سيد الکونين خاتم الابنيا رسول مکرم صلي اللہ عليہ وسلم کي پوري حيات مبارکہ بچپن ، جواني اور آپ  صلي اللہ عليہ وسلم کا بڑھا پا آپ  صلي اللہ عليہ وسلم کے اقوال وافعال آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  کي عبادت، آپ کي معاشرت، آپ کے عقائد، آپ کے اخلاق، آپ کا رہن سہن غرض يہ کہ زندگي کے ہر مو ڑ اور ہر گوشہ کا نام سيرت ہے۔عقل و فہم اور ديني شعور رکھنے والے کسي بھي مسلمان پر يہ بات بھي ڈھکي چھپي نہيں کہ انساني زندگي کے ليے نبي کريم  صلي اللہ عليہ وسلم کي عالي ذات ميں بہترين نمو نہ ہے قرآن کريم ميں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمايا :

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُولِ اللّٰہِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

(الاحزاب 21) اللہ کے رسول ميں تمہارے ليے بہترين نمو نہ ہے ۔ نيز امتِ مسلمہ کے ليے آپ کي بے پاياں شفقت ومہر باني اور مسلمانوں کي خيرو فلاح کے ليے قلبي تڑپ اور جہد مسلسل کے مضامين سے قرآن وحديث بھرے ہوئے ہيں چنانچہ قرآن کريم ميں ايک مقام پر ارشاد باري ہے :

  لَقَدْ جَاءَ کُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُفٌ رَّحِیْمٌ

(التوبة :128) تمہارے پاس تمہيں ميں سے ايک رسول تشريف لائے ہيں، ان پر تمہاري تکليف بھاري ہے او روہ تمہاري بھلائي کے حريص ہيں اور ايمان والوں پر نہايت شفيق و مہر بان ہيں۔

رسول اکرم  صلي اللہ عليہ وسلم کي سيرتِ مبارکہ ہر مرض کي دوا، ہر مسئلے کا حل اور ہر چيلنج کا جواب ہے، ليکن مسلمانوں نے سيرتِ طيبہ کے ساتھ اپنے تعلق کو خود ايک مسئلے اور چيلنج ميں ڈھال ليا ہے۔ اس کي ايک مثال يہ ہے کہ کمزور سے کمزور مسلمان بھي  رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم کے ليے جان قربان کرنے پر آمادہ ہوسکتا ہے، اور اچھے اچھے مسلمان بھي سيرتِ سرورِ عالم  صلي اللہ عليہ وسلم پر عمل کے ليے تيار نہيں ہوتےسيرتِ طيبہ  صلي اللہ عليہ وسلم کے ساتھ مسلمانوں کے تعلق کا ايک نفسياتي پہلو يہ ہے کہ سيرتِ طيبہ مسلمانوں کو اتني مثالي محسوس ہوتي ہے کہ اس کي پيروي دشوار بلکہ بسااوقات ناممکن محسوس ہوتي ہے۔ مسلمانوں کو لگتا ہے کہ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم تو سردارالانبياء تھے، اللہ کے حبيب تھے، آپ  صلي اللہ عليہ وسلم کے ليے ہر عمل آسان تھا، ليکن ہم تو عام لوگ ہيں، ہم سے رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم کے عمل کي پيروي کہاں تک ہوسکتي ہے! تجزيہ کيا جائے تو يہ بے انتہا تعريف وتوصيف کے پردے ميں عمل سے فرار کي ايک کوشش ہے۔ اس چيلنج کا جواب سيرتِ سرور عالم  صلي اللہ عليہ وسلم  سے يہ ملتا ہے کہ بلاشبہ رسول اکرم  صلي اللہ عليہ وسلم  سردارالانبياء ہيں، مگر آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  يہ سب کچھ ہونے کے ساتھ ساتھ بشر بھي ہيں۔ اسي ليے آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  بني نوع انسان کے ليے واجب الاتباع ہيں۔”سيرتِ رسول صلي اللہ عليہ وسلم  آج کا ايک اہم ترين موضوع ہے۔ اگر سيرتِ رسول صلي اللہ عليہ وسلم  پر سنجيدگي سے عمل کرليا جائے تو ہماري تمام مشکلات اوردنيا کے مسائل حل ہوجائيں۔

اسلام ايک مکمل ضابطہ حيات ہے۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم کي سيرت اور طريقے ميں دنيا بھر کے گھمبير اور پيچيدہ مسائل کا قابلِ قبول حل موجود ہےجيسا کہ مندرجہ ذيل سطور ميں ملاحظہ کرسکتے ہيں: مدينہ ميں مسجد نبوي کے صحن ميں ہسپتال بنايا گيا تاکہ مريضوں کو جلد اور مفت علاج مہيا ہو۔ آج ترقي يافتہ ممالک ميں علاج حکومت کي ذمہ داري سمجھا جاتا ہے۔ ماہانہ چيک اپ مفت کيے جاتے ہيں۔مسجد نبوي کو مرکزي سيکرٹريٹ کا درجہ حاصل تھا۔ مدينہ بھر کي تمام گلياں مسجد نبوي تک براہِ راست پہنچتي تھيں تاکہ کسي حاجت مند کو پہنچنے ميں دشواري نہ ہو۔ آج رياست کے سربراہ اعليٰ کي رہائش گاہ ميں اس بات کا خصوصي خيال رکھا جاتا ہے۔آپ  صلي اللہ عليہ وسلم نے حکم ديا تھا کہ مدينہ کے بالکل درميان ميں مرکزي مارکيٹ قائم کي جائے۔ اسے ”سوقِ مدينہ“ کا نام ديا گياتھا۔ آج کي تہذيب يافتہ دنيا کہتي ہے کہ جس شہر کے درميان مارکيٹ نہ ہو وہ ترقي نہيں کرسکتا۔آپ  صلي اللہ عليہ وسلم نے کہا تھا: ”يہ تمہاري مارکيٹ ہے۔ اس ميں ٹيکس نہ لگاؤ۔ “ آج دنيا اس نتيجے پر پہنچي ہے کہ مارکيٹ کو ٹيکس فري ہونا چاہيے۔ دنيا بھر ميں ڈيوٹي فري مارکيٹ کا رجحان فروغ پارہا ہے۔

آج سے چودہ سو سال پہلے آپ  صلي اللہ عليہ وسلم نے حکم ديا تھا کہ مدينہ کي گلياں کشادہ رکھو۔ گليوں کو گھروں کي وجہ سے تنگ نہ کرو۔ ہر گلي اتني کشادہ ہو کہ دو د لدے ہوئے اونٹ آساني سے گزرسکيں۔ 14 سو سال بعد آج دنيا اس حکم پر عمل کررہي ہے۔ شہروں ميں تنگ گليوں کو کشادہ کيا جارہا ہے۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے سود سے منع فرمايا تھا۔ آج پوري دنيا ميں فري ربا انڈسٹري فروغ پارہي ہے۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم نے ذخيرہ اندوزي سے منع کيا۔ آج دنيا اس حکم پر عمل کرتي تو خوراک کا عالمي بحران کبھي پيدا نہ ہوتا۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا تھا سٹے سے نفع نہيں نقصان ہوتا ہے، آج عالمي مالياتي بحران نے اس کي قلعي کھول کر رکھ دي ہے۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم نے صحابہ کرام رضي اللہ عنہم کو منع کيا کہ درختوں کو نہ کاٹو۔ کوئي علاقہ فتح ہو تو بھي درختوں کو آگ نہ لگاؤ۔ آج ماحولياتي آلودگي دنيا کا دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ عالمي درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ گليشئرز پگھل رہے ہيں۔ گرمي بڑھ رہي ہے۔ يہ سب کچھ درختوں اور جنگلات کي کمي کي وجہ سے ہورہا ہے۔ ايک شخص نے مدينہ کے بازار ميں بھٹي لگالي۔سيدنا  عمر رضي اللہ عنہ نے اس کہا: ”تم بازار کو بند کرنا چاہتے ہو؟ شہر سے باہر چلے جاؤ۔ “ آج دنيا بھر ميں انڈسٹريل علاقے شہروں سے باہر قائم کيے جارہے ہيں۔ رسول اللہ  صلي اللہ عليہ وسلم نے مدينہ کے باہر ”حمي النقيع“ نامي سيرگاہ بنوائي۔ وہاں پيڑ پودے اس قدر لگوائے کہ وہ تفريح گاہ بن گئي۔ گاہے گاہے رسول اللہ خود بھي وہاں آرام کے ليے تشريف لے جاتے۔ آج صديوں بعد ترقي يافتہ شہروں ميں پارک قائم کيے جارہے ہيں۔ آج کل شہريوں کي تفريح کے ليے ايسي تفريح گاہوں کو ضروري اور لازمي سمجھا جارہا ہے۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم نے مدينہ کے مختلف قبائل کو جمع کرکے ”ميثاقِ مدينہ“ تيار کيا۔ 52 دفعات پر مشتمل يہ معاہدہ دراصل مدينہ کي شہري حکومت کا دستور العمل تھا۔ اس معاہدے نے جہاں شہر کي ترقي ميں کليدي کردار ادا کيا، وہيں خانہ جنگيوں کو ختم کرکے مضبوط قوم بناديا۔ آج ہمارا کا سب سے بڑا مسئلہ يہي خانہ جنگي ہے۔ کئي ملک اس آگ ميں جل رہے ہيں۔ اس آگ کو بجھانے کے ليے معاہدوں پر معاہدے ہورہے ہيں۔ آج سے صديوں پہلے آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے حکم ديا تھا کہ فجر کے بعد اور عصر کے بعد سونا نہيں چاہيے۔ يہ صحت کے ليے نقصان دہ ہوتا ہے۔ آج پوري دنيا اس کو مان رہي ہے کہ ان اوقات ميں سونا طبي لحاظ سے انساني صحت کے ليے نقصان دہ ہے۔ جديدطب کہتي ہے کہ ان اوقات ميں مستقل سونے کي عادت اپنانے والوں کو 9 مہلک بيمارياں لگ سکتي ہيں۔ اگر ان اوقات ميں ورزش کي جائے تو صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہيں۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا تھا کہ رات کو جلدي سونا چاہيے۔ عشاءکے بعد فضول گپ شپ سے منع فرمايا تھا۔ آج پوري دنيا مان رہي ہے کہ رات کو جلدي سونا صحت کے ليے انتہائي ضروري ہے۔ ڈپريشن کي ايک بڑي وجہ رات دير تک جاگنا بھي ہے۔آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا کہ کھانا پينا سادہ رکھيں اور تھوڑي سي بھوک رکھ کر کھايا کريں۔ آج پوري طبي دنيا مانتي ہے کہ سادہ خوراک سے صحت بہتر ہوتي ہے اور زيادہ کھانے سے معدے خراب ہوتے ہيں اور بيسيوں بيمارياں جنم ليتي ہيں۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا تھا کہ سيدھے ہاتھ سے کھايا کرو اور ہر اچھا کام دائيں ہاتھ سے کيا کرو۔آج پوري دنيا مان رہي کہ سيدھے ہاتھ سے کھانے اور کام کرنے سے دماغ پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہيں۔ نيورولوجسٹ کا کہنا ہے کہ انساني دماغ کے دو حصے ہوتے ہيں۔ داياں اور بائياں۔ دائيں حصہ مثبت اثرات مرتب کرتا ہے، جبکہ بائياں حصہ منفي اثرات مرتب کرتا ہے۔ جديد سائنس کہتي ہے کہ دائيں ہاتھ سے کھانے والے مثبت سوچ کے حامل ہوتے ہيں، جبکہ بائيں ہاتھ سے کھانے والے منفي سوچ کے حامل افراد نظر آئيں گے۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے حکم ديا تھا کہ بري صحبت سے بچو۔ اچھي صحبت ميں بيٹھا کرو۔ آج پوري دنيا مانتي ہے کہ بري صحبت ميں بيٹھنے سے انسان برا بن جاتا ہے۔ جديد سائنس يہاں تک مان چکي ہے کہ ذہين افراد کي صحبت ميں بيٹھنے سے غبي آدمي بھي رفتہ رفتہ ذہين ہوجاتا ہے۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے صديوں پہلے منہ کي صفائي کا حکم ديا تھا اور مسواک کو بہت زيادہ پسند فرماتے تھے۔ آج پوري دنيا منہ کي صفائي کو بڑي اہميت دے رہي ہے۔ طبي ماہرين کا کہنا ہے کہ اکثر بيمارياں منہ کے ذريعے ہي معدے تک پہنچتي ہےں، لہٰذا منہ صاف رکھا کريں۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا تھا کہ مجھے تين چيزيں بہت پسند ہيں۔ ان تين ميں سے ايک چيز خوشبو ہے۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  خوشبو کا بہت اہتمام فرماتے تھے۔ آج پوري دنيا مانتي ہے کہ خوشبو سے انساني معاشرے اور صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہيں۔ خوشبو سے توانائي بھي ملتي ہے اور بدبو سے انسان گھٹن اور بيماري کا شکار ہونے لگتا ہے۔ آج سے صديوں پہلے آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا تھا کہ کھانے سے قبل ہاتھ دھوليا کريں اور آج پوري دنيا مانتي ہے کہ گندے ہاتھوں سے کھانا کھانے سے معدے کي بيمارياں پيدا ہوتي ہيں۔ انسان جس قدر منہ اور ہاتھوں کو صاف رکھے گا اسي قدر صحت مند رہے گا اور موذي بيماريوں سے بچا رہے گا۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے حکم ديا تھا کہ وعدوں کي پاسداري کريں۔ آج پوري دنيا مانتي ہے کہ وعدوں کي پابندي کرني چاہيے۔ کاروبار کو سب سے زيادہ نقصان وعدہ خلافيوں سے ہوتا ہے۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا تھا کہ جھوٹ نہ بولا کرو۔ آج پوري دنيا مانتي ہے کہ جھوٹ نہيں بولنا چاہيے۔ جھوٹے شخص پر کوئي اعتبار کرنے کو تيار نہيں ہوتا۔ جھوٹ سے معاشرے تباہ ہونے لگتے ہيں۔ آپس ميں نفرتيں پيدا ہوتي ہيں۔

آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے حکم ديا تھا کہ امانت ميں کسي بھي صورت خيانت نہ کرو۔ آج پوري دنيا بدديانت شخص کو برا سمجھتي ہے۔ بدعنواني، کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کو ہر سطح پر انتہائي معيوب سمجھا جاتا ہے۔آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے انسانيت کي خدمت کا حکم ديا تھا۔ آج پوري دنيا فلاحِ انسانيت کے کام کرنے والوں کو پسند کرتي ہےاور اُن کي عزت وتوقير کي جاتي ہے ۔ آج سے صديوں پہلے آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے جانوروں کے حقوق بيان فرمائے تھے۔ آج پوري دنيا مانتي ہے کہ جس طرح انسانوں کے حقوق ہيں، اسي طرح جانوروں کے بھي کچھ حقوق مقرر ہيں۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے جنگ کے بھي اصول مقرر کيے ہيں کہ عورتوں کو  نہ مارا جائے، بچوں، بوڑھوں اور ہتھيار ڈالنے والوں کو امن ديا جائے۔ آج پوري دنيا اس اصول کو مانني ہے اور ہر جگہ يہ اصول طے ہيں۔آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا تھا کہ انسانيت کے ناطے سب برابر ہيں۔ کسي گورے کو کالے پر ،کسي عربي کو عجمي پر کوئي فوقيت نہيں۔ آج پوري دنيا برابري اور حقوق ِانساني کا ڈھنڈورا پيٹ رہي ہے۔ آج سے صديوں پہلے آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا تھا: ”النَّاسُ سَوَا“ کہ بنيادي چيزوں مثلاً انصاف، کھانے پينے، ديگر حقوق ميں سب برابر ہيں۔ آج پوري دنيا اس بات کو مانتي ہے کہ بنيادي چيزيں سب کو ملني چاہيے۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے صديوں پہلے فرمايا تھا کہ عورتوں کے بارے ميںاللہ سے ڈرو۔ عورتوں کا خيال رکھا کرو اور تم ميں بہتر وہ ہے جو اپني بيوي کے ساتھ حسنِ سلوک سے پيش آئے۔ آج پوري دنيا حقوق نسواں کا ڈھول گلے ميں لٹکاکر پيٹ رہي ہے۔ ہر طرف حقوق نسواں کا نعرہ ہے۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے صديوں پہلے فرمايا تھا کہ پڑوسيوں کے حقوق کا خيال رکھو۔ صحيح مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا محفوظ رہے۔ آج پوري دنيا مانتي ہے کہ اپنے ساتھي، اپنے پڑوسي اور کسي دوسرے شخص کو ايذاءنہيں پہچاني چاہيے۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے مساوات کا حکم ديا تھا۔ آج پوري دنيا ميں مساوات کے قانون بن رہے ہيں۔ صديوں پہلے آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے عيب نکالنے اور الزام تراشي سے منع کيا تھا۔ آج پوري دنيا اس پر متفق ہے کہ لگائي بجھائي اور الزام سے بچنا چاہيے۔ يہ لڑائي جھگڑوں کي بنياد ہے۔ صديوں پہلے آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا تھا کہ اللہ تعاليٰ کا شکر ادا کيا کرو اور بندوں کا شکريہ بھي ادا کيا کرو۔ يہاں تک فرمايا تھا کہ

مَنْ لَمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ اللَّهَ.

يعني جو شخص انسانوں کا شکريہ ادا نہيں کرتا وہ اللہ تعاليٰ کا شکر گزار بھي نہيں ہوتا۔ آج پوري دنيا ميں شکريے کا تصور اور نظريہ فروغ پاچکا ہے۔ دوستو! رسول مکرم صلي اللہ عليہ وسلم  کي ايک ايک بات، ايک ايک سنت، ايک ايک حکم کو لے ليں۔ تجزيہ کريں تو معلوم ہوگا۔ آج 14 سو سال بعد پوري دنيا اور جديد سائنس بھي اس کو مان چکي ہے۔ آج سے 14 سو سال پہلے آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے کائنات ِ انساني کے نام جو آخري خطبہ ديا، وہ ”خطبہ حجة الوداع“ کہلاتا ہے۔ خطبہ حجة الوداع انساني حقوق کا پہلا چارٹر ہے جو محسنِ انسانيت  صلي اللہ عليہ وسلم  نے پيش فرمايا تھا۔ 1948ءميں تمام ممالک اور اقوامِ عالم نے باہمي اتفاق و اتحاد کے ساتھ ايک چارٹر بنايا جو ”اقوام متحدہ کا انساني حقوق کا چارٹر“ کہلاتا ہے، اور پوري دنيا اس پر عمل پيرا ہونے کو فخر سمجھتي ہے۔ يہ دراصل آپ صلي اللہ عليہ وسلم  کے ”خطبہ حجة الوداع“ کے نظريے کا ہي مرہون منت ہے۔ آپ اقوامِ متحدہ کے حقوقِ انساني کے چارٹر کي ايک ايک شق اور ايک ايک آرٹيکل کو پڑھ ليں اور پھر آپ صلي اللہ عليہ وسلم  نے خطبہ حجة الوداع کو پڑھ ليں۔ کوئي خاص فرق نظر نہيں آئے گا۔ آج ساري دنيا انسان کے بنائے ہوئے نظام کے زخموں سے چُور چُور رحم طلب نگاہوں سے دين اسلام اور مسلمانوں کي طرف ديکھ رہي ہے اور بزبانِ حال کہہ رہي ہے: ”اے آسماني تعليمات کے ماننے والوں! آؤ اور پريشان حال انسانيت کو مسائل کے گرداب سے نکالو۔ ہمارے کرنے کا کام يہ ہے کہ ہم آپ صلي اللہ عليہ وسلم  کي ايک ايک سنت پر عمل کريں۔ آپ  صلي اللہ عليہ وسلم  کے بتائے ہوئے طريقوں پر چليں۔ آپ صلي اللہ عليہ وسلم  کے اسوئہ حسنہ کي روشني ميں اپني زندگي کے ہر ہر گوشے کو تشکيل ديں۔

 محترم قارئين!! يہ ہمہ گير ، آفاقي اور ہمہ جہت انقلابي تغيرات کيوں اور کيسے ہوئے محض نبي رحمت  صلي اللہ عليہ وسلم  کي سادگي، اَخلاقِ حسنہ، پيغامِ حق اور پاکيزہ تعليمات کي وجہ سے ہوئے آپ نے اس انداز سے انسانوں کو انسانيت کادرس ديا کہ لوگ پکار اٹھے کہ ؂

طیبہ کے تاجدار نے دی زندگی نئی

وہ آئے اور پھیل گئی روشنی نئی

 

قرآن میں حیات کا وہ فلسفہ دیا

جس کے سبب جہاں کو ملی زندگی نئی

اَخلاق اور صدق کا جذبہ عطا کیا

بخشا اصولِ امن نیا آشتی نئی

 

خُلقِ نبی سے ہم کو ملا درسِ نظم و ضبط

انسان دوستی کی ملی چاشنی نئی

کردارِ مصطفیٰ نے سکھایا ہمیں

 

یہی اوروں کے کام آؤ ملے گی خوشی نئی

 

يہي سيرت النبي  صلي اللہ عليہ وسلم  کا اصل پيغام ہے۔ اسي ميں دونوں جہانوں کي کاميابي کا راز مضمر ہے

نقشِ قدم نبی کے ہیں ،جنت کے راستے

اللہ سے ملاتے ہیں،سنت کے راستے

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے