کو منحوس سمجھنا اور ان میں شادی بیاہ نہ کرنا سراسر باطل اورغلط ہے۔

کوئی مہینہ اور دن منحوس نہیں ہوتا منحوس آدمی کا اپنا نا جائز عمل اور غلط عقیدہ ہوتا ہے ۔

۷۔ ماہ صفر کی بدعات میں سے ایک بدعت یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ اس ماہ کے آخر میں مغرب وعشاء کے درمیان مسجدوں میں جمع ہوتے ہیں، اور ایک ایسے کاتب کے پاس حلقہ بناکر بیٹھتے ہیں جو انھیں کاغذ پرانبیاء علیہم السلام کے اوپر سلام والی آیتوں کو لکھ کر دیتا ہے وہ آیات یہ ہیں :

1 سَلَامٌ قَوْلًا مِنْ رَبٍّ رَحِیمٍ (یس58)
2سَلَامٌ عَلَی نُوحٍ فِی الْعَالَمِینَ (الصافات79)
3سَلَامٌ عَلَی إِبْرَاھِیمَ (الصافات109)
4سَلَامٌ عَلَی مُوسَی وَھَارُونَ (الصافات120)
5سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوھَا خَالِدِینَ (الزمر 73)
6سَلَامٌ ھِیَ حَتَّی مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر 5)

اسکے بعد یہ اسے پانی کے برتن میں ڈالتے ہیں اور پھراسے اس اعتقاد کے ساتھ پیتے ہیں کہ اس سے انکی تمام مصیبتیں دورہوجاتی ہیں،اسی طرح وہ اس پانی کو ایک دوسرے کو ہدیہ کے طور پر بھی بھیجتے ہیں۔

بدھ کے دن سے نحوست اورماہ صفر کے آخری بدھ کی تاریخی حیثیت

الف) بدھ کے دن سے عمومی نحوست:

دمشق میں بعض لوگ بدھ کے روز مریض کی عیادت کو منحوس اور بد فال سمجھتے ہیں،چنانچہ بدھ کے دن عوام اور خواص اوررشتہ داروں کے لئے عیادت مریض ممکن نہیں بظاہر ان لوگوں کی دلیل یہ حدیث ہے کہ :

(یوم الأربعاء یوم نحس مستمر ) “بدھ کا دن مسلسل نحوست کا دن ہوتاہے “اس روایت کے بارے میں امام صاغانی اور امام ابن جوزی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع ہے۔امام سخاوی فرماتے ہیں کہ

“بدھ کے دن کی فضیلت میں متعدد احادیث مروی ہیں مگر سب کی سب ضعیف اور ساقط الإعتبار ہیں (المقاصد الحسنۃ للسخاوی 1/574)

اسی طرح لوگوں میں رائج خرافات میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ کچھ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جس نے بدھ کے روزکسی مریض کی عیادت کی تو جمعرات کو وہ اس مریض کی عیادت کرے گا انکا مطلب یہ ہے کہ بدھ کے روز اگر مریض کی عیادت کی جائے گی تو وہ مریض اس کے بعد دوسرے دن جمعرات کو مرجائے گا جس کی زیارت جمعرات کو قبرستان میں ہوگی “

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا بدھ جمعرات یا سنیچر کے روزسفر کرنا مکروہ ہے ؟ یا ان ایام میں کپڑوں کی کانٹ چھانٹ اور کپڑوں کی سلائی سوت کی کتائی یا اس قسم کے کاموں کا کرنا مکروہ ہے یافلاں فلاں تاریخوں کی راتوں میں وطی اور جماع کرنا مکروہ ہے، کیونکہ ایساکرنے سے پیدا ہونے والے بچوں کے لئے خوف وخطرہ لگا رہتا ہے اس کے جواب میں انهوں نے فرمایا:’’ کہ سؤال میں مذکورہ عقائدو خیالات باطل اوربے اصل ہیں اورآدمی جب استخارہ کرکے کوئی مباح عمل کرے جس وقت بھی کرنا آسان ہو قطعی طورپر وہ کام کرسکتا ہے کسی دن بھی کپڑے کی کاٹ چھانٹ یا سلائی یا سوت کی کتائی مکروہ نہیں ہے رسولﷺ نے بدفالی سے منع فرمایا ہے :

عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ قَالَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ مِنَّا رِجَالًا يَأْتُونَ الْكُهَّانَ، قَالَ: فَلَا تَأْتِهِمْ قَالَ: وَمِنَّا رِجَالٌ يَتَطَيَّرُونَ، قَالَ: ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ، فَلَا يَصُدَّنَّهُمْ(بخاری کتاب الإستسقاء 2/522، ومسلم کتاب السلام 7/481، حدیث (121)

“ سیدنا معاویہ بن حکم سلمی سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! ہم میں سے کچھ لوگ کاہنوں کے پاس آتے ہیں آپ نے فرمایا تم لوگ کاہنوں کے پاس مت جاؤ انہوں نے عرض کیا ہم میں سے کچھ لوگ بدفالی لیتے ہیں آپ نے فرمایا کہ یہ ایسی چیز ہے جس کو تم میں سے بعض لوگ اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں مگراسکی وجہ سے کوئی کام کرنے سے تمہیں باز نہیں رہنا چاہیے “-

آگے چل کر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں “جب رسول اللہ ﷺکا فرمان ہے کہ جس کام کا آدمی نے عزم کیا اس کا م کو بدفالی کے سبب کرنے سے بازنہیں آنا چاہئے تو،رات اوردن میں سے کسی کو منحوس سمجھنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ بلکہ جمعرات اورسنیچر اوردوشنبہ کو سفر کرنا مستحب ہے اورتما م ایام میں کسی دن سفر کرنے یا کسی کام سے روکا نہیں گیاہے البتہ جمعہ کے بارے میں اختلاف ہے اگرسفر کے سبب نماز جمعہ فوت ہوجانے کا خطرہ ہو تو اس دن جمعہ سے پہلے سفر کرنے سے بعض علماء منع کرتے ہیں، اور بعض علماء کرام جائز بتاتے ہیں لیکن کاروباراورجماع ووطی تو کبھی اورکسی دن مکروہ وممنوع نہیں۔واللہ أعلم (دیکھیے خانہ ساز شریعت ص؍174)

ب)ماہ صفر کے آخری بدھ کی تاریخی حیثیت:

ماہ صفرکے آخری بدھ کے بارے میں عام تصور یہ پایا جاتا ہے کہ اس روز رسول اکرم ﷺنے بیماری سے شفا پائی اور آپ نے غسل صحت فرمایا اسی لئے بعض لوگ ما ہ صفر کے آخری بدھ کو کاروبار بند کرکے عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں،اورسیروتفریح کے لئے شہر سے باہر نکلتے ہیں اور آپ کی صحت یابی کی خوشی میں جلوس نکالتے ہیں حالانکہ اس کا ثبوت نہ احادیث کی کتابوں سے اور نہ تاریخ وسیر کی کتابوں سے ملتا ہے بلکہ تاریخ وسیر کی کتابوں سے اس کے خلاف ثبوت ملتا ہے چنانچہ اسد الغابہ( 1/41) میں ہے

بدأ برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرضہ الذی مات منہ یوم الأربعاء لیلتین بقیتا من صفر سنۃ احدی عشرۃ فی بیت میمونۃ ثم انتقل حین اشتد مرضہ الی بیت عائشۃ وقبض یوم الأثنین ضحی فی الوقت الذی دخل فیہ المدینۃ لاثنتی عشرۃ من ربیع الأول ‘‘

رسول اللہ ﷺ کی اس بیماری کا آغاز جس میں آپ اس دنیا سے تشریف لے گئے سن11ھ میں صفرکے مہینے کی جب دوراتیں باقی رہ گئی تھیں بدھ کے روز سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں ہوا پھر جب آپ کی بیماری شدت اختیارکر گئی تو آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر منتقل ہوگئے اور 12ربیع الاول سوموار کے دن چاشت کے وقت جس وقت آپ مدینہ میں داخل ہوئے تھے آپ کی روح اقدس کو قبض کرلیا گیا ۔

یہی عبارت الإستیعاب فی معرفۃ الأصحاب 1/20 میں بھی ہے اور تاریخ خمیس 2/161 میں ہے “ابتدأبہ صداع فی اواخر صفر لیلتین بقیتا منہ یوم الأربعاء فی بیت میمونۃ یعنی رسول کی بیماری کی ابتدا بدھ کے روز حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھرمیں صفرکے آخرمیں ہوئی۔

حافظ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح فتح الباری (8/164)ترجمۃ الباب “باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم ووفاتہ کی شرح میں لکھا ہے کہ “ بیماری کا آغازصفر کے آخر میں ہوا “

اورطبقات ابن سعد (2/377) میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول ﷺ 29 صفر سن 11ھ یوم چہار شنبہ کو بیمار ہوئے اور 12ربیع الاول سن 11ھ بروزدوشنبہ آپ نے وفات پائی اور( البدایہ والنہایۃ (5/224)میں ہے : ابتدأرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشکواہ الذی قبضہ اللہ فیہ ارادہ اللہ من رحمتہ وکرامتہ فی لیال بقین من صفر وفی أول شہر ربیع الأول “ رسول کی اس بیماری کا آغاز جس میں اللہ نے ان کی روح مبارک کو قبض فرمایا تاکہ ان کو اپنی رحمت وکرامت سے نوازے صفر کی چند راتیں باقی رہ گئی تھیں یا ربیع الأول کی ابتدا میں ہوا”

تاریخ الکامل (2/215)میں ہے “ابتدأ برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرضہ اواخرصفر”رسول ﷺکی اس بیماری کا آغاز صفر کے اواخر میں ہوا”

سیرت ابن ہشام (5/224) میں ہے “ابتدأ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشکواہ الذی قبضہ اللہ فیہ ارادہ اللہ من رحمتہ وکرامتہ فی لیال بقین من صفر او فی شہر ربیع الأول “ رسول الله ﷺ کی اس بیماری کا آغاز جس میں اللہ تعالی نے ان کی روح مبارک کو قبض فرمایا تاکہ ان کو اپنی رحمت وکرامت سے نوازے صفر کی چند راتیں باقی رہ گئیں یار بیع الأول کی ابتداء ہو چکی تھی اسوقت ہوا “

تاریخ ابن خلدون (2/61) میں ہے کہ “بدأہ الوجع لیلتین بقیتا من صفر وتحاوی بہ وجعہ “ “صفرکی دو راتیں باقی رہ گئیں تھیں آپ کی بیماری شروع ہوئی پھر آپ بیمار ہی رہے “

تاریخ طبری (2/161) بدأ رسول صلى الله عليه وسلم وجعہ لیلتین بقیتا من صفر “رسول مکرم ﷺ کی بیماری کا آغاز اس وقت ہوا جب صفر کی دوراتیں باقی رہ گئی تھیں “

علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ(سیرت النبی 2/172) لکھتے ہیں کہ “زیادہ تر روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کل تیرہ دن بیمار رہے اس بنا پر اگریہ تحقیقی طورپر متعین ہوجائے کہ آپ نے کس تاریخ کو وفات پائی تو تاریخ آغاز مرض بھی متعین کی جاسکتی ہے۔ سیدہ عائشہr کے گھربروایت صحیح آٹھ روز (دوشنبہ تک) بیمار رہے، وہیں وفات ہوئی، اس لئے ایام علالت کی مدت آٹھ روزیقینی ہے عام روایت کے رو سے پانچ دن اور چاہئیں،اوریہ قرائن سے بھی معلوم ہوتا ہے اس لئے مدت علالت 13دن صحیح ہے۔ علالت کے پانچ دن آپ نے ازواج مطہرات کے حجروں میں بسر فرمائے اس حساب سے علالت کا آغاز چہارشنبہ سے ہوتا ہے ۔

بہرحال محققین کے نزدیک آپ کی بیماری کا آغاز صفر میں آخری بدھ کو ہوا کچھ لوگوں نے دن اورتاریخ میں تھوڑا اختلاف کیا ہے مگر یہ بات تقریباً متفق علیہ ہے کہ آپ کی مرض الموت کی ابتدا صفر کی آخری تاریخوں میں ہوئی پھر بتائیے کہ مسلمانوں کو یہ کہاں زیب دیتا ہے کہ وہ اپنے نبی فداہ ابی وامی کی بیماری کے دن خوشیاں منائیں زیب وزینت کرکے باغوں پارکوں اور سیر گاہوں میں تفریح کے لئے جائیں،قسم قسم کے کھانے مٹھائیاں اورمیوے وغیرہ کھائیں اور کھلائیں، خصوصاً عورتیں عیدین سے بڑھ کر خوشیاں منائیں، اورخوب بن سنور کر سیر کے لئے نکلیں ذرا غور کیجئے کیا آپ میں کوئی اپنے ماں باپ، بھائی بہن، رشتہ دار،یا عزیز دوست کے مرض میں مبتلا ہونے کی تاریخ کو خوشی منائے گا ؟ اچھے اچھے اورلذیذ کھانوں کا اہتمام کرے گأ؟ گھر میں آپ کا کوئی عزیز جاں کنی کی حالت میں ہوتو آپ سیروتفریح کو جائیں گے ؟ جب آپ اپنے ایک عزیز دوست اوررشتہ دار کی بیماری کے دن ایسا نہیں کرسکتے، تو حضرت محمد عربی ﷺکی علالت کے آغاز کے دن کیسے کرسکتے ہیں جن کے بارے میں فرمان نبوی ہے :

لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (فتح الباری کتاب ؍الإیمان باب حب الرسول ﷺ من الإیمان 1/80)

“تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جبکہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ سے بیٹے سے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں”

مستقل فتوی کمیٹی کا اس ماہ کے بدعات کے سلسلے میں جواب:

سوال :ہمارے ملک میں بعض علماء کا خیال ہے کہ اسلام میں ایک ایسی نفل نماز ہے جو ماہ صفر کے آخری بدھ کو چاشت کے وقت ایک ہی سلام کے ذریعہ چاررکعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔جس میں ہررکعت کے اندر 17بار سورہ فاتحہ و کوثر،50بارسورہ اخلاص اور ایک ایک بارمعوذتین

(قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وقُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ)

پڑھی جاتی ہے اوریہ عمل ہررکعت میں کیا جاتا ہے اور سلام پھیر دیا جاتا ہے، پھر سلام کے فورابعد

(اللهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ)

کو 360بار پڑھا جاتا ہے،اسکے بعد “جوہرالکمال” کو3بار پڑھا جاتا ہے اورپھر (سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ وَالْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) کے ذریعہ نماز ختم کردی جاتی ہے . پھر فقراء ومسکین میں روٹی وغیرہ کا صدقہ کیا جاتا ہے، خاص کرکے اس مذکورہ آیت کا صدقہ،یہ سب ماہ صفرکے آخری بدھ میںنازل ہونے والی مصیبت وپریشانی کو دورکرنے کے اعتقادسے کیاجاتا ہے ۔

اوران کا کہنا کہ ہرسال 3لاکھ بیس ہزار آفتیں نازل ہوتی ہیں اورسب کے سب ماہ صفرکے آخری بدھ کو ہوتی ہیں تو اس اعتبارسے یہ دن سال کا سب سے مشکل دن ہوتا ہے توجوشخص مذکورہ نماز کو اس کی بیان کردہ کیفیت کے ساتھ پڑھے گا تواللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے اس نمازکے ذریعہ اس دن کی تما م نازل ہونے والی پریشانیوں سے محفوظ رکھے گا اور اس سال اس کے گرد کوئی بھی مصیبت وآفت چکّرنہیں لگائے گی ۔ الخ

جواب:اللہ ورسولﷺ اورانکے آل وأصحاب پر درودوسلام کے بعد کمیٹی نے کہا کہ” سؤال میں مذکورنفل نماز کے بارے میں کتاب وسنت سے ہم کوئی أصل نہیں جانتے،اورنہ ہی سلف صالحین اورخلف میں سے کسی سے یہ فعل ثابت ہے بلکہ یہ ناپسندیدہ اوربدعت ہے ۔

اورنبی كريم ﷺنے فرمایا ہے : 

مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ۔ وفي رواية۔ مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ، فَهُوَ رَدٌّ

“جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں سے نہیںہے تو وہ مردود ہے “ اوردوسری روایت میں یوں فرمایا کہ” جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے “

اورجس نے اس نمازاوراسکے ساتھ جو کچھ ذکرکیا گیا ہے اسکی نسبت نبی یا کسی صحابہ کی طرف کی تو اس نے بہت بڑا بہتان باندھا،اوراللہ کی طرف سے جھوٹے لوگوں کی سزا کا مستحق ہوگا۔ (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ 2/354)

اورشیخ محمد عبد السلام شقیری فرماتے ہیں کہ’’جاہلوں کی یہ عادت بن چکی ہے کہ وہ سلام کی آیتوں جیسے “سلام علی نوح فی العالمین ۔الخ”کوصفرکے آخری بدھ کو لکھ کرپانی کے برتن میں ڈا لتے ہیں پھراس پانی کو پیتے، اوراس سے تبرک حاصل کرتے ہیں۔اسی طرح ایک دوسرے کو ہدیہ بھی دیتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس سے شراورمصیبتیں دورہوجاتی ہیں۔جبکہ یہ فاسد اعتقاد اور بری نحوست ہے اور قبیح بدعت ہے جو شخص بھی کسی کویہ عمل کرتا دیکھے اسکے لئے اس سے روکنا ضروری ہے۔ (السنن والمبتدعات ص؍111112)

ما ہ صفر میں واقع ہونے والے غزوات وسرایا

اس ماہ میں غزوات وسرایا کی تعداد بہت زیادہ ہے جیساکہ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد ج3 میں اسکی جانب اشارہ کیا ہے جیسے غزوۃ ابواء، بئرمعونۃ، اورخیبر کا قلعہ صفرہی میں فتح ہونا، اسی طرح قبیلہ خثعم کی جانب صفر 9ھجری میں قطبہ بن عامر کی قیادت میں سریہ کا بھیجنا وغیرہ۔

ماہ صفرسے متعلق کچھ ضعیف وموضوع حدیثیں:

۱۔ اس ماہ سے متعلق یہ حدیث مشہور ہے کہ نبی مکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ “جوکوئی صفر کے مہینہ کے گزرنے کی خوشخبری دے،میں اسکو جنت میں داخل ہونے کی خوشخبری سناتا ہوں” لیکن حدیث صحیح سند سے ثابت نہیں ہے بلکہ اس ماہ یا آخری بدھ کے نحوست کے سلسلے میں جتنی بھی حدیثیں ہیں سب ضعیف اورموضوع ہیں – (دیکھئے :الموضوعات لابن الجوزی 3/7374 )

۲۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ ضعیف وموضوع روایت کی معرفت کے اصول وقواعد کے ضمن میں لکھتے ہیں ۔

فصل :ان احادیث کے بارے میں جو آنے والی تاریخ سے متعلق ہیں :

اسی میں سے یہ کہ حدیث میں فلاں فلاں تاریخ کا ذکرہو جیسے انکا قول :جب فلاں فلاں سال ہوگا توایسا ایسا ہوگا اورفلاں مہینہ ہوگا تو یہ حادثہ واقع ہوگا ۔

اور اسی طرح سخت جھوٹے کا قول :جب محرّم میں چاند گرہن لگے گا تومہنگائی،قتل وغارتگری اوربادشاہ وحکمران کی مشغولیت بڑھ جائیگی اورجب صفر میں چاند گرہن لگے گا توایسا ایساہوگا،اس طرح اس کذاب نے سال کے ہرماہ کے سلسلے میں کوئی نہ کوئی حدیث گڑھی۔ اور اس باب میں جتنی بھی حدیثیں بیا ن کی جاتی ہیں سب کے سب موضوع اور جھوٹی ہیں۔ (دیکھئے المنارالمنیف ص؍64)

مذکورہ بالاکتاب وسنت اورعلمائے کرام کے اقوال وفتاوی کی روشنی میں یہ بات واضح اورواشگاف ہوگئی کہ دین اسلام میں کوئی دن اورمہینہ منحوس نہیں،نہ ہی ان ایام اور مہینوں کا تقدیر الہی میں کوئی تاثیرہے اورنہ ہی انکا کسی کی وفات سے کوئی تعلق ہے ۔

لہٰذا ہم تما م راہ راست سے بھٹکے مسلمانوں سے التماس کرتے ہیں کہ وہ ماہ صفر سے متعلق بدعات اور نحوست وبدشگونی سے توبہ کریں اورصحیح عقیدہ کو اپنا کررب کریم اوررسول رحمت ﷺ کی رضا وخوشنودی کا مستحق بنیں۔

اللہ سے ہماری یہی دعا ہے کہ ہم سب کو ہر طرح کی بدعت ونحوست سے محفوظ رکھے اورسچا مومن بنائے۔ آمین

وصلی اللہ علی نبینا محمد وبارك وسلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے